ورثہ — ارم سرفراز
مریم نے آفس کی کھڑکی سے باہر جھانکا ۔ صبح کی تیز بارش، اب ہلکی سی پھوار کی شکل دھار چکی تھی۔ امریکا کے شہر
مریم نے آفس کی کھڑکی سے باہر جھانکا ۔ صبح کی تیز بارش، اب ہلکی سی پھوار کی شکل دھار چکی تھی۔ امریکا کے شہر
محبت کسی تتلی کے مانند اس کے دل سے اڑ گئی تھی یا شایدکسی غبارے سے ہوا کی طرح نکل گئی تھی۔ وہ شخص جو
’’بہو! او بہو، کہاں مر گئی ہے؟‘‘ زینب رشتے والی نے کمرے سے ہانک لگائی۔ اس وقت وہ شیشے کے سامنے تیار ہو رہی تھی۔اس
ہر انسان اس زندگی میں اپنے حصے کی خوشیاں اور غم لے کر آتا ہے۔ وہ چاہے کوئی کتنا ہی خوش نصیب کیوں نہ ہو،
میں بچپن ہی سے چوہوں سے شدید خوف زدہ رہتی تھی۔ کبھی کبھار گھر میں کوئی چوہا گھس آتا، تو میں اسے دیکھتے ہی کسی
روڈ پر اِکا دُکا گاڑیاں نظر آرہی تھیں۔ سورج نے مکینوں کو گھروں سے نکلنے سے باز رکھا ہوا تھا۔ ’’اُف! اللہ کی پناہ یہ
میرا بھائی سامی جو مجھ سے عمر میںنوسال چھوٹا تھااس سال نیو ایئر منانے کی ضد کر رہا تھا- میری ماما اس کو سمجھانے کی
آئیے! مجھ سے ملیے ، میرا اور حضرتِ انسان کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ شاید میں تب ہی معرضِ وجود میں آگیا تھا جب
“میں کہتی ہوں دو اسے طلاق۔۔۔۔!”فاخرہ بیگم کی زناٹے دار آواز ڈرائنگ روم میں گونجی تو یک دم ہر طرف سناٹا چھا گیا۔ “لیکن امی۔۔۔۔؟”
میں’’ بلیو ٹوتھ ہینڈز فری‘‘ کانوںمیں ٹھونسے برتن دھونے میں مصروف تھی۔میرے کانوں میں ایک ’’ فاسٹ ٹریک ‘‘دھما دھم بج رہا تھا۔اس کے ساتھ