
بے اثر — سحرش مصطفیٰ
وہ سب سے بے خبر خود کو دیکھے جارہی تھی اور پھر اس نے جیسے سبھی سے نظریں چرا کر اپنے اندر جھانکا تھا۔ یہ
![]()

وہ سب سے بے خبر خود کو دیکھے جارہی تھی اور پھر اس نے جیسے سبھی سے نظریں چرا کر اپنے اندر جھانکا تھا۔ یہ
![]()

کانپتے وجود کے ساتھ اُس نے شہر بانو کے خط کی آخری سطر پڑھی، اُس نے بہت مضبوطی سے اُس کاغذ کو تھاما ہوا تھا،
![]()

گاڑی کے ٹائر چرچرائے اور زور دار دھماکے کی آواز آئی۔ شاید ٹائر پھٹ گیا تھا اور گاڑی سنبھالتے سنبھالتے بھی سامنے والے پر چڑھ
![]()

میں ہرے بھرے کھیتوں کے درمیان ایک پگڈنڈی پر چلا جا رہا تھا۔ہر سو خزاں کا راج تھا۔ چاروں طرف ہرے بھرے کھیت تھے لیکن
![]()

”دلشاد گدگدیاں نہ کر مجھے سونے دے۔ نماز قضا ہوتی ہے، تو کیا کروں۔ آنکھ کھولنے کو جی نہیں چاہتا۔” بیوی: ”گدگدیاں میں نے نہیں
![]()

گہری نیلی آنکھوں میں کاجل کی سیاہ تہ، گلابی گالوں پر فائونڈیشن کی چمک اور نازک ہونٹوں پر گہری سرخ لپ اسٹک وہ مکمل طور
![]()

”لے زوباریہ پکڑ یہ کارڈ سیٹھ صاحب کے گھر سے آیا ہے۔” ہانپتی کانپتی امی نے دوپٹے سے پسینا پونچھتے ہوئے اس کی طرف کارڈ
![]()

”آج میں بھی تمہارے ساتھ ڈوب جاؤں گا، پھر میری کبھی سحر نہ ہو گی۔” اس نے آسمان پر چمکتے آفتاب کو سرخی مائل آنکھوں
![]()

دھرتی کے سینے پر’کچھ جھولیاں بھر کر بھی’ الٹی پڑی ہوتی ہیں۔ لیکھ کی لکیریں’ نیت کی سیاہی سے’ بڑا انت مچاتی ہیں۔۔انت کی سیاہی
![]()

وہ ایک وسیع قبرستان تھا اور قبروں کا حجم غیرمعمولی حد تک چھوٹا تھا۔ قبروں کے ارد گرد اور درمیان میں خود روجھاڑیوں نے اُسے
![]()