امربیل — قسط نمبر ۸

”نہیں۔۔۔”
”تم بالکل بے وقوف ہو علیزہ…! اگر کزن ساتھ آیا تھا تو تمہیں مجھ سے ملنے نہیں آنا چاہیے تھا۔”
”مگر کیوں؟ تم میرا انتظار کرتے رہتے۔ اور پھر عمر نے کہا ہے کہ وہ آدھ گھنٹہ کے بعد مجھے ملے گا۔”
”اور اگر وہ آدھ گھنٹے سے پہلے ہی یہاں آگیا اور اس نے مجھے تمہارے ساتھ دیکھ لیا تو…؟”
”اسے کیسے پتا چلے گا کہ میں یہاں ہوں میں نے اسے بتایا ہی نہیں کہ میں کس سیکشن میں جارہی ہوں۔”




”یہ لائبریری ہے… یہاں کسی کو ڈھونڈنا کوئی مشکل کام نہیں ہے اور ضروری نہیں کہ وہ تمہیں ڈھونڈنے کیلئے ہی اس طرف آئے وہ کسی بھی کام سے ادھر آسکتا ہے۔”
”مجھے اس کا خیال نہیں آیا۔” علیزہ کچھ پریشان ہوئی۔
”بہر حال اب میں جارہا ہوں اور تم آئندہ محتاط رہنا۔ اگر ساتھ کزن یا کوئی بھی ہو تو پھر مجھ سے ملنے کی کوشش مت کیا کرو… میں نہ خود کسی پریشانی میں پڑنا چاہتا ہوں، نہ ہی تمہیں کسی پریشانی میں ڈالنا چاہتا ہوں۔” ذوالقرنین کھڑا ہوگیا۔
”مگر پھر تم انتظار کرتے رہو گے۔”
”نہیں میں انتظار نہیں کروں گا، جب بھی تم اس طرح لیٹ ہوجاؤ گی۔ میں سمجھ جاؤں گا کہ تمہارے ساتھ کوئی دوسرا ہے اور پھر میں تمہارا انتظار کرنے کے بجائے چلا جایا کروں گا۔”
وہ خدا حافظ کہتے ہوئے وہاں سے چلا گیا، علیزہ بے حد مایوس اور دل گرفتگی کے عالم میں اسے جاتا دیکھتی رہی اسے عمر پر بے تحاشا غصہ آیا تھا، صرف اس کی وجہ سے ذوالقرنین کو اس طرح وہاں سے جانا پڑا تھا۔
”کیا تھا، اگر وہ اس طرح میرے ساتھ آنے کی ضد نہ کرتا… کم از کم ذوالقرنین کو اس طرح پریشان ہو کر جانا تو نہ پڑتا۔”
وہ اس وقت عمر کی وجہ سے ذوالقرنین کو ہونے والی پریشانی کے علاوہ اور کچھ نہیں سوچ رہی تھی۔
”اب آگے کیا ہوگا؟ اگر عمر نے دوبارہ میرے ساتھ برٹش کونسل آنے کیلئے اصرار کیا تو؟ پھر میں کیا کروں گی؟ کیا مجھے ذوالقرنین کے ساتھ ملاقات کی جگہ بدل لینی چاہیے۔” وہ جیسے کسی فیصلہ پر پہنچنے کی کوشش کر رہی تھی۔
واپسی پر اس کا موڈ بہت زیادہ خراب تھا اور عمر نے اس کا سامنا ہوتے ہی اس بات کا اندازہ لگا لیا تھا۔
”چلو علیزہ! میں تمہیں کافی پلواتا ہوں۔” اس نے علیزہ کا بگڑا ہوا موڈ بحال کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
”مجھے کافی نہیں پینی۔” اس نے اکھڑ انداز میں کہا۔
”پھر کیا کھانا ہے؟… یا کیا پینا…؟ تم خو د بتا دو۔” وہ اسے بچے کی طرح بہلاتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔
”مجھے کچھ بھی کھانا پینا نہیں ہے۔ آپ بس گھر چلیں۔” اس نے بے رخی سے کہا۔
”مگر یار! میں تو کچھ کھانا پینا چاہ رہا ہوں، آخر اتنے ہفتے کے بعد لاہور آیا ہوں۔”
”مجھے گھر چھوڑ دیں اس کے بعد آپ جو چاہیں کریں۔” اس کا غصہ بڑھتا جا رہا تھا۔
”یہ تو میں جان چکا ہوں کہ تمہیں میرا ساتھ آنااچھا نہیں لگا، مگر میں صرف اس کی وجہ کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ کیا تم اس بارے میں میری مدد کر سکتی ہو؟” وہ یک دم سنجیدہ ہو گیا ۔ وہ جواب دینے کی بجائے خاموش رہی۔
”علیزہ! تم سے یہ کس نے کہہ دیا ہے کہ تم خاموشی میں بہت خوبصورت لگتی ہو؟” عمرنے اپنے لہجے کو ایک بار پھر شگفتہ کرنے کی کوشش کی۔
ایک لمحہ کے لئے اس کا چہرہ سرخ ہوا پھر وہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔
عمر کچھ دیر خاموشی سے اسے دیکھتے ہوئے جیسے کسی اندازے پر پہنچنے کی کوشش کرتا رہا۔ پھر اس نے اپنی توجہ ڈرائیونگ پر مرکوز کرلی۔
٭٭٭
”تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے…؟ جانتے ہو کیا کہہ رہے ہو؟” نانو کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔
”بیگم صاحبہ! میں سچ کہہ رہا ہوں… علیزہ بی بی کو ڈھونڈنے میں ہی تو دیر ہوئی ہے۔” ڈرائیور نانو سے کہہ رہا تھا۔
عمر نے لاؤنج میں داخل ہوتے ہوئے ان دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو نہیں سنی۔ وہ نانو کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر چونکا تھا، وہ اب بے تابی کے عالم میں صوفہ سے کھڑی ہو گئی تھیں۔
”کیا ہوا گر ینی؟ خیریت تو ہے؟” اس نے معاملے کی نوعیت سمجھنے کی کوشش کی۔
”علیزہ کالج میں نہیں ہے۔” انہوں نے فق چہرے کے ساتھ کہا۔
”کیا…؟” عمر بھی یک دم سنجیدہ ہو گیا۔
”علیزہ کالج میں نہیں ہے، ڈرائیور اس کا انتظار کرکے تھک کر آگیا ہے۔” نانو اب روہانسی ہونے لگی تھیں۔
”اس میں پریشان ہونے والی کیا بات ہے؟ وہ کسی دوست کی طرف چلی گئی ہو گی۔” عمر نے نانو کو تسلی دینے کی کوشش کی۔
”نہیں وہ کبھی کسی دوست کی طرف مجھے بتائے بغیر نہیں جاتی، خاص طور پر کالج سے، اور اس کی دوست ہے بھی کون… شہلا… ڈرائیور کہہ رہا ہے کہ چوکیدار نے اندر موجود لڑکیوں سے علیزہ کے بارے میں پوچھا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ آج کالج ہی نہیں آئی۔”
”کیا … کالج نہیں گئی؟” عمر ہکا بکا رہ گیا۔
”اگر وہ کالج نہیں گئی تو کہاں گئی ہے؟” نانو اب بڑبڑا رہی تھیں۔
”یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ علیزہ کالج نہ گئی ہو۔…وہ وہیں ہو گی ڈرائیور کو غلط فہمی ہو سکتی ہے، ہو سکتا ہے لڑکیوں نے کسی دوسری علیزہ کے بارے میں کہا ہو؟” عمر یک دم ڈرائیور کی طرف متوجہ ہو گیا۔
”نہیں جی مجھے کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی، چوکیدار کو علیزہ بی بی کا پتہ ہے، پہلے بھی کئی بار میں اسی کے لئے ذریعے علیزہ بی بی کو بلواتا ہوں، پھر آج غلط فہمی کیسے ہو سکتی ہے؟
ویسے بھی کالج تو بالکل خالی ہو چکا تھا تو صرف چند لڑکیاں ہی رہ گئی تھیں اگر علیزہ بی بی وہاں ہوتیں تو اب تک گیٹ پر ہی موجود ہوتیں۔”




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۷

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۰

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!