آبِ حیات — قسط نمبر ۷ (حاصل و محصول)

سی آئی اے اور ورلڈ بینک کے ساتھ ساتھ امریکن گورنمنٹ کو ایک ہی وقت میں سالار کی ضرورت پڑی تھی۔ کانگو میں اگر کوئی اس وقت ورلڈ بینک کی عزت کو بحال کرنے کی پوزیشن میں تھا تو وہ سالار سکندر ہی تھا۔ پاور گیم ایک دن ون مین شو بن گیا تھا۔ افریقہ میں جو آگ پیٹرس ایباکا کی موت نے لگائی تھی وہ سالار سکندر کی زندگی ہی بجھا سکتی تھی۔ فیصلہ تاخیر سے ہوا تھا، لیکن فیصلہ ہوگیا تھا۔
اس آپریشن کے تباہ کن نتائج نہ صرف سی آئی اے میں بہت سے لوگوں کی کرسی لے جانے والے تھے بلکہ ورلڈ بینک میں بھی بہت سے سرکٹنے والے تھے۔ تاج کہیں اور رکھا جانے والا تھا۔
سالار سکندر اس سب سے بے خبر ہوٹل کے اس کمرے میں اب بھی نیوز چینلز دیکھ رہا تھا۔ وہ کچھ دیر پہلے اپنے باپ سے بات کرکے آیا تھا جنہوں نے اسے بتایا تھا کہ کانگو کے حالات کی وجہ سے فی الحال کانگو کی فلائٹس اور ویزہ دونوں دستیاب نہیں تھے۔ سالار سکندر کے سر میں درد شروع ہوگیا تھا۔ اس کا وہ غم گسار میگرین ایک بار پھر اس کا غم غلط کرنے آگیا تھا۔ وہ ہوٹل واپس آیا تھا۔ عجیب کیفیت میں۔ ٹی وی کے سامنے کھڑا وہ سالار سکندر کے حوالے سے چلنے والی خبروں، کانگو کے دل دہلا دینے والے مناظر کے ساتھ یوں دیکھتا رہا تھا جیسے وہ کوئی اور تھا، نہ اس سالار سکندر سے اس کا کوئی تعلق تھا نہ کانگو سے۔ وہاں امامہ اور اپنی اولاد چھوڑ آنے والا بھی کوئی اور تھا۔ انہیں بھول جانے والا بھی کوئی اور تھا۔
“…”What next to exstasy
’’آہ کیا سوال تھا… کیا یاد دلایا تھا… کیا یاد آیا تھا۔‘‘
“Pain.”
“…”And What is next to Pain
اتنے سالوں بعد ایک بار پھر وہ سوال و جواب اس کے ذہن میں چلنے لگے تھے… آخر کتنے موقعے آئے تھے اس کی زندگی میں اسے سمجھانے کہ اس کے بعد کچھ نہیں ہے… عدم وجود… خالی پن…
اور وہ اسی عدم وجود کی کیفیت میں آکھڑا ہوا تھا ایک بار پھر… زمین اور آسمان کے درمیان کسی ایسی جگہ معلق جہاں وہ نہ اوپر جاپارہا تھا، نہ نیچے آپارہا تھا۔
?”…”And What is Naxt to Nothingness
اس کا اپنا سوال ایک بار پھر اس کا منہ چڑانے آیا تھا۔
“Hell.”
جہنم کوئی اور جگہ تھی کیا۔ اس نے جیسے بے اختیار کراہتے ہوئے سوچا۔
“And What is Next To Hell.”
ہاں وہ اس کے بعد والی جگہ جانا چاہتا تھا۔ ان سب تکلیفوں، ان سب اذیتوں ، ان سب آزمائشوں سے گزر کر۔ وہاں سے آگے… اور آگے… آگے جہاں جنت تھی یا شاید اس لمحہ لگی تھی۔




دو دن کے بعد اس کا سیل فون جیسے نیند سے نہیں موت سے جاگا تھا۔ وہ میوزک اور وہ روشنی… اسے لگا وہ خواب دیکھ رہا تھا۔ وہ میوزک اس نے امامہ کی کالر آئی ڈی کے ساتھ محفوظ کیا ہوا تھا۔
If Tomorrow Never Comes
رونان کیٹنگ کے مشہور گانے کی کالر ٹیون ۔
سیل فون پر اس کا مسکراتا چہرہ اور اس کا نام۔ سالار کو لگا تھا، وہ واقعی جنت میں کہیں تھا۔ اس نے کانپتے ہاتھوں سے کال ریسیو کی، لیکن ہیلو نہیں کہہ سکا۔ وہ امامہ نے کہا تھا۔ بے قرار آواز میں۔ وہ بول ہی نہیں سکا۔ سانس لے رہا تھا تو بڑی بات تھی۔ اپنے قدموں پر کھڑا تھا تو کمال تھا۔
وہ دوسری طرف سے بے قراری سے اس کا نام پکار رہی تھی۔ بار بار۔ سالار کا پورا وجود کانپنے لگا تھا۔ وہ آواز اسے ہرا کررہی تھی۔ کسی بنجر، سوکھے، ٹنڈ منڈ پیڑ پر بار ش کے بعد بہار میں پھوٹنے والی سبز کونپلوں کی طرح۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونا چاہتا تھا لیکن اس کے سامنے رو نہیں سکتا تھا۔ وہ مرد تھا، بولنا مشکل تھا، پر بولنا ضروری تھا۔
’’امامہ!‘‘ اس نے اپنے حلق میں پھنسے ہوئے نام کو آزاد کیا تھا
دوسری طرف وہ پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی۔ وہ عورت تھی۔ یہ کام بڑی آسانی سے کرسکتی تھی کیوں کہ اسے بہادری اور مردانگی کے جھنڈے نہیں گاڑنے ہوتے۔ وہ بے آواز روتا رہا تھا۔ وہ دوزخ سے گزر کر آئے تھے اور کسی نے دوسرے سے یہ نہیں پوچھا تھا کہ دوسرا کہاں تھا۔ کیوں رو رہا تھا۔
بے آواز روتے ہوئے سالار نے اسی طرح کھڑے کھڑے اس کمرے کے درمیان میں امامہ کی ہچکیاں اور سسکیاں سنتے اپنے جوتے اتارے تھے پھر وہ گھٹنوں کے بل سجدے میں جاگرا تھا۔ کوئی اس سے پوچھتا، اللہ کہاں تھا اور کیسے سنتا تھا۔ اس کی شہہ رگ کے پاس۔ اس سے بھی قریب۔
کئی سال پہلے وہ ریڈ لائٹ ایریا میں امامہ کے نہ ہونے پر اسی طرح ایک طوائف کے کوٹھے پر سجدے میں جاگرا تھا۔ آج وہ امامہ کے ہونے پر سجدے میں گرا تھا۔
بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ مشرق۔ مغرب۔ ہر چیز اس کی متاع ہے۔
وہ کن کہتا ہے اور چیزیں ہوجاتی ہیں۔
گمان سے آگے۔ بیان سے باہر۔
بے شک اللہ ہی سب سے بڑا ہے۔
بے شک اللہ ہی سب سے طاقت ور ہے۔
٭…٭…٭
’’ہی از کیوٹ۔‘‘
جبریل نے حمین پر ایک نظر ڈالنے کے بعد تین لفظوں میں بڑے محتاط اور ’’مفصل‘‘ انداز میں اپنے خاندان میں اس نئے اضافے پر تبصرہ کیا تھا جو فی الحال اسی قسم کے انکوبیٹر میں تھا جس میں اس نے پہلی بار اسے دیکھا تھا۔ اس کے برعکس عنایہ بڑے اشتیاق سے والہانہ انداز میں اس ’’چھوٹے بھائی‘‘ کو دیکھ رہی تھی، جس کی آمد کے بارے میں وہ مہینوں سے سن رہی تھی اور جسے ایک پری پرستان سے ایک رات ان کے گھر چھوڑ کر جانے والی تھی۔
امامہ کی باتیں سن سن کر اسے چھوٹے بھائی سے زیادہ اس پری کو دیکھنے میں دلچسپی ہوگئی تھی جو ان کے گھر روز یہ دیکھنے آتی تھی کہ انہیں بھائی کی ضرورت تھی یا نہیں۔ وہ امامہ سے بھائی سے زیادہ پری کے بارے میں اشتیاق سے کرید کرید کر پوچھتی تھی۔ جبریل البتہ پاس بیٹھا اپنی اسٹوری بکس کے صفحے الٹتے پلٹتے ان دونوں کی گفت گو سنتا رہتا تھا۔اس نے کبھی نہ بھائی کے بارے میں سوال کیا تھا نہ پری کے بارے میں، کیوں کہ اسے پتا تھا ’’ممی‘‘ جھوٹ‘‘ بول رہی تھیں۔ کیوں کہ نہ پریاں ہوتی ہیں اور نہ بھائی کو پری نے لانا تھا۔ بھائی کو اسپتال سے آنا تھا اور اسپتال خود جاناپڑے گا اور وہ بھی کار سے سڑک کے ذریعہ اس اسپتال میں جہاں وہ ممی کے ساتھ جاتے تھے، لیکن اس نے اپنی یہ معلومات صرف عنایہ کے ساتھ تنہائی میں شیئر کی تھیں امامہ کے سامنے نہیں۔
’’کیا ممی جھوٹ بولتی ہیں؟‘‘ عنایہ نے اس سے پوچھا۔
’’نہیں۔ وہ جھوٹ نہیں بولتیں لیکن تم چھوٹی ہو، اس لئے وہ تم سے یہ کہتی ہیں۔‘‘
اس نے بڑے مدبرانہ انداز میں بہن کو سمجھایا تھا، جس نے بھائی کی فراٹے دار زبان اور
سن سن کر بہت جلدی بولنا شروع کردیا تھا۔
وہ سب اس وقت امریکن ایمبیسی کے اندر موجود ایک چھوٹے سے میڈیکل یونٹ میں تھے۔ وہ طوفان جوان کی زندگی اڑانے آیا تھا، کچھ بھی تہس نہس کئے بغیر قریب سے گزرکر چلا گیا تھا۔
امامہ اپنے تینوں بچوں کے ساتھ سالار سے بات چیت کے بعد اب پرسکون تھی۔ اس نے وقفے وقفے سے پاکستان میں سب سے بات کی تھی، سب کو اپنی خیریت کی اطلاع دی تھی اور سب سے حمین کی پیدائش پر مبارک باد وصول کی تھی۔ بچے کی جنس کا پتا چلنے کے بعد وہ کوئی مہینے پہلے ہی اس کا نام طے کرچکے تھے۔ حمین کی حالت بہتر تھی۔ وہ کمزور تھا لیکن صحت مندا اور ایکٹو تھا۔
اگر اس کی پیدائش قبل از وقت نہ ہوئی ہوتی اور امامہ کی سرجری نہ ہوئی ہوتی تو سالار فوری طور پر ان کو وہاں سے واشنگٹن بلوانے کی کوشش کرتا، لیکن فوری طور پر امامہ اور حمین ایئر ٹریول نہیں کرسکتے تھے۔ اس لئے سالار کا نگو آنے والا تھا اور وہ اب اس کے انتظار میں امریکن ایمبیسی میں تھے جہاں بہت سے اور بھی لوگ پناہ لئے ہوئے تھے، جب تک انہیں کانگو سے نکالنے کے انتظامات نہ ہوجاتے یا حالات پر قابو نہ پالیا جاتا۔ امامہ اور اس کے بچوں کو ہائی پروفائل گیسٹ کا اسٹیٹس ملا ہو ا تھا۔ امامہ کو اگر یہ پتا ہوتا کہ اس ہائی پروفائل اسٹیٹس سے پہلے اس کے شوہر پر امریکہ میں کیا گزری تھی تو وہ مر کر بھی امریکن ایمبیسی کی شکل نہ دیکھتی۔
سالار نے اسے ہر بات سے بے خبر رکھا تھا۔ فون پر ان کی بہت لمبی بات نہیں ہوسکی تھی۔ سالار نے اسے آرام کرنے کے لئے کہا تھا۔ اسے خود فوری طور پر ورلڈ بینک کے ہیڈ کوارٹرز میں ایک میٹنگ اٹینڈ کرنی تھی۔ اس نے امامہ سے کہا تھا۔ کوئی سگنلز اور سیٹلائٹ کا مسئلہ تھا جس کی وجہ سے اس کا رابطہ اس سے نہیں ہوپارہا تھا اور اسی وجہ سے وہ اس قدر پریشان تھا۔
امامہ نے پیٹرس ایباکا کے حوالے سے بات کی تو اسے تسلی دی کہ سب کچھ ٹھیک ہے، وہ پریشان نہ ہو۔ اس کی زندگی کو کوئی خطرہ نہیں۔ وہ اس سلسلے میں پولیس سے بھی رابطے میں ہے۔




Loading

Read Previous

ہائے یہ عورتیں — کبیر عبّاسی

Read Next

رعونت — عائشہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!