”’اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے بیٹا۔”
انہوں نے کندھے اُچکاتے ہوئے فرح کی طرف دیکھا تو وہ بول پڑیں۔
”تمہارے ڈیڈ جب آئے تھے تو میں شروع شروع میں بہت مدد کرتی تھی ان کی۔”
”آپ بہت اچھی تھیں۔ میں اتنی اچھی نہیں ہوں۔ میں سمجھتی ہوں آپ آگے تک لنگڑے لولے سہاروں پر نہیں جاسکتے۔میں خود محنت کرکے آگے بڑھی ہوں۔عادت نہیں ہے مجھے بلاضرورت کسی کے کام میں پڑنے کی یا کسی کو اپنے کام میں انوالو کرنے کی۔ ریسرچ پیپر بہت سارے اسٹوڈنٹس نے بنائے ہیں۔ اسے کسی اور سے لے کر دے دیں ۔”
”اس نے مانگا نہیں تھا۔ میں نے اُسے کہہ دیا تھا۔”
”آپ اور ماما بہت ساری باتیں بغیر وجہ کے کہہ جاتے ہیں۔مجھے اچھا نہیں لگتا کہ بچوں کی طرح آپ مجھے ہر کسی کے سامنے پورٹریٹ کرتے رہیں اور میں لیبل کے طور پر اپنی چیزیں پوری دنیا کو پیش کروں۔”
”اچھا لڑکا ہے وہ، دوسرے لڑکوں سے کافی مختلف ہے۔ کافی شریف بچہ ہے۔” فرح کافی سنجیدہ تھی۔
”تو ہوگا۔میں نے اس کی اچھائی کا کیا کرنا ہے۔ ”وہ ہنس پڑی تھی دونوں کے تاثرات دیکھ کر۔
”ٹھیک ہے۔ کوئی بات نہیں، میں کہوںگا میں نے ایسے ہی کہہ دیا تھا۔ وہ مانگے گا تمہارا ریسرچ پیپر۔”
”وہ مانگے گا تو غلط کرے گا۔ اسے اپنی صلاحیتوں پر اپنا کام کرنا چاہیے۔”
”اس میں غلط کیا ہے شیبا۔ ہم اپنا اچھا کام اپنے دوستوں کے سامنے فخریہ پیش کرتے ہیںاور آگے چل کر پوری دنیا کے سامنے۔”
”جب میں نے پیپر پوری دنیا کے سامنے رکھ دیا مکمل کرکے، تو پوری دنیا میں وہ بھی آجائے گا۔ دوستوں کو دکھانے میں حرج نہیں ہے۔”
وہ پیپرز فائل کرکے اٹھی تھی۔
”تم پھر جارہی ہو۔ حساب لگائو پورے ہفتے میں کتنا ٹائم اپنے پیرنٹس کو دیتی ہو۔”
فرح اس سے مزید بات کرنا چاہتی تھی۔
شیباجاتے جاتے رُکی۔
”جب میں چھوٹی تھی تو مجھے بھی آپ دونوں سے یہی شکایت تھی۔”
”تم ہمیں جتارہی ہو۔”
”نہیں بتارہی ہوں۔ میرے کام کی ترجیحات ہی ایسی ہیں ،آپ لوگوں کو سمجھنا چاہیے۔” یہ کہتے ہوئے وہ باہر نکل گئی۔وہ ضرورت سے زیادہ چڑگئی تھی۔
”یہ کیوں ایسا کررہی ہے شہاب۔”
”ہماری باتوں کا مطلب سمجھ گئی ہے۔”
”تم سمجھ جائو اس نے ریسرچ پیپر دینے سے انکار نہیں کیا، اس نے ہمارے نظریات کا انکار کیا ہے۔”