رنگینیاں عروج پر تھیں۔ یہ ایک چھوٹا سا کنسرٹ تھاجو غیر ملکی گلوکاروں کے گروپ پر مشتمل تھا۔ اس کا اہتمام یونیورسٹی کی انتظامیہ اور اسٹوڈنٹس نے کیا تھا۔شام سروں سے سجی تھی۔سندھ پاکستان سے آئے ایک گروپ کے ساتھ سارنگ نے پرفارم کرنا تھا۔
گلوکار نے مائیک پکڑا۔ دھن بجنا شروع ہوئی تو سارنگ نے بانسری تھام لی۔ وہ بڑی سریلی بجاتا تھا اور جب بجاتا تھا تو دل تھم جاتا تھا، ہر شخص سماعتوں کے ساتھ سر دُھنتا تھا۔سُر بجنے لگا تھا۔
”پیرے پوندی ساں۔ چوندی ساں رھی ونج رات بھنبھور میں”
وہ لمحوں میں جیسے امریکہ سے سرزمین سندھ کی دھرتی تک پہنچ گیا تھا اور وہاں پر بیٹھا، کھڑا اور گزرتا ہوا ہر شخص اپنی جگہ ساکت ہو گیا۔ شیبا نے اپنی زندگی میں پہلی بار بانسری کا سُر سنا تھا اور اتنا گہرا۔ وہ بھی رک گئی تھی یا پھر سماعتیں جو وہی سُن رہی تھیں یا پھر آنکھیں جو وہی دیکھنے لگیں یا پھر دل کچھ کہنا مشکل تھا اور وہ تکرار تھی۔
رہی ونج رات بھنبھور میں
ایک رات بھنبھور میں ٹھہرجا
سروں کی التجا تھی یا پھر آنکھوں کی۔
یا پھر دل کی، کہنا مشکل تھا۔بات سمجھنے کی تھی۔
٭…٭…٭