
نجات دہندہ — ردا کنول (تیسرا اور آخری حصّہ)
کا وش کو انتظار کی کو فت سے نہیں گزرنا پڑا ۔حا لا نکہ اُسے کو ئی خو ش فہمی نہیں تھی ، کم از
![]()

کا وش کو انتظار کی کو فت سے نہیں گزرنا پڑا ۔حا لا نکہ اُسے کو ئی خو ش فہمی نہیں تھی ، کم از
![]()

کیا کیا تھا جو ما ضی نہیں ہو گیا تھا۔گھر،کاروبار،رہن سہن،تہوار،حسین وادیاں،لباس،اپنے لوگ اور بہت سارا پیار جو اپنی وادی میں تھا اور جو یہاں
![]()

بڑے سے کشادہ اور روشن کچن میں اُسے ایک ٹانگ پر کھڑے چار گھنٹے بیت گئے تھے۔کچن اس وقت تمام باورچیوں اور اُن کے معا
![]()

سنو! میں شکاگو جاکر اپنی اسٹڈیز پر توجہ دوں گا۔ اچھا ہے وہاں رہتے ہوئے کچھ حاصل ہوجائے۔” ”ہاں… میں بھی یہی سوچ رہی تھی
![]()

تمہاری نیم وَا آنکھیں مرے رخسار پر، جب بھی غزل لکھیں اموزِ عشق کے اسرار، مجھ پر منکشف ہوکر سرور و کیف کی، چاہت کی،
![]()

میں گرانٹ میڈیکل کالج کلکتہ میں ڈاکٹری کا فائنل کورس کر رہا تھا اور اپنے بڑے بھائی کی شادی پر چند روز کے لئے لاہور
![]()

وہ کافی دیر بے مقصدکاموں میں لگی رہی۔ باہر لاؤنج میں بیٹھی میگزین کو اُکٹ پُلٹ کرتی رہی۔ ڈنر کے بعد روحیل اپنے کمرے میں
![]()

وہ رات بارہ بجے کے قریب دوستوں سے فارغ ہوا تھا۔ شادی عرشیہ کی عدّت ختم ہونے کے دو ماہ بعد کافی سادگی سے طے
![]()

چِڑیوں کی چہچہاہٹ اور پرندوں کے سُریلے گیتوں نے ایک نئی صبح کا آغاز کیا ۔کل رات کی موسلادھار بارش کے بعد موسم نہایت خوشگوار
![]()

اُس نے آنکھیں کھولیں تو پہلا خیال دماغ میں یہی آیا تھا کہ قیامت سے گزر کر وہ کسی اندھیری قبر میں جاپہنچی تھی۔ قیامت
![]()