شریکِ حیات قسط ۳
باب سوم
زندگی میں وہ سب نہیں ہوتا جو ہم چاہتے ہیں۔ اگر ہوتا ہے تو کم از کم اس طرح نہیں ہوتا جس طرح ہم چاہتے ہیںاور وہ سب ہوجاتا ہے جو ہم نہیں چاہتے۔
وہ اس سے پوچھ رہا تھا۔ ”سندھیا تم کیا چاہتی ہو؟”
”مجھے نہیں پتا ادا سارنگ، مگر کم از کم یہ سب نہیں جو ہورہا ہے۔ اچھا نہیں لگ رہا مجھے یہ سب،بہت برا لگ رہا ہے۔”
اسے معلوم تھا وہ کنفیوزڈ ہے، سہمی ہوئی ہے اور فکر مند ہے۔ وہ اسے ایسی صورتِ حال میں مضبوط دیکھنا چاہتا تھا حالاںکہ اسے معلوم تھا وہ کس قدر کمزور اور معصوم سی لڑکی ہے۔ اس کے حوالے سے گھر بھر میں باتیں ہورہی تھیں۔ایک کے بعد ایک ایشو چل رہا تھا۔ ایسے میں اس کا سہما ہوا رہنا کوئی معمولی بات نہ تھی۔
پورے دو دن خاموشی کی نظر ہوگئے تھے۔
ایسا لگ رہا تھا جیسے گھر میںراقاص گھوم گیا ہو ۔ مائوں نے بچوں کو ڈرانے کے لیے جو خیالی بھوت کہانیاں بنائیں تھیں، راقاص بھی ان ہی میں سے کسی ایک کہانی کا کردار تھا جسے بدشگونی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔
گھر میں مایوسی پھیلی کام بگڑنے لگے، یا مایوسی حد درجہ بڑھ گئی تو سمجھو گھر میں راقاص گھوم گیا۔
سبھاگی ایسے وقتوں میں شور شرابے سے کام لے لیتی تھی اور جیجی افسردہ ہوجاتیں۔ حسن بخش غصہ اور مولابخش کو چپ لگ جاتی تھی۔اسے چپ کیا لگتی مانو گھر میں راقاص گھوم جاتا۔ بیٹی کا رشتہ بہ مشکل طے ہوا اور ہوکر سوالیہ نشان بن گیا کتنی بڑی بات تھی۔
بیٹیوں سے نہیں ان کے نصیبوں سے ڈر لگتا ہے۔اسے جیجی کی بات یاد آگئی۔
نصیب اس قدر مہنگا کیوں ہوتا ہے کہ اسے پیسے سے بھی نہیں خریدا جاسکتا۔ پیسے سے خریدا جاتا تو میں خود کو بیچ کر سندھو کا نصیب خرید لیتاوہ مایوس تھا،افسردہ تھا۔
حسن بپھرا ہوا تھا۔ صادق کی خوب آئو بھگت کی تھی فون پر۔ اس نے فون بند کرکے رکھا ہوا تھا۔ حیدرآباد جارہا تھا تو جیجی نے روک دیا کہ جاکر تماشا نہ لگا شہر میں، کچھ دن ٹھہر جا کرتے ہیں۔ تب تک بھرائی آگئی روتی پیٹتی کہ بیٹے نے بغیر بتائے شادی کر رکھی تھی، وہ کیا کرسکتی تھی۔مگر اب گھر کی بات ہے، خاندان بھر میں پتا لگ گیا ہے کہ سندھیا کو صادق کی پوتی (دوپٹہ اوڑھنی) پہنائی ہے۔ ونی اور بنی (لڑکی اور فصل) عزت والا نہیں چھوڑتا۔ تم سندھیا میرے بل بوتے پر دو، عیش کرے گی۔ گائوں میں گھر کی مالکن بن کر رہے گی۔چابی تو اس کے پاس رہے گی نا۔ وہ موئی شبراتن کب تک، کہاں رہتی ہیں ایسی لڑکیاں گھر بسا کر۔مجھے تو میری سندھیا عزیز ہے۔