تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۸

”جو لوگ نقصان پہنچانا چاہیں، وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ان کے پاس اختیارات کتنے ہیں۔ وہ صرف نقصان پہنچاتے ہیں اور اس کے لیے وہ سو راستے نکال سکتے ہیں۔ پچاس راستے تو میں بھی ابھی بیٹھے بٹھائے تمہیں بتا سکتا ہوں۔” ہارون کمال مسلسل بول رہا تھا۔
”ہارون! وہ مجھے نقصان کیوں پہنچائیں گے؟”
”تمہاری شادی کی وجہ سے۔”
”میری شادی کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔”
”یہ صرف تمہارا خیال ہے۔” ہارون کمال نے کہا۔ ”منیزہ کو طلاق دے کر اور امبر کو گھر سے نکال کر تم نے ان کے پیروں کے نیچے سے زمین کھینچ لی ہے۔ تم کیا سمجھتے ہو کہ تمہارے بھائی اور بھتیجے اپنے مستقبل کے بارے میں اندیشوں کا شکار نہیں ہو رہے ہوں گے۔”
”میں ان سے بات کرکے ان کو مطمئن کر دوں گا۔” منصور نے کہا۔
”اور وہ تمہارے کہنے سے مطمئن ہو جائیں گے؟” ہارون کمال نے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا۔
”ان کا تعلق مجھ سے ہے۔ منیزہ سے نہیں۔” منصور علی نے جتایا۔
”منیزہ سے نہیں… امبر سے تو ہے۔” ہارون کمال نے کہا۔
”اور میں اس لیے بے فکر ہوں، وہ اتنے احمق تو نہیں ہیں کہ بزنس میں مجھے نقصان پہنچا کر اپنے لیے مسائل کھڑے کر لیں۔”
”ان کو کیا مسئلہ درپیش آسکتا ہے؟” ہارون نے چبھتے ہوئے انداز میں کہا۔ ”میں ایسی صورت میں امبر اور صبغہ کا رشتہ ان کے ساتھ ختم کردوں گا۔” منصور علی نے کہا۔
”امبر اپنی ماں کے لیے تمہیں چھوڑ گئی ہے، تم سمجھتے ہو کہ وہ تمہارے لیے، تمہارے نقصان کی خاطر اپنے شوہر کو چھوڑ دے گی۔”
”صبغہ تو چھوڑ دے گی۔ وہ تو میرے گھر پر ہی ہے۔”
ہارون کمال کو بے اختیار غصہ آیا۔ وہ کہنا چاہتا تھا کہ اسے صبغہ کی پرواہ ہے نہ اس میں دلچسپی۔ اسے صرف امبر کی پرواہ تھی اور وہ اسے اپنے ہاتھ سے نکلتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔
”ایک دفعہ وہ تمہیں مالی طور پر نقصان پہچانے میں کامیاب ہو گئے تو انہیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہوگی کہ تمہاری بیٹیاں ان کے گھر آتی ہیں یا نہیں۔” ہارون کمال نے کہا ”تمہاری دوسری شادی کے بعد انہیں ویسے بھی تمہاری بیٹیوں میں کوئی دلچسپی نہیں رہے گی اور تم نے رخشی کے نام اپنی کچھ جائیداد کر دی تو یہ دلچسپی اور بھی کم ہو جائے گی۔”
”فی الحال یہ مفروضے ہیں۔” منصور علی نے موضوع بدلنے کی کوشش کی۔




”میں مفروضوں پر یقین رکھنے والاآدمی ہوں، منصور!” ہارون کمال نے کندھے جھٹکتے ہوئے کہا۔ ”میں تمہاری طرح انتظار نہیں کرتا ہوں کہ پہلے کوئی مجھے پتھر مارے تو پھر میں اسے ٹھوکر ماروں۔ ایک تھپڑ کھا لینے کے بعد سو ٹھوکریں مارنے کے بعد بھی نہ نقصان پورا ہوتا ہے، نہ تکلیف، اور تم اس وقت تھپڑ کھانے کا انتظار کر رہے ہو۔ بہتر ہے کہ اس معاملے کو رخشی کے ساتھ ڈسکس کرو۔ وہ بہت سمجھدار لڑکی ہے۔ تمہیں اچھا مشورہ دے گی اور تمہیں اس کے مشورے پر عمل کرنا چاہیے۔” ہارون کمال نے جیسے انہیں راستہ دکھایا۔
”تم میرے بزنس پارٹنر ہو۔ تمہیں نقصان پہنچے گا تو مجھے بھی نقصان پہنچے گا۔ مارکیٹ میں میری ساکھ خراب ہوگی اور یہ میں برداشت نہیں کروں گا۔”
اس بار پہلی بار منصور علی نے بڑی سنجیدگی سے ہارون کے لہجے پر غور کیا۔ وہ انہیں مشورہ نہیںد ے رہا تھا وہ انہیں دھمکا رہا تھا۔
”میں تمہارے رشتہ داروں کے لیے اپنے بزنس اور ساکھ کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ بزنس میں ویسے بھی رشتہ داریاں نہیں چلتیں۔ جہاں تم نے باقی سب کچھ سے چھٹکارا حاصل کیا ہے۔ اپنے بھائی اور اس کے بیٹوں سے بھی چھٹکارا حاصل کرو۔ جو انسان ایک اچھے فیصلے کے فوراً بعد دوسرا اچھا فیصلہ نہ کرے لوگ اسے بھی احمق کہتے ہیں۔”
منصور علی کو لگ رہا تھا، وہ اب صحیح طور پر مصیبت میں پھنسے ہیں۔
٭٭٭
”میں نے تمہیں مبارکباد دینے کے لیے فون کیا ہے۔” ہارون کمال نے ستائشی انداز میں کہا۔ ”مجھے اندازہ نہیں تھا کہ تم اتنی جلدی اس گھر میں پہنچ کر منصور علی کی بیوی کو وہاں سے نکلوا دو گی۔”
”اس میں مجھ سے زیادہ منصور کی بیوی کا اپنا قصور تھا۔” رخشی نے جواباً کہا۔
”جو بھی ہوا۔ بہر حال اچھا ہوا، منصور علی کے ساتھ تمہارے جیسی لڑکی ہی ہونی چاہیے۔” ہارون نے کہا، رخشی اس کے جملے پر مسکرائی۔
”اب تمہارے ساتھ اتنی بے تکلفی ہے کہ میں تمہیں بھابھی وغیرہ کہنے کا تو تکلف نہیں کروں گا۔”
”اس کی ضرورت بھی نہیں ہے۔” رخشی نے فوراً کہا۔ منصور کے ساتھ سیکریٹری کے طور پر کام کرتے ہوئے وہ ہارون کے ساتھ بھی بہت بے تکلف ہو چکی تھی۔ اگرچہ نہ تو وہ ہارون کے منصوبوں سے واقف تھی اور نہ ہی ہارون اس کے ارادوں سے۔ لیکن اس کے باوجود ان دونوں کے درمیان بڑی اچھی مطابقت تھی۔
”میری آج منصور سے بات ہو رہی تھی۔” ہارون کمال نے شروع کے چند جملوں کے بعد اپنے اصل موضوع پر آتے ہوئے کہا۔
”کس بارے میں؟” رخشی کچھ حیران ہوتی۔ ہارون کمال اور منصور علی کے درمیان روز ہی بہت سی باتیں ہوتی تھیں۔ پھر ہارون کس بات کا خاص طور پر ذکر کر رہا تھا۔
”میں تمہیں بہت پسند کرتا ہوں، رخشی۔” اس کے اگلے جملے نے رخشی کو کچھ اور حیران کیا۔ ”کیونکہ تم میری طرح بہت آگے کی سوچ رکھنے والی لڑکی ہو۔ چیلنج قبول کرتی ہو لیکن احمقانہ رسک نہیں لیتیں۔”
رخشی نے اپنی آنکھیں سکیڑتے ہوئے ہارون کمال کے تعریفی الفاظ کو سمجھنے کی کوشش کی۔ وہ اتنی احمق نہیں تھی کہ یہ سمجھتی کہ ہارون واقعی اس سے یا اس کی صلاحیتوں سے بہت متاثر تھا۔
”منصور اچھا ہے۔” ہارون کہہ رہا تھا۔ ”مگر وہ تمہارے جتنا ذہین نہیں ہے۔ یا پھر یہ کہنا چاہے کہ بعض دفعہ بڑی بزدلی کا مظاہرہ کرتا ہے۔”
”میں جانتی ہوں۔” رخشی نے بے اختیار کہا۔ اسے کچھ یاد آگیا تھا۔
”اور ایک کامیاب بزنس مین بزدل کبھی نہیں ہوتا، کم از کم اتنا بزدل نہیں جتنا کبھی کبھی منصور ہو جاتا ہے۔” ہارون نے اسی سنجیدگی سے اپنی بات جاری رکھی۔ ”میں چاہتا ہوں، کہ تم منصور کی صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کرنے میں مدد کرو۔” اس نے رُک کر کہا۔
”میں نے آج اس سے اس کے بھائی اور بھتیجوں کی بات کی ہے۔”
رخشی کے کان کھڑے ہو گئے۔
”اگر اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے تو یہ بہتر ہے کہ وہ اب اپنے بھائی اور بھتیجوں کو اپنی فیکٹری سے بھی الگ کردے۔
خوشی کی ایک لہر رخشی کے اندر اٹھی۔ ہارون کمال اور وہ دونوں ایک ہی ایک نہج پر سوچ رہے تھے۔ یہ اس دن رخشی کے لیے سب سے اچھی خبر تھی۔
”منصور نے اس بارے میں آپ سے کیا کہا؟” رخشی نے بڑے محتاط انداز میں اپنی خوشی کو چھپاتے ہوئے کہا۔
”اس نے کہا ہے کہ وہ ابھی اس بارے میں سوچے گا؟” ہارون کمال نے اپنے لہجے میں مایوسی کے عنصر کو نمایاں کرتے ہوئے کہا۔ ”سوچے گا اور انتظار کرے گا۔ اور تب تک بہت دیر ہو جائے گی۔”
”میں اس سلسلے میں کیا کرسکتی ہوں؟”
”تم بہت کچھ کر سکتی ہو۔” ہارون نے کہا۔ ”میں نے منصور سے کہا ہے کہ وہ اس سلسلے میں تم سے مشورہ کرے۔” ہارون نے جیسے انکشاف کیا۔ ”اور میں چاہتا ہوں کہ اگر وہ تم سے مشورہ کرے تو تم اسے مجبور کرو کہ وہ اپنے بھائی اور اس کے بیٹو ںکو فیکٹری سے نکال دے۔”
”ضروری تو نہیں کہ منصور اس سلسلے میں مجھ سے بات کریں۔” رخشی نے بڑے نپے تلے انداز میں کہا۔
”وہ تم سے بات ضرور کرے گا۔ کیونکہ میں نے آج اس بارے میں کافی صاف گوئی سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے اور اگر وہ تم سے خود بات نہیں کرتا تو تم خود اس سے بات کرو۔”
”میں خود کس طرح ان سے بات کر سکتی ہوں۔” رخشی نے تامل کا اظہار کیا۔
”کیوں نہیں کر سکتیں۔ تم اس کی بیوی ہو اور تمہیں اس کے فائدے یا نقصان کی پرواہ کرنی چاہیے۔” ہارون نے فوراً کہا۔ ”اگر اسے کہیں سے نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو تو تمہیں وقت سے پہلے اسے خبردار کرنا چاہیے۔”
”میں نہیں چاہتی کہ میری ایسی کسی بات سے وہ مجھے خود غرض سمجھیں یا یہ سوچ لیں کہ میں ان کے بچوں کو نقصان پہنچانا چاہتیہوں۔” رخشی نے اپنے ذہن میں ابھرنے والے واحد اندیشے کا اظہار کیا۔
”آپ جانتے ہیں، وہ صرف ان کے بھتیجے نہیں ہیں داماد بھی ہیں… انہیں فیکٹری سے نکالا جائے گا تو پھر امبر اور صبغہ کے رشتوں پر اثر پڑ سکتا ہے۔”
”رخشی! ان کے رشتوں پر جتنا اثر پڑ سکتا تھا، تمہارے ساتھ منصور کی شادی سے پہلے ہی پڑچکا ہے۔” ہارون کمال نے بڑی صاف گوئی سے کہا۔ ”منصور کے بھتیجے پہلے ہی جان چکے ہیں کہ اب منصور کی جائیداد پر پہلے کی طرح ان کا کنٹرول نہیں رہ سکے گا۔ میں اسی لیے چاہتا ہوں کہ اس سے پہلے کہ وہ منصور کو کوئی نقصان پہنچانے کا فیصلہ کریں۔ منصور انہیں بزنس سے الگ کر دے۔”
رخشی بڑی سنجیدگی سے اس کی بات سن رہی تھی۔
”وہ جب تک بزنس میں رہتے ہیں تمہارے لیے خطرہ بنے رہیں گے۔”
”اگر امبر اور صبغہ کے ساتھ ان کا رشتہ ختم ہوتا ہے تو یہ کم از کم تمہارے لیے بہت اچھا رہے گا۔ ورنہ وہ فیکٹری آج نہیں تو کل منصور اور تمہارے ہاتھ سے نکل جائے گی۔ امبر اور صبغہ تمہیں کبھی معاف نہیں کریں گی اور وہ مسلسل اپنے شوہرکے ذریعے تمہارے اور منصور علی کے لیے پرابلمز کھڑی کرتی رہیں گی۔”
ہارون ایک لمحہ کے لیے رکا۔
”چند سالوں کے بعد جب منصور کا بیٹا جوان ہو جائے گا تو تمہاری پریشانیوں میں اور اضافہ ہو جائے گا۔ منصور آخر کب تک ان کا مقابلہ کر سکے گا۔”
رخشی نے بے اختیار ایک گہرا سانس لیا۔ ہارون کمال اسے اب پریشان کر رہا تھا۔
”پھر مجھے کیا کرنا چاہیے؟” وہ پوچھنے پر مجبور ہو گئی۔
”تمہیں اپنی پوزیشن کومحفوظ کرنا چاہیے۔ منصور کومجبور کرو کہ وہ طلحہ اور اسامہ کو فیکٹری سے الگ کر دے۔ وہ ابھی تمہاری بتا کو ٹال نہیں سکتا۔ لیکن کچھ وقت گزر جائے گا تو پھر اس کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جائے گا”
رخشی ہارون کی بات کو بہت سنجیدگی سے سُن رہی تھی اور فون رکھنے کے بعد اسے اندازہ ہونے لگا تھا کہ ہارون کی صورت میں اس وقت اس کے پاس ایک ایسا ٹرمپ کارڈ آگیا تھا جسے صحیح طور پر استعمال کرنے کی صورت میں وہ اپنے راستے کے بہت سے کانٹوں کو ایک جھٹکے سے نکالنے میں کامیاب ہو سکتی تھی اور وہ یہ موقع ضائع نہیں کر سکتی تھی۔
٭٭٭
روشان اسکول کے گیٹ سے باہر نکلا، ڈرائیور اس کا منتظر تھا۔ اس نے روشان کا بیگ اٹھا لیا۔ روشان چپ چاپ گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔ پچھلی سیٹ پر صبغہ بیٹھی ہوئی تھی اور اس کے ساتھ ہی رابعہ اور زارا بھی تھیں۔ روشان فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھول کر ڈرائیور کے برابر بیٹھ گیا۔ ڈرائیور پیچھے ڈگی میں اس کا بیگ رکھ رہا تھا چاروں بہن بھائیوں میں کوئی بات نہیں ہوئی۔
ایک ہفتے گھر پر رہنے کے بعد وہ چاروں آج پہلے دن اسکول گئے تھے، اور یہ بھی صبغہ کی وجہ سے تھا ورنہ وہ سب اتنی بری طرح سے اپ سیٹ تھے کہ اسکول دور دور تک ان کے ذہن میں نہیں ابھر رہا تھا اور اب جب وہ اسکول سے اور صبغہ کالج سے واپس آگئی تھی تب بھی ان کے چہروں پر تحریر پریشانی اسی طرح برقرار تھی، پہلے کی طرح ان کے درمیان کسی گپ شپ کا تبادلہ تو ایک طرف… سلام دعا تک نہیں ہوئی تھی۔
ڈرائیور واپس اپنی سیٹ پر آکر بیٹھ گیا اور اس نے گاڑی اسٹارٹ کی تو روشان نے اس سے تحکمانہ انداز میں کہا۔
”صفدر انکل کے گھر چلو۔” اس نے اپنے اکلوتے ماموں کا نام لیا۔
ڈرائیور قدرے بے بسی سے روشان کو دیکھنے لگا جب کہ صبغہ نے بھی چونک کر روشان کو دیکھا، ڈرائیور اب خاموشی سے گاڑی رش سے نکال رہا تھا۔
”صفدر انکل کے گھر جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ گھر چلیں۔” صبغہ نے مداخلت کی۔
”کیوں ضرورت نہیں ہے میں ممی کے پاس جانا چاہتا ہوں۔” روشان نے اکھڑ لہجے میں کہا۔
”اور میں نے تمہیں سمجھایا تھا کہ ہم ممی کے پاس نہیں جائیں گے۔” صبغہ نے کہا۔
”میں ان سے ملنا چاہتا ہوں۔” روشان نے اسی انداز میں کہا۔
”اس کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ تم ان سے فون پر بات کرتے رہے ہو، وہی کافی ہے۔”
”تمہارے لیے کافی ہوگا، میرے لیے کافی نہیں ہے، ممی مجھ سے ملنا چاہتی ہیں۔” روشان نے ناراضی سے کہا اور پھر ایک بار پھر ڈرائیور سے مخاطب ہوا۔
”تم صفدر انکل کی طرف چلو۔”
”میں ادھر نہیں جاسکتا جی۔” ڈرائیور نے کہا۔
”کیوں… کیوں… نہیں جاسکتے تم؟” روشان یک دم مشتعل ہوا۔
”بڑے صاحب نے منع کیا ہے۔” ڈرائیور نے اپنی مجبوری بتائی۔ ”انہوں نے کہا تھا کہ آپ کو اسکول سے سیدھا گھر لے کر آؤں۔”
”مجھے پرواہ نہیں ہے کہ انہوں نے کیا کہا ہے، میں تم سے کہہ رہا ہوں کہ تم صفدر انکل کی طرف چلو تو تم بس چلو…” روشان جھنجھلایا۔
”میں نہیں جاسکتا۔ روشان صاحب۔” ڈرائیور نے ایک بار پھرکہا۔
”بس ٹھیک ہے، آپ گھر چلیں۔ ہمیں گھر ہی جانا ہے۔” صبغہ نے ایک بار پھر مداخلت کی۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۷

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!