آبِ حیات — قسط نمبر ۷ (حاصل و محصول)

امامہ نے پہلی دفعہ بڑی ڈھٹائی سے اس شیشے کے گھر کو توڑا تھا جو اس نے اپنے گرد بنایا تھا۔ اسے وہ عکس دیکھنے پر مجبور کیا تھا جسے وہ اپنا نہیں مانتا تھا… وہ اعتراف نہیں کرتا تھا لیکن شرمسار ہوگیا تھا… پریشان بھی… لیکن پھر اسے یہ اطمینان بھی تھا کہ اس کا بینک کے ساتھ کانٹریکٹ ختم ہورہا تھا اور وہ اسے دوبارہ ری نیو نہیں کرے گا۔
امریکا جاکر اس نے پی ایچ ڈی کے ساتھ جس مالیاتی ادارے میں جز وقتی اکانومسٹ کی نوکری کی تھی۔ وہ کوئی انویسٹمنٹ بینک نہیں تھا، لیکن کہیں نہ کہیں وہ بھی سود کے کاروبار سے مبرا نہیں تھا، لیکن سالار اپنے آپ کو یہ تسلی دلاتا تھا کہ وہ وہاں ایک اکانومسٹ کے طور پر کام کررہا ہے۔ وہ ادارہ اس سے سود سے منسلک کوئی کام نہیں لے رہا مگر ضمیر کہیں نہ کہیں ایک سوئی اسے چبھوتا رہتا تھا… اس کی تنخواہ وہیں سے آتی تھی، جہاں سود کا منافع آتا تھا۔
ورلڈ بینک کو جوائن کرنے کے فیصلے سے امامہ خوش نہیں تھی، اس کا اعتراض وہی تھا اور وہیں تھا۔
’’تم بے شک ورلڈ بینک کے پروجیکٹس سے منسلک ہورہے ہو لیکن ورلڈ بینک کرتا تو سود کا کاروبار ہی ہے نا… چھوٹے بینک افراد کا استعمال کرتے ہیں ورلڈ بینک قوموں کا… تم مجھے بتاؤ فرق کیا ہوا…؟ آسان قرضہ… سستا قرضہ… لونگ ٹرم قرضہ… شارٹ ٹرم قرضہ… آسان شرائط کا قرضہ… کوئی ایسا قرضہ ہے ورلڈ بینک کے پاس جس پر وہ سود نہ لیتا ہو…‘‘ اس نے سالار کے ساتھ بحث کی تھی۔
جبریل ابھی ایک سال کا تھا… سالار کو لگا تھا زندگی یک دم پرسکون ہونے لگی ہے… ایک خوش حال خاندان… زندگی کا وہ فیز جو وسیم اور سعد کی حادثاتی موت کے بعد امامہ کے ڈپریشن اور پاکستان چلے جانے کے ساتھ شروع ہوا تھا، وہ آہستہ آہستہ ہی سہی لیکن ختم ہوتا چلا گیا تھا اور تب جو موقع سالار کو ورلڈ بینک کی صورت میں ملا تھا، وہ اس کے تجربے اور عمر کے حساب سے بہت شاندار تھا۔ وہ امامہ کے اعتراضات پر بے حد ناراض ہوا تھا۔
’’اگر ہم اسی طرح ایک ایک چیز میں مین میخ نکالتے رہیں گے تو پھر اس معاشرے اور سسٹم میں تو کہیں بھی کام نہیں کرسکیں گے کیوں کہ یہ تو پورا معاشرہ سود پر کھڑا ہے اور ہمارے لئے اپنے سسٹم کو نہیں بدلیں گے۔‘‘ اس نے امامہ کو سمجھانے کی کوشش کی تھی۔
’’پھر تو ہمیں حلال کھانے کی کوشش بھی نہیں کرچاہیے۔ پھر تم سپر اسٹور میں ڈبوں پر ان کے اجزا کیوں چیک کرتے رہتے ہو…؟ بس یہ سمجھ کر کھا لینا چاہیے یہ سب کچھ کہ یہ ہمارا نہیں، ان کا معاشرہ ہے اور وہ اپنے سپر اسٹور میں وہ چیزیں رکھیں گے جو انہیں پسند ہیں۔‘‘




امامہ نے چند لمحوں کے لئے اسے لاجواب کردیا تھا۔ وہ بحث جاری رکھنے کے بجائے وہاں سے اٹھ گیا تھا لیکن امامہ کے ناخوش ہونے کے باوجود اس نے ورلڈ بینک جوائن کرلیا تھا اور ورلڈ بینک جوائن کرنے کے بعد اس نے پہلا کام یہ کیا تھا کہ اس نے اپنا ایگری منٹ اور جاب پروفائل کے کاغذات امامہ کو زبردستی پڑھ پڑھ کر سنائے تھے۔ اس نے سب کچھ سننے کے بعد ان پیپرز کو واپس لفافے میں ڈال کر اسے دیتے ہوئے کہا تھا۔
’’تم سود کے پیسے سے انسانیت کی خدمت اور بہتری کے خواب دیکھ رہے ہو اور تمہیں لگتا ہے کہ اس میں فلاح ہے…! نہیں ہے… سود کا ثمر انسانوں کی زندگی بدل سکتا ہے، مگر تباہی میں… بہتری میں نہیں۔‘‘
اس کی سوئی جہاں اٹکی تھی، وہیں اٹکی رہی تھی… امامہ ضدی تھی، سالار کو اس کا اندازہ تھا… وہ خود بھی ضدی تھا لیکن ان کی ضد کبھی ایک دوسرے کے مقابل نہیں آئی تھی… کہیں نہ کہیں ان میں سے کوئی نہ کوئی دوسرے کے سامنے ہتھیار ڈال دیتا تھا…وہ پوائنٹ آف نوریٹرن پر کبھی نہیں گئے تھے… اس ایک ایشو پر بھی اس سے شدید نظریاتی اختلاف رکھنے کے باوجود امامہ نے ہر بار روزگار کے سلسلے میں اس کے انتخاب کو بہ امر مجبوری قبول تو کیا تھا لیکن اس نے کبھی اس روزگار کے بارے میں زبان بندی نہیں کی تھی اور اس کی یہ برملا تنقید سالار کو خفا بھی کرتی تھی اور کمزور بھی…
اس دن بھی امامہ کو فون کرتے ہوئے اسے احساس تھا کہ وہ اس سے کیا سننے جارہا ہے لیکن خلاف توقع امامہ نے اس کے نئے عہدے کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی تھی۔ وہ اس سے جبریل اور عنایہ کی باتیں کرتیں رہی… حمین کے بارے میں بتاتی رہی۔ یہاں تک کہ سالار کا احساس جرم حد سے گزر گیا۔ وہ جیسے چاہتا تھا کہ وہ اسے ملامت کرے۔ کوئی تو مبارک باد دینے کے بجائے اس کے ضمیر کو کچو کے لگائے۔
’’تمہیں پتا ہے ورلڈ بینک نے مجھے وائس پریذیڈنٹ …‘‘
امامہ نے اس کو بات مکمل کرنے نہیں دی۔ ’’ہاں۔‘‘ اس نے یک حرفی جواب دیا۔
’’تو؟‘‘ سالار کو اس یک حرفی جواب سے تسلی نہیں ہوئی۔
’’تو کیا؟‘‘ امامہ نے مدہم آواز میں پوچھا۔
’’تو تم کچھ نہیں کہوگی؟‘‘ اس نے جان بوجھ کر یہ نہیں کہا تھا کہ تمہارا کیا خیال ہے۔
’’یس۔‘‘ ایک اور یک حرفی جواب آیا۔
’’کیوں؟‘‘ وہ بے قرار ہوا۔
’’تم ہر فیصلہ اپنی مرضی سے کرتے ہو… پھر رائے دینے کا فائدہ۔‘‘
سالار ایک لمحہ کے لئے خاموش ہوا پھر اس نے مدہم آواز میں کہا۔
’’میں نے ابھی آفر قبول نہیں کی۔‘‘
’’کرلوگے… میں جانتی ہوں۔‘‘ جواب نے اس کے چودہ طبق روشن کئے اور ساتھ اسے ہنسایا بھی۔
’’اس میں ہنسنے والی تو کوئی بات نہیں تھی۔‘‘ امامہ کو اس کی یہ ہنسی اچھی لگی تھی پھر بھی اس نے کہا۔
’’میں جب بھی تمہاری بات نہیں مانتا، نقصان اٹھاتا ہوں۔‘‘
سالار نے اس لمحے عجیب اعتراف کیا۔ وہ جیسے اسے بتانا چاہتا تھا کہ اس نے ورلڈ بینک جوائن کرنے کے حوالے سے اس کی بات نہ مان کر غلط فیصلہ کیا تھا لیکن وہ فی الحال اسے اتنے کھلے لفظوں میں یہ بات نہیں کہہ سکتا تھا۔ اس بار وہ ہنس پڑی تھی۔
’’بڑی خوشی ہوئی یہ بات سن کر… لیکن میں یہ تو نہ سمجھوں نا کہ تم آئندہ ہمیشہ میری بات مانا کرو گے؟‘‘ اس نے سالار پر چوٹ کی تھی۔
’’بالکل۔‘‘ جواب تڑاخ سے آیا۔
اس بار دونوں ہنس پڑے، پھر سالار نے ایک گہرا سانس لیتے ہوئے اس سے کہا۔
’’یہی وہ بات تھی جو کانگو سے آتے ہوئے، تم سے کہنا چاہتا تھا۔‘‘
امامہ کو یاد آیا، اسے ایک اعتراف کرنا تھا، واپس آکر…
’’اوہ… میں نے سوچا، پتا نہیں کیا کہنا چاہتے تھے تم۔‘‘ وہ دھیرے سے ہنسی، پھر اس نے کہا۔
’’ایسا کیا ہوا ہے کہ تم یہ بات کہہ رہے ہو مجھ سے… یا تب کہنا چاہ رہے تھے۔‘‘
وہ یقینا بے وقوف نہیں تھی۔ سالار کی سمجھ میں نہیں آیا اس بات کا کیا جواب دے… جواب دے بھی یا نہیں… جو پچھتاوا پیٹرس ایباکا سے ملاقات اور اس پروجیکٹ کے بارے میں ان حقائق کو جان کر شروع ہوا تھا وہ امریکہ میں پہنچ کر احساس جرم میں تبدیل ہوجائے گا۔ اسے اندازہ نہیں تھا۔
’’تم مجھ سے شیئر نہیں کرنا چاہتے؟‘‘ امامہ نے اس کی خاموشی کو پہیلی کی طرح پوچھا۔
’’ابھی نہیں…‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’یہاں کب آؤگے؟‘‘ امامہ نے بات بدل دی تھی۔
’’ابھی فلائٹس بند ہیں کنشاسا کے لئے … ائیرپورٹ عارضی طور رپر بھی فنکشنل نہیں ہے۔ میں کوشش کررہا ہوں کسی نہ کسی طرح وہاں پہنچ جاؤں لیکن تم پریشان تو نہیں ہونا؟‘‘ سالار نے اس سے پوچھا۔
’’اب نہیں ہوں اور تم بھی پریشان مت ہونا… ہم سب محفوظ ہیں اور مجھے اور حمین کو علاج کی تمام سہولیات مل رہی ہیں۔‘‘
امامہ نے اس کے لہجے میں نمودار ہوتی ہوئی تشویش کو محسوس کرتے ہوئے کہا۔ وہ خود سرجری اور حمین کے پری میچور ہونے کی وجہ سے سفر نہیں کرسکتی تھی، کم از کم ایک ماہ تک… ورنہ سالار خود وہاں جانے کے بجائے اسے وہاں سے نکلوانے کی کوشش کرتا۔
سالار نے بہت مطمئن ہوکر کچھ دیر جبریل اور عنایہ سے بات چیت کی اور اس کے بعد کال ختم کرکے وہ اس لیپ ٹاپ کی طرف متوجہ ہوا اور ان کاغذات کی طرف، جو ابھی کچھ دیر پہلے ایک سربہ مہر تھیلے میں ایک شخص اس کے کمرے میں اسے دے گیا تھا۔ سب کچھ بالکل محفوظ حالت میں تھا، کوئی چیز ڈیلیٹ یا غائب یا بدلی نہیں گئی تھی۔ اس کے باوجود سالار کو اپنے ان باکس میں جاتے ہی یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ کوئی اس سے پہلے بھی وہاں تھا یا شاید اس وقت بھی وہ مانیٹر ہورہا ہوگا کیوں کہ اس کے ان باکس میں موجود سات گھنٹے پہلے تک آنے والی ہر ای میل، کھولے اور پڑھے جانے کی نشاندہی کررہی تھی۔
وہ اپنے فون سے اپنے ان باکس کو access نہیں کرپارہا تھا، ورنہ شاید یہ بات اسے پہلے ہی پتا چل جاتی۔ شاید ورلڈ بینک کے صدر کے ساتھ ملاقات میں اس نے ان چیزوں کی واپسی کا مطالبہ نہ کیا ہوتا تو اس کا ہیکڈ ای میل ایڈریس کبھی دوبارہ اس کے لئے accessible نہ ہوتا۔
اسے اب غصہ نہیں آرہا تھا، نہ ہی بے بسی کی کسی کیفیت کو اس نے اس وقت محسوس کیا تھا۔ جو بلائیں اسے چمٹ چکی تھیں، وہ اس کا اپنا انتخاب تھیں۔ ان باکس میں موجود ای میلز پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے ایک ای میل پر ایک لمحہ کے لئے جیسے اس کا دل لمحہ بھر کے لئے رکا تھا۔ وہ پیٹرس ایباکا کی طرف سے میڈیا سینٹر کے باہر سے اسے بھیجا جانے والا آخری پیغام تھا جو بہت لمبا ہوجانے کی وجہ سے ایباکا نے ٹیکسٹ کرتے کرتے اسے ای میل کردیا تھا۔ بوجھل دل کے ساتھ اس نے اس ای میل کو کھول لیا۔




Loading

Read Previous

ہائے یہ عورتیں — کبیر عبّاسی

Read Next

رعونت — عائشہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!