فیصلے — نازیہ خان

ہر انسان اس زندگی میں اپنے حصے کی خوشیاں اور غم لے کر آتا ہے۔ وہ چاہے کوئی کتنا ہی خوش نصیب کیوں نہ ہو، اُس کے حصے کا دکھ اور درد اُسے ہی سہنا پڑتا ہے۔ بس اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کا ظرف آزمانا ہوتا ہے۔ بے پناہ محبتوں کے ہوتے ہوئے بھی وہ بتاتا ہے کہ اُس کی محبت سچی ہے اور اسی کے فیصلے اٹل ہیں۔
دنیا والوں کا ظرف نہیں، مگر وہ بڑے سے بڑا گناہ بھی معاف کرنے والا ہے۔ میں نے اس دُنیا کی بے تحاشا محبتوں کے بعد آخر اپنے رب کی محبت پا ہی لی۔
میں ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئی جہاں کئی سالوں بعد ہزاروں منتوں اور دعاؤں کے بعد بیٹی پیدا ہوئی۔ میرے بابا جان کے تین بھائی اور ایک بہن تھی۔ یہ ایک ایسا گھرانہ تھا جہاں عورتوں پر پردے کا بڑا سخت حکم تھا اور بات بات پر اُن پر پابندیاں لگائی جاتی تھیں۔
یہ اُس دور کی بات ہے جب میرے دادا جان زندہ اور پورے گاؤں میں ایک وہی پڑھے لکھے شخص تھے۔ اس لیے سب لوگ اُن کی عزت کرتے اور اُن کی ہر بات مانی جاتی تھی۔ اُن کا بہت رعب اور دبدبہ تھا۔ وہ غریبوں کی مدد کرنے والے انسان تھے، مگر عورتوں کے معاملے میں بہت سخت تھے۔ کوئی بھی عورت اپنی حدود سے تجاوز کرتی تو اُس کی شادی کسی لولے لنگڑے سے کروا دی جاتی، اب چاہے وہ عورت گھر کی ہو یا باہر کی۔
عورتوں کے معاملے میں وہ کچھ زیادہ ہی سخت مزاج تھے۔ انہوں نے اپنے چاروں بیٹوں کو پڑھایا، مگر پھوپھو کو اسکول تک نہیں بھیجا۔
اُن کی یہ سختیاں شاید اللہ پاک کو پسند نہیں آئیں کہ اُن کی وفات کے بعد بھی اِس خاندان میں کوئی بیٹی ہی پیدا نہیں ہورہی تھی۔ دادی جان بہت چاہتی تھیں کہ اُن کے کسی ایک بیٹے کے گھر بیٹی پیدا ہو۔ میرے بابا جان اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ میرے بڑے تایا جان کے چار بیٹے اور چھوٹے دونوں تاؤں کے تین تین بیٹے تھے، مگر بیٹی کوئی نہ تھی۔ جب پھوپھو کی شادی ہوئی تو دادی جان نے بیٹی کے لیے بہت دعائیں کیں، مگر اُن کے ہاں بھی بیٹا پیدا ہوا۔ پھر میرے بابا جان کی شادی کے بعد سب لوگ بیٹی کے لیے منتیں مانگنے لگے۔ بہت سی منتوں اور دعاؤں سے دو بھائیوں کے بعد خاندان میں پہلی بیٹی پیدا ہوئی اور وہ میں تھی۔
سب بتاتے ہیں کہ میری پیدائش پر مٹھائیاں بانٹی گئیں اور گاؤں کے قرب وجوار کے سب درباروں میں منتیں اتاری گئیں۔




میری وجہ سے گھر میں بابا جان اور اماں جان کو بھی زیادہ پیار اور عزت ملنے لگی۔ میں اپنے گھر میں سب سے لاڈلی تھی۔ نہ صرف اپنے گھر والوں میں بلکہ پورے خاندان میں۔ پورے گاؤں میں جہاں جہاں تک لوگ ہمارے گھر والوں کو جانتے تھے، سب مجھے بہت محبت دیتے۔ جو محبت اور پیار میں نے اس دُنیا میں دیکھا، وہ شاید ہی کسی اور لڑکی نے دیکھا ہو۔مجھے کبھی اندازہ ہی نہیں ہوا کہ میں کسی بہت قدامت پرست خاندان میں پیدا ہوئی ہوں جہاں عورتوں کے معاملے میں اتنی سختی ہے۔ میں گھر کی باقی عورتوں کے ساتھ ساتھ گاؤں کی عورتوں کو بھی بابا جان اور تایا جان سے ڈرتے دیکھتی تو بہت حیران ہوتی۔
میری پھوپھو کے ایک بیٹے کی پیدائش کے بعد اُن کا خاوند انہیں چھوڑ کر بیرون ملک چلا گیا اور پھر نہ پھوپھو کو اُس کی اطلاع ملی اور نہ ہی اُس کے گھر والوں کو۔ اُس کے چلے جانے کے کچھ مہینوں بعد بابا اور تایا جان پھوپھو کو گھر لے آئے۔ اب وہ بھی ہمارے ساتھ ہی رہتی تھیں کیوں کہ پھوپھو نے اپنا وہ دور دیکھا تھا جب اُن پر پابندیاں لگائی جاتی تھیں۔ اس لیے مجھے اتنی آزادی ملنے پر وہ کافی جلتی تھیں۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ مجھے پیار نہیں کرتی تھیں۔ وہ بھی مجھ سے محبت کرتی تھیں مگر اکثر مجھے گھر کے اصول اور طور طریقے سمجھانے بیٹھ جاتیں مگر مجھے کبھی اُن کی کوئی بات سمجھ نہ آتی۔ میں اُن سے دور دور رہتی تھی۔ ہمارے گھرانے میں لڑکیوں کو تعلیم دلوانے پر بھی پابندی تھی مگر مجھے شہر کے سب سے بڑے اسکول میں بھیجا گیا۔ میں ڈرائیور کے ساتھ جاتی اور ڈرائیور کے ساتھ ہی آتی، پھوپھو اس بات پر بھی حیران ہوتیں۔ میری ہر بات مانی جاتی۔ اگر کسی بات سے انکار ہو جاتا، تو میں دادی جان کی طرف دوڑی چلی جاتی اور وہ ہر بات منوانے میں میرا ساتھ دیتیں۔
میری زندگی گھر کے لڑکوں سے بھی منفرد تھی۔ وہ لوگ بھی مجھ سے جلتے تھے کیوں کہ جو چیز وہ لوگ ضد کرکے منگواتے، وہ چیز اُن سے پہلے میرے لیے خریدی جاتی۔ چوں کہ ہم سب ایک ہی حویلی میں رہتے تھے تو لڑکوں کو بھی اِن سب باتوں کی عادت ہوگئی تھی۔ جیسے جیسے میں بڑی ہوتی گئی، میری آسائشیں اور بھی زیادہ ہوتی گئیں۔ میرا کمرا سب سے خوب صورت، بڑا اور شان دار چیزوں سے مزین تھا۔ بچپن میں میرے بھائی اور کزن چھپ چھپ کر میری گیمز کھیلا کرتے اور میں بڑے غرور اور شوخی سے ان میں اپنی گیمز بانٹا کرتی۔ مجھے بچپن ہی سے ایسا لگنے لگا تھاکہ شاید میں واقعی کچھ الگ ہوں۔ میرے گھر والوں کی بے انتہا محبت پر مجھے بہت مان تھا۔ میں بھی ان سے بہت محبت کرتی تھی، مگر میں آزاد ہواؤں میں اُڑنے لگی تھی۔ میں عمر میں تو بڑی ہورہی تھی مگر سمجھ داری میں نہیں۔ بہت معصوم لیکن مغرور سی لڑکی تھی میں۔
اتنی زیادہ محبت اور لاڈ پیار ملنے کے باوجود میری زندگی کے ہر فیصلے کا اختیار بابا اور تایا جان کے ہاتھ میں ہی تھا، مگر میں نے اس بات کو کبھی محسوس ہی نہیں کیا۔ یہاں تک کہ مجھے آگے کیا پڑھنا ہے، کس کالج میں جانا ہے، حتیٰ کہ کیا پہننا ہے، یہ فیصلے بھی وہ لوگ خود کرتے۔ اُن کا ہر فیصلہ میری خوشی میں ہوتا تھا، اس لیے مجھے لگتا شاید یہ لوگ وہی کرتے ہیں جو میں چاہتی ہوں۔
اسکول کے بعد میں ایک بہت اچھے کالج جانا چاہتی تھی اور بابا جان نے میرے نمبرز کم ہونے کے باوجود بھی مجھے اُسی کالج میں بھیجا، مگر میری رائے پوچھے بغیر۔ وہ لاہور کا سب سے اچھا گرلز کالج تھا۔
ہر ہفتے ہاسٹل گاڑی بھیجی جاتی کہ میں گھر والوں سے ملنے جاؤں کیوں کہ وہ میرے بغیر بہت اُداس ہو جاتے۔ میں جب بھی گھر جاتی تو عید کا سا سماں ہوتا۔ کالج بھیجنے کے لیے بابا اور تایا جان نے میری خاطر بہت بڑا دل کیا تھا۔ جب کالج جانے کے لیے پہلی بار بابا جان کے ساتھ میں شہر آنے والی تھی تو اماں جان نے مجھے آواز دے کر بلایا اور ہاتھ پکڑ کر چپکے سے کچن میں لے گئیں کیوں کہ وہاں کوئی نہیں تھا ۔ کچن میں آکر انہوں نے سرگوشی کے انداز میں مجھے نصیحت کرتے ہوئے کہا:
’’سنو ماہا! تم اتنے بڑے کالج جارہی ہو، وہاں دھیان سے رہنا، کچھ غلط نہیں ہونا چاہیے۔ تم نے اپنے بابا اور تایا جان کی محبت دیکھتی ہے بیٹا، مگر ان کی نفرت کبھی نہ دیکھنا۔کچھ ایسا مت کرنا جو تمہارے بابا جان کی عزت میں کمی کا باعث بنے۔‘‘
اماں جان نے آہستہ سے ڈرتے ہوئے یہ سب بولا۔ میں کچھ دیر حیرانی سے انہیں دیکھتی رہی اور پھر ہنستے ہوئے باہر آگئی۔ دراصل مجھے اُن کی بات سمجھ نہیں آئی کہ وہ کہنا کیا چاہتی ہیں۔ میں بابا جان کے ساتھ ہاسٹل آگئی۔ کالج کے دو سال بہت اچھے گزرے۔ گھر سے دور رہنے کے باوجود میں نے بہت انجوائے کیا۔ نئے نئے دوست بنانا اور اُن کے ساتھ باہر جانا، گھومنا پھرنا۔ غرض یہ کہ زندگی بہت خوب صورت تھی۔ جن لڑکیوں کے ساتھ میری دوستی تھی، وہ بھی اچھے گھروں کی تھیں، مگر وہ پھربھی مجھے دیکھ کر رشک کرتیں۔
کالج بند ہونے کے چار مہینے بعد میں واپس گھر چلی گئی۔ ہاسٹل رہتے ہوئے مجھے اپنی شاپنگ خود کرنے کی عادت ہوگئی تھی۔ گھر واپس جاکر میں نے اماں جان سے شاپنگ پر جانے کے لیے کہا تو وہ حیران رہ گئیں۔ انہوں نے قدرے غصے سے کہا:
’’تمہیں جو بھی منگوانا ہے لکھ دو، میں منگوا دوں گی۔‘‘
یہ سن کر میں نے غصہ کیا تو دادی جان نے مجھے ڈرائیور کے ساتھ شاپنگ پر بھیج دیا۔ جب میں گھر واپس آئی تو بابا جان غصے سے برآمدے میں ہی ٹہل رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر وہ آگے آئے اور قدرے سخت لہجے میں کہا:
’’ہمارے گھر کی لڑکیاں ایسے بازاروں میں نہیں جاتیں۔‘‘ ان کی اس بات پر دادی جان نے میری طرف داری کی اور میں آرام سے اپنے کمرے میں چلی گئی۔
مجھے کبھی گھر کے اصولوں کا اندازہ ہی نہیں ہوا۔ بابا اور تایا جان اب بھی دادا جان کی طرح بھاگی ہوئی عورتوں کو سزا سنایا کرتے تھے اور ان کی شادیاں لولے لنگڑے مردوں سے کروا دی جاتی تھیں، اس سے بھی مجھے کوئی سروکار نہیں تھا کیوں کہ میں خود کو سب سے الگ سمجھتی تھی۔ میرے اندر ابھی بھی بچپنا اور معصومیت تھی۔
کچھ مہینوں بعد میری کالج کی ایک دوست کی کال آئی ۔ اس نے بتایا کہ وہ یونیورسٹی میں داخلہ لے رہی ہے۔ میں نے بابا جان سے یونی ورسٹی کی بات کی تو انہوں نے پیار سے ٹال دیا اور پھر تایا جان سے کہا تو انہوں نے صاف انکار کردیا۔ چوں کہ یونی ورسٹی میں لڑکیاں اور لڑکے اکٹھے پڑھتے ہیں اس لیے وہ مجھے یونی ورسٹی نہیں بھیجیں گے۔ ان کا انکار سن کر مجھے حیرانی ضرور ہوئی لیکن میں پریشان نہ ہوئی۔ مجھے پتا تھا بابا جان میری بات ضرور مانیں گے۔ کچھ دن بعد میری اُسی دوست کی کال آئی اور اُس نے داخلے کی آخری تاریخ بتائی۔ اس پر میں غصے سے دادی کے پاس گئی اور بناوٹی ناراضی سے ان سے کہا:
’’کوئی میری بات کیوں نہیں سُن رہا؟ میرا ایڈمیشن کروائیں، مجھے آگے پڑھنا ہے۔‘‘ دادی جان نے بابا جان سے بات کی تو انہوں نے کہا:
’’اماں! وہ تو بچی ہے، آپ کیوں بچی بن رہی ہیں۔ اب کیا ہم اُسے لڑکوں کے ساتھ پڑھنے کی اجازت دیں گے؟ ایسا بالکل نہیں ہوسکتا۔‘‘




Loading

Read Previous

کارآمد — عریشہ سہیل

Read Next

آبِ حیات — قسط نمبر ۱۱ (ابداً ابدا)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!