تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۸

”پاپا! آپ صرف امبر اور طلحہ کے لیے کاغذات تیار کروائیں۔” اسامہ نے بڑی سنجیدگی سے یک دم کہا۔
”کیا مطلب؟” مسعود علی اس کی بات پر چونکے۔
”میں صبغہ کو طلاق نہیں دوں گا۔” اسامہ اسی انداز میں کہا۔
شبانہ اور مسعود کو جیسے شاک لگا۔ طلحہ نے بھی بے اختیار گردن موڑ کر اسے دیکھا۔ ”کیا کہہ رہے ہو تم؟” مسعود علی کی آواز بلند ہو گئی۔
”پاپا! میں صبغہ کو طلاق نہیں دوں گا۔” اسامہ نے ایک بار پھر اسی اندازمیں اپنی بات دہرائی۔ ”منصور چچا نے غلط فیصلہ کیا ہے… بہت برا فیصلہ کیا ہے… لیکن اس میں صبغہ کا تو کوئی قصور نہیں ہے پھر میں اسے طلاق کیوں دوں۔” اسامہ نے کہا۔
”اس کا قصور نہیں ہے تو ہمارا کیا قصور ہے کہ منصور ہمیں فیکٹری سے الگ کر رہا ہے۔” مسعود علی کو غصہ آیا۔
”پاپا! بزنس ایک الگ چیز ہے… شادی یا ذاتی زندگی ایک دوسری چیز ہے۔” اسامہ نے سنجیدہ مگر پرسکون انداز میں کہا۔ ”ٹھیک ہے، وہ فیکٹری سے ہمیں الگ کر رہے ہیں لیکن ہمارے شیئرز کے بدلے ہمیں اتنا پیسہ ضرور مل جائے گا کہ ہم اپنی ذاتی فیکٹری شروع کر سکتے ہیں اور میں تو پہلے بھی آپ سے کئی بار یہ کہہ چکا تھا کہ ہمیں اپنا بزنس الگ ہی کرنا چاہیے کیونکہ اس طرح کے تعلقات میں بہت بار اونچ نیچ ہو جاتی ہے۔” وہ بڑے میچیور اندازمیں مسعود علی کو سمجھا رہا تھا۔ ”لیکن اس سب کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ میں صبغہ کو طلاق دے دوں۔ میری اس کے ساتھ اچھی انڈر اسٹینڈنگ ہے او ر میرے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ میں طلحہ کی طرح اسے چھوڑ دوں۔” وہ بات کرتے کرتے رکا۔ ”بلکہ میرا تو خیال ہے کہ طلحہ کو بھی امبر کو طلاق نہیں دینی چاہیے۔ اس سے چند چھوٹی موٹی غلطیاں ہوئی ہیں لیکن اس نے ایسا کوئی قصور نہیں کیا کہ اس طرح اسے طلاق دے دی جائے۔ بہر حال یہ طلحہ اور امبر کا ذاتی معاملہ ہے، میں ان کے بارے میں کوئی مشورہ نہیں دوں گا لیکن جہاں تک میرا تعلق ہے، میں کسی بھی قیمت پر صبغہ کو طلاق نہیں دوں گا۔”
اس نے اپنی بات ختم کی او رپھر اٹھ کر کمرے سے نکل گیا۔ اس کے پیچھے کمرے میں رہ جانے والے تینوں افراد ایک دوسرے کو ہکا بکا دیکھ رہے تھے، کیونکہ ان میں سے کسی کو بھی اسامہ سے اس ردِّ عمل کی توقع نہیں تھی۔
٭٭٭




”مجھے صبغہ سے بات کرنی ہے۔”
اسامہ نے فون پر رخشی کی آواز پہچان لی تھی۔ رسمی سلام دعا کے بعد اس نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔
”صبغہ سے کس سلسلے میں بات کرنی ہے؟” رخشی نے پوچھا۔ اس کا لہجہ سخت تھا۔
اس کے سوال نے اسامہ کو حیران کیا’ اگرچہ وہ اس سے پہلے بھی رخشی کے اس گھر میں آ جانے کے بعد صبغہ سے فون پر بات کرتا رہا تھا۔ مگر اس سے پہلے کبھی بھی رخشی نے فون نہیں اٹھایا تھا۔ ہمیشہ ملازم ہی فون اٹھایا کرتا تھا۔ آج پہلا موقع تھا کہ رخشی نے فون اٹھایا اور صبغہ سے اس کی بات کروانے کے بجائے سوال و جواب شروع کر دیے تھے۔ ناگواری کی ایک لہر اسامہ کے اندر اٹھی’ وہ اس وقت ویسے بھی پریشان تھا اور رخشی کا یہ سوال اس کی ناگواری میں اضافہ کر گیا تھا۔
”میں ایک اہم معاملے پر اس سے ضروری بات کرنا چاہتا ہوں۔” اس نے اپنے غصے کو دباتے ہوئے کہا۔
”یہی تو جاننا چاہتی ہوں کہ وہ ضروری بات کیا ہے؟” رخشی نے اسی انداز میں کہا۔
”آپ کو بتانا ضروری ہے؟” اس بار اسامہ اپنی جھنجھلاہٹ پر قابو نہیں پا سکا۔ اس کی جھنجلاہٹ نے رخشی کو قدرے محظوظ کیا۔
”میں اس کی ماں ہوں۔” اس نے بڑے جتانے والے انداز میں کہا۔
”آپ صرف منصور چچا کی بیوی ہیں۔” اسامہ اسے’ تم کہتے کہتے رک گیا۔
”صبغہ کی والدہ نہیں ہیں۔”
”ہاں! میں منصور کی بیوی ہوں اور اس رشتے سے صبغہ کی ماں ہوں۔”
”صبغہ کی ماں موجود ہیں اور میں نہیں سمجھتا کہ وہ آپ کو کسی طور پربھی اپنی ماں کی جگہ دے سکتی ہے۔” اس نے رُک رُک کر اپنے الفاظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔ ”میں اس گھر میں آ چکی ہوں اور میں سگی نہ سہی اس کی سوتیلی ماں تو ہوں۔”
”دیکھیں’ میں آپ کے ساتھ اس موضوع اور مسئلے پر بحث نہیں کرنا چاہتا۔” اسامہ نے یک دم اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ”آپ جو بھی ہیں یا نہیں ہیں … اس سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔ میں صبغہ سے بات کرنا چاہتا ہوں اور بس … مہربانی فرما کر آپ اس سے میری بات کروادیں۔”
”اور میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ تم کس سلسلے میں اس سے بات کرنا چاہتے ہو۔” اس بار رخشی کے لہجے میں نمایاں ترشی تھی۔
”وہ میری منکوحہ ہے۔” اسامہ نے کہا۔
”تو …؟” رخشی کا انداز آگ لگانے والا تھا۔
”تو یہ کہ مجھے حق ہے کہ میں اس سے کبھی اور کسی بھی وقت بات کروں۔”
”یہ حق تمہیں کس نے دیا ہے…؟ منصور نے ؟” رخشی نے پوچھا۔
”ہاں منصور چچا نے ہی دیا ہے۔”
”تو پھر اب منصور نے ہی مجھے منع کیا ہے کہ میں صبغہ سے تمہیں بات نہ کرنے دوں۔” رخشی نے اطمینان سے کہا۔
ایک لمحے کے لیے اسامہ چپ کا چپ رہ گیا۔ اسے توقع نہیں تھی کہ چند گھنٹے پہلے ہونے والا فیصلہ رخشی کے علم میں ہو گا یا پھر اسے یہ توقع نہیں تھی کہ منصور فیکٹری سے ان لوگوں کو الگ کرنے کے چند گھنٹے کے بعد ہی اس کے اور صبغہ کے درمیان رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کر دیں گے۔
”منصور چچا نے اس سے پہلے تو کبھی مجھے صبغہ سے بات کرنے سے نہیں روکا۔” اس نے کچھ ناراضی سے کہا۔
”نہیں روکا ہو گا مگر اب تو روک دیا ہے۔” رخشی کے لہجے میں لاپروائی تھی۔
”کیوں … ؟ کیوں روک دیا ہے؟”
”منصور تمہارا صبغہ سے بات کرنا پسند نہیں کرتے۔”
”کیوں …؟ میں یہی تو جاننا چاہتا ہوں کہ ایک دن کے اندر ایسا کون سا انقلاب آ گیا ہے کہ منصور چچا کو میرا صبغہ کے ساتھ بات کرنا بُرا لگنے لگا ہے۔” اسامہ سلگا۔
”ایک دن میں چوبیس گھنٹے ہوتے ہیں۔” رخشی نے جتاتے ہوئے کہا۔ ”اور چوبیس گھنٹے بہت لمبا عرصہ ہوتا ہے۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے’ چوبیس گھنٹوں میں …”
”صرف منصور چچا اور آپ کے ساتھ ہی ایسا ہوتا ہو گا۔ دوسرے لوگوں کے ساتھ تو ایسا نہیں ہوتا۔”
”کیا مطلب ہے تمہارا؟”
”آپ کو اس سوال کی ضرورت کیسے پڑ گئی … آپ تو لوگوں کے دلوں کے راز تک جانتی ہیں۔ مطلب تو بہت معمولی سی بات ہے۔”
”اچھا … میرے بارے میں بہت جانتے ہو۔”
”کون نہیں جانتا ہو گا۔ ” اسامہ نے تیکھے انداز میں کہا۔ rags to riches کی کہانی ہے۔ ایسی کہانیاں تو لوگوں کی زبان پر ہر وقت رہتی ہیں۔” ریسیور پر رخشی کی گرفت ایک لمحہ کے لیے سخت ہو گئی۔
”میری اور منصور کی بات کر رہے ہو؟” اس نے سرد لہجے میں اسامہ سے پوچھا۔
”ہاں ‘ فی الحال آپ کی اور منصور چچا کی ہی بات کر رہا ہوں۔ بعد میں آپ کا نام کس کے ساتھ آئے گا۔ یہ تو آپ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ہو گا۔”
وہ اتنا تُرش کیوں ہو رہا تھا۔ خود وہ بھی نہیں جانتا تھا۔ صرف یہ تھا کہ اس وقت جب وہ صبغہ سے بات کرنا چاہتا تھا اور صبغہ کے بجائے اسے رخشی سے بات کرنی پڑ رہی تھی تو رخشی کے لیے اس کے دل میں عجیب سی نفرت اور ناپسندیدگی پیدا ہو رہی تھی۔ اس سے پہلے اس نے کبھی رخشی کے ساتھ اس طرح کی طنزیہ گفتگو نہیں کی تھی۔ کیونکہ اس سے پہلے رخشی نے کبھی اس کے اور صبغہ کے درمیان آنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ لیکن اب یک دم جب اس نے ان دونوں کے درمیان آ کر کھڑا ہونے کی کوشش کی تھی تو اسامہ کے لیے خود پر قابو پانا مشکل ہو گیا تھا۔ رخشی کے لیے احترام تو اس کے دل میں پہلے بھی کبھی نہیں رہا تھا۔ لیکن اس وقت وہ لحاظ اور مروت بھی غائب ہو گئی تھی جس کا مظاہرہ وہ پچھلے کچھ ماہ میں مجبوراً کرتا رہا تھا۔
اس کے جملے نے دوسری طرف ریسیور تھامے کھڑی رخشی کو بہت دیر خاموش رکھا۔ وہ بچی نہیں تھی کہ اس سیدھے اور صاف طنز کو سمجھ نہ سکتی۔ بہت دیر چپ رہنے کے بعد اس نے بے حد پُرسکون لہجے میں اسامہ سے کہا۔
”میرا نام تو منصور کے علاوہ اور کسی کے ساتھ نہیں آئے گا۔ ہاں البتہ میں یہ ضرور دیکھوں گی کہ تمہارا نام صبغہ کے ساتھ اور کتنے دن رہتا ہے۔”
”میں اور صبغہ ہمیشہ ساتھ رہیں گے’ کیونکہ وہ رخشی نہیں ہے۔ اور میں منصور نہیں ہوں۔” اسامہ نے بڑے یقین سے کہا۔
”اچھا دیکھ لیتے ہیں پھر کون کیا ہے’ اب میں فون رکھوں یا تم رکھو گے؟” رخشی نے ترش انداز میں کہا۔
”میں صبغہ سے بات کیے بغیر فون نہیں رکھوں گا۔” اسامہ نے دو ٹوک انداز میں کہا۔”بہتر ہے’ آپ فون پر اس سے میری بات کروائیں ورنہ میں فون کرتا رہوں گا۔”
”اور میں فون کا تار نکال دوں گی۔”
”میں اس کے کالج چلا جاؤں گا۔” اسامہ نے جیسے دھمکی دی۔
”تم ایسا کرو گے تو وہ سب کچھ بہت جلد ہو جائے گا جسے ہونے میں ابھی کچھ دن لگیں گے۔”
”میں نہیں سمجھتا تھا کہ تم خوش فہمیاں پالنے والی عورت ہو۔” وہ اب تمام لحاظ ختم کر کے تم پر اتر آیا۔
”خوش فہمیاں کون پالتا ہے’ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔”رخشی نے زہریلے انداز میں کہا۔ ”میں تو ابھی تمہیں صرف یہ بتا رہی ہوں کہ میں کسی بھی صورت میں صبغہ سے تمہاری بات نہیں کرواؤں گی۔”
رخشی نے یہ جملہ کہتے ہوئے مڑ کر دیکھنے کی زحمت نہیں کی ورنہ وہ سیڑھیوں سے اترتی صبغہ کو ضرور دیکھ لیتی جو اپنا نام سن کر اس کی طرف متوجہ ہو چکی تھی۔
”اور اگر تم نے دوبارہ فون کرنے کی زحمت کی تو میں منصور کو اطلاع کر دوں گی پھر وہ خود ہی تم سے بات کر لیں گے۔”
”میں منصور چچا سے ڈرتا نہیں ہوں۔ تم انہیں فون کر کے ابھی بتا دو۔” صبغہ’ رخشی کی طرف بڑھی۔ اس کے قدموں کی چاپ نے رخشی کو اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ صبغہ کو دیکھتے ہی رخشی دوسری طرف اسامہ سے کچھ کہتے کہتے رک گئی۔
”میرا فون ہے؟” صبغہ نے اس کے پاس پہنچ کر بے تاثر لہجے میں کہا۔ دوسری طرف اسامہ نے بھی اس کی آواز سن لی۔ رخشی نے جواب میں کچھ بھی کہنے سے پہلے فون کا ریسیور رکھ دیا۔
”نہیں ۔ تمہارا فون نہیں تھا۔” اس نے بیٹھے بیٹھے صفائی سے جھوٹ بولا۔
”میرا فون تھا … تم نے میرا نام لیا تھا۔” صبغہ نے وہیں کھڑے کھڑے کہا۔
”تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے۔” رخشی نے اصرار کیا۔ ”تمہارا فون ہوتا تو میں تم سے بات کرواتی۔ مجھے کوئی ضرورت نہیں تھی فون رکھنے کی۔”
فون کی گھنٹی یک دم دوبارہ بجنے لگی۔ رخشی نے بے اختیار دانت کچکچائے’ فون اٹھائے بغیر بھی وہ جانتی تھی دوسری طرف اسامہ کے علاوہ کوئی نہیں ہو سکتا تھا۔ اس سے پہلے کہ صبغہ آگے بڑھ کر ریسیور اٹھاتی’ رخشی نے ریسیور اٹھا لیا۔ دوسری طرف اسامہ ہی تھا۔
”سوری رانگ نمبر …” ہیلو کی آواز سنتے ہی رخشی نے کہا اور ریسیور دوبارہ رکھ دیا۔
”اگر تمہارا فون ہوا تو میں تمہیں بلوالوں گی۔” ریسیور رکھ کر قدرے نرم لہجے میں اس نے صبغہ کو مخاطب کیا۔
”اس کی ضرورت نہیں ہے’ میں اس بار خود فون اٹھانا چاہتی ہوں۔” صبغہ نے سرد لہجے میں کہا۔
”یہ رانگ نمبر ہے۔” رخشی نے جتایا۔
”ہو سکتا ہے میرے لیے رانگ نمبر نہ ہو۔” اس نے اسی انداز میں کہا۔ فون کی گھنٹی ایک بار پھر بجنے لگی۔
رخشی کے چہرے کی سرخی بڑھنے لگی۔ وہ صوفہ پر بیٹھی ہوئی تھی۔ صبغہ اس کے مقابل کھڑی تھی۔ فون اس کے دائیں ہاتھ میز پر پڑا ہوا تھا۔ گھنٹی بجنے پر اس بار صبغہ نے چند قدم آگے بڑھ کر فون کا ریسیور اٹھانے کی کوشش کی۔ رخشی نے ہاتھ بڑھا کر ریسیور پر ہاتھ رکھ کر جیسے اسے روکنے کی کوشش کی۔
”یہ اسامہ کا فون ہے۔” اس نے عجیب سے انداز میں کہا۔ ”اور منصور نہیں چاہتے کہ وہ تم سے فون پر بات کرے۔”
”میں اور اسامہ ایک دوسرے کے لیے غیر نہیں ہیں۔ وہ میرا شوہر ہے’ اور پاپا مجھے اس سے بات کرنے سے نہیں روک سکتے۔” صبغہ نے ریسیور پر ہاتھ رکھے رکھے کہا۔ فون کی گھنٹی مسلسل بج رہی تھی۔
”تم پہلے منصور سے اجازت لو۔ اس کے بعد اسامہ سے بات کرو۔” رخشی نے اصرار کیا۔
”مجھے اسامہ سے بات کرنے کے لیے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ تم یہاں سے چلی جاؤ۔”
صبغہ نے اس کا ہاتھ جھٹکتے ہوئے فون کا ریسیور اٹھا لیا۔ رخشی نے تار نکال کر لائن ڈس کنیکٹ کر دی۔ صبغہ ریسیور ہاتھ میں لیے اسے دیکھنے لگی۔
”منصور نہیں چاہتے کہ تم اسامہ سے بات کرو اور اس گھر میں وہی ہو گا جو منصور چاہتے ہیں۔ میں ان کی بیوی ہوں اور میرا فرض ہے کہ میں ان کے ہر حکم پر عمل کروں۔” رخشی نے بیٹھے بیٹھے بے حد اکھڑ انداز میں کہا۔
”تم پاپا کی بیوی نہیں ہو … ہماری بدقسمتی ہو۔ ہم پر آیا ہوا عذاب ہو اور تم جیسی عورتیں کتنی وفا شعار اور فرمانبردار بیویاں ہوتی ہیں واقعی تم لوگوں کو ہر وقت بتاتے رہنا چاہیے اس طرح کی چھوٹی اور گھٹیا حرکتیں کر کے۔ تاکہ لوگوں کو یقین تو آ سے کہ تم جیسوں میں بھی فرمانبرداری کے جراثیم پائے جاتے ہیں۔”




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۷

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!