سبھاگی کو ضد چڑھ گئی تھی،اس نے مزاروں پر چادریں چڑھانا شروع کردی تھیں، چراغ جلانے لگی تھی۔ ہر آئے گئے کے سامنے دکھڑے رونا شروع کردیے تھے۔ ان باتوں سے مولا بخش کا دل بوجھل ہوتا جارہا تھا۔
سندھیا کو ماں کی حرکتیں نظر آتیں۔
اس رات مایوسی سے لیٹے ابا کے پاس آکر بیٹھ گئی اور پوچھنے لگی۔ ” یہ اماں کو کیا ہوگیا ہے ابا؟”
”اسے ضد چڑھ گئی ہے سندھیا۔ معلوم نہیں کیوں بس کسی ایک چیز کی ضد چڑھ جائے اسے تو پھر اسے حاصل کر کے چھوڑتی ہے۔اب میں اسے کیا سمجھائوں کہ چری نصیب سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔ یہ ضدسے نہیںمانتا۔ نصیب کو پیار سے منایا جاتا ہے۔ انتظار کیا جاتا ہے۔ وہ نصیب کے ساتھ لڑنے نکلی ہے۔ بس اب دعاکر سندھو، ہار کے نہ لوٹے۔”
وہ اٹھ کر بیٹھ گیا تھا۔ چہرے پر فکروں کے سائے تھے۔ ”ابا اسے سمجھائیں، اماں کو سمجھائیں۔”
”اسے نہیں سمجھ آتی سندھو۔ سمجھاتے سمجھاتے آدھی عمر گزر گئی میری اور آدھی لگتا ہے کہ…” دل کڑوا ہوگیا، کڑواہٹ زبان تک آگئی۔
”چل تو چھڈ، ادھر آکر بیٹھ۔ کل تیری ماں کو لے کرجانا ہے پیر سائیں کے مزار پر۔ تو چلے گی بتا؟”
”ابا! آپ بھی نا ان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔”
”دیکھ سندھو! جب وہ کسی آئے گئے کے سامنے دکھڑے رونے بیٹھتی ہے تو دل دُکھتا ہے میرا۔”
”مگر کل اس نے پیر سائیں کے مزار پر حاضری کا کہا ہے۔ اصل میں سندھو دکھ میں انسان یا تو اللہ کے پاس جاتا ہے یا پھر اللہ والوں کے پاس جاتا ہے۔ وہ جاکر جو کہے گی،سب کہنے دے۔ اللہ عزت رکھتا ہے۔ اللہ والا بھی عزت رکھتا ہے جس طرح ماں پیو بچوں کی باتوں کو سن کر مسکرادیتے ہیں۔ جائز ہوئی تو پہلی بار ہی اللہ کے حضور پہنچا دیں گے۔ناجائز ہو تو چپ کرجائیںگے، سمجھائیںگے، بہلائیںگے، دھیان بدل دیںگے، کسی اور رونق میں لگادیںگے جہاں تک کہ بچے کا دھیان بدل جائے۔ بس خوف آتا ہے کہ اس کی ضد شرط نہ بن جائے شرط بن گئی تو نقصان ہوگا۔ ضد ضد ہی رہے، شرط نہ بنے۔”
”اماں کی پریشانی کی میں ہی وجہ ہوں نا؟”
”ایسا کبھی نہ سوچنا سندھو۔ تو تو ہماری خوش بختی ہے۔ خوش نصیبی ہے۔ ماں کو چھوڑ، تیری ماں کی جو ضد ہے وہ بچوں کی طرح ہے۔وہ بچی ہے۔ بچوں کی طرح بات کرتی ہے۔ چل چھوڑ، تو چل میرے ساتھ۔ ہم اس جمعے کو حیدرآباد چلتے ہیں۔”
”حیدرآباد۔” آنکھیں پھیل گئیں۔