آبِ حیات — قسط نمبر ۷ (حاصل و محصول)

چار سالہ جبریل نے اپنے خاندان کو درپیش آنے والے اس بحران میں جو رول ادا کیا تھا، وہ اس نے زندگی میں کئی بار ادا کرنا تھا۔ یہ اس ننھے سے بچے کو تب علم نہیں تھا۔
امامہ کے جانے کے بعد ہیڈی کو اچانک خیال آیا تھا کہ امامہ اسے گھر سے کچھ چیزیں لانے کا کہہ کر گئی تھی جو نوزائیدہ بچے اور اس کے لئے ایک بیگ میں گھر پر پہلے ہی پیک کرکے رکھی ہوئی تھیں اور وہ ہیڈی سے ان دونوں بچوں کے لئے کھانے پینے اور ان کے کپڑوں کے لئے بھی کہہ کر گئی تھی کیوں کہ اسے بچوں کو گھر واپس نہیں بھیجنا تھا جب تک سالار نہ آجاتا۔ اس نے ہیڈی سے کہا تھا وہ ان بچوں کو ہاسپٹل میں ہی کسی فی میل اٹینڈنٹ کے پاس چھوڑ کر گھر سے یہ چیزیں لے آئے یا پھر گھر میں موجودی کسی اور ملازم کی مدد لے لیکن وہ بچوں کو کہیں نہیں لے جائے گی۔ ہیڈی کو امامہ کی یہ ہدایات یاد نہیں رہی تھیں۔ ان کا گھر وہاں سے صرف دس منٹ کی ڈرائیو پر تھا اور ہیڈی نے سوچا تھا۔ وہ یہاں ان بچوں کو اکیلا چھوڑنے کے بجائے ان کو اپنے ساتھ ہی لے جائے گی اور واپس لے آئے گی۔
جبریل نے ساتھ لے جانے کی اس کوشش کے جواب میں صاف انکار کرتے ہوئے اسے یاد دلایا تھا کہ ممی نے اس سے کہا تھا وہ وہیں رہیں گے۔ وہ انہیں ساتھ نہیں لے جائے گی۔ ہیڈی کو یاد آگیا تھا اور اس نے دوبارہ اصرار نہیں کیا تھا۔ وہ جبریل کو بہت اچھی طرح جانتی تھی… چار سال کی عمر میں بھی وہ بچہ کسی طوطے کی طرح ماں باپ کی باتیں رٹ کر پھر وہی کرتا تھا اور مجال تھی کہ وہ کسی دوسرے کی باتوں میں آکر امامہ یا سالار کی طرف سے ملنے والی ہدایات فراموش کردیتا۔ ہیڈی انہیں امامہ کی ڈاکٹر کی ایک اسسٹنٹ کے پاس چھوڑ کر فوری طور پر گھر چلی گئی تھی۔
اس کی عدم موجودگی میں عنایہ کو نیند آنے لگی تھی۔ ڈاکٹر کی اسسٹنٹ نے نیند میں جھولتی ہوئی دو سال کی اس بچی کو اٹھا کر ایک بینچ پر لٹانے کی کوشش کی اور جبریل نے اسے روک دیا۔ وہ وہاں سے عنایہ سمیت ہٹنا نہیں چاہتا تھا جہاں ہیڈی اسے بٹھا کر گئی تھی اور جہاں اسسٹنٹ عنایہ کو لے جاکر لٹانا چاہتی تھی، وہ ایک بغلی کمرا تھا…
چار سال کا وہ بچہ اپنی دو سالہ بہن کے ساتھ وہیں پبلک میں بیٹھے رہنا چاہتا تھا کیوں کہ اسے پتا تھا کسی اجنبی کے ساتھ کہیں نہیں جانا چاہیے۔ کسی ایسی جگہ جو دور ہوتی… اسسٹنٹ کچھ حیران ہوکر واپس اپنی ٹیبل پر گئی تھی… وہ ایک انٹرسٹنگ بچہ تھا۔ اس نے اپنے کرسی پر بیٹھے اسے دیکھتے ہوئے سوچا۔ دو سالہ عنایہ اب جبریل کی گود میں سر رکھے سو رہی تھی اور وہ بے حد چوکنا بیٹھا بہن کے سر کو اپنے ننھے ننھے بازوؤں کے حلقے میں لئے ملاقاتی کمرے میں آنے جانے والوں کو دیکھ رہا تھا۔ اور تب وہ عورت ان دونوں کے برابر میں آکر بیٹھی اور اس نے جبریل کو ایک مسکراہٹ دیتے ہوئے اس کا سر تھپتھپایا اور جواباً اس بچے کے تاثرات نے اسے سمجھا دیا تھا کہ اسے یہ بے تکلفی اچھی نہیں لگی ہے۔ اس عورت نے دوسری بار سوئی ہوئی عنایہ کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے کی کوشش کی تو اس بار جبریل نے اس کا ہاتھ بڑی نرمی سے پرے کرتے ہوئے سرگوشی میں اس سے کہا۔
’’She is sleeping (یہ سو رہی ہے۔)‘‘




’’اوہ سوری!‘‘ امریکن عورت بظاہر شرمندگی ظاہر کرتے ہوئے اسے دیکھ کر مسکرائی، جبریل نے ایک بار پھر سپاٹ چہرے اور اس کی طرف دیکھے بغیر اس کی مسکراہٹ نظر انداز کی۔
اس عورت نے اپنا پرس کھول کر اس کے اندر سے چاکلیٹ کی ایک بار نکال کر جبریل کی طرف بڑھائی۔
’’نو تھینکس۔‘‘ جواب چاکلیٹ آگے بڑھائے جانے سے بھی پہلے آگیا تھا۔
’’میرے پاس کچھ کھلونے ہیں۔‘‘ اس بار اس عورت نے زمین پر رکھے ایک بیگ سے ایک اسٹفڈ کھلونا نکال کر جبریل کی طرف بڑھایا، اس کی سرد مہری کی دیوار توڑنے کی یہ اگلی کوشش تھی۔ جبریل نے اس کھلونے پر ایک نظر ڈالے بغیر بہت شائستگی سے اس سے کہا۔
“Would you please stop bothering us?”
(آپ ہمیں تنگ کرنا بند کریں گی پلیز۔)
ایک لمحہ کے لئے وہ عورت چپ ہی رہ گئی تھی یہ جیسے شٹ اپ کال تھی اس کے لئے مگر وہ وہاں منہ بند کرنے کے لئے نہیں آئی تھی۔ انہیں ان دونوں بچوں کو وہاں سے لے جانا تھا اور ان کا خیال تھا، آتے جاتے ملاقاتیوں میں دو کم سن بچوں کو بہلا پھسلا کر وہاں سے لے جانا کیا مشکل تھا۔ زور زبردستی وہ اتنے لوگوں کے سامنے عنایہ کے ساتھ کرسکتے تھے جبریل کے ساتھ نہیں۔
وہ اب منتظر تھی کہ عنایہ کی طرح وہ چار سالہ بچہ بھی تھک کر سوجائے پھر شاید ان کو کسی طرح وہاں سے ہٹا دیا جاتا، لیکن اسے جبریل کے تاثرات سے اندازہ ہورہا تھا کہ اس کا سونے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ وہ دس پندرہ منٹ بیٹھے رہنے کے بعد وہاں سے اٹھ گئی تھی۔ اسے ان بچوں کے حوالے سے نئی ہدایات لینی تھیں اور پانچ منٹ بعد جب وہ واپس آئی تو ہیڈی وہاں ان دونوں کے پاس موجود تھی۔
وہ عورت ایک گہرا سانس لے کر رہ گئی تھی۔ وہ ان دونوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچانا چاہتے تھے، صرف اپنی نگرانی میں رکھنا چاہتے تھے جب تک امریکہ میں سالار کے ساتھ معاملات طے نہ ہوجاتے۔
امریکہ میں سالار کو اس کی فیملی کے حوالے سے صاف جواب دینے کے باوجود سی آئی اے اس کی فیملی پر نظر رکھے ہوئے تھی۔ وہ عورت ایک بار پھر اس وزیٹر روم میں کہیں اور بیٹھ گئی تھی۔ عنایہ اب جاگ گئی تھی اور باتھ روم جانا چاہتی تھی۔ ہیڈی اسے باتھ روم لے کر جانا چاہتی تھی۔ اس نے جبریل کو ایک بار پھر وہیں ٹھہرنے کا کہا تھا۔ وہ نہیں ٹھہرا تھا۔ وہ کسی طرح بھی عنایہ کو اپنی آنکھوں سے اوجھل کرنے پر تیار نہیں تھا۔ ہیڈی کو اسے بھی باتھ روم لے جانا پڑا تھا۔ وہ عورت بھی اٹھ کر ان کے پیچھے باتھ روم آئی تھی اور جبریل نے اس عورت کو ایک بار پھر نوٹس کیا تھا۔
“Why are you stalking us.”
(تم ہمارے پیچھے کیوں پڑی ہوئی ہو۔)
واش بیسن میں ہاتھ دھونے میں مصروف وہ عورت قریبی بیسن میں ہاتھ دھوتی ہیڈی کے ساتھ کھڑے اس بچے کا جملہ سن کر جیسے ایڑیوں پر گھومی تھی۔ نہ بھی گھومتی تو بھی اسے اندازہ تھا، وہ بچہ اسے ہی مخاطب کررہا تھا۔ ہیڈی نے اس عورت کو دیکھا اور معذرت خواہانہ انداز سے مسکرائی یوں جیسے وہ جبریل کے اس تبصرے سے متفق نہیں تھی، لیکن جبریل اسی ناخوش گوار انداز میں اس عورت کو دیکھ رہا تھا۔ پینتالیس سال کی اس عورت نے مسکراتے ہوئے اس چار سال کے بچے کو سراہا تھا۔ وہ پہلی بار ایک چار سال کے بچے کے ہاتھوں پسپا ہوئی تھی اور وہ اسے سراہے بغیر نہیں رہ سکتی تھی وہ جن بھی ماں باپ کی اولاد تھا، کمال تربیت ہوئی تھی اس کی۔
ہیڈی ان دونوں کو لے کر وہاں سے چلی گئی تھی لیکن وہ عورت نہیں گئی تھی وہ ایک بار پھر اس بچے سے وہ جملہ نہیں سننا چاہتی تھی جو اس نے کچھ دیر پہلے سنا تھا۔ بہتر تھا اسے بھیجنے والے اس کی جگہ کسی اور کو بھیج دیتے۔
ہیڈی نے بار بار امامہ سے بھی ملنے کی کوشش کی تھی اور اس کے بچوں کو بھی امامہ سے ملوانے کے لئے ڈاکٹر سے اصرار کیا تھا کیوں کہ عنایہ اب بے قرار ہورہی تھی۔ ڈاکٹر نے اسے انکو بیٹر میں پڑا ہوا حمین تو دکھا دیا تھا لیکن امامہ تک رسائی نہیں دی تھی۔ اس نے ایک بار پھر اسے دونوں بچوں کو اس کی تحویل میں دینے کا کہا تھا اور ہمیشہ کی طرح جبریل اڑ گیا تھا۔ نیند سے بوجھل آنکھوں اور تھکاوٹ کے باوجود وہ عنایہ کا ہاتھ پکڑے بیٹھا ہوا تھا کیوں کہ ممی نے اسے عنایہ کا خیال رکھنے کو کہا تھا۔ اس نے انکو بیٹر میں وہ بے بی بوائے بھی دیکھ لیا تھا جسے ممی لینے گئی تھیں لیکن ممی کہاں تھیں؟ یہ سوال اب صرف اسے ہی نہیں ہیڈی کو بھی پریشان کررہا تھا۔ وہ اب کنشاسا میں سالار کے آفس کے ذریعے اس سے رابطہ کرنے میں مصروف تھی لیکن سالار غائب تھا اور کانگو میں ورلڈ بینک پر قیامت ٹوٹنے والی تھی۔ صرف ورلڈ بینک پر نہیں ان مغربی اقوام کے نمائندوں پر بھی جو کانگو میں استعماریت کے ستون بنے بیٹھے تھے۔
٭…٭…٭
پیٹرس ایباکا اپنی موت کے چوبیس گھنٹوں میں ہی صرف کانگو کے پگمیز کا نہیں پورے افریقہ کا ہیرو بن گیا تھا، اس خطے نے آج تک صرف بکنے والے حکمران دیکھے تھے جو اربوں ڈالرز کے کمیشن لے کر اپنے ملک کی ہر چیز بیچنے کے لئے ہر وقت تیار بیٹھے تھے اس خطے نے ’’ہیرو‘‘ پہلی بار دیکھا تھا۔ جان دینے والا ہیرو۔ پیٹرس ایباکا ساری زندگی پرامن طریقوں سے جدوجہد کرتا اور اس کا درس دیتا رہا تھا لیکن اپنی موت کے بعد اس کی جو وصیت منظر عام پر آئی تھی، اس میں اس نے پہلی بار اپنی غیر متوقع اور غیر فطری موت کی صورت میں اپنے لوگوں کو لڑنے کے لئے اکسایا تھا۔ اس جنگل کو بچانے کے لئے انہیں سفید فاموں کو مار بھگانا تھا، چاہے اس کے لئے کچھ بھی کرنا پڑے۔
اپنی اسی وصیت میں اس نے ورلڈ بینک، امریکہ اور ان دوسری عالمی طاقتوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں ان سب کے خلاف ’’جہاد‘‘ کرنے کے لئے کہا تھا۔ وہ مسلمان نہیں تھا لیکن مذاہب تقابلی جائزہ لیتا رہا تھا اور اسے اپنے لوگوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی اور ظلم کے خلاف بغاوت کے لئے ’’جہاد‘‘ سے زیادہ موزوں لفظ نہیں ملا تھا۔ اس نے صرف پگمیز کو مخاطب کیا تھا صرف انہیں جنگلوں سے نکل کر شہروں میں آکر لڑنے کے لئے کہا تھا۔ ورلڈ بینک اور ان آرگنائزیشنز کے ہر دفتر پر حملہ کرکے وہاں کام کرنے والوںکو مار بھگانے کا کہا تھا لیکن اس رات وہ صرف پگمیز نہیں تھے جو ایباکا کی کال پر ورلڈ بینک کے ساتھ ساتھ غیر ملکی آرگنائزیشنز پر چڑھ دوڑے تھے۔ وہ کانگو کے استعماریت کے ہاتھوں سالوں سے استحصال کا شکار ہوتے ہوئے عوام تھے جو باہر نکل آئے تھے۔




Loading

Read Previous

ہائے یہ عورتیں — کبیر عبّاسی

Read Next

رعونت — عائشہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!