سارنگ کے بغیر گھر میں ذرا مزا نہیں، گھر سونا لگتا ہے۔کئی دنوں تک گھر کے ہر فرد کے منہ سے اسی طرح کے کئی جملے سننے کو ملتے تھے۔
”او سبھاگی!جیسے گھر میں سب سارنگ کو یاد کرتے ہیں، میں اگر کہیں چلاجائوں تو سب کی بات چھوڑ یہ بتا کہ تو کتنا یاد کرے گی۔”
”تو سدا ایسی بے وقتی گلھ کرتا ہے مولابخش۔ویلا نہ وقت، لیلیٰ چڑھی تخت۔”
”لیلیٰ چڑھی تخت تومجنوں نے اس کے قدموں کے پاس سر رکھ دیا ہوگا۔” مولابخش بات پلٹ دینے کا ہنر رکھتا تھا۔
”لیلیٰ اور مجنوں کو چھوڑ مولابخش۔ زندگی کی سوچ، زمین کم پڑگئی ہے۔ گزارا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ دھی کے لیے تو تونے کچھ نہیں سوچا ہوا۔” اصل بات تو تھی ہی یہی، جو اس کے دل میں گڑ چکی تھی۔
”سبھاگی! تجھے جتنی واری بھی سمجھائوں، تیری سمجھ میں گلھ نہیں آتی۔اری او چری!او درویش! اتنے سبق اگر مولابخش طوطے کو بھی رٹاتا تو اسے حرف حرف یاد ہوجانا تھا۔”
”تجھے بس سبق ہی رٹانے آئے ہیں۔ کبھی نہ تونے سبھاگی کو جانا، نہ سمجھا۔”
”تیرے شکوے میرے گلے کا ہار ہیں، برا نہیں ماننا۔ تیرا کام ہے شکوے کرنا۔ میرا کام سننا۔” سبھاگی کا موڈ قدرے اچھا تھا۔”اور سن کر ایک کان سے دوسرے سے نکال دینا۔” سبھاگی نے سردیوں میں نئی روئی دھنکوائی تھی۔ اسے تکیوں میں بھر کر انہیں برابر کرتے ہوئے رکھنے لگی۔
وہ اٹھ کر آٹے کی بوریاں سیدھی کرنے لگا، جیجی نے سوہائی کو پکڑ کر ساری گندم بوریوں سے نکلوائی تھی۔ گائوں سے کمہاروں کے گھر سے بھی دو عورتوں کو بلوایا تھا کام کے لیے۔
سوہائی کمر پر ہاتھ رکھے ایسے دوہری ہورہی تھی جیسے سارا پہاڑ اس ایک اکیلی نے سر کیا ہو۔ ”چھوری تجھے شرم آئے اگر تو مٹھی بھرپانی میں ڈوب مر۔اداکاری تو ایسے کررہی ہے جیسے ساری فصل کی بوائی کرکے آئی ہے۔” سبھاگی کو اس کے اسی نخروں سے چڑ تھی۔
سندھیا سوکھی ہوئی گندم بوریوں میں بھرنے لگی تھی۔ اس کے بعد گندم کی یہ بوریاں چکی پر پسنے کے لیے جانی تھیں۔
پورے چھے ماہ کا اناج محفوظ کرنا تھاجو ہمیشہ کی طرح چار ماہ میں ختم ہوجانا تھا جس کی وجہ اس اناج سے کئی لوگوں کے حصے نکلنا تھا۔جیجی کہتی تھیںکہ ہر دانے پر اس کے کھانے والے کا نام لکھا ہے۔ اس کے بعد کسی کی مجال ہی کیا تھی کہ کچھ بھی بول دے یا کوئی اعتراض کردے۔اگلے دو مہینے کا بندوبست از خود ہوجاتا تھا خرچوں سے۔ دوسروں کی ضرورتوں کو پورا کرنے والوں کی ضرورتوں کو رب سائیں پہلے ہی پورا کردیتے ہیں۔
یہ زر اور زیور توبس امتحان ہوتے ہیں مومن کا۔ امتحان میں پاس تو سمجھو جگ جیت لیتاورنہ بڑی لمبی پیشی ہے۔ رب سائیں آسانی دے۔ مولابخش اور حسن بخش گندم کی بوریاں کندھوں پر لاد کر چکی کی طرف جانے لگے اور اسی وقت فون کی بیل ہوتی۔ فون کی بیل بجتی تھی تو گھر میں ترنگ آجاتی تھی۔
”میرے سارنگ کا فون۔ہائے میرے بچے کا فون ہوگا۔” جیجی وہیں سے اُٹھ بیٹھتیں، سوہائی نے فون اُٹھایا خدا جانے کون تھا، الٹے سیدھے سوالات کرکے رکھ دیا۔
”کون تھا چھوری۔ ”
”اللہ جانے کون تھا جیجی۔”
کوئی بھی ہو بس سارنگ نہ تھا اس لیے مایوسی ہوتی۔
”کتنے دن ہوئے، پورے دو ہفتے۔جانے کے دو دن بعد فون کیا تھا، اس کے بعد نہ یاد کیا۔ کہا تھا ہر روز فون کروںگا۔ جھوٹا کہیں کا۔جاکر جیجی ماں کو بھول گیا۔ اپنے شغل میں لگ گیا۔”دکھ اور شکایتیں اندر سے بولنے لگیں۔ ”او تو نمبر لگا ذرا سندھیا سارنگ کا۔”
”دیکھ تو جیجی ماں وہاں کے نمبر الگ ہوتے ہیں۔ابا نے بتایا تھا، ادا سارنگ نے پی سی او سے فون کیا تھا۔ اپنا نمبر لیںگے تو خود ہی کرلیںگے فون۔ آپ فکر نہ کریں، وہاں بھی تو اتنے کام ہوںگے، نئے نئے سیکھ رہے ہوںگے بڑی چیزیں۔ وقت تو لگ جاتا ہے۔”
”واہ سندھیا! تجھے ہر کسی کے لیے عقل ہے سوائے ماں کے۔” وہ سبھاگی ہی کیا جو شکوہ نہ کرے۔
وہ برا سا منہ بناتی، سوہائی کے ساتھ باقی بوریاں گھسیٹ کر برآمدے تک لے جانے لگی تھی۔ ایک اماں، دوسرا شکوہ۔ سندھیا بُڑبُڑائی ۔
٭…٭…٭