آبِ حیات — قسط نمبر ۷ (حاصل و محصول)

کنشاسا میں اس رات کنشاسا کی تاریخ کے وہ سب سے بڑے فسادات ہوئے تھے جن میں کوئی سیاہ فام نہیں صرف سفید فام مارے گئے تھے۔ ورلڈ بینک کے دفتروں پر حملہ کرکے انہیں لوٹںے کے بعد آگ لگا دی گئی تھی اور یہ سلسلہ صرف وہیں تک نہیں رکا تھا۔ ورلڈ بینک کے حکام کی رہائش گاہوں پر بھی حملے، لوٹ مار اور قتل و غارت ہوئی تھی اور ان میں سالار سکندر کا گھر بھی تھا۔ وہ سالار سکندر کا گھر نہیں تھا جسے آگ لگائی گئی تھی، وہ ورلڈ بینک کے سربراہ کا گھر تھا جسے ہجوم نے اس رات تباہ کیا تھا۔ کانگو میں اس رات ڈیڑھ سو کے قریب امریکیوں اور یورپ کے لوگوں کو مارا گیا تھا اور ان میں اکثریت ورلڈ بینک اور دوسری عالمی تنظیموں میں کام کرنے والے افراد اور ان کے خاندان کے افراد کی تھی۔
ورلڈ بینک کے چالیس افراد ان فسادات میں مرے تھے اور یہ چالیس لوگ نچلے عہدوں پر کام کرنے والے لوگ نہیں تھے، وہ ورلڈ بینک کی سینئر اور جونیئر مینجمنٹ تھی۔ اپنی اپنی فیلڈ کے ماہر نامور لوگ جو کئی سالوں سے اس بینک اور اس کے مختلف آپریشنز اور پروجیکٹس سے منسلک تھے اور جو کانگو میں اس ادارے کے ستونوں کے طور پر کانگو کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے تھے۔
ورلڈ بینک کی تاریخ میں پہلی بار ورلڈ بینک کے خلاف فسادات اور اس کے عملے کا قتل عام کیا گیاتھا۔ اس سے پہلے دنیا میں ورلڈ بینک کے افسران کو صرف انڈے، ٹماٹر مار کر یا ان کے چہروں اور کپڑوں پر سرخ رنگ پھینک کر احتجاج کیا جاتا رہا تھا اور وہ احتجاج کسی اثر اور تبدیلی کے بغیر ختم ہوجاتا تھا۔ وہ مہذب دنیا میں رہنے والوں کا احتجاج تھا۔ یہ اس غیر مہذب دنیا میں رہنے والوں کا احتجاج تھا جنہیں مہذب دنیا انسانوں سے کمتر سمجھ کر رکھتی تھی۔
اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ، ورلڈ بینک اور سی آئی اے ہیڈ کوارٹرز میں آپریشن روم کی دیواروں پر لگی اسکرینوں پر تینوں اداروں کے سینئر حکام صرف دم سادھے بے بسی کے ساتھ کانگو کے مختلف علاقوں میں ہونے والے ان فسادات کے مناظر کو دیکھ رہے تھے۔ ان کو بچانے کی کوششیں ہورہی تھیں لیکن فوری طور پر کوئی بھی کانگو کے ان فسادات میں عملی طور پر نہیں کود سکتا تھا، وہ زیادہ نقصان دہ ہوتا ورلڈ بینک اور دوسرے اداروں کا۔ جو جانی اور مالی نقصان ہوا تھا، وہ پورا کرلیا جاتا لیکن جو ساکھ اور نام ڈوبا تھا، اسے بحال کرنے کے لئے کوئی معجزہ چاہیے تھا۔
ان فسادات کے آغاز سے بالکل پہلے اینڈرسن کووپر نے پیٹرس ایباکا کے ساتھ ہونے والے اس آف کیمرہ سیشن کو اپنے پروگرام میں چلا دیا تھا تب تک اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس رات کانگو میں کیا ہونے والا تھا۔ اگر اسے یا سی آئی اے کو اس کا رتی بھر بھی اندازہ ہوتا تو وہ ٹیپ شدہ چیزیں بھی نہیں چلتیں۔ اس آف کیمرہ سیشن میں پیٹرس ایباکا نے امریکہ اور ورلڈ بینک پر شدید تنقید کرتے ہوئے انہیں گدھ اور ڈاکو قرار دیا تھا جو کانگو کو نو چ نوچ کر کھار ہے تھے۔ اور کوئی ان کا ہاتھ روک نہیں پارہاتھا۔
پیٹرس ایباکا کا وہ آخری انٹرویو افریقہ میں لوگوں نے اسٹیڈیم اور چوکوں پر روتے ہوئے بڑی اسکرینوں پر سنا تھا اور اس کی گفت گو میں ورلڈ بینک کے صرف ایک عہدے دار کی تعریف تھی جو ورلڈ بینک کو اس پروجیکٹ کی انکوائری پر مجبور کررہا تھا اور ایسا نہ کرنے کی صور ت میں وہ اس پروجیکٹ اور ورلڈ بینک کو چھوڑ دینا چاہتا تھا۔ پیٹرس ایباکا نے اس انٹرویو میں پہلی بار اپنی زندگی کو لاحق خطرات کی بھی بات کی تھی اور یہ بھی کہا تھا کہ وہ طاقتیں جو اسے مار ڈالنا چاہتی ہیں وہ سالار سکندر کو بھی مار ڈالیں گی۔




سالار سکندر کا نام پیٹرس ایباکا کے بعد ایک رات میں افریقہ میں زبان زد عام ہوگیا تھا۔ افریقہ میں ویسی شہرت اور ویسا تعارف پہلی بار کسی غیر ملکی کو نصیب ہوا تھا۔
٭…٭…٭
’’میرے بچے کہاں ہیں؟‘‘ امامہ نے اٹینڈنٹ کی شکل دیکھتے ہی ہوش و حواس سنبھالنے کے بعد سب سے پہلا سوال یہی کیا تھا۔
’’وہ کچھ دیر میں آپ کے پاس آجائیں گے… آپ کو فوری طور پر اس ہاسپٹل سے کہیں منتقل کرنا ہے۔‘‘
اٹینڈنٹ نے بے حد مؤدب انداز میں اس سے کہا تھا۔ امامہ نے بستر سے اٹھنے کی کوشش کی تھی اور بے اختیار کراہ کر رہ گئی تھی… زخم والی جگہ اب سن نہیں رہی تھی۔ اسے لگا تھا جیسے کوئی خنجر کسی نے یک دم اس کے پیٹ کے نچلے حصے میں گھونپا تھا۔ اٹینڈنٹ نے جلدی سے آگے بڑھ کر اسے واپس لٹانے میں مدد کی اور اسے لٹانے کے بعد سائیڈ ٹیبل پر رکھی ہوئی اس ٹرے میں سے ایک انجکشن اٹھا کر سرنج میں بھرنا شروع کیا جو وہ لائی تھی۔
’’مجھے انجکشن نہیں لگوانا، مجھے اپنے بچوں کو دیکھنا ہے۔‘‘ امامہ نے بے حد ترشی سے اس سے کہا تھا۔
’’یہ آپ کی تکلیف کم کردے گا۔ آپ کی حالت ابھی ٹھیک نہیں ہے۔‘‘ اٹینڈنٹ نے کہتے ہوئے گلوکوز کی بوتل میں سرنج کی سوئی گھونپ دی۔
امامہ نے اپنے ہاتھ کی پشت پر ٹیب کے ساتھ چپکائی ہوئی سرنج نکال دی۔
’’مجھے فی الحال کسی میڈیسن کی ضروت نہیں ہے۔ مجھے اپنے بچوں سے ملنا ہے اور اپنے شوہر سے بات کرنی ہے۔‘‘
وہ اس بار زخم کی تکلیف کو نظر انداز کرتے ہوئے اٹھ بیٹھی تھی اور اس نے اٹینڈنٹ کا ہاتھ بھی جھٹک دیا تھا۔ وہ اٹینڈنٹ کچھ دیر چپ کھڑی رہی تھی پھر وہ خاموشی سے کمرے سے نکل گئی تھی۔
اس کی واپس آدھ گھنٹے کے بعد ہیڈی، جبریل اور عنایہ کے ساتھ ہوئی تھی۔ کمرے کا دروازہ کھلتے ہی ماں پر پہلی نظر پڑتے ہی جبریل اور عنایہ شور مچاتے ہوئے ا س کی طرف آئے تھے اور اس کے بستر پر چڑھ کر اس سے لپٹ گئے تھے۔ وہ ڈیڑھ دن کے بعد ماں کو دیکھ رہے تھے۔ ہیڈی بھی بے اختیار لپک کر اس کے پاس آئی تھی۔ ڈیڑھ دن سے امامہ کو نہ دیکھنے پر اور ڈاکٹرز کی بار بار کی لیت و لعل پر امامہ کے حوالے سے اس کے ذہن میں عجیب و غریب وہم آرہے تھے اور اب امامہ کو بخیریت دیکھ کر وہ بھی جذباتی ہوئے بنا نہیں رہ سکی تھی۔
’’تم نے سالار کو اطلاع دی؟‘‘ امامہ نے ہیڈی کو دیکھتے ہی اس سے پوچھا تھا۔
’’میں کل سے ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کررہی ہوں لیکن ان کا نمبر نہیں مل رہا۔ میں ان کے آفس اسٹاف سے بھی رابطہ کیا ہے لیکن وہ کہہ رہے ہیں کہ سالار صاحب کے ساتھ ان کا بھی رابطہ نہیں ہورہا۔‘‘
امامہ کے دماغ کو ایک جھٹکا لگا تھا۔ وہ ہیڈی کا پہلا جملہ تھا جس نے اسے چونکایا تھا۔
’’کل؟‘‘وہ بڑبڑائی۔ ’’آج کیا تاریخ ہے؟‘‘
اس نے ہیڈی سے پوچھا اور ہیڈی نے جو تاریخ بتائی وہ اس دن کی نہیں تھی جس دن وہ ہاسپٹل میں آئی تھی۔ وہ پچھلی دوپہر کو ہاسپٹل آئی تھی اور اس وقت اگلی رات ہوچکی تھی۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا، وہ اتنے لمبے عرصے تک خواب آور ادویات کے زیر اثر رکھی گئی تھی… اور کل سے سالار نے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا۔ وہ امریکہ تو کل ہی پہنچ چکا تھا پھر اس سے رابطہ کیوں نہیں ہورہا تھا۔ اس نے ہیڈی سے اپنا بیگ لے کر اس میں سے فون نکال کر اس پر کال کی کوشش کی…
اٹینڈنٹ نے اسے بتایا کہ ہاسپٹل میں اس حصے میں سگنلز نہیں آتے تھے۔ وہ اس کا منہ دیکھ کر رہ گئی تھی۔ اپنے سیل فون پر اس نے سب chat apps اور ٹیکسٹ میسجز چیک کرلئے تھے۔ کل سے آج تک اس میں کچھ بھی نہیں تھا۔ اس وقت سے لے کر جب وہ ہاسپٹل آئی تھی اب تک…
بے حد تشویش لاحق ہونے کے باوجود امامہ نے یہی سمجھاتھا کہ ہاسپٹل میں سگنلز کے ایشوز کی وجہ سے وہ کوئی کال یا ٹیکسٹ ریسیو نہیں کرسکی… اس سے پہلے کہ وہ ہیڈی سے کچھ اور پوچھتی، ہیڈٰ نے اسے کانگو میں ہونے والے فسادات کے بارے میں بتایا تھا اور ساتھ یہ بھی کہ گومبے میں ان کے گھر پر بھی حملہ کیا گیا تھا۔ امامہ سکتے میں رہ گئی تھی۔ ہیڈ ی کے پاس تفصیلات نہیں تھیں کیوں کہ وہ ایک بار ہاسپٹل سے نکلنے کے بعد دوبارہ بچوں کو چھوڑ کر کہیں نہیں گئی تھی۔ اس کے پاس جو بھی خبریں تھیں، وہ اس کے خاندان کے افراد کی طرف سے فون پر ملی تھیں یا پھر ہاسپٹل میں لگے ٹی وی سیٹ پر نشر ہونے والی نیوز سے…
یہ وہ لمحہ تھا جب امامہ کو پہلی بار سالار کے حوالے سے بے قرار ہوئی تھی… پیٹرس ایباکا مارا گیا تھا تو سالار کہاں تھا…؟ وہ بھی تو واشنگٹن میں تھا… ہیڈی نے اسے نیوز چینلز پر چلنے والی ساری خبریں بتائی تھیں… پیٹرس ایباکا کیسے مارا گیا اور کیسے اس کی موت سامنے آئی۔ اس سے آخری بار ملنے کے لئے جانے والا شخص سالار سکندر تھا اور سالار سکندر اس وقت سے غائب تھا۔
امامہ کے ہاتھ کانپنے لگے تھے… اس کا خیال تھا، اسے دنیا میں سب سے زیادہ محبت جبریل سے تھی پھر عنایہ پھر اپنی اس اولاد سے جس کو ایک دن پہلے اس نے پہلی بار دیکھا تھا، لیکن اب جب سالار یک دم اس کی زندگی سے کچھ دیر کے لئے عجیب طرح سے غائب ہوا تھا تو اس کے اوسان خطا ہونے لگے تھے۔
وہ جبریل اور عنایہ کو اسی طرح بستر پر چھوڑ کر درد سے بے حال ہوتے ہوئے بھی لڑکھڑاتے قدموں سے فون لئے کمرے سے باہر نکل آئی تھی۔ اسے ہاسپٹل میں اس جگہ جانا تھا جہاں سے وہ کال کرسکتی اور اس سے بات کرسکتی۔ اسے اس گھر کے تباہ و برباد ہونے کا بھی خیال نہیں آیا تھا جس میں ہونے والی لوٹ مار کے بارے میں ہیڈی نے اسے کچھ دیر پہلے بتایا تھا… گھر، بچے سب کچھ یک دم اس ایک شخص کے سامنے بے معنی ہوگیا تھا جو اس کا سائبان تھا، جو زندگی کی دھوپ میں اس کے لئے تب چھاؤں بنا تھا جب اس کا وجود حدّت سے جھلس رہا تھا۔ پاؤں آبلہ پا ہوگئے تھے۔
اٹینڈنٹ اور ہیڈی نے اسے روکنے اور پیچھے آنے کی کوشش کی، وہ نہیں رکی۔ اس نے ہیڈی کو اپنے پیچھے نہیں آنے دیا اسے بچوں کے پاس رکنے کے لئے کہا۔ وہ ننگے پاؤں پھوڑے کی طرح دکھتے جسم کے ساتھ لڑکھڑاتے قدموں سے کوریڈور میں نکل آئی تھی۔
سالار وہاں ہوتا تو اس حالت میں اسے بستر سے ہلنے نہ دیتا لیکن سارا مسئلہ یہی تو تھا کہ سالار وہاں نہیں تھا اور وہ اسے پانے کے لئے بے حال ہورہی تھی۔ ہاسپٹل میں کوئی ایسی جگہ ڈھونڈتی جہاں سگنل آجاتے جہاں سے وہ سالار سے بات کرپاتی۔ اس کی آواز سن لیتی۔
اس کا جسم ٹھنڈ اپڑرہا تھا۔ یہ موسم نہیں تھا جو اسے لرزا رہا تھا۔ خوف تھا جو رگوں میں خون جما رہا تھا… صرف ہاتھ نہیں تھے جو کپکپارہے تھے… اس کا پو را جسم پتے کی طرح کانپ رہا تھا۔
’’آپ کے شوہر بالکل ٹھیک ہیں۔ میں تھوڑی دیر میں ان سے آپ کی بات کرواتی ہوں۔‘‘
امامہ لڑکھڑاتے قدموں سے چلتے چلتے ساکت اور اٹینڈنٹ کی آواز پر پلٹی تھی اور پھر وہاں کھڑے کھڑے جیسے موم کی طرح پگھلنے لگی تھی… زرد، کانپتی، ٹھٹھرتی بے آواز روتی… وہ ماں تھی، اپنے بچوں پر جان دے دینے والی… اور وہ رب تھا۔ اپنے بندوں کو ایسے کیسے چھوڑ دیتا۔ اس نے جس کو پکارا تھا، مدد کے لئے وہی آیا تھا۔
رحم اٹینڈنٹ کو اس کی حالت پر نہیں آیا تھا۔ اس برتر ذات کو اپنے بندے پر آیا تھا۔ اور وہ اپنے بندوں پر بلاشبہ بے حد شفقت کرنے والا ہے۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

ہائے یہ عورتیں — کبیر عبّاسی

Read Next

رعونت — عائشہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!