آبِ حیات — قسط نمبر ۷ (حاصل و محصول)

امامہ انجکشن لگوانے سے پہلے ہاسپٹل کے کمرے میں ہی ہیڈی، جبریل اور عنایہ کو لے آئی تھی۔ اس وقت بھی اس کا یہی خیال تھا کہ چند گھنٹوں میں وہ واپس گھر چلی جائے گی، لیکن اسے پہلی بار تشویش تب ہوئی تھی جب اسے درد زیادہ ہونا شروع ہوگیا تھا اور ڈاکٹر نے اس کی تصدیق بھی کردی تھی کہ انجکشن کے ری ایکشن میں شاید انہیں بچے کی زندگی بچانے کے لئے فوری طور پر دنیا میں لانا پڑے گا۔
وہ پہلا موقع تھا جب امامہ بری طرح پریشان ہوئی تھی۔ وہاں کنشاسا میں گھر کے چند ملازموں کے علاوہ ان کا کوئی ایسا حلقہ احباب نہیں تھا جنہیں وہ ایسے کسی بحران میں مدد کے لئے پکارتے یا جن پر بھروسا کرتے۔ ان کا جتنا میل ملاپ تھا وہ سرکاری اور غیر ملکی تھا۔
فوری طور پر امامہ کی سمجھ میں یہ بھی نہیں آیا تھا کہ وہ بچوں کو کہاں بھیجے۔ اس کی ڈاکٹر نے اسے مدد کی پیش کش کی تھی کہ وہ بچوں کو اپنے گھر رکھ سکتی ہے، لیکن امامہ کے لئے تو یہ ناممکن تھا۔ وہ اپنی اولاد کے بارے میں جنون کی حد تک محتاط تھی اور خاص طور پر جبریل کے حوالے سے۔ یہ غیر فطری نہیں تھا… اس نے ایک بھرے پرے خاندان سے نکل کر دس سال کی قید تنہائی کاٹی تھی اور پھر امید اور ناامیدی کے درمیان لٹکتے ہوئے اس نے ان خونی رشتوں کو پایا تھا… وہ اس کی کل کائنات تھے اور اسے اس وقت ملے تھے جب وسیم کی موت کے بعد وہ مایوسی کے سب سے بدترین دور سے گزر رہی تھی… جبریل اس کی زندگی میں اس وقت بہار کی طرح آیا تھا۔ اس کے وجود کے اندر پلتے ہوئے بھی اس نے ماں کو کسی مسیحا کی طرح سنبھالا تھا۔
جبریل عام بچوں جیسی عادات نہیں رکھتا تھا۔ ذہانت اسے بات سے ورث میں ملی تھی لیکن برداشت اس نے کہاں سے لی تھی؟ یہ امامہ نہیں جان پائی تھی۔ اس کے دونوں بچے ہی ضدی اور شرارتی نہیں تھے لیکن جبریل میں ایک عجیب سی سنجیدگی اور سمجھداری تھی جو اس کے معصوم چہرے پر بلا کی سجتی تھی۔
اسپتال میں امامہ اور ڈاکٹر کے درمیان ہونے والی تمام گفت گو بھی اسکے سامنے ہی ہوتی رہی تھی اور وہ چپ چاپ بیٹھا سن اور دیکھ رہا تھا۔
امامہ نے ہیڈی کو اپنے بچوں کی ذمہ داری سونپنے سے پہلے جبریل کو عنایہ کی ذمہ داری سونپی تھی۔ اسے بہن کا خیال رکھنے کا کہا تھا اور کبھی بھی اسے اکیلا نہ چھوڑنے کا کہا تھا۔ جبریل نے ہمیشہ کی طرح سرہلایا تھا۔ فرماں برداری سے۔ یہ ذمہ داری اسے پہلی بار نہیں سونپی گئی تھی، ہمیشہ سونپی جاتی تھی… لان میں اکیلے کھیلتے ہوئے… کسی شاپنگ مال میں شاپنگ کے دوران، پرام میں بیٹھے… گاڑی میں اکیلے بیٹھے جب سالار کبھی کسی سروس اسٹیشن یا کسی اور جگہ اکیلا نہیں لے کر جاتا اور کچھ منٹوں کے لئے اتر کر کچھ لینے جاتا، جبریل خود بخود کمانڈ سنبھالنے کے لئے تیار ہوجاتا تھا… اور عنایہ بھائی کی فرماں برداری کرتی رہتی تھی… ایک بار پھر جبریل کو ایک ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ ایک بار پھر اس نے ہمیشہ کی طرح ماں کو تسلی دی تھی۔
’’آپ نیا بے بی لے آئیں۔ میں اس بے بی کا خیال رکھوں گا۔‘‘
چار سالہ جبریل نے انگلش میں ماں کو تسلی دی تھی اور اس کی تسلی امامہ کے ہونٹوں پر اس تکلیف میں بھی مسکراہٹ لے آئی تھی۔ آپریشن تھیٹر میں جانے سے پہلے اس نے ان دونوں کو گلے لگا کر چوما تھا اور پھر ہیڈی کو ان کا خیال رکھنے کا کہہ کر اور سالار کو اطلاع دینے کا کہتے ہوئے اپنا فون اور بیگ تھما گئی تھی۔
اور جب وہ ہوش میں آئی تھی تو اس کمرے میں وہ اکیلی تھی۔ وہاں نہ ہیڈی تھی نہ جبریل… نہ عنایہ… نہ ہی حمین…
٭…٭…٭




یوٹیوب پر کسی نے ایک ویڈیو اپ لوڈ کی تھی۔ جس میں ایک سیاہ فام بروکلین کے ایک نسبتاً پس ماندہ حصے میں ایک پاس سے گزرنے والی گاڑی سے یک دم نکلنے کے والے دو سفید فام لوگوں سے لڑتا نظر آیا تھا… ان سفید فاموں کے ہاتھوں میں موجود ریوالور سے بچنے کی کوشش کرتا، انہیں چھینتا اور ان پر فائر کرنے کے بعد ان میں سے ایک کے ہاتھوں گولی کھا کر… گرتا نظر آیا تھا۔ پھر ان دونوں افراد کا اسے بے رحمی سے گھسیٹ کر گاڑی میں تقریباً پھینکنے والے انداز میں گرایا جانا بھی اس ویڈیو میں تھا
ویڈیو سیل فون سے نہیں اس بلڈنگ میں رہنے والے ایک سیاہ فام نو عمر بچے نے ہینڈی کیم سے بنائی تھی جو اتفاقاً اس جگہ سے بالکل قریب ایک بلڈنگ کی دوسری منزل کی کھڑکی سے ایک اسکول پروجیکٹ کے سلسلے کی ایک ویڈیو شوٹ کررہا تھا۔
اس بچے نے ویڈیو شوٹ کرتے ہوئے بھی چلا چلا کر ان دونوں افراد کو سیاہ فام کو کھینچ کر گاڑی میں ڈالنے سے روکنے کی کوشش کی تھی لیکن اس کوشش میں ناکامی کے بعد اس نے اس گاڑی کی نمبر پلیٹ کو زوم کرکے ریکارڈ کیا تھا۔
پولیس کو ویڈیو دینے سے پہلے اس نے وہ ویڈیو سیاہ فاموں کے ساتھ امریکہ میں ہونے والی زیادتیوں پر مبنی ایک ویب سائٹ پر منتقل کی تھی اور اس ویب سائٹ نے اسے یوٹیوب پر… اگلے بارہ گھنٹوں میں وہ ویڈیو یوٹیوب پر دستیاب ہوگئی تھی… اس پر بے شمار لوگوں نے ردعمل کا اظہار کیا تھا اور ہزاروں ملامتی تبصرے اور سفید فاموں کے لئے گالیاں… وہ بارہ گھنٹوں میں یوٹیوب سے نیوز چینلز پر آگئی اور وہاں سے بین الاقوامی نیٹ ورکس پر…
پیٹرس ایباکا کو پہچاننا مشکل نہیں تھا وہ بہت جلد پہچانا گیا تھا۔ پولیس اس جگہ سے قریبی اسپتال میں بھی پہنچ گئی تھی جہاں وہ ایجنٹس ایباکا کی زندگی بچانے کے لئے فوری طبی امداد دلانے گئے تھے اور ہاسپٹل کی انتظامیہ کو یہ بھی پتا تھا کہ وہ ایک اسپیشل مریض تھا جسے سی آئی اے کے دو ایجنٹس لے کر آئے تھے اور اس کی حالت کچھ بہتر ہونے پر سرجری کے فوراً بعد وہاں سے لے گئے تھے۔
NYPD نے سی آئی اے سے رابطہ کیا تھا اور انہیں یہ بھی پتا چل گیا تھا کہ ایباکا کو فوری طور پر واشنگٹن منتقل کردیا گیا تھا اور وہ وہاں مرچکا تھا… سی آئی اے اب سرپیٹ رہی تھی کہ وہ میڈیا پر پیٹرس ایباکا کے ایک حادثے میں زخمی ہوکر ہاسپٹل جانے والی خبر کو کیسے درست ثابت کرتی۔
پیٹرس ایباکا کے ایکسیڈنٹ میں شدید زخمی ہونے کی خبر میڈیا پر چلانا ان کی ایسی حکمت عملی تھی جو اب ان کے گلے کی ہڈی بن گئی تھی۔ طوفان یوٹیوب پر کیا مچا تھا، طوفان تو وہ تھا جو سی آئی اے ہیڈ کوارٹرز میں آیا تھا… ایک آسان ترین سمجھا جانے والا آپریشن سی آئی اے کے منہ پر ذلت اور بدنامی تھوپنے والا تھا۔ ساتھ امریکن گورنمنٹ اور ورلڈ بینک بھی پھنسنے والے تھے اور فی الحال سی این این کو اس مصیبت سے نجات تو ایک طرف اس پر قابو پانے کا بھی کوئی طریقہ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔
کبھی کبھی انسان کو اس کی بے وقوفی نہیں اس کی ضرورت سے زیادہ چالاکی لے ڈوبتی ہے۔ سی آئی اے کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ ایک تیر سے دو شکار کرتے کرتے وہ اپنی کمان ہی تڑوا بیٹھے تھے۔ انہوں نے پیٹرس کو نیویارک کے اسی ہاسپٹل میں چھوڑ دیا ہوتا تو ان کی بچت ہوجاتی۔
وہ اسے کسی حادثے کا زخمی دکھا کر اس سے جان چھڑانا چاہتے تھے اور یہ کام وہ واشنگٹن میں کرنا چاہتے تھے، جہاں سالار سکندر تھا اور اس دن واشنگٹن میں صرف ایک حادثہ ہوا تھا، جس کا ایک زخمی پیٹرس ایباکا کو ظاہر کرکے دونوں کا تبادلہ کیا گیا تھا۔ ہاسپٹل کی انتظامیہ کو ایباکا کے حوالے سے معلومات تھیں بالکل نیویارک کے اس ہاسپٹل کی طرح جہاں ایباکا کو پہلی بار لے جایا گیا تھا۔
اس کی حالت مسلسل بگڑ رہی تھی اور سی آئی اے سرجری کے بعد ہاسپٹل سے اسے اپنے ٹھکانے پر لے جاکر بھی اس سے کوئی کام کی بات نہیں پوچھ سکی تھی۔ تو اب انہیں اس سے وہ آخری کام لینا تھا جس کے لئے اسے واشنگٹن پہنچایا گیا تھا اور جس کے لئے نیوز چینلز پر بار بار اس حادثے کے زخمیوں اور مرنے والے کے نہ صرف نام چلائے گئے تھے بلکہ ان کی پاسپورٹ سائز کی تصویریں بھی۔ سی آئی اے کو یقین تھا نیوز چینلز پر چلنے والی یہ خبر سالار سکندر کے علم میں ضرور آئے گی اور انہیں یہ بھی یقین تھا کہ جس طرح کی قربت ان دونوں کی حالیہ کچھ عرصے میں رہتی تھی، وہ متقاضی تھی کہ سالار اس سے ملنے ضرور جاتا۔
اندازے درست ثابت ہوئے تھے۔ وہ خبر سالار نے دیکھ بھی لی تھی اور وہ فوری طور پر اس سے ملنے بھی چلا گیا تھا۔ اگر کسی طرح وہ خبر اس کے علم میں نہ آتی یا وہ اس سے ملنے نہ جاتا تب سی آئی اے والے ہاسپٹل کے ذریعے اس سے رابطہ کرتے اور کہتے کہ پیٹرس ایباکا کی آخری خواہش ہے کہ وہ سالار سکندر سے ملنا چاہتا ہے، لیکن انہیں پلان B کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ سالار، ایباکا کو دیکھنے چلا گیا تھا اور ہاسپٹل میں آنے جانے میں اسے تقریباً دو گھنٹے لگے تھے اور سی آئی اے کو اتنا ہی وقت چاہیے تھا۔ اس کے کمرے سے لیپ ٹاپ سمیت ہر اس چیز کا صفایا کرنے کے لئے جسے وہ کام کی سمجھتے تھے سالار کو کسی اور کام کے لئے کمرے سے اتنی دیر تک باہر رکھنا ان کے لئے مشکل تھا کہ وہ اپنا لیپ ٹاپ تو ساتھ رکھتا تھا، لیکن ہاسپٹل جاتے ہوئے انہیں توقع تھی وہ سب کچھ وہیں چھوڑ کر جائے گا۔
سب کچھ ویسے ہی ہوا تھا جیسے ان کا پلان تھا، لیکن نتیجہ وہ نہیں نکلا تھا جس کی انہیں توقع تھی۔
وہ ویڈیو انہیں لے ڈوبی تھی۔ کوئی بھی اس ویڈیو میں نظر آنے والے چہرے کے نقوش کو بھول نہیں سکتا تھا۔ وہ اتنے واضح تھے اور اس ویڈیو میں دوسری سب سے نمایاں چیز وہ وقت اور تاریخ تھی جو اسکرین پر نیچے آرہی تھی۔ وہ اس پیٹرس ایباکا کی شناخت نہیں بدل سکتے تھے اور وہ واشنگٹن کے ہاسپٹل میں بظاہر حادثے میں زخمی ہوکر آنے اور مرنے والے ایباکا کی شناخت بھی نہیں بدل سکتے تھے۔ وہ نیوز چینلز پر ایباکا کی تصویریں نہ چلوا چکے ہوتے اس حادثے کے فوراً بعد شدید زخمی فرد کے طور پر… تو شاید سی آئی اے یہی کرتی اور ایباکا کو واشنگٹن کے اس ہاسپٹل سے فوری طور پر واپس نیویارک منتقل کردیا جاتا، لیکن وہ ایک غلطی کے بعد دوسری نہیں، تیسری اور چوتھی غلطی بھی کر بیٹھے تھے۔
اینڈرسن کووپر کی ٹیم نے پیٹرس ایباکا کی مشکوک حالت میں موت کے بعد ان پیغامات اور ای میلز کو اور اس ویڈیو میں نظر آنے والے وقت کو چیک کیا تھا۔ وہ سب پیغامات اور ای میلز جن میں ایباکا نے کووپر کے شو میں شرکت سے معذرت کرنے کے ساتھ ساتھ کسی قسم کی معاونت سے بھی انکار کیا تھا وہ اس ویڈیو کے دو گھنٹے بعد کے میسج تھے اور اس وقت کے جب نیویارک کے ہاسپٹل میں ایباکا کی سرجری ہورہی تھی اور ایسے پیغامات صرف کو پر ہی کو نہیں ان دوسرے پروگرامز کے میزبانوں کو بھی کئے گئے تھے یا صحافیوں کو جن سے ایباکا پچھلے کچھ دنوں سے مل رہا تھا اور پگمیز کے مسئلے کو سامنے لانے کی درخواست کررہا تھا۔
اینڈرسن کووپر نے ایک نیوز پروگرام میں پیٹرس کے ان پیغامات اور اس کی ویڈیو کی ٹائمنگ کو پوائنٹ آؤٹ کیا تھا اور پھر اس نے نیویارک اور واشنگٹن کے دو ہاسپٹلز کے معتبر ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے یہ راز کھول دیا تھا کہ ان دونوں ہاسپٹلز میں اسے داخل کرنے والے سی آئی اے سے تعلق رکھتے تھے۔
پیٹرس ایباکا کی موت کی وجہ کیا ہوسکتی تھی… کون اسے مار سکتا تھا اور کیوں مار سکتا تھا… اس کو صرف وہ شخص بتا سکتا تھا جس کا نام ایباکا کووپر کے سامنے کئی بار لے چکا تھا… جو واشنگٹن میں اس سے ملنے کے لئے آنے والا واحد ملاقاتی تھا… اور جس نے اپنی شناخت ایباکا کے رشتہ دار کے طور پر ظاہر کی تھی… امریکہ کے ہر نیوز چینل پر اس رات سالار سکندر کا نام اس حوالے سے چل رہا تھا اور ہر کوئی سالار سے رابطہ کرنے میں ناکام تھا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

ہائے یہ عورتیں — کبیر عبّاسی

Read Next

رعونت — عائشہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!