سارنگ خوش تھا، لاکھ وسوسوں اور خدشوںکے باوجود بھی خوش تھا۔

بس جانے سے پہلے وہ چاچے اور ابے کو خوش دیکھنا چاہ رہا تھا۔ جانے سے کچھ دیر پہلے بھی وہ ان کے کمرے میں آیا۔

”آپ ائیر پورٹ تک میرے ساتھ چل رہے ہیں؟ ”

”نہیں یار سجن۔ اتنی ہمت نہیں ہے میری،ہاں اسٹیشن تک ضرور چلوںگا۔ ”

”ائیرپورٹ تک چلیں تو زیادہ بہتر ہے۔ میں کچھ گھنٹے مزید گزارلوںگا آپ کے اور چاچا کے ساتھ۔”

سارنگ کی اس بات پر ان کی آنکھوں میں نمی آگئی تھی۔ ”وقت جیسے جیسے گزررہا ہے، دل بے ایمان ہوتا جارہا ہے سارنگ۔ایسا نہ ہو جب تو جانے لگے تو میں تجھے رکنے کا کہوںاور تو رک نہ سکے تو پریشان ہوجائوں، تجھے خوشی خوشی بھیجنا چاہتا ہوں سارنگ۔” مولابخش کھلے دروازے کے بیچ کھڑا تھا۔

”بچے کو ہراساں نہ کر حسن بھا،اپنے جذبات کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھ۔ اس دن کے لیے اٹھا رکھ جس دن سارنگ کو واپس لوٹنا ہوگا۔”مولابخش نے سارنگ کے لیے ایک اور آسانی پیدا کر دی تھی۔ 

”بڑی دور ہے وہ وقت مولابخش۔ بڑا لمبا انتظار کرنا پڑے گا اس دن کی خاطر۔”

”اوجتنا بھی لمبا وقت ہو، مگروقت کی عادتیں بڑی اچھی ہوتی ہیں۔ گزرنے لگتا ہے تو گزر ہی جاتا ہے، بڑا فرماں بردار ہے رب سائیں کا۔ ایک انچ نہیں کھسکتا اپنی جگہ سے، لمحہ رکتا ہے نہ ایک لمحے میں چا رلمحے چلتا ہے۔”

”گزرجاتا ہے مولابخش مگر گزرتے گزرتے عرصہ لگتا ہے۔ انتظار میں آجائے تو مشکل لگتا ہے، چڑھتا ہے تو اترتا نہیں، اترتے اترتے جیسے سال، صدی بن جاتا ہے۔”

” آپ لوگ ایسی باتیں کریںگے تو میں کہاں خوشی سے جاپائوںگا ابا سائیں۔دل پر بوجھ لے کر جائوںگا، اور بوجھ لے کر جائوںگا تو ادھر میرا وقت اور پھر آپ لوگوں کا وقت مشکل ہوجائے گا۔” اس کے لہجے میں نمی تھی۔ انسان چاہے جتنا بہادر بنے پر ایک رونا اور کمزور ہونا اس کے بس میں نہیں ہوتا۔ اسے لگا لمحے کے لیے وہ بھی کمزور ہی ہورہا ہے۔ 

”تو دل بڑا رکھ میرے یار۔ سب اچھا ہوجائے گا۔ یہ وقت بھی گزر ہی جائے گا۔ بس تورابطے میں رہیں، فون کرتے رہنا۔” مولا بخش نے پھر دل رکھا۔

”روزانہ کروںگا،آپ فکر ہی نہ کریں۔” وہ دونوں کے ساتھ ان کو تسلی دیتا باہر نکل آیا۔ باہر جیجی اور باقی سب انتظار میں بیٹھے تھے۔ ان کے پاس بیٹھا، گھٹنے چھوکر دعالی، ہاتھ آنکھوں سے لگایا تو راحت مل گئی۔ ماں کے لمس کا احساس کتنا خوبصورت ہوا کرتا ہے۔ جیجی ماں کا ہاتھ اپنی آنکھوں سے لگایا تو آنکھوں میں بھری نمی بے اختیار بہ نکلی۔

”شیر بن میرا پت۔ میرا شہزادہ، میرا جگر، میرا سوہنا۔” کیسے لاڈ کرتی تھیں، پیشانی چومتی تھیں، سر سہلاتی تھیں اور دعائیں دیتی تھیں۔ جب بھی اُسے اک نظر محبت سے دیکھتی تھیں، دل آباد ہوجاتا تھا۔

جیجی کے بعد چاچی کی طرف آیا۔ انہوں نے سر پر دست شفقت پھیرا، اچھے لفظوں میں دل سے دعا دی۔ بھرائی سے کل مل آیا تھا۔ ان کے منہ سے کوئی دعا تو نہیں نکلی تھی، البتہ خدشوں کی بھرمار تھی، رنجشوں کا رونا بہت تھا۔ وہ ساری باتیں ایک طرف رکھ کر گیا تھا۔

اور کوئی بھی بات دل پر لیے بغیر لوٹ آیا تھاکہ ان کی عادتوں اور باتوں سے کون واقف نہ تھا۔

سوہائی نے اپنی فرمائشیں ایک بار پھر سے یاد کروائیں تو وہ ہنس دیا۔

ساتھ میں سندھیا کھڑی تھیںاس کے سر پر ہاتھ رکھا۔

”اب پھر کب آئیںگے؟ معصومانہ سوال پروہ مسکرادیا۔

”جب تمہاری شادی ہوگی تب آئوںگا انشاء اللہ۔ ”ایک امید چھوڑرہا تھا اس کے پاس، جیجی اور چاچی نے ایک ساتھ انشاء اللہ کہا تھا۔

اللہ کا نام جب امید کے ساتھ جُڑجائے تو امید بہت بڑا سہارا بن جاتی ہے۔دل کو ایک ڈھارس سی ملتی ہے جب امید کا وزن بھاری ہوتا ہے۔بھاری ہوتی ہے تو ہی مایوسی کا مقابلہ کرپاتی ہے۔ وہ اسی امید کو لے کر جانا چاہ رہا تھااور جو گھر والوں کے لیے چھوڑ کر جارہا تھا، وہ بھی یہی اک آسرا تھا۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

شریکِ حیات – قسط ۲

Read Next

احمد فراز ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!