فرح کے چہرے پر پریشانی بھرے تاثرات تھے۔

”تم ماں ہو۔ تمہیں بات کرنی چاہیے اس سے۔”

”آپ باپ ہیں اس کے یہ ذمہ داری آپ کی بھی ہے۔مجھ سے زیادہ وہ آپ کی سنتی ہے۔ اسے بگاڑنے میں بھی آپ ہی کا ہاتھ ہے۔”

”اسے منوانے میں بھی میرا ہاتھ ہے۔ بہت خوش کیا ہے اس نے مجھے۔ وہ سب دیا جو میں چاہتا تھا۔”

”اس نے آتے ہی مجھے یہاں کی نیشنلٹی دی، میرے گھر کو خوشیوں سے بھردیا۔اس کے آنے کے بعد میرا گریڈ بڑھا، تنخواہ بڑھی میری زندگی بہتر سے بہترین ہوتی گئی۔میں اپنی بیٹی کو اپنی زندگی میں خوشیوں اور خوش حالیوں کی ضمانت سمجھتا ہوں۔جتنا کم عقل تم اسے سمجھتی ہو وہ اتنی ہے نہیں،اپنے کیرئیر میں بہت سمجھ دار ہے۔”ان کے لہجے میں ایک نمایاں فخر جھلکتا تھا۔

”میں اس کے کیرئیرکی نہیں، اس کی زندگی کی بات کررہی ہوں۔ آپ بات گھما پھرا کر کیریئر پر لے آتے ہیں۔”

”کیریئر بھی زندگی کا ایک حصہ ہوتا ہے فرح۔”

”کیریئر زندگی کا صرف ”ایک” حصہ ہوتا ہے شہاب۔” لفظ ایک پر زور دے کر کہا گیا۔

”اس نے جب ایک حصے کو نبھایا ہے تو وہ آگے بھی اچھی طرح نبھائے گی زندگی کو۔ ہمیشہ نمایاں کامیابی لے کر آتی ہے، اس نے کبھی مجھے مایوس نہیں کیا۔ بہت فخر ہے مجھے اپنی بیٹی پر،اپنی بیٹی شیبا پر۔”

”تمہیں فخر ہے اور مجھے اس کی فکر ہے شہاب۔اس عمر میں لڑکیاں اپنے گھر کی ہوجاتی ہیں۔”

”وقت بہت بدل گیا ہے۔یہ ہمارا دور نہیں رہا۔ تم مجھ سے زیادہ عرصہ یہاں رہی ہو۔ میں نے سمجھا تھا تمہاری سوچ کبھی مائوں والی نہیں ہوسکتی، مگر مجھے لگتا ہے، تم ذہنی طور پر اس دور سے نکلی ہی نہیں ہو۔”

”اس لیے کہ میں ایک عورت ہوں،ایک ماں ہوں۔ شہاب مجھے اپنی ذمہ داری کا پورا احساس ہے۔ میری بیٹی کی عمر آگے بڑھ رہی ہے۔ایسے سب احساسات پچھلے دس بارہ سال پہلے کے تھے جب اس کی ہر آنے والی برتھ ڈے پر ہمیں اس کے بڑے ہونے کا احساس خوش کردیتا تھا۔اب ہر سال کے ساتھ میری فکر بڑھ جاتی ہے۔وہ عمر کے پچیس سال گزار چکی ہے، عن قریب وہ تیس کی ہونے والی ہے اور تیس کے بعد لڑکی عمر سے بہت بڑی لگتی ہے۔لڑکی کا معصومانہ روپ ختم ہونے لگتا ہے، اس عمر کی دلہنیں اچھی نہیں لگتیں۔”

وہ اس کی بات پر کھل کر ہنسے تھے۔

”ابھی تم بوڑھی نہیں ہو۔ ابھی سے تم ایسا سوچنے لگی ہو۔ شیبا کے سامنے یہ مت کہنا۔ اسے یہ بات زیادہ مضحکہ خیز لگے گی۔”

”تم میری باتوں کو ہمیشہ چٹکلوں اور ہنسی میں اُڑادیتے ہو۔”

”اور تم ہمیشہ مجھے ہنسنے کا موقع دیتی ہو۔”

”شہاب ہم اس وقت بہت سنجیدہ موضوع پر بات کررہے ہیں۔ ہماری بیٹی کی زندگی کا سوال ہے۔”

”تو میں کب غیر سنجیدہ ہوا ہوں۔ دیکھو میں یہ کہنا چاہ رہا ہوں، اسے وقت دو تاکہ وہ یہ فیصلہ اپنی مرضی سے کرے اور اسے اختیار دو اس فیصلے کا۔اس کی اپنی زندگی ہے، وہ باشعور ہے، سمجھتی ہے۔”

”وہ باشعور مگربے پروا ہے، اسے اپنی فکر نہیں۔ کوئی احساس نہیں ان سب باتوں کا جن کو سوچ سوچ کر میں پاگل ہو رہی ہوں۔ دیکھو شہاب ہر کام وقت پر اچھا لگتا ہے۔ تمہیں یاد ہے جب ہم اسے اسکول میں داخل کروا رہے تھے تو ایک سال بھی ضائع کرنے کا رسک نہیں لیا تھا۔ اس کے بعد ہم نے اس کی تعلیم مکمل ہونے کے لیے کتنا لمبا انتظار کیا ہے۔”

”ہر اچھا رزلٹ وقت مانگتا ہے۔” وہ بے پروائی سے بولے۔

Loading

Read Previous

شریکِ حیات – قسط ۲

Read Next

احمد فراز ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!