آبِ حیات — قسط نمبر ۷ (حاصل و محصول)

وہ ان کی باتوں کے جواب میں بولنے کے قابل ہی نہیں رہا تھا، وہ ٹھیک کہہ رہے تھے۔ اس نے کئی بار ڈاکٹر سبط علی کو سود کے حوالے سے بات کرتے سنا تھا… وہ فوٹو گرافک میموری رکھتا تھا۔ آج بھی ہر وہ سوال دہراسکتا تھا، ان کے جواب کے ساتھ جو کسی نے ڈاکٹر سبط علی سے اس حوالے سے پوچھاتھا۔ اسے یاد تھا جب اس نے پہلی بار ڈاکٹر سبط علی کو سود کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سنا تھا تو وہ بہت خفیف ہوا تھا۔ صرف وہی نہیں وہاں پر موجود وہ سارے افراد جو بینکس یا انویسٹمنٹ کمپنیز سے منسلک تھے۔
کسی نے ڈاکٹر صاحب سے یہ سوال کیا تھا کہ ’’آخر ربایا سود میں ایسی خرابی کیا ہے، قرآن پاک اس کو حرام اور کاروبار کے منافع کو حلال کرتا ہے؟‘‘ ڈاکٹر صاحب نے تب یہ جواب دیا تھا۔
’’سود اسلام کی بنیاد کے خلاف ہے۔ ہمارا دین جن کچھ بنیادوں پر کھڑا ہے اس میں سے ایک انسانی ہمدردی اور مدد کا اصول ہے… اگر مسلمان ایک دوسرے کے بھائی اور مددگار ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ ضرور کے لئے اپنے مسلمان بھائی کو دی جانے والی رقم کو منافع کے ساتھ مشروط کردے… ہمارا دین اللہ تعالیٰ کی برتری کے علاوہ دنیا میں کسی اور سے ویسی عقیدت اور پرستش کے خلاف ہے… روپیہ صرف دنیاوی زندگی کو چلانے کا ذریعہ ہے، اس روپے کو ہم اگر اپنا مقصد حیات بناکر سرمایہ داری کے اصول اپنالیں گے تو ہم اس انسان کو اشرف المخلوقات کے درجے سے ہٹا کر دولت کو اس مرتبے پر فائز کردیں گے…
اگر قرآن میں اللہ فرماتا ہے کہ سود کا کاروبار کرنے والا اللہ اور اس کے نبیﷺ سے جنگ کررہا ہے… تو دولت کا بت بناکر انسانوں کی ضرورتوں اور مجبوریوں کو استعمال کرتے ہوئے ان کا استحصال کرنا دنیا میں اللہ کے اس نظام کو چیلنج کرنے کے برابر ہی ہے جس میں اللہ انسان کو ایک دوسرے کی فی سبیل اللہ مدد کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اگر اللہ کو ایک ماننے والا اور نبی کریم کو آخری پیغمبر ماننے والا بھی صرف خدا خوفی اور خدا ترسی کے لئے ایک دوسرے مسلمان کو منافع لئے بغیر کچھ دینے پر تیار نہیں تو مسلمان اور کافر میں فرق کیا ہے۔ کافر دولت کے حصول اور اس کی بڑھوتری کے لئے بہت سارے خدا خدا پوجتا ہے۔ مسلمان تو اللہ کی عبادت صرف اللہ کی خوشنودی اور اخروی زندگی کے لئے کرتا ہے۔ وہ تو رزق میں کشادگی اور نعمتوں کے عطا کئے جانے کو اللہ کی عبادت کے ساتھ مشروط نہیں کرتا۔‘‘
اسے ڈاکٹر سبط علی کی ایک ایک بات یاد تھی کیوں کہ ان کے الفاظ کئی راتوں تک اس کے لئے باز گشت بنے رہے تھے۔
’’جب انسان کا ایمان اللہ کی ذات پر کمزور ہوتا ہے اور اس میں توکل نہیں ہوتا تو پھر اس کا اعتقاد دنیاوی چیزوں میں بڑھ جاتا ہے… روپے میں… مال و زر میں… بچتوں اور جمع پونجیوں میں… وہ اللہ کی ذات کو باہر رکھ کر بیٹھ جاتا ہے اپنا مستقبل پلان کرنے… اتنا پیسہ جوڑوں گا تو اس سال یہ لوں گا… کسی رشتہ دار یا ضرورت مند کی مدد کردوں گا تو پھر قرض واپس نہ ملنے پر اتنا پیسہ ڈوب جائے گا… اتنے سال میں گھر بنالینا چاہیے… کون سے سال کون سی گاڑی ہونی چاہیے… بچوں کو پڑھانے کے لئے بھی پائی پائی جوڑنی ہوگی…بیٹیوں کی شادی کے لئے بھی پیسہ ہاتھ میں ہونا چاہیے…بیماری کا علاج بھی پیسے سے ہوتا ہے… ان ساری چیزوں کے بارے میں سوچتے سوچتے انسان کو پتا ہی نہیں چلتا، وہ کب اللہ کی ذات کو پیچھے کرتے روپے کو آگے لے آتا ہے۔




روپے سے ایسا رشتہ جوڑ بیٹھتا ہے کہ اس سے علیحدگی کا تصور بھی نہیں کرپاتا… اس کی افزائش اور بڑھوتری پر خوشی سے پاگل ہوا جاتا ہے۔ اس سے اثاثے بنالینے پر اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی اور مستقبل کو محفوظ سمجھتا ہے… یہ اس پیسے کی حرص کا شیطانی اثر ہے جس سے انسان کولگتا ہے دنیا کا سسٹم چلتا ہے… حالانکہ دنیا کا نظام تو اللہ چلاتا ہے… وہ لمحہ بھر میں سالوں کی جمع پونجیاں خاک کردے… اللہ کو نظر انداز کرکے حرام کے ذریعے بنائے جانے والے اثاثوں کو انہیں کے ہاتھوں تباہ و برباد کردے… پھر انسان کیا کرے گا…؟‘‘
وہ سارے جواب اسے آج بھی یاد تھے جنہوں نے اسے تب بے چین کیا تھا لیکن قائل نہیں، وہ مغربی تہذیب اور تعلیم جس میں اس نے ساری عمر پرورش پائی تھی، وہ ترقی کو انسان کی منزل قرار دیتی ہے اور اس منزل کے حصول کے لئے قانونی اور غیر قانونی کی تفریق تو کرتی تھی… حرام اور حلال کی نہیں… وہ مغربی معاشرہ جو سود کے ستونوں پر کھڑا اسی کا بیچ بورہا تھا… اسی کا پھل کھا رہا تھا، وہ ’’منافع‘‘ کے اس طریقے کو جائز قرار دیتا تھا جو اخلاقیات اور انسانیت کے بنیادی اصولوں کی تذلیل اور تضحیک کرکے کھڑا کیا گیا تھا۔
’’مغربی مالیاتی نظام یہود نے قائم کیا تھا اور دنیا کی معیشت کو اس مالیاتی نظام نے آکٹوپس کی طرح جکڑا ہوا ہے۔ دنیا میں مالیاتی نظام کے وہ بانی تھے اور اس کو مؤثر ترین بنانے میں قابل رشک حد تک کامیاب… وہ سود جو بنی اسرائیل کے زوال اور اس پر آنے والے بار بار کے عذاب کی وجہ بنتا رہا تھا، وہ آج بھی نہ صرف اس سے چپکے ہوئے ہیں بلکہ اس کو مسلمان قوم کے اندر تک اس طرح پھیلا چکے ہیں کہ اب یہ سودی نظام دنیا میں کسی بھی خطے میں بسنے والے مسلمان کے خون اور خمیر میں رچنے بسنے لگا ہے… وہ اس کو صحیح اور جائز قرار دینے کے لئے توجیہات دینے لگے ہیں اور یہ وہ امت محمدی تھی جن کے لئے قبلہ بدلا گیا تھا اور جنہیں بنی اسرائیل سے امامت لے کر دی گئی تھی…‘‘
ڈاکٹر سبط علی کی وہ سب باتیں اس کے ذہن پر تب کنکریاںبرساتی تھیں تو آج ہتھوڑے برسارہی تھیں۔
’’تم کیا سوچ رہے ہو سالار؟‘‘ وہ اس کی اتنی لمبی خاموشی سے پریشان ہوئے تھے۔ انہیں لگا شاید انہوں نے کوئی زیادہ سخت بات کہہ دی تھی اسے۔
’’میں کیا سوچوں گا اب… میرے ہاتھ اتنے لتھڑے ہوئے ہیں کہ سمجھ میں نہیں آرہا، اب اس سب سے نکلوں کیسے…؟ کیا کروں؟‘‘ اس نے جیسے اپنی مشکل ڈاکٹر صاحب کے سامنے رکھ دی۔
’’آپ اللہ سے دعا کریں ، وہ راستہ نکالے گا آپ کے لئے… اور وہ راستہ ہو جو دوسروں کی زندگی سنواردے۔‘‘ وہ ان کی بات نہیں سمجھ پایا لیکن اس نے آمین کہا تھا۔
’’نہ میں اللہ اور اس کے رسولﷺسے جنگ کرنے کی جسارت کرنے والوں میں سے ہونا چاہتا ہوں نہ میں اللہ کی حدود توڑنے والوں میں سے… اگر اس پورے سسٹم کا حصہ بنارہا تھا تو صرف اس لئے کہ میری خواہش تھی کہ کبھی میں کوئی ایسا سسٹم بناسکوں جو سود پر مبنی نہ ہو اور پھر بھی قابل عمل ہو اور منافع بخش بھی… غلطی صرف یہ تھی کہ یہ خواہش رکھتے ہوئے بھی کوشش کبھی نہیں کی…ضروریات زندگی اور خواہشات کا ایک ڈھیر میرے راستے میں آگیا جس نے میری ترجیحات کو بدل دیا… لیکن میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ دوبارہ آپ کے پاس سود کے حوالے سے کوئی سوال کبھی نہیں لے کر آؤں گا… حل لے کر آؤں گا۔‘‘ ڈاکٹر صاحب اس کی بات پر مسکرا دیئے تھے۔
’’میں تمہارے لئے دعا کروں گا… میں اپنی زندگی کے آخری حصے میں ہوں اور اپنی ساری زندگی بے حد خواہش رکھنے کے باوجود اس سسٹم کو تبدیل کرنے کے لئے کچھ نہیں کرسکا… بس کتابیں لکھ سکا۔ تجاویز دے سکا۔ لوگوں کو خبردار کرتا رہا… لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کرسکا… میں نہ تمہارے جتنا ذہین تھا نہ تمہارے جتنا قابل… نہ تمہارے جتنا بارسوخ… تم شاید وہ کام کر جاؤ جس کے بارے میں ہم خواب دیکھتے، سوچتے اور باتیں کرتے مرے جارہے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر صاحب اب رنجیدہ ہورہے تھے۔
’’سود پر مبنی یہ مغربی مالیاتی نظام اس لئے طاقت ور ہے کیوں کہ اس کو چلانے والے تمہارے جیسے ذہین لوگ ہیں جو اپنی ذہانت کو دنیاوی آسائشات کی خاطر انہیں ہی دیئے جارہے ہیں۔ جس دن تمہارے جیسی ذہانت اور قابلیت رکھنے والے لوگ ان کے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے ان کے خلاف کھڑے ہونا شروع ہوجائیں گے تو مغرب کا مالیاتی نظام گرجائے گا۔ صرف اس لئے کہ وہ استحصالی اور سامراجی ہے اور طاقت ور کی بقا کے اصول پر قائم کیا گیا ہے۔ جو طاقت ور اور پیسے والا ہے، وہ کمزور اور خالی جیب والے کو جس طرح چاہے ایکسپلائٹ کرے… مجھے افسوس ہوتا ہے تو صرف اس لئے ہوتا ہے کہ حافظ قرآن اور صاحب حیثیت ہوکر وہ کام کرتے آرہے ہو جو کوئی مجبور ضرورتاً کرتے ہوئے بھی شاید دوبارہ سوچتا ہے۔‘‘
وہ سرجھکائے اپنی ہتھیلیاں دیکھتا گم صم بیٹھا رہا۔ اس کے پاس کہنے کے لئے کچھ نہیں تھا۔
’’آپ مجھے بتائیں، میں کیا کروں؟ یہ عہدہ نہ لوں؟ جاب چھوڑ دوں؟‘‘ اس نے بہت دیر بعد ان سے بس ایک سوال کیا۔
’’تم اس ذہانت کا استعمال کرکے فیصلہ کرو جو اللہ نے تمہیں عطا فرمائی ہے۔ اللہ سے پوچھو، وہ تمہارے لئے فیصلہ کرے۔‘‘
انہوں نے فیصلہ ایک بار پھر اس پر چھوڑا تھا۔ وہ نم آنکھوں کے ساتھ ہنسا۔ کوئی بھی اس کے لئے اب فیصلہ نہیں کررہا تھا۔ ہر ایک کو اس کی اس ذہانت پر مان تھا جو اس کے اپنے لئے ایک گمان ثابت ہوئی تھی۔
’’اللہ انسان پر بہت مہربان ہے سالار…! گناہ پر یہ نہیں کہتا کہ توبہ کا موقع نہیں دوں گا… با ربار توبہ کا موقع دیتا ہے… اپنی طرف پلٹ آنے کا موقع دیتا ہے۔‘‘
وہ اب اس کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کررہے تھے۔
’’زندگی میں جب انسان کو ہدایت مل جائے، وہ یہ نہ دیکھے کہ کیا کرچکا ہے، بس وہاں سے راستہ بدل لے۔‘‘
وہ چپ چاپ ان کی باتیں سنتا رہا تھا… وہ نرم گفتار جس کے لئے وہ مشہور تھے… اور جو وہ سالوں سے سنتا چلا آرہا تھا پر آج پتا نہیں کیوں دل یہ ماننے کو تیار نہیں ہورہا تھا کہ اس کی توبہ قبول ہوجائے گی اور اتنے آرام اور آسانی سے ہوجائے گی…
اس بات پر ایمان رکھنے کے باوجود کہ اللہ انسانوں کو معاف کرتا ہے اور اپنے بندوں کے لئے بہت رحیم ہے… کہیں نہ کہیں اس کے اندر یہ احساس بہت شدید تھا کہ اس نے اللہ کو خفا… کیا ہے… کس حد تک کیا ہے، یہ نہیں پتا چل رہا تھا…وہ حافظ قرآن تھا… الہامی کتاب کو اپنے ذہن میں محفوظ کئے… اتنا الہام تو اسے بھی ہوسکتا تھا کہ اس کتاب کا خالق اس سے خوش تھا یا اس سے خفا… اتنا تعلق اور رابطہ تو تھا اس کا اللہ سے کہ یہ جان لے کہ’’وہ‘‘ اس سے خوش نہیں… دیر سے ہی سہی مگر اس کی روح کے اندر موجود پیمانہ اپنے خالی ہونے کا احسااس دلانے لگا تھا جو اللہ کی محبت ہی سے بھرتا تھا… اس کی خوشنودی ہی سے چھلکتا تھا۔
وہ ڈاکٹر سبط علی کے گھر سے انہیں قدموں پر واپس پلٹ آیا تھا۔ اسے اب اس گناہ کا کفارہ ادا کرنا تھا جسے ایک لمبے عرصے سے گناہ نہیں، صرف ضرورت مانتا رہا تھا۔
ایک نیا اسلامی مالیاتی نظام بنانے کا وہ عزم جو ورلڈ بینک ہیڈ کوارٹرز میں دی جانے والی ذلت کے احساس نے جنم دیا تھا، وہ اب پہلے سے زیادہ پختہ ہوگیا تھا… اس کا کفارہ اس کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں ہوسکتی تھی۔
واشنگٹن میں ورلڈ بینک ہیڈ کوارٹرز میں اس کے آفر قبول کرنے کے فیصلے پر خوشی کے شادیانے بجائے گئے تھے… وہ ’’پرزہ‘‘ جو انہیں اس وقت اپنی بقا کے لئے چاہیے تھا، انہیں مل گیا تھا۔
سالار سکندر نے بڑے بھاری دل کے ساتھ اس کانٹریکٹ پر سائن کئے تھے… اب وہ ترقی ترقی نہیں لگ رہی تھی، دلدل کی ایک اور گہرائی لگ رہی تھی… جس میں سے نکلنے کے لئے اسے پہلے سے زیادہ ہاتھ پاؤں مارنے تھے۔
’’حمین بہت خوش قسمت ثابت ہوا ہے تمہارے لئے۔‘‘
سکندر عثمان نے اسے فون پر مبارک دیتے ہوئے کہا تھا۔ وہ صرف گہرا سانس لے کر رہ گیا۔
’’وہ ٹھیک ہے نا؟‘‘ سکندر عثمان نے حمین کے بارے میں اس سے پوچھا۔ وہ اس دن امامہ سے بات نہیں کرسکے تھے۔ قبل از وقت پیدائش کی وجہ سے وہ، ان کی بیوی روز ہی اس کے بارے میں دریافت کرتے تھے۔
’’ہاں! وہ بالکل ٹھیک ہے… Stable ہے۔‘‘ اس نے انہیں بتایا اور تب ہی سکندر عثمان کو اسکول کا کوئی چوکیدار یاد آیا تھا جو ان سے کچھ رقم ادھار لینے آیا تھا۔
’’کہہ رہا تھا سود پر کوئی رقم لی تھی اس کے ماں باپ نے اس کی بہنوں کی شادی کے لئے… اور وہ ابھی تک سود اتار رہا ہے۔ اب شاید کوئی اور مسئلہ آن پڑا ہے اسے۔‘‘
سکندر عثمان اسے بتارہے تھے اور سالار کو لگا، کسی نے اس کے گلے کی رسی میں ایک گرہ اور ڈال دی تھی… بعض دفعہ جب اللہ کوئی چیز منہ پر مار کر تنبیہہ کرنا چاہتا ہے تو پھر ہر جگہ سے وہی بات بار بار بازگشت کی طرح واپس آتی رہتی ہے۔
اس کے پی ایچ ڈی کے لئے امریکہ چلے جانے کے بعد سکندر عثمان ہی گاؤں کے اس اسکول کو دیکھتے رہے تھے… وہی ہفتے میں ایک بار وہاں جاتے اور اسکول کی انتظامیہ اور ملازمین کے معاملات دیکھتے… سالار اب صرف نام کی حد تک اسکول کے معاملات میں انوالو تھا۔
’’آپ اس کی مدد کریں… اس کا قرضہ اتار دیں…‘‘ سالار نے ان سے کہا۔
’’ہاں، تاکہ وہاں لائن لگ جائے قرض مانگنے والوں کی۔‘‘ سکندر عثمان نے سنجیدگی سے کہا۔ ’’ہمیں کیا پتا وہ سچ بول رہا ہے یا جھوٹ… ایک کا قرض اتاریں گے… پورا گاؤں اپنا اپنا قرض لے کر آکھڑا ہوگا اسکول میں… کسی نے بھینس کے لئے لیا ہوگا، کسی نے فصل کاشت کرنے کے لئے… کسی نے ٹیوب ویل لگوانے کے لئے اور کسی نے بیٹی کی شادی کے لئے… یہاں گاؤں دیہات میں 70 فی صد لوگ سود پر ایک دوسرے سے قرضے لیتے بھی ہیں اور دیتے بھی… یہ ان کی زندگی اور کاروبار کا سائیکل ہے… تم یا میں اسے روک سکتے ہیں نہ بدل سکتے ہیں… ایک دفعہ تم غلام فرید کا قرض اتار دوگے… اگلی بار ضرورت پڑنے پر وہ پھر کسی نہ کسی سے قرض لے گا اور اسی طرح سود پر… وہاں کوئی کسی کو اس کے بغیر رقم ادھار نہیں دیتا… اور وہاں ادھار اور قرض کے بغیر لوگوں کا کام نہیں چلتا۔ اس لئے بہتر ہے، تم اور میں ان چیزوں میں نہ پڑیں۔‘‘
سکندر عثمان نے جو تو جیہہ دی تھی، وہ بھی غلط نہیں تھی مگر وہ یہ بات سن کر دنگ ضرور رہ گیا تھا کہ وہ وبا کہاں کہاں ناسور کی طرح پھیلی ہوئی تھی… سکندر عثمان کو اندازہ تھا، اسے اندازہ نہیں ہوا تھا گاؤں میں اتنا آتے جاتے رہنے کے باوجود…
اور اب وہ اس جہاز پر تھا جو کنشاسا جارہا تھا… اور اپنی پوری زندگی کو اپنی نظروں کے سامنے کسی فلم کی طرح چلتے دیکھتے ہوئے۔
’’جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ بس اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے چھو کر حواس باختہ کیا ہو… اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں… تجارت بھی تو سود ہی ہے حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔‘‘
اس نے ایک بار قرآن پاک میں سورۃ بقرہ میں پڑھا تھا… دوسرا جملہ تو اس کی سمجھ میں آگیا تھا لیکن پہلا جملہ وہ نہیں سمجھ سکا تھا۔ وہ آج اس کی سمجھ میں آرہا تھا۔
’’وہ اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے چھوکر حواس باختہ کیا ہو۔‘‘
اس کیفیت میں تو وہ تھا… حلق پر ہاتھ پڑا تھا سالار سکندر کے…
جہاز پر کنشاسا کے اس سفر میں اس نے یہ طے کیا تھا کہ وہ اپنی نوکری سے کمائے جانے والے پیسے سے اپنے خاندان کی کفالت نہیں کرے گا… اس کے لئے کسی بھی اور ذریعے سے… ان کی کفالت اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا… وہ بہت سی امریکن یونیورسٹیز میں لیکچرز کے لئے مدعو ہوتا رہا تھا اور ان کے لیکچرز کے لئے اسے معاوضہ بھی دیاجاتا رہا تھا… اس سے پہلے اس نے جاب کے علاوہ ان دوسرے ذرائع کے بارے میں غور نہیں کیا تھا جہاں کام کرکے وہ اتنا رزق بخوبی کمالیتا کہ کم از کم اس اسٹیج پر اسے اس ذمہ داری کو اٹھانے میں دقت محسوس نہیں ہوتی۔
اسے اب ورلڈ بینک کی نائب صدارت صرف دو چیزوں کے لئے چاہیے تھی… وہ ، وہ قرض سر سے اتار دیتا جو ایباکا نے اس کے لئے چھوڑا تھا اور وہ کچھ مہلت حاصل کرلیتا… سود سے پاک پہلے بین الاقوامی اسلامی مالیاتی ادارے کی تشکیل کے لئے…
مقصد بہت بڑا تھا…وسائل بھی اتنے ہی درکار تھے… دماغ کہتا تھا سب کچھ ہوسکتا ہے، ناممکن کچھ نہیں۔ دل کہتا تھا، بے وقوفی کے سوا کچھ نہیں… اور ضمیر کہتا تھا، راستہ ہے تو یہی ہے… اور اللہ… زندگی میں پہلی بار جیسے اللہ نے بھی اس آزمائش کے لئے فیصلہ اس پر چھوڑ دیا تھا…
اندر کی وہ آواز بالکل خاموش تھی جو ہمیشہ اس کی رہنمائی کرتی تھی… سالار سکندر کو اگر یہ وہم تھا کہ اللہ اس سے خفا تھا تو وہ صرف وہم نہیں تھا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

ہائے یہ عورتیں — کبیر عبّاسی

Read Next

رعونت — عائشہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!