آبِ حیات — قسط نمبر ۷ (حاصل و محصول)

اس کے بچپن میں اسکول میں اس کے ٹیچرز سے ملتے ہوئے وہ اپنی اس پانچویں ’’خبیث اولاد‘‘ کی عزت انہیں الفاظ میں کرتے تھے کیوں کہ سائیکاٹرسٹ نے انہیں سختی سے سمجھایا تھا کہ ان کے ملامتی جملے ان کے اس غیر معمولی ذہین بیٹے کے دماغ اور نفسیات پر برے اثرات چھوڑ سکتے ہیں اور اپنی اس پانچویں اولاد کے کارناموں پر جلنے کڑھنے کے باوجود آئی لو یو کہتے تھے اور آئی ایم پر اؤڈ آف یو بھی…
ورلڈ بینک کا صدر سالار سکندر کا باپ نہیں تھا مگر امریکا تھا اور اس وقت اگر بینک کے صدر کو اپنے عہدے کے لالے پڑے ہوئے تھے تو امریکا کو افریقہ میں اپنے مفادات اور اس ساکھ کے جس اچھی ساکھ کا اسے وہم تھا۔ سالار سکندر انہیں اس وقت وہ مسیحا لگ رہا تھا جو ’’سب کچھ‘‘ کرسکتا تھا کم از کم افریقہ میں…
پریذیڈنٹ کے جملے پر بورڈ روم کے لوگوں نے تالیاں بجائی تھیں یوں جیسے وہ رپریذیڈنٹ کی تعریف کی تائید کررہے ہوں۔ سالار نے شکریہ ادا کیا تھا اور پریذیڈنٹ کے سیٹ سنبھالنے کے بعد سب لوگوں کی طرح اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا تھا۔
پریذیڈنٹ نے کانگو کی صورت حال سے گفت گو کا آغاز کیا تھا اور وہاں ورلڈ بینک کے ملازمین پر ہونے والے حملوں میں زخمی اور مارے جانے والے لوگوں کے لئے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی تھی اور اس کے بعد پیٹرس ایباکا کو شان دار خراج عقیدت پیش کیا تھا چند جملوں میں اور پھر وہ سالار سکندر کی رپورٹ پر آگیا تھا جو بینک کے بورڈ آف گورنرز نے ’’پڑھ‘‘ لی تھی۔ نہ صرف ’’پڑھ‘‘ لی تھی بلکہ اس رپورٹ کی تمام سفارشات کو مانتے ہوئے ایک انکوائری کمیشن تشکیل دیا گیا تھا جو اس پروجیکٹ کو وقتی طور پر معطل کرتے ہوئے نئے سرے سے اس کا جائزہ لے گا۔
سالار سکندر نہ حیران ہوا تھا نہ متاثر…اسے اندازہ تھا ورلڈ بینک اس سے کم میں کانگو میں دوبارہ داخل نہیں ہوسکتا تھا۔ انہیں وہ پروجیکٹ اب ان حالات میں ختم کرنا ہی تھا اور اگر وہ یہ ظاہر کررہے تھے کہ بورڈ آف گورنرز نے وہ رپورٹ ’’اب‘‘ پڑھی تھی اور اس کو فوری طور پر متفقہ طور پر منظور کرلیا تھا تو ان کے پاس اس کے علاوہ اور چارہ ہی نہیں تھا۔ یہ نقصان کو کنٹرول کرنے کے لئے اختیار کی جانے والی سی آئی اے کی حکمت عملی کا پہلا حصہ تھا۔ یہ پنڈورا باکس ان کی وجہ سے کھلا تھا، اب اس کو انہیں ہی بند کرنا تھا۔ وہ جس جارحیت کو بہترین حکمت عملی مان کر چلے تھے، ناکام ہوگئی تھی تو انہیں اب بیک فٹ پر جاکر دفاعی حکمت عملی اختیار کرنی پڑ رہی تھی۔
سالار سکندر خاموشی سے پریذیڈنٹ کی گفت گو سنتا رہا تھا۔ اس نے اپنی گفتگو کے اختتام پر سالار سکندر کو دی جانے والی نئی ذمہ داریوں کا اعلان کیا تھا۔ بورڈ روم میں بجتی ہوئی تالیوں میں وہ بے تاثر چہرے کے ساتھ اپنی بے وقعت خدمات کے صلے میں ملنے والے اہم ترین عہدہ کی قدر و قیمت کا اندازہ لگا رہا تھا۔




اس کی پریزنٹیشن جو اس نے کچھ دن پہلے اسی بورڈ روم میں پیش کرنے سے بھی کئی ماہ ورلڈ بینک کو بھیجی تھی اور جس پر اسے خاموشی سے رپورٹ واپس لینے یا عہدہ چھوڑ دینے کی دھمکی دی گئی تھی، اب بورڈ روم میں دوبارہ چلائی جارہی تھی اور بورڈ روم میں بیٹھا ہوا ہر شخص اس رپورٹ میں پیش کئے جانے والے حقائق اور سلائیڈز کو دیکھ کر یوں حیران و مضطرب نظر آنے کی کوشش کررہا تھا جیسے وہ زندگی میں پہلی بار اس رپورٹ سے اور اس رپورٹ کے اندر پیش کئے جانے والے حقائق سے متعارف ہورہا ہو۔ اگر وہ ایکٹرز تھے تو کسی تھرڈ کلاس تھیٹر کمپنی کے اور اگر منافق تھے تو اعلیٰ معیار کے…
سالار کو وہاں بیٹھے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ دنیا کے طاقت ور ترین مالیاتی ادارے کے ہیڈ کوارٹر میں نہیں بلکہ کسی گھٹیا تھیٹر میں چلنے والے مزاحیہ ڈرامے کے سامنے بیٹھا ہے جس میں ہر ایکٹر اوور ایکٹنگ کررہا تھا اور مشین میں ریکارڈ قہقہے اور تالیاں ہر ہر جملے اور ایکسپریشن پر بج بج کر اسے ماسٹر پیس ثابت کرنے پر تلے تھے۔
’’میں صدر اور بورڈ میں موجود تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے مجھے یہاں آنے کا موقع دیا۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ اس رپورٹ کو بنیاد بناتے ہوئے اس میں پیش کی جانے والی تمام سفارشات کو مان لیا گیا ہے۔ مجھے امید ہے اس قدم کے اٹھانے سے ورلڈ بینک کو ایک بار پھر کانگو میں اپنی ساکھ بحال کرنے میں مدد ملے گی۔‘‘
میٹنگ پر سالار سکندر کو بات کرنے کے لئے کہا گیا تھا اور اس نے بہتر مختصر بات کی تھی۔ ٹو داپوائنٹ، فارمل، پروفیشنل… جذباتیت کے بغیر… اور اسی دو ٹوک انداز میں، جس کے لئے وہ مشہور تھا۔
’’میں شکر گزار ہوں کہ ورلڈ بینک اور بورڈ آف گورنرز نے مجھے نائب صدر کے لئے منتخب کیا لیکن میں اپنی ذاتی مصروفیات کی وجہ سے یہ عہدہ نہیں سنبھال پاؤں گا۔ مجھے یقین ہے ورلڈ بینک کی ٹیم میں اس عہدے کے لئے مجھ سے زیادہ موزوں لوگ موجود ہیں۔‘‘
صدر نے اس کے آخری جملوں پر بے چینی سے اپنی نشست پر پہلو بدلا۔ اسے توقع تھی اور صرف ’’اسے‘‘ نہیں ’’انہیں‘‘ تو قع تھی کہ سالار سکندر کا جواب اس آفر پر کیا آئے گالیکن اس کے باوجود اسے بے چینی ہوئی تھی۔ اس وقت انہیں اپنی ساکھ بچانا تھی اور یہ کام اس وقت سالار ہی کرسکتا تھا۔
وہ میٹنگ اس کے بعد دو تین منٹ کے اندر ختم ہوگئی اور اس کے بعد سالار ورلڈ بینک کے صدر سے اکیلے میں ملا تھا۔ وہاں کا ماحول الگ تھا، جو باتیں ہوئی تھیں وہ بھی کچھ اور تھیں۔
’’مجھے اپنے کمرے سے چوری ہونے والی تمام چیزیں چاہئیں۔ لیپ ٹاپ… ٹریول ڈاکومنٹس… میرے باقی ڈاکومنٹس۔‘‘
سالار سکندر نے اس کمرے میں میٹنگ کے شروع میں ہی ایجنڈا سیٹ کیا تھا، اب اس کا کچھ بھی داؤ پر نہیں لگا تھا اور وہ باتیں منوانے ہی آیا تھا۔
’’آپ کے کمرے سے چوری ہوجانے والی چیزوں سے ورلڈ بینک کا کیا تعلق…‘‘
صدر نے انجان بننے کی پہلی اور آخری کوشش کی ۔ سالار نے بات کاٹ دی تھی۔
’’اگر میری چیزیں نہیں مل سکتیں تو پھر مجھے کسی بھی ایشو پر بات کرنے کے لئے یہاں نہیں بیٹھنا…‘‘
صدر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھتا رہا پھر اس نے لہجہ نرم رکھتے ہوئے اسے جیسے چمکارا۔
’’میں ہدایات جاری کرتا ہوں کہ فوری طور پر آپ کے نقصان کی تلافی کی جائے اور آپ کے ڈاکومنٹس کا متبادل …‘‘
سالار نے اسی اکھڑپن سے اس کی بات کاٹی تھی۔ ’’مجھے اپنی چیزیں چاہئیں… نہ نقصان کی تلافی چاہیے نہ کوئی متبادل… مجھے اپنے اوریجنل ڈاکومنٹس چاہئیں۔‘‘
خاموشی کے ایک لمبے وقفے کے بعد صدر نے ہتھیار ڈالے اور کہا۔
’’ٹھیک ہے، مل جائیں گے… لیکن ورلڈ بینک اور امریکا کو کانگو میں آپ کی ضرورت ہے۔‘‘ ایک شرط اس نے منوائی تھی ایک شرط انہوں نے رکھ دی تھی۔
’’میں کسی کی کٹھ پتلی بن کر کانگو میں وہاں کے انسانوں کا استعمال نہیں کرسکتا، نہ کروں گا۔‘‘ اس نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
’’آپ کانگو میں جاکر وہ کریں جو آپ کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ صدر نے کہا۔
’’میں بندھے ہاتھوں کے ساتھ کہیں کچھ نہیں کرسکتا۔‘‘
’’نائب صدر کے طور پر آپ کو لامحدود پاورز دیئے جائیں گے اور فوری طور پر مطلع کردیا جائے گا آپ اس پروجیکٹ کو روکنا چاہتے ہیں یا وہاں چلنے والے کسی بھی پروجیکٹ کو … آپ کو ہیڈ کوارٹر کی منظوری کی ضرورت نہیں… آپ کو اختیار دیا جائے گا کہ آپ یہ فیصلہ خود کرسکیں گے۔‘‘
چند لمحوں تک سالار بول نہیں سکا۔ یہ جال تھا تو پکا تھا، جھانسہ تھا تو اچھا… وہ ماتھے پر بلوں کے ساتھ ہونٹ کاٹتا میز کے دوسرے طرف بیٹھے اس شخص کو دیکھتا رہا جس کی کرسی کسی بھی وقت جانے والی تھی اور یہ اندازہ صرف صدر ہی کو نہیں سب کو تھا مگر وہ ایک باعزت راستہ چاہتا تھا۔ لاتیں کھا کر جانے کے بجائے باتوں کے ذریعے جانا چاہتا تھا۔
’’جتنے اختیارات آپ مجھے دے کر کانگو میں بھیجنا چاہتے ہیں، اتنے اختیارات آپ کسی کو بھی دے کر کانگو بھیج دیں وہ صورت حال سنبھال لے گا۔‘‘ سالار نے کچھ لمحے خاموشی کے بعد کہا۔
’’ایشو اختیارات کا نہیں ہے، نیت کا ہے… جو تم افریقہ میں کرنا چاہتے ہو ، کوئی دوسرا نہیں کرنا چاہے گا۔‘‘ سالار اس شخص کا چہرہ دیکھتا رہا۔
’’کچھ وقت لو… سوچو… پھر فیصلہ کرو۔‘‘ اسے قید کرکے آزاد کیا گیا تھا۔
اس نے واپسی پر بھی میڈیا سے بات نہیں کی۔ الجھن تھی کہ اور بڑھی تھی… گھٹن تھی کہ سوا ہوئی تھی۔ واپسی کا راستہ بھی اس لیموزین کے کانٹوں پر طے ہوا تھا۔
ہوٹل میں واپس آتے ہی اس نے کمرے میں ٹی وی پر نہ صرف ورلڈ بینک ہیڈ کوارٹر جاتے، اپنی فوٹیج دیکھ لی تھی بلکہ نیوز چینلز پر اپنی تعیناتی کی بریکنگ نیوز بھی دیکھ لی تھی۔ ’’وہ‘‘ اس کے لئے ’’انکار‘‘ مشکل سے مشکل تر بنارہے تھے… جال کی ڈوریاں کستے جارہے تھے۔ اس کا سیل فون منٹوں میں مبارک باد کے پیغامات اور کالجز سے بجنے لگا تھا۔
پہلے اس فون کا نہ بجنا قیامت تھا اور اب بجے چلے جانا عذاب اور اس سب کے بیچوں بیچ اس نے امامہ کو کال کی تھی، یہ جاننے کے باوجود کہ یہ خبر اس تک بھی پہنچ گئی ہوگی۔ اس کا ردعمل کیا ہوسکتا تھا؟ اسے یاد تھا اس نے امامہ کے ساتھ پہلے عمرے کے بعد اس سے وعدہ کیا تھا کہ وہ بینک کی ملازمت چھوڑ دے گا، نوکری اس کے لئے مسئلہ نہیں تھی۔ وہ نوکری کبھی بھی، کہیں بھی حاصل کرسکتا تھا مگر اس سے پہلے اس نے کبھی یہ غور نہیں کیا تھا کہ وہ جن جگہوں پر کام کرتا رہا تھا، وہ بلاواسطہ یا بالواسطہ ’’سود‘‘ سے منسلک رہے تھے۔ بڑے بڑے مالیاتی ادارے… آرگنائزیشنز، وہ سب جو دنیا کی اکنامک پلس چلاتے تھے۔ وہ سود کے خون سے ہی چلاتے تھے۔ فلااحی کام ہو یا سماجی ذمہ داری… پر خیرات کا رستہ بھی وہیں سے نکلتا تھا اور سالار سکندر اس سب کا حصہ تھا۔ اس بین الاقوامی مالیاتی نظام کا ایک پرزہ تھا جو سود کے پیسے سے چل رہا تھا۔ وہ یہ نہیں کہہ سکتا تھا اسے ’’احکامات‘‘ کا علم نہیں تھا۔ وہ یہ اعتراف کرتا تھا، اسے تمام ’’حدود‘‘ کا پتا تھا اور وہ ’’حدود‘‘ توڑنے کا گناہ گار چلا آرہا تھا… زندگی میں بہت دفعہ رزق ہمیں مجبور کردیتا ہے کہ ہم کھانے والے پیٹ کا سوچیں کمانے والے ہاتھ کا نہیں… سالار کو رزق کی مجبوری نہیں تھی مگر کامیابی کی بھوک ضرور تھی… احساس کئے بغیر…




Loading

Read Previous

ہائے یہ عورتیں — کبیر عبّاسی

Read Next

رعونت — عائشہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!