آبِ حیات — قسط نمبر ۷ (حاصل و محصول)

’’تمہیں پتا ہے، میں اس وقت کہاں کھڑا ہوں؟ ٹائم وارنر سینٹر … اور کس لئے…؟ میں ابھی کچھ دیر پہلے اینڈرسن کو وپر کے ساتھ تھا، سی این این اسٹوڈیو میں… اس کے شو میں شرکت سے پہلے ابتدائی بات چیت کے ایک سیشن کے لئے… مجھے پتا ہے اس وقت تم کہو گے’’اوہ مائی گاڈ!‘‘
“Man, you did it!”
“Yes, I did it.”
سالار نے ایک لمحہ کے لئے آنکھیں بند کرلیں۔ وہ کئی راتوں سے سو نہیں پایا تھا۔ آنکھوں میں جلن تھی لیکن جس چیز نے اس وقت اس کی آنکھوں دھندلایا تھا وہ… وہ مسکراہٹیں تھیں۔ ایبا کا کے اختتام پر جس میں وہ فخریہ انداز میں مسکرایااور بیٹ اچھال کر آنکھیں گھما رہا تھا۔
’’اینڈرسن کووپر سے ملنے کے بعد میں نے سب سے پہلا میسج تمہیں کیا ہے… کیوں کہ میں یہاں تک کبھی نہ پہنچ پاتا، اگر مجھے تمہاری صورت میں ورلڈ بینک کی بے ضمیر دنیا میں ضمیری کی جھلک نہ دکھائی دیتی… میں نے کبھی تمہیں یہ نہیں بتایا کہ جب میں پہلی بار تم سے ملا تھا تو میں اس جنگ میں ہتھیار ڈالنے کے لئے تیار بیٹھاتھا… ناامیدی اور مایوسی کے علاوہ اس وقت میرے پاس کچھ نہیں تھا… میں ایک ہاری ہوئی جنگ لڑرہا تھا… اسوو قت مجھے یہ احساس ہورہا تھا اور میں بہت کمزور تھا۔
میں ان دیوؤں کے سامنے واقعی ایک پگمیز تھا جو میرے ملک کو لوٹنے آئے تھے اور میں کچھ کر نہیں پارہا تھا اپنے لوگوں کے لئے… اور پھر میں تم سے ملا اور مجھے لگا مجھے ابھی ہتھیار نہیں ڈالنے چاہئیں… ابھی امید تھی… تمہاری صورت میں… اور میں ٹھیک تھا… میں امید نہیں چھوڑی، جنگ جاری رکھی اور میری امید مجھے یہاں تک لے آئی کہ اب چند دنوں میں پوری دنیا کانگو کے بارے میں بات کرے گی… ہم چھوٹے، کالے، بدصورت… معمولی انسانوں کے بارے میں… جو دنیا میں صرف مفتوح اور غلام بننے نہیں آئے… میں نے آج کووپر کو تمہارے بارے میں بھی بتایا۔ وہ تم سے بھی بات کریں گے… مجھے یقین ہے اب کانگو کی تاریخ بدلنے والی ہے… میرے لوگ اب ایک اچھی زندگی جئیں گے… ’’انسانوں‘‘ جیسی زندگی’’جانوروں‘‘ جیسی نہیں… تم جب واشنگٹن پہنچ جاؤ تو مجھے انفارم کرنا… ہم دونوں کو ملنا ہے… کافی دن ہوگئے… اسٹار بکس کی کافی پیے… اس بار بل میں پے کروں گا…‘‘ ای میل کا اختتام ایک اور مسکراہٹ سے ہوا تھا۔ ایک آنکھ مارتی شرارتی مسکراہٹ سے…
سالار سکندر کسی بت کی طرح ان جملوں کو بار بار پڑھتا رہا… بار بار … ہر بار آخری جملے تک پہنچتے پہنچتے اسے لگتا تھا وہ گزشتہ سارے جملے بھول چکا ہے… اس نے درجنوں بار اس رات اس ای میل کو پڑھا تھا۔ پیٹرس ایباکا باتونی تھا… بلا کا باتونی… بات شروع کرتا تو بس شروع ہی ہوجاتا تھا… پتا نہیں کن کن کتابوں اور مصنفین اور فلاسفرز کے حوالے دیتا تھا… سالار سکندر اس کی گفت گو سے محظوظ ہوتا تھا اور کبھی کبھار تنگ بھی…
آج اسی ای میل میں ایباکا نے کسی کتاب، کسی فلاسفر کا قول نہیں دہرایا تھا… اس نے صرف وہ کہا تھا جو اس کی اپنی سوچ، اپنے احساسات تھے… ہمیشہ کی طرح جذباتیت سے لتھڑے ہوئے… اس نے اس امید کی بات کی تھی جو وہ کھورہا تھا اور جو ایباکا کو وہاں تک لے آئی تھی… کبھی کبھار زبان سے الفاظ نہیں الہامی باتیں نکلتی ہیں۔ اس ای میل میں ایباکا نے بھی ایسی ہی ایک بات کہی تھی جو حرف بہ حرف ٹھیک تھی… کانگو کی تاریخ بدل رہی تھی اور اس تاریخ کو ایباکا نے اپنے خون سے بدلا تھا۔
سالار نے اس ای میل کو بند کردیاتھا۔ اس میں ایباکا نے کوئی اہم بات شیئر کی ہوتی تو اس کے ان باکس سے وہ ای میل غائب ہوچکی ہوتی۔ لیکن اس ای میل نے اس کے دل کے بوجھ کو اور بڑھا دیا تھا۔ وہ جس ترازو کے دو پلڑوں میں جھول رہا تھا اس کا عدم توازن اور بڑھ گیا تھا۔




وہ اس ساری رات مصلے پر بیٹھا گڑگڑاتا رہا تھا… اللہ تعالیٰ سے آزمائش میں آسانی کی بھیک… سیدھے راستے کی بھیک… جس پر سے وہ ایک بار پھر سے بھٹک گیا تھا اور ان لوگوں میں شامل نہ کرنے کی بھیک جن پر اللہ کا عذاب آتا تھا… کہیں نہ کہیں اسے خوف بھی تھا کہ وہ اللہ کے عذاب کو دعوت دے رہا تھا اور اگر اولاد اور بیوی اور مال کی آزمائش جان لیوا تھی تو جان لیوا یہ احساس بھی تھا۔
فجر کے وقت اسے ڈاکٹر سبط علی کا خیال آیا تھا… اور خیال نہیں آیا تھا… وہ جیسے دیوانہ وار ان کی طرف لپکا تھا… وہ ایمرجنسی میں ٹکٹ حاصل کرکے اگلی رات ہی پاکستان دوڑا چلا آیا تھا۔
ڈاکٹر سبط علی اسے ہمیشہ کی طرح ملے تھے، گرم جوشی سے… لیکن حیرانی سے… وہ کئی سالوں کے بعد اس طرح اچانک ان کے پاس بھاگتا آیاتھا… انہوں نے اس سے باری باری سب کی خیریت دریافت کی۔
’’امامہ ٹھیک ہے؟‘‘
’’جی…!‘‘ وہ ہمیشہ کی طرح اس دن بھی ان کی اسٹڈی میں اکیلا، ان کے پاس بیٹھا تھا… سرجھکائے۔
’’جبریل کیسا ہے؟‘‘ انہوں نے اگلا سوال کیا۔
’’وہ بھی ٹھیک ہے۔‘‘
’’عنایہ؟‘‘ …’’وہ بھی…‘‘
’’اور حمین؟‘‘
’’وہ بھی…‘‘ وہ سرجھکائے ایک ایک کے بارے میں بتاتا گیا۔ ڈاکٹر سبط علی الحمدللہ کہتے رہے، پھر ایک لمبی خاموش کے بعد انہوں نے اس سے مدھم آواز میں پوچھا۔
’’اور تم؟‘‘
’’نہیں، میں ٹھیک نہیں ہوں۔‘‘ اس بار سالار سکندر نے سراٹھایا تھا اور پھر بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگا۔ وہ دم بخود اسے دیکھتے رہے۔ وہ پہلی بار ایسے ٹوٹ کر رویا تھا۔
’’مجھ سے ایک گناہ ہوگیا ہے ڈاکٹر صاحب!‘‘ اس نے روتے ہوئے اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں سے رگڑتے ہوئے کہا۔
ڈاکٹر صاحب نے کچھ نہیں کہا۔ وہ صرف اسے دیکھتے رہے تھے۔ چند لمحوں بعد انہوں نے کہا۔
’’مجھے مت بتانا…‘‘ سالار نے حیران ہوکر ان کا چہرہ دیکھا۔
’’آپ کو بتانے کے لئے ہی آیا ہوں یہاں۔‘‘
’’میں تمہارا گناہ جان کر کیا کروں گا؟ اب روک سکتا نہیں تمہیں… پچھتاوا دیکھ چکا ہوں… بہتر ہے اپنے اور اللہ کے درمیان ہی رکھو اسے… جو پردہ ہے، اسے پردہ رہنے دو… اللہ غفور الرحیم ہے… معاف کرنے کی قدرت رکھتا ہے اور معاف کرتا ہے اپنے بندوں کو۔‘‘ انہوں نے ہمیشہ کی طرح تحمل سے اسے سمجھایا تھا۔
’’میں بتاؤں گا نہیں تو میری گمراہی ختم نہیں ہوگی… آپ کو اندازہ نہیں ہے۔ میں کتنی تاریکی میں کھڑا ہوں… اندھیرا ہے کہ بڑھتا ہی جارہا ہے اور مجھے اس تاریکی سے خوف آنے لگا ہے۔‘‘
ڈاکٹر سبط علی نے اسے اس بے چارگی میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ان کے پاس وہ جب کبھی آتا تھا کسی مشکل میں ہی ہوتا تھا… انہوں نے ایسی حالت میں اسے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
’’میں نے سود والا رزق چن کر اللہ کی حد توڑی ہے اور مجھ پر ایک کے بعد ایک پریشانی آرہی ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے میں کیا کروں۔‘‘
وہ ایک بار پھر رونے لگا تھا۔ وہ اعتراف جو ضمیر کرتا رہتا تھا وہ آج پہلی بار کسی دوسرے انسان کے سامنے اپنی زبان سے کررہا تھا۔
’’توبہ کرلو اور وہ رزق چھوڑدو۔‘‘ انہوں نے بلا توقف بڑی سہولت سے کہا۔
’’توبہ آسان ہے مگر دلدل سے نکلنا آسان نہیں ہے میرے لئے۔‘‘ انہوں نے سالار کی بات کے جواب میں کہا۔
’’آسان تو کچھ بھی نہیں ہوتا دنیا میں … لیکن ممکن بنالیا جاتا ہے۔‘‘
’’میں 37 سال کا ہوں… اپنی عمر کے دس سال میں نے دنیا کے بہترین مالیاتی اداروں میں کام کیا ہے۔ سارا رزق سود سے کمایا ہے، وہ بھی جو میں نے اپنی ذات پر خرچ کیا، وہ بھی جو میں نے دوسروں پر خرچ کیا… جس رزق سے میں اپنی اولاد اور بیوی کی کفالت کررہا ہوں۔ وہ بھی سود ہے… لیکن میری سمجھ میں نہیں آرہا، میں اب کیا کروں؟‘‘
ڈاکٹر سبط علی نے اس کی بات کاٹ دی۔ ’’اتنے سالوں بعد آپ کو اب یہ احساس کیوں ہوا کہ آپ کا رزق حلال نہیں حرام ہے؟‘‘
ان کا لہجہ اسے پہلی بار عجیب محسوس ہواتھا۔
’’کیوں کہ مجھے سکون نہیں ہے۔ زندگی میں کچھ نہ کچھ غلط ہوتا جارہا ہے۔ مجھے لگتا ہے شاید میرا رزق میری آزمائشوں کی وجہ ہے۔‘‘
وہ بے بس انداز میں کہہ رہا تھا۔
’’آپ کو یاد ہے جب آپ میرے پاس امامہ کی بیماری کے دنوں میں آئے تھے اور کہتے تھے کہ آپ کے گھر میں بے سکونی کیوں ہے۔ امامہ آپ سے محبت کیوں نہیں کرتی۔ آپ نے اس کے لئے دنیا کی ہر نعمت کا انبار لگادیا ہے۔ اس پر احسانوں کی حد کردی ہے۔ پھر بھی وہ آپ سے التفات کیوں نہیں رکھتی۔ بے رخی کیوں برتتی ہے؟ ناشکری کیوں ہے؟ احسان کو کیوں نہیں مانتی؟‘‘
وہ ڈاکٹر سبط علی کا چہرہ دیکھنے لگا۔
’’میں نے آپ سے کہا تھا۔ یہ سب اس کی وجہ سے نہیں ہورہا، آپ کی وجہ سے ہورہا ہے۔ اس بے سکونی کی جڑ آپ کے رزق میں ہے۔ وہ رزق وہاں سے آتا رہے گا، آپ کی زندگی ایسی ہی رہے گی۔ تب آپ یہ کہہ کر چلے گئے تھے کہ میں اب تو بینک میں کام نہیں کرتا۔ اب تو کسی اور ادارے میں کسی اور حیثیت سے کام کرتا ہوں اور آپ نے یہ بھی کہا کہ میں ہمیشہ کی طرح امامہ کی حمایت کررہا ہوں، اس کی کسی غلطی کو تسلیم نہیں کروں گا۔ ہر بات کا قصور وار آپ ہی کو قرار دوں گا۔‘‘
وہ اسی طرح دھیمے انداز میں کہہ رہے تھے۔




Loading

Read Previous

ہائے یہ عورتیں — کبیر عبّاسی

Read Next

رعونت — عائشہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!