تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۸

”میں نے تفصیل تو نہیں پوچھی لیکن اس نے کلب میں اسے دو چار بار دیکھا ہے۔”
”اور دو چار بار دیکھنے پر اس نے یہ طے کر لیا کہ اسے امبر کے ساتھ شادی کرنی چاہیے۔” ہارون کے لہجے میں یک دم تلخی عود کر آئی۔
”اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ تم نے بھی تو مجھے پہلی بار دیکھنے پر ہی مجھ سے شادی کا فیصلہ کر لیا تھا۔” شائستہ نے بے حد عجیب انداز میں کہا۔
”تم میری کزن تھیں’ تمہارے بارے میں جانتا تھا میں۔”
”وہ تمہارے بزنس پارٹنر کی بیٹی ہے’ جانتے تو ہم اس کے بارے میں بھی ہیں۔”
”اسد کے لیے لڑکیوں کی کمی نہیں ہے کہ وہ ایک طلاق یافتہ لڑکی کی محبت میں گرفتار ہو جائے۔”
”وہ اسے پسند کرتا ہے۔”
”اس عمر میں ہر لڑکی اچھی لگتی ہے۔ تم اس سے کہو فی الحال اپنی تعلیم پر توجہ مرکوز رکھے۔ میں ابھی اس کی شادی نہیں کرنا چاہتا اور جب کروں گا بھی تو کم از کم امبر سے نہیں کروں گا۔” ہارون نے دوٹوک انداز میں کہا۔
”کیوں امبر میں کیا خرابی ہے؟”
”اس میں کوئی خرابی نہ ہوتی تو اتنی لمبی مدت کے نکاح کے بعد اسے طلاق نہ ہوتی۔”
”ہارون! تم اس کی طلاق کی وجہ کے بارے میں جانتے ہو؟” ہارون کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ ہاں کہے یا نہیں۔ ”نہیں۔” اس نے چند لمحوں کے بعد کہا۔
”میں جانتی ہوں۔” شائستہ نے کہا۔ ہارون کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ یہ عورت آخر کس حد تک معلومات رکھتی تھی۔
”منصور علی نے اپنے بھتیجے کے ساتھ اس کا نکاح کیا تھا۔ دوسری شادی کے بعد اس نے اپنے بھتیجے کو اپنی فیکٹری سے الگ کر دیا۔ اس نے جواباً امبر کو طلاق دے دی۔ اس طلاق میں ذاتیات کے بجائے بزنس انوالو ہے۔”
”تمہیں یہ کس نے بتایا ہے؟”
”اسد نے۔” ہارون خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا۔
”اسد کو یہ سب کچھ کہاں سے پتہ چلا ہے؟”
”میں نے اس سے نہیں پوچھا۔ لیکن وہ تمہارا بیٹا ہے۔ اس کے ذرائع معلومات بھی تمہارے جیسے ہی ہوتے ہیں۔”
”میری طرف سے تم اسد کو صاف صاف بتا دو کہ امبر سے اس کی شادی نہیں ہو گی۔” ہارون کمال نے یک دم کہا۔
”کیوں؟”




”منصور’ منیزہ کے ساتھ ساتھ امبر کو بھی گھر سے نکال چکا ہے اور امبر کو اپنی بہو بنانے کا مطلب اپنے اور منصور کے تعلقات کے درمیان دراڑ لانا ہے جو میں نہیں کروں گا۔ اسد کی شادی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ہمارے جیسے کسی بڑے خاندان میں ہو گی۔ منصور علی جیسے خاندان میں نہیں’ یہ تم اس کو صاف صاف بتا دو۔”
ہارون کمال اپنی کرسی سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔
”اور اگر اسد نے تمہاری بات ماننے سے انکار کر دیا تو؟” شائستہ نے بڑی سنجیدگی سے پوچھا۔
”وہ نہیں انکار کرے گا۔ تم اسے سمجھاؤ گی تو وہ انکار نہیں کرے گا اور تم اتنی سمجھ دار ضرور ہو کہ اس شادی کے فائدے اور نقصان کے بارے میں اندازہ لگا سکو۔” ہارون کمال نے کہا۔
”ہمارے اور منصور علی کے درمیان بزنس پارٹنر شپ ضرور ہو رہی ہے لیکن وہ ہمارے سامنے ایک بونے سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتا’ یہ بات تم اچھی طرح جانتی ہو۔ پارٹنر شپ کو رشتے داری میں بدلنے کا ارادہ میں نہیں رکھتا اور نہ ہی آئندہ کبھی رکھوں گا ویسے بھی اسد ابھی بہت چھوٹا ہے۔ چار پانچ سال سے پہلے میں اس کی شادی نہیں کروں گا۔” ہارون نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
”اگر پھر بھی اس نے شادی پر اصرار کیا تو اس سے کہنا کہ وہ اس کے بعد دوبارہ میرے گھر آنے کی زحمت نہ کرے جہاں چاہے جائے اور رہے ‘ میں پروا نہیں کروں گا۔”
وہ کہتے ہوئے ایک جھٹکے سے وہاں سے نکل گیا۔
شائستہ ٹیبل پر بیٹھی جوس کے گلاس کو اپنے دونوں ہاتھوں کے درمیان گھماتے ہوئے سوچوں میں گم تھی۔ اسے کوئی شبہ نہیں تھا کہ اسد کی ضد پر ہارون وہی کرے گا جس کا وہ ابھی کچھ دیر پہلے اعلان کر کے گیا تھا اور اسے اب یہ سوچنا تھا کہ وہ اسد کو کس طرح ہارون کی ناپسندیدگی کے بارے میں آگاہ کرے گی۔ اسے توقع نہیں تھی کہ اسد اور امبر کا آپس میں کوئی خاص تعلق یا رابطہ ہو گا کیونکہ اسد باہر تعلیم حاصل کر رہا تھا’ صرف چھٹیوں میں وہ پاکستان آیا کرتا تھا اور یہ ایک اتفاق ہی تھا کہ اس نے ایسی ہی چھٹیوں میں امبر کو دیکھا تھا اور دیکھنے کے فوری بعد اس نے شائستہ سے اس کے بارے میں بات کی تھی پھر یہ جاننے کے باوجود کہ اس کا نکاح ہو چکا تھا۔ وہ مسلسل اس کے بارے میں معلومات حاصل کرتا رہا۔ چھٹیاں ختم ہونے کے بعد باہر جانے پر بھی امبر کو اس نے اپنے ذہن سے نہیں نکالا اور اب جب وہ گریجویشن کرنے کے بعد واپس آیا تھا تو آنے کے کچھ دنوں کے بعد ہی اس نے ایک بار پھر شائستہ سے امبر کے بارے میں بات کی تھی۔
منصور علی اور منیزہ کی طلاق کے بارے میں بھی اسے اسد نے ہی آگاہ کیا تھا۔ اور شائستہ کو اس طلاع پر شاک لگا تھا۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ ہارون کے ایک بزنس پارٹنر کے ساتھ ہونے والے ایسے واقعے کے بارے میں اسے اس طرح بے خبر بھی رکھا جا سکتا تھا۔ یہ ایک اتفاق ہی تھا کہ منصور علی اور اس کی فیملی کو وہ پہلے کی طرح اپنے گھر پر کسی دعوت پر نہیں بلا سکی کیونکہ اس نے خود کچھ عرصہ بیرون ملک گزارا تھا۔ ہارون کمال نے بھی اسے منصور علی کی فیملی کو اپنے ہاں پہلے کی طرح بلانے کے لیے نہیں کہا تھا’ نہ ہی خود منصور علی کی طرف سے ان لوگوں کو کوئی بلاوا ملا تھا۔ واپس آنے کے بعد شائستہ اپنے سوشل سرکل میں اتنی مصروف رہی کہ اسے منیزہ یا منصور علی کے بارے میں ہارون سے کچھ بھی کہنے کا موقع نہیں ملا اور اب چند ماہ کے بعد جب اسد کے توسط سے یہ خبر ملی تو وہ حیران رہ گئی تھی۔ اسے توقع نہیں تھی کہ منصور علی اور منیزہ کے درمیان اس طرح طلاق ہو سکتی تھی’ وہ دونوں ہر ملاقات پر آپس میں بے حد خوش نظر آتے تھے۔ شائستہ کا اندازہ تھا کہ منصور علی ایک مکمل فیملی مین تھے۔ کیونکہ وہ جس سرکل میں اٹھتی بیٹھتی تھی’ وہاں اس نے کبھی منصور علی کے بار ے میں کوئی بات نہیں سنی تھی۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ منصور بہت سوشل نہیں تھے۔ اگر وہ منصور کے بارے میں کچھ نہ کچھ سنتی رہتی تو شاید اسے اس طرح ان دونوں کی علیحدگی کے بارے میں کوئی حیرانی نہ ہوتی لیکن اس طرح اچانک۔
اور اب اسے اسد اور ہارون کے بارے میں پریشانی ہو رہی تھی۔ اسد ضدی تھا اور ہارون دوسروں کو اپنے پاؤں کے نیچے رکھنے والا۔ اب یہ شائستہ کے ہاتھوں میں تھا کہ وہ اس معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کرے۔ اسے ہارون کی بات میں وزن نظر آ رہا تھا۔ اس صورت حال میں امبر سے اسد کی شادی ان کے لیے کوئی زیادہ مفید سودا نہیں تھا اور اب اسے اسد کو یہی بات سمجھانی تھی۔
٭٭٭
”پاپا سے آپ کی بات ہوئی؟” اسد’ ہارون کے جانے کے چند منٹوں بعد ڈائننگ روم میں داخل ہوا۔ شائستہ ابھی وہیں بیٹھی ہوئی تھی۔ اسد نے اندر آتے ہی بنا کسی تمہید کے کرسی کھینچتے ہوئے کہا۔
”اتنے بے صبرے کیوں ہو رہے ہو اسد؟ آرام سے بیٹھ جاؤ۔” شائستہ نے بڑے لاڈ سے اسے پچکارتے ہوئے کہا وہ جواباً ہنس دیا۔
”بے صبرا تو نہیں ہو رہا۔ بس جاننا چاہ رہا ہوں کہ پاپا کا کیا ردعمل تھا۔”
اس نے کپ اٹھا کر سامنے رکھا۔ شائستہ نے نیپکن سے منہ صاف کرتے ہوئے اس کو دیکھا۔
”تمہارا کیا خیال ہے’ ہارون نے کیا کہا ہو گا۔”
اسد نے کندھے اچکائے۔ ”پاپا کے ری ایکشن کے بارے میں کچھ بھی پیشن گوئی کرنا بہت مشکل ہے’ ویسے میں سمجھتا ہوں ناراض نہیں ہوئے ہوں گے۔”
شائستہ ہلکا ساہنسی۔ ”بالکل غلط … ہارون کے بارے میں تمہارے اندازے واقعی غلط ہیں۔ تمہارے پاپا بہت ناراض ہوئے ہیں۔”
اسد چائے کا کپ ہونٹوں تک لے جاتے ہوئے رک گیا۔ اس کے چہرے پر اب مسکراہٹ نہیں تھی۔ ”ناراض ہوئے ہیں؟” وہ کپ واپس ٹیبل پر رکھتے ہوئے بولا۔ ”اس میں ناراضی والی کون سی بات ہے؟” اس نے شائستہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”بہت ساری باتیں ہیں۔”
”مثلاً …؟”
”مثلاً یہ کہ ہارون کا خیال ہے تمہیں ابھی اپنی تعلیم پر توجہ دینی چاہیے۔”
اسد نے سرجھٹکا ”فارگاڈسیک ممی۔ گریجویشن کر لی ہے میں نے۔”
”ہارون کے نزدیک گریجویشن کافی نہیں ہے۔ اور میرا بھی یہی خیال ہے۔” شائستہ سنجیدہ ہو گئی۔
”اور میں نے کب کہا ہے کہ میں تعلیم ختم کر رہا ہوں۔”
”ہارون چاہتے ہیں کہ تم اپنی تعلیم جاری رکھو اور جب تمہاری تعلیم ختم ہو جائے تو اس کے بعد تم ان معاملات کے بارے میں سوچو۔”
”میں بھی فوری طور پر تو شادی نہیں کرنا چاہتا۔ صرف یہ چاہتا ہوں کہ آپ میری انگیجمنٹ کر دیں۔”
”ہارون انگیجمنٹ پر بھی تیار نہیں ہیں۔” شائستہ نے نفی میں سرہلا دیا۔
”وجہ؟”
”وہ ابھی مناسب نہیں سمجھتے۔”
”اوکے فائن … پھر آپ ان سے کہیں کہ وہ امبر کے گھر والوں سے زبانی ہی بات کر لیں۔” اسد نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
”اسد! تمہاری شادی چار پانچ سال سے پہلے نہیں ہو سکتی۔ اور چار پانچ سال پہلے منگنی کر دینا یا نسبت ٹھہرا دینا کیا معنی رکھتا ہے۔
”میرے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا۔
مگر امبر کے لیے رکھتا ہو گا۔” اسد نے کہا ”میں نے آپ کو بتایا تھا اسے چند دن پہلے طلاق ہوئی ہے۔” اس نے چائے کے کپ سے پہلا گھونٹ لیا۔ ”اور اب ظاہر ہے طلاق کے بعد وہ لوگ اسے چار پانچ سال تو بٹھا کر نہیں رکھیں گے۔ ویسے بھی ان کے گھر میں جس طرح کے حالات ہیں اس میں امبر کی مدر بھی جلد از جلد اس کی شادی کر دینا چاہیں گی۔ آپ ان سے بات کر لیں گی تو کم از کم انہیں یہ تو پتا چل جائے گا کہ میں اس میں انٹرسٹڈ ہوں۔”
”دیکھو ابھی اس کی طلاق ہوئی ہے۔ فوری طور پر تو وہ اس کی شادی نہیں کریں گے نہ ہی ابھی ان کے ساتھ اس موضوع پر بات کرنا مناسب ہے۔ چند ماہ گزر جانے دو پھر دیکھیں گے۔” شائستہ اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔ ”تم اس دوران اپنے ایڈمیشن کو فائنل کرلو’ اپنی توجہ کو یہاں مرکوز رکھو۔”
”اور اگر اس دوران امبر کی کہیں نسبت طے ہو گئی تو؟”
”نہیں ہو گی … ” شائستہ نے لاپروائی سے کہا۔ ”تمہیں ان کے فیملی کرائسس کا تو پتہ ہی ہے۔ اس قسم کی صورت حال میں کون ہے جو ایسے ہی پرپوزل لے کر پہنچ جائے۔”
”ممی اگر میں اس قسم کے حالات کے باوجود اس میں انٹرسٹڈ ہو سکتا ہوں تو پھر کوئی اور بھی ہو سکتا ہے؟” اسد نے شائستہ کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”کوئی اور اگر ہوتا ہے تو ہونے دو ۔ ہمیں پروا نہیں ہے۔ ہمیں جب ضرورت ہو گی تو ہم اس کے بارے میں سوچیں گے۔”
اسد نے چائے کا کپ ایک بار پھر ٹیبل پر رکھ دیا۔
”جب ضرورت” ہو گی تب اس کے بارے میں سوچیں گے۔ اس کا کیا مطلب ہوا آپ مجھے بتائیں گی۔؟”
شائستہ اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔ ”میں آپ سے کہہ رہا ہوں کہ آپ ابھی ان سے رابطہ کریں۔” اسد کے لہجے میں ناراضی تھی۔
”آپ کہہ رہی ہیں کہ جب ضرورت ہو گی تب سوچا جائے گا۔ کبھی آپ کہہ رہی ہیں کہ میں اپنی تعلیم پر توجہ دوں۔ … t get it’Idon’ میں اسکول کا اسٹوڈنٹ نہیں ہوں۔ میں بڑا ہو چکا ہوں ممی … میرے معاملات کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔”
”اور آپ کو مجھے سنجیدگی سے لینا چاہیے۔”
اس کا انداز تنبیہی تھا۔
”اسد تم …” شائستہ نے کچھ کہنا چاہا۔
اسد نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ آپ مجھ سے بہت صاف لفظوں میں بات کریں۔ میری ایجوکیشن کو ایک طرف رکھ دیں تو پھر اور کیا وجہ رہ جاتی ہے۔”
”ٹھیک ہے تم صاف صاف سننا چاہ رہے ہو تو سنو…” شائستہ بھی اس بار کچھ ناراض ہو گئی۔ ”ہارون’ امبر سے تمہاری شادی کرنے پر تیار نہیں ہے۔”
اسد نے بے اختیار ایک گہرا سانس لیا۔ ”بالکل میں یہی سننا چاہ رہا تھا۔ اصل بات …”
”منصور ‘ ہارون کا بزنس پارٹنر ضرور ہے۔” شائتہ نے اس کے جملے کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی۔ ”لیکن ہارون اس تعلق کو رشتہ داری میں بدلنا نہیں چاہتا۔”
”کیوں…؟”
”ضروری نہیں ہے کہ میں اس کی ہر بات کو … ہر فیصلے کو سوالیہ نشان بناؤں۔”
”آپ نہ بنائیں … میں تو بتا سکتا ہوں۔ مجھے پوچھنے کا حق ہے۔ ایک ”بزنس پارٹنر شپ” رشتے میں کیوں نہیں بدلی جا سکتی۔”
”ہارون اگر یہ نہیں چاہتے تو یقینا اس کی کچھ ٹھوس وجوہات ہوں گی۔” شائستہ نے کہا۔
”تو میں آپ سے وہی ٹھوس وجوہات تو جاننا چاہتا ہوں۔ آپ مجھے وہ ٹھوس وجوہات بتا کر قائل کر لیں۔ میں دوبارہ اس معاملے پر بات تک نہیں کروں گا۔”
”امبر اچھی لڑکی نہیں ہے۔”
”کیا …؟” اسد حیرانی سے شائستہ کا چہرہ دیکھنے لگا۔ ”یہ آپ کہہ رہی ہیں؟”
”یہ میں نے نہیں’ ہارون نے کہا ہے۔” شائستہ نے اپنی نظر گھمالی۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۷

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!