آبِ حیات — قسط نمبر ۷ (حاصل و محصول)

’’آپ نے تب بھی سوال کیا تھا اور جواب کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ میں نے آپ سے بحث نہیں کی تھی کیوں کہ آپ بہت پریشانی میں تھے اس وقت… میں آپ کو مزید پریشان نہیں کرنا چاہتا لیکن جو جواب میں نے تب آپ کو دیا تھا، آج بھی وہی دے رہا ہوںاور مجھے خوشی ہے آج آپ سوال کرنے میرے پاس نہیں آئے، حل ڈھونڈنے آئے ہیں۔
وہ مسکرائے اور چند لمحوں کے لئے خاموش ہوئے، پھر انہوں نے دوبارہ بات شروع کی۔
’’آپ جس کاروبار سے منسلک رہے وہ کروڑوں لوگوں کے گھر وں اور زندگیوں میں بے سکونی اور تباہی لاتا ہے، پھر یہ کیسے ہوتا کہ وہ بے سکونی اور بے برکتی آ پ کے دروازے پر دستک دینے نہ آتی۔ اللہ اپنی حدوں کو توڑنے والوں کو پسند نہیں کرتا، وہ مسلمان ہو یا کافر…‘‘
سالار نے نہ چاہتے ہوئے بھی انہیں ٹوک دیا۔
ڈاکٹر صاحب! مجھے اب امامہ سے کوئی شکایت نہیں ہے، وہ میری زندگی میں پریشانی اور بے سکونی کا باعث نہیں رہی… مجھے گھر کی طرف سے سکون ہے۔‘‘
اس بار ڈاکٹر صاحب نے اس کی بات کا ٹ دی۔
’’کیوں کہ امامہ کے لئے آپ کے التفات کا وہ عالم نہیں رہا جو اس وقت تھا جب امامہ آپ کی زندگی میں شامل ہوئی تھی۔ تب اللہ نے آپ کو اس کی بے التفاتی اور بے رخی کے ذریعے بے سکونی دی کیوں کہ اس سے زیادہ تکلیف آپ کو کوئی اور چیز نہیں پہنچا سکتی تھی۔ آج اللہ آپ کو اس چیز سے سب سے زیادہ تکلیف پہنچا رہا ہے جو آج آپ کے لئے سب سے اہم ہے۔‘‘
وہ گنگ رہ گیا تھا۔ بات درست تھی۔ ڈاکٹر صاحب ہمیشہ کی طرح اس کے عیبوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش میں اس کے دل میں چھپے چور کو عیاں کرتے جارہے تھے۔
’’آپ نے وقتی طور پر بینک کی نوکری چھوڑی، بلاواسطہ سود کے کاروبار سے منسلک ہونے کے بجائے کچھ عرصہ کے بعد بالواسطہ سود کے کاروبار سے منسلک ہوگئے۔ سالار سکندر مجھ سے زیادہ اچھی طرح آپ کو پتا ہے کہ حل کیا ہے مگر مشکل یہ ہے کہ اس حل کی طرف جانے پر آپ کا دل آمادہ نہیں ہے اور کبھی ہوگا بھی نہیں۔‘‘
’’آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ آپ نے نے جو کچھ بھی کہا ہے وہ ٹھیک ہے لیکن میری سمجھ میں واقعی نہیں آرہا کہ میں کیا کروں۔‘‘
اس نے ڈاکٹر صاحب کی ہر بات کو تسلیم کیا تھا۔ ’’میں نے پچھلے سال امریکہ میں ایک گھر mortgage کیا ہے۔ اس سال امامہ کی سالگرہ پر میں اس کو وہ گھر دینا چاہتا تھا۔ پانچ بیڈ روم کا گھر ہے۔ پرائیوٹ بیچ کے ساتھ…ساحل سمندر پر… بہت مہنگا… مجھے اگلے کئی سال اس کا mortgageادا کرتے رہنا ہے۔ اب میرے تین بچے ہیں۔ ایک اسکول جارہا ہے، دو چند سالوں میں اسکول جانے لگیں گے۔ مجھے ان کو بہترین اسکولز میں پڑھانا ہے۔ بہترین تعلیم دلوانی ہے، بہترین یونیورسٹیز میں بھیجناہے۔ بالکل اسی طرح جیسے میرے باپ نے کیا اور اس سب کے لئے مجھے پیسہ چاہیے۔ مجھے ایک پر آسائش زندگی کی عادت رہی ہے۔ میں ان آسائشات کے بغیر نہیں رہ سکتا اور یہ ساری آسائشات اور لائف اسٹائل پیسہ مانگتا ہے اور میں اگر حلال اور حرام کی، سود کی بنیاد پر تفریق اور تمیز کرنے بیٹھوں گا تو پھر میں ان میں سے کچھ بھی نہیں کرسکوں گا… جہاں مجھے ترقی اور کامیابی نظر آتی ہے وہاں سود بھی ہے اور جہاں سود نہیں ہے وہاں ترقی کی وہ رفتار بھی نہیں ہے جس پر میں سفر کرتا رہا ہوں… اب آپ مجھے بتائیں، میں کیا کروں… میں کسی چھوٹی موٹی کمپنی میں کسی چھوٹے موٹے عہدے پر کام کرکے تھوڑا بہت پیسہ بناکر جی سکتا ہوں لیکن اس سے میں خوش نہیں رہ سکتا۔ وہ آرگنائزیشنز جن میں مجھے اسپارک اور سکوپ دکھتا ہے جو مجھے اپنی طرف کھینچتا ہے، وہاں کسی نہ کسی شکل میں سود کی آمیزش ہے۔ حرام اور حلال کا فرق نہیں ہے… میں کیا کروں؟ یا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کسی یونیورسٹی میں فنانس اور اکنامکس پڑھا کر زندگی گزارلوں یا کسی کمپنی کا فنانشل آفیسر بن کر زندگی گزاردوں۔‘‘
وہ جیسے پھٹ پڑا تھا۔ وہ ساری کنفیوژن جو ذہن میں تھی، اب زبان پر آرہی تھی اور زبان پر آکر جیسے اس کے اعصاب کو سکون دینے لگی تھی۔




’’آپ میرے رزق کو میرے ہر مسئلے کی وجہ قرار دے رہے ہیں۔ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ میں بھی اس رزق سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہوں… مجھے بھی سود سے نفرت ہے لیکن کوئی متبادل راستہ بھی نہیں ہے میرے پاس۔‘‘ وہ اب پھر سے رنجیدہ ہورہا تھا۔
’’میں متبادل راستہ بھی بنانا چاہتا ہوں لیکن اس میں بھی وقت لگے گا۔ تب تک میں کیا کروں… میں آج ورلڈ بینک کو چھوڑتا ہوں تو چند مہینوں میں قصہ پارینہ ہوجاؤں گا… کانگو میں جو ہورہا ہے، ہوتا رہے گا۔ یہ پروجیکٹ آج بند ہوا ہے، کل پھر چل پڑے گا۔‘‘
ڈاکٹر صاحب نے بڑے تحمل سے اس کی بات کاٹتے ہوئے اس سے کہا۔
’’سالار! آپ پہلے یہ فیصلہ کریں کہ وہ کیا چیز ہے جو آپ کے لئے زیادہ پریشان کن ہے… آپ کی اپنی زندگی… یا دوسروں کی زندگی… ہم دوسروں کی زندگی کو صرف اپنی زندگی پر ترجیح تو نہیں دے سکتے، دو ہی چوائسز ہوں تو ہم صرف اپنی ہی زندگی کو ترجیح دیں گے۔‘‘ ڈاکٹر سبط علی نے جیسے اسے آئینہ دکھایا تھا۔
’’میرا ذہن اور زندگی اس وقت کسی دوراہے پر نہیں چوراہے پر آکر کھڑی ہوگئی ہے۔ د وراستے ہوں تو انسان پھر بھی فیصلہ کرلیتا ہے، سو راستوں کا کیا کرے؟‘‘ وہ عجیب بے بسی سے ہنسا تھا۔
’’آپ مسیحا نہیں ہیں… نہ ہی اللہ نے آپ کو مسیحا بننے کے لئے پیدا کیا ہے… آپ کو اللہ نے ایک اچھا انسان اور مسلمان بننے کے لئے پیدا کیا ہے۔ پہلے وہ فرائض پورے کریں جو اللہ کی طرف سے اور ان لوگوں کی طرف سے آپ پر عائد ہوتے ہیں جو آپ کی ذمہ داری ہیں، پھر ان لوگوں کی ذمہ داری کندھوں پر اٹھانے کی کوشش کریں جن کے بارے میں آپ سے کبھی ڈائریکٹ سوال نہیں کیا جائے گا۔‘‘
وہ اس کے دماغ کی گرہوں کو کھولنے لگے تھے۔
’’زندگی میں اہم اچھے اور برے فیصلے کرتے ہیں اور ہم ان کی قیمت چکاتے ہیں، آپ اپنے بچوں کے سنہری مستقبل، آسائشوں اور ایک mortgaged گھر کی ملکیت حاصل کرنے کے لئے سود کھاتے رہنا چاہتے ہیں تو قیمت بھی آپ ہی چکائیں گے… آپ کسی متبادل راستہ کی تلاش میں مہلت چاہتے ہیں تو بھی اختیار اور انتخاب آپ ہی کے ہاتھ میں رہے گا لیکن کبھی کبھار ہم بہتر راستے اور مناسب وقت کی تلاش میں اپنی زندگی کی مہلت استعمال کربیٹھتے ہیں۔‘‘ وہ ان کی باتیں ویسے ہی دم بخود سن رہا تھا جیسے ہمیشہ سنتا آیا تھا۔
’’پہلے آپ اپنے گھر کے اندر نااتفاقی اور بے سکونی سے آزمائے گئے… اب آپ اپنے کیرئیر میں مشکلات سے آزمائے جارہے ہیں۔ میری دعا صرف یہ ہے کہ اگلی آزمائش اس سے بڑی نہ ہو۔‘‘
جوگر ہیں کھل رہی تھیں ڈاکٹر سبط علی نے انہیں جیسے کاٹنا شروع کردیا تھا۔ سالار اندر سے ہل رہا تھا۔
’’آپ نے مجھ سے یہ سب تب کیوں نہیں کہا جب میں آپ کے پاس آنا شروع ہوا تھااور میں نے آپ کو بتایا تھا کہ میں بینک میں کام کرتا ہوں۔ آپ کو پتا تھاکہ سود کے کاروبار سے منسلک ہوں، پھر تب آپ نے مجھ سے کیوں یہ ساری باتیں نہیں کہیں۔ اس طرح خبردار نہیں کیا… کبھی بھی ٹوکا نہیں۔‘‘ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ان سے شکایت کرنے لگا۔
’’میں وہ مبلغ نہیں ہوں سالار! جو ہر شخص کو آتے ہی کٹہرے میں کھڑا کردیتا ہے۔ یہ اللہ کی دنیا ہے اور اگر اللہ کی دنیا میں اللہ انسان کو اس کی بے عملی کے باوجود خود کھوجنے، خود سیکھنے کا موقع دیتا رہتا ہے تو میں کیسے آپ کو سرزنش کرنا شروع کردیتا… آپ جس رب کے ماننے والے ہیں اس کی کتاب کو زبانی یاد کرنے اور دہراتے چلے آنے کے باوجود اس میں دیئے گئے احکامات سے روگردانی کررہے ہیں… آپ جس نبی ﷺ کے پیروکار ہیں اس نبیﷺ کی سنت اور احکامات پر عمل کرنے کو تیار نہیں… آپ جس عورت کے عشق میں گرفتار ہیں اس کے اصرار پر بھی اس رزق کو چھوڑ نہیں پارہے… تو ڈاکٹر سبط علی آپ کو کیسے بدل دیتا، کیسے روک دیتا۔‘‘
وہ پانی پانی ہوا تھا اور ہوتا ہی گیا تھا۔
’’میں آپ کو منع کرتا… ڈراتا… آپ میرے پاس آنا ہی چھوڑ دیتے… میں نے سوچا، آتے رہیں گے ، بدل جائیں گے…
آپ کو یاد ہے جب میں نے … آپ سے پہلی ملاقات میں اپنی کچھ کتابیں آپ کو دی تھیں کہ ان کا مطالعہ کیجئے گا، وہ اپنے علم کی دھاک بٹھانے کے لئے نہیں کیا تھا… آپ کو یہی جتانا چاہ رہا تھا… کہ آپ جس اقتصادی اور مالیاتی سسٹم کے ساتھ منسلک تھے وہ غیر اسلامی تھا… جائز اور حلال نہیں تھا… سود پر کھڑا کیا گیا تھا۔ اور میں نہیں مانتا ان کتابوں کے مطالعے کے دوران یہ خیال آپ کے ذہن میں نہ آیا ہو کہ آپ کا رزق سود سے آلودہ ہورہا ہے… میں نہیں مانتا، میرے پاس اتنی باقاعدگی سے لیکچرز کے لئے آتے رہنے کے باوجود آپ نے کبھی ان لیکچرز میں سود یا ربا کے حوالے سے کوئی ممانعت، کوئی درس نہ سنا ہو اور آپ کو یہ خیال نہ آیا ہوکہ جس کی ممانعت اور مذمت کی جارہی ہے، وہ وہی رزق ہے جو آپ بھی کمار ہے تھے۔‘‘




Loading

Read Previous

ہائے یہ عورتیں — کبیر عبّاسی

Read Next

رعونت — عائشہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!