”جتنے سنجیدہ تم اس کے کیرئیرکے لیے تھے، اتنے سنجیدہ تم اس کی شادی کے لیے نہیں ہو۔ اس کی زندگی کا ایک اہم موڑہے یہ اور اب وقت ہے تم اسے احساس دلائو، تم بات کرو۔وہ ہر رشتہ ٹھکرادیتی ہے۔ ڈاکٹر وقاص کا پروپوزل واپس کردیا ہے اس نے۔ اس کا معیار کیا ہے اپنے لیے۔”

”بہت اچھا اور بہت سنجیدہ معیار ہے اس کا۔ وہ ہم سے زیادہ اچھا سوچتی ہے۔”

”مجھے اعتماد ہے اپنی بیٹی پر مگر تمہیں اس کی کوئی فکر نہیں ہے۔”

”مجھے اس کی فکر ہے مگر اس سے زیادہ مجھے تمہاری فکر ہے۔کیا حال کر لیا ہے تم نے اپنا۔” انہوں نے جان بوجھ کر بات بدلی تھی۔

اسی وقت شیبا اس طرف آتے ہوئے رکی تھی۔ ”وائو!کیا رومانس ہورہا ہے آپ دونوں کے درمیان۔ ”وہ ہنس دیے تھے اس کی بات پر جب کہ فرح نے ناگواری سے شہاب پر اک نظر ڈالی پھر دوسری نظر شیبا پر۔

”تم دونوں باپ بیٹی کبھی سنجیدہ نہ ہونا ہر وقت مذاق۔جو بات کرو اسے بدلنا آتا ہے تم دونوں کو۔ رات تمہارے ساتھ مغزماری کرکے تھکی تھی اور اب انہیں سمجھارہی ہوں۔بات کو کدھر سے کدھر لاپھینکا تم باپ بیٹی نے، مشرق سے مغرب تک۔”

 شہاب نے شیبا کے کندھے پر بازو پھیلاتے ہوئے پوچھا۔”کہاں جارہا تھا میرا بچہ؟”

”ماما آج کل کچھ زیادہ اسٹریس لے رہی ہیں ڈیڈ چھوٹی چھوٹی باتوں پر۔ بی پی ہائی رہنے لگا ہے،انہیں سمجھائیںابھی عمر ہی کیا ہے ان کی۔”

”تمہاری ماں کو سمجھانا میرے لیے دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔یہ تم کرو اب۔”

”سارے مشکل کام ڈیڈ آپ نے میرے لیے رکھ چھوڑے ہیں۔”

” مجھے تم پر اعتماد ہے اس لیے۔” انہوں نے مسکراہٹ دبا کر کہا تو وہ سمجھتے ہوئے مسکرائی۔ 

”یہ مجھے بھی ایسے ہی بے وقوف بنالیا کرتے تھے۔” فرح چڑی ہوئی تھیں۔

”انہیں ہمیشہ میری ذہانت چالاکی لگتی ہے حالاںکہ اتنا چالاک ہوتا تو ابھی مغرب نہیں مشرق میں پایا جاتا۔ اس میں تمہاری عقل مندی تھی۔ اب اپنا فیصلہ تم مجھ پر کتنی بار جتائوگی۔”

” شاید اپنی آخری سانس تک۔” یہ کہہ کر وہ کمرے سے باہر نکل گئیں۔

”ماما کو کیا ہوا ہے؟ کیوں اتنی پریشان ہیں۔”

” تمہارے لیے۔ یہ پریشانی تم دور کرسکتی ہو ان کی۔” 

”صرف میں؟ آپ بھی ان کی پریشانیاں بڑھانے میں خوب حصہ لیتے ہیں۔ تنگ کرنا چھوڑ دیں میری ماں کو۔”

”ورنہ؟” وہ اس کے سامنے کھڑے ہوکر چیلنج کرنے لگے۔ 

”آپ شروع سے ہیں یا اب ہوئے ہیں ایسے۔ ” وہ اپنی مسکراہٹ ہضم کرکے تھوڑا جھلائی۔

”پہلے دن سے ہی۔ یوں لگتا ہے جس دن تمہاری ماں سے شادی ہوئی، اس دن میں دنیا میں پہلی بار آیا تھا۔”

” حد ہے بھئی بیچاری ماما۔ ہمدردی ہے مجھے ان سے۔” وہ ہنس کر باہر نکلنے لگی۔ 

”گھر ذرا جلدی آجانا۔”

”ڈیڈ! بچی نہیں ہوں میں۔ سیر کے لیے نہیں،نائٹ ڈیوٹی پر جارہی ہوں۔”

” تب تو زیادہ فکر ہوتی ہے۔”وہ پلٹ کر ان کو دیکھنے لگی۔

”مجھے نہیں تمہاری ماں کو بچے۔” وہ تھوڑا مسکرائے۔

”وہ تو مجھے معلوم ہے۔ ٹائم بہت ضائع ہورہا ہے۔” گھڑی دیکھتے ہوئے عجلت میں کہا۔

Loading

Read Previous

شریکِ حیات – قسط ۲

Read Next

احمد فراز ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!