آبِ حیات — قسط نمبر ۷ (حاصل و محصول)

امامہ مطمئن ہوگئی تھی۔ اگر سالار کی پریشانی کا باعث صرف اس سے رابطہ نہ پانا تھا تو وہ مسئلہ تو وہ سمجھ سکتی تھی، لیکن کوشش کے باوجود وہ سو نہیں سکی تھی۔ تکلیف میں سکون آور دوائیں لئے بغیر سو نہیں سکتی تھی اور اب وہ دوائیں لے کر سونا نہیں چاہتی تھی۔ ہیڈی اب بھی وہیں اس کے پاس تھی اور وہ کمرے میں چلتے ہوئے ٹی وی پر کانگو کے حالات کے حوالے سے چلنے والی خبریں دیکھ رہی تھی۔ مختلف ملکی اور غیر ملکی چینلز کو بدل بدل کر ۔ جہاں پیٹرس ایباکا کے حوالے سے ذکر آرہا تھا وہاں سالار سکندر کا ذکر بھی ہورہا تھا۔ اس انٹرویو کی جھلکیاں بھی بار بار چل رہی تھیں، جن میں پیٹرس نے بار بار سالار کے بارے میں اچھے الفاظ میں بتایا اور اس کی اور اپنی زندگی کے حوالے سے لاحق خطرات کا ذکر بھی کیا تھا۔
سالار سے بات کرنے کے بعد امامہ کی جو پریشانی ختم ہوئی تھی، وہ پریشانی ایک بار پھر سراٹھانے لگی تھی۔ سالار نے اسے ان سب معاملات سے بالکل بے خبر رکھا ہوا تھا۔ وہ پچھلے کئی مہینوں سے کانگو کے جنگلات میں پیٹرس ایباکا کے ساتھ بہت زیادہ سفر کرتا رہا تھا۔ وہ صرف یہ جانتی اور سمجھتی تھی کہ یہ آفیشل کام تھا لیکن ورلڈ بینک کے اس پروجیکٹ کے حوالے سے سالار سکندر کی اختلافی رپورٹ کے بارے میں اسے پہلی بار پتا چلا تھا۔ وہ بھی پیٹرس ایباکا کے اس انٹرویو کے ذریعے۔ معاملات اتنے صاف اور سیدھے نہیں تھے جتنے واشنگٹن میں بیٹھا سالار اسے بتارہا تھا۔
وہ مصیبت میں تھا لیکن اسے کیوں بے خبر رکھ رہا تھا۔ امامہ کو اس کا احساس ہونے لگا تھا۔ وہ وہاں کنشاسا میں بیٹھ کر اس سے ان سب چیزوں کے بارے میں فون پر سوالات نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وہ اس کے سامنے بیٹھ کر اس سے پوچھنا چاہتی تھی کہ اس کے ساتھ کیا ہورہا تھا۔
’’ممی!‘‘ جبریل نے اسے مخاطب کیا، وہ سوچوں سے چونکی۔
“Who wants to kill Papa?”
وہ اس کے سوال پر منجمد ہوگئی تھی۔




چار سالہ وہ بچہ بے حد تشویش سے اس سے پوچھ رہا تھا۔ امامہ کوٹی وی دیکھتے ہوئے اندازہ ہی نہیں ہوا تھا کہ وہ بھی اس کے ساتھ بیٹھا ٹی وی پر یہ سب کچھ سن اور دیکھ رہا تھا اور اپنے باپ کے حوالے سے ہونے والی ایسی کسی گفت گو کو وہ سمجھ سکتا تھا۔ وہ بلا کا ذہین تھا اپنے باپ کی طرح… امامہ اور سالار اس کے سامنے گفت گو میں بہت محتاط رہتے تھے۔
امامہ نے ٹی وی آف کردیا۔ وہ اب اسے ٹالنا چاہتی تھی۔
“No one wants to kill Papa.”
اس نے جبریل کو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا۔ وہ تکیے سے ٹیک لگائے نیم دراز تھی۔
’’اللہ آپ کے پاپا کی حفاظت کررہا ہے اور ہم سب کی۔‘‘ وہ اسے تھپتھپاتے ہوئے بولی۔
’’اللہ نے پیٹرس ایباکا کی حفاظت کیوں نہیں کی؟‘‘
امامہ لاجواب ہوگئی۔ بڑوں کے سوالوں کے جواب آسان ہوتے ہیں بچوں کے نہیں۔
جبریل کے سوال اسے ہمیشہ ایسے ہی لاجواب کرتے تھے۔ وہ بحث نہیں کرتا تھا۔ بات پوچھتا تھا۔ جواب سنتا تھا، سوچتا تھا اور خاموش ہوجاتا تھا مگر امامہ یہ نہیں سمجھ پاتی تھی، اس کے جواب نے اسے قائل کیا تھا یا نہیں۔ وہ بچہ گہرا تھا۔ اس کا احساس اسے تھا۔ وہ بہت حساس تھا۔ وہ اس سے بھی لاعلم نہیں تھی، لیکن اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ اپنے ماں باپ کے حوالے سے بہت ساری باتیں سوچتا تھا جو وہ ان سے پوچھتا کبھی نہیں تھا۔
’’دیکھو، تمہارا چھوٹا بھائی۔ کیسا لگتا ہے تمہیں؟‘‘
امامہ نے اب اس کی توجہ ایک دوسرے موضوع کی طرف لے جانے کی کوشش کی۔
’’ہی از کیوٹ۔‘‘
اس نے جواب دیا تھا حمین کے بغور جائزے کے بعد لیکن اس جواب میں جذباتیت، خوشی اور حیرانی مفقود تھی۔
’’تمہارے جیسا لگتا ہے نا؟‘‘ امامہ نے اسے خوش کرنے کی کوشش کی۔
’’مجھے تو نہیں لگتا۔‘‘
جبریل نے کچھ اور احتیاط سے بغور اس کا جائزہ لینے کے بعد ماں کو فوراً جواب دیا تھا۔ اسے شاید ماں کا یہ تبصرہ اور مماثلت اچھی نہیں لگی تھی۔
’’اچھا تم سے کیسے ڈفرنٹ ہے؟‘‘ امامہ نے دلچسپی سیپوچھا۔
’’اس کی مونچھیں۔ میری تو نہیں ہیں۔‘‘
امامہ بے ساختہ ہنسی۔ وہ حمین کے چہرے اور بالائی لب پر آنے والے روئیں کو دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ عنایہ اب بھی امامہ کے بیڈ کے بالکل قریب پڑے انکو بیٹر کی دیوار سے چپکی کھڑی تھی یوں جیسے حمین چڑیا گھر کا کوئی جانور تھا جسے وہ گلاس وال سے ناک اور ہاتھ ٹکائے واؤ والے تاثرات کے ساتھ دیکھ رہی تھی۔
’’یہ میری طرح لگتا ہے۔‘‘ اس نے بہت مدھم آواز میں اٹکتے ہوئے امامہ کو مطلع کیا تھا۔
وہ عنایہ کی مدھم آواز پر ہنس پڑی تھی۔ وہ احتیاط کررہی تھی کہ سویا ہوا بھائی بیدار نہ ہوجائے۔ انہیں اندازہ نہیں تھا۔ وہ سویا ہوا بھائی نہیں تھا سویا ہوا جن تھا جو بیدار ہونے کے لئے اپنے باپ کی آمد کا انتظار کررہاتھا۔
سالار سکندر اور امامہ ہمیشہ اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسی اولاد دی تھی جو بالکل مشکل نہیں تھی نہ ہی ان دونوں نے انہیں کسی بھی لحاظ سے تنگ کیا تھا۔ ان کے خاندان، دوستوں اور جبریل کے اسکول میں بھی ان دونوں کے بچوں کو مثالی بچے اور انہیں مثالی والدین مانا جاتا تھا۔
کانگو کے فسادات میں پیدا ہونے والا وہ تیسرا بچہ ان کا وہ سکون اور چین چھین کر انہیں واقعی مثالی بنانے کے لئے بھیجا گیا تھا۔ سی آئی اے نے جس بچے کو تین ہفتے پہلے دواؤں کے ذریعے قبل از وقت دنیا میں لانے کی کوشش کی تھی، انہیں اگر محمد حمین سکندر کا تعارف ہوجاتا تو وہ اس پیدائش کو کم از کم تین سو سال تک روکتے۔
٭…٭…٭
ورلڈ بینک کے بورڈ آف گورنرز کے ایک ہنگامی اجلاس نے متفقہ طور پر سالار سکندر افریقہ کے لئے ورلڈبینک کا نیا نائب صدر … نیا چہرہ… چنا تھا۔ یہ عہدہ ورلڈ بینک کی تاریخ میں پہلی بار کسی غیر افریقی کو دیا گیا تھا اور دینے کی وجوہات ساری دنیا کے سامنے تھیں۔
سالار سکندر چینلز پر چلنے والی ان بریکنگ نیوز اور الرٹس کے درمیان ورلڈ بینک کے ہیڈ کوارٹر میں ورلڈ بینک کے صدر سے ملاقات کے لئے تیاری کررہا تھا جو ورلڈ بینک کے صدر کی درخواست پر ہورہی تھی۔ وہ ورلڈ بینک کے ہیڈ کوارٹرز سے ورلڈبینک کے صدر سے ملاقات کی بھیک مانگتے مانگتے ’’کتا‘‘ بن کر وہاں سے نکلا تھا اور اب اسی صدر کی منت بھری درخواست پر وہاں صدر کے ذاتی استعمال میں آنے والی کاروں میں سے ایک، شوفر سمیت لیموزین میں بادشاہوں کی طرح سیکیورٹی اور پروٹوکول کے ساتھ وہاں بلایا جارہاتھا۔
وہ زندگی میں پہلی بار کسی لیموزین میں بیٹھا تھا نہ زندگی میں پہلی بار سیکیورٹی اور پروٹوکول کے ’’لوازمات‘‘ چکھ رہا تھا، مگر زندگی میں پہلی بار اسے اس گھٹن کا سامنا کرنا پڑرہا تھا جو اس کے سینے کو پنجرے میں قید پرندہ کررہی تھی…
ہیڈ کوارٹر کے باہر پریس موجود تھا، اپنے مشین گنوں جیسے کیمروں اور مائیکس کے ساتھ… بجلی کی طرح فلیش لائٹس کے جھماکوں کی تیاری اور انتظامات کے ساتھ…انہیں اطلاع کس نے دی تھی؟ اس کے، اس دن وہاں آنے کی؟
یہ سالار سکندر کے لئے کوئی حیرت کی بات نہیں تھی… وہ سرکس کا وہ جانور تھا جسے بینک اور سی آئی اے اب نچا کر تماشا لوٹنا چاہتے تھے اور سرکس کا جانور اس لیموزین سے فلیش لائٹس اور سوالوں کے نعروں کے درمیان اترتے ہوئے اپنی اگلی حکمت عملی ترتیب دے رہا تھا… اسے اگر ناچنا ہی تھا تو اپنی شرطوں پر… پتلی بننا تھا تو شرائط کسی کی انگلی کی نہیں۔
وہ لیموزین سے اتر کر اپنے کھلے کوٹ کے بٹن بندکرتا، فلیش لائٹس کے جھماکوں سے کچھ فاصلے پر ڈرائیو سے کے دونوں اطراف میں لگی ہوئی وارننگ ٹیپ کے پار کیمرہ مینوں اور جرنلسٹس کی بھیڑ کی طرف ایک نظر بھی ڈالے بغیر عملے کے ان افراد کی رہنمائی میں لمبے لمبے قدموں کے ساتھ اندر چلا گیا تھا، جنہوں نے کار سے اترنے پر اس کا استقبال کیا تھا۔
کچھ نئے لوگوں کے علاوہ بورڈ روم میں وہ سب لوگ موجود تھے جن سے وہ کچھ دن پہلے بھی ملا تھا… لیکن اب سب کچھ بدل چکا تھا۔ جیسے اس کا باط ویسے ہی ان لوگوں کا ظاہر…
اس کا استقبال بورڈ روم میں ایک ہیرو کے طور پر تالیاں بجا کر خیر مقدمی نعروں کے ساتھ کیا گیا تھا۔ یوں جیسے وہ کوئی ہیرو تھا جو جنگ جیت کر کسی بادشاہ کے دربار میں اپنی خدمات کے بدلے میں کوئی بڑا اعزاز لینے آیا تھا… ان سب کے چہروں پر مسکراہٹیں اور نرمی تھی۔ آنکھوں میں ستائش اور ہونٹوں پر داد و تحسین… گرم جوشی سے مصافحہ اور معانقے کرتے ہوئے سالار سکندر صرف یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ وہ ’’کر‘‘ کے ’’کیا‘‘ آیا تھا جس کے لئے ایسا استقبال کیا گیا تھا۔ وہ ان ہی لوگوں کے ساتھ بیضوی شکل کی میز پر پریذیڈنٹ کی سیٹ کے داہنی جانب پہلی نشست پر بٹھایا گیا تھا جن کی گردن کا سریا اور لہجوں کی رعونت نے اس کی عزت نفس کی دھجیاں اڑائی تھیں۔
انسان کی سب سے بڑی خاصیت یہی ہے کہ وہ بھولتا نہیں ہے، نہ برائی نہ اچھائی… نہ کم ظرفی نہ ایثار… نہ بے مہری نہ احسان… نہ عزت نہ ذلت… سالار سکندر بھی غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک ایک ’’انسان‘‘ تھا جو کچھ ہوچکا تھا، وہ پتھر پر لکیر تھا۔ جو کچھ ہورہا تھا، وہ پانی کی پھوار تھا۔
اس کی آمد کے ٹھیک پانچ منٹ بعد ورلڈ بینک کا صدر بورڈ روم میں آگیا تھا۔ سالار سکندر بھی باقی سب کی طرح اس کے احترام اور استقبال کے لئے کھڑا ہوا تھا۔
’’ورلڈ بینک کو آپ پر فخر ہے۔‘‘ اس کے ساتھ ہی استقبالی کلمات کی ادائی کے بعد صدر کے منہ سے نکلنے والے پہلے جملے کو سن کر سالار سکندر کا دل قہقہے مار کر ہنسنے کو چاہا تھا۔ اسے سکندر عثمان یاد آئے تھے۔




Loading

Read Previous

ہائے یہ عورتیں — کبیر عبّاسی

Read Next

رعونت — عائشہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!