تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۸

مری جانے کے فوراً بعد اس نے دوبار گھر فون کرکے منیزہ سے بات کی تھی، تب تک منیزہ اور امبر کو منصور کی دوسری شادی کا پتا نہیں چلا تھا، ورنہ منیزہ صبغہ تک یہ خبر پہنچانے میں کوئی تامل نہ کرتیں۔ بعد میں صبغہ اور منیزہ کا آپس میں کوئی رابطہ نہیں ہوا، وہ گھر میں ہونے والے واقعات سے مکمل طور پر بے خبر تھی۔
رات ساڑھے نو بجے جب لاہور پہنچنے کے بعد اس کی فرینڈ نے اسے اس کے گیٹ پر ڈراپ کیا تو تب تک اس کے ذہن سے سہ پہر منصور کے ساتھ ہونے والی گفتگو کا اثر غائب ہو چکا تھا۔ وہ بہت خوشگوار موڈ میں تھی، گاڑی سے اترنے کے بعد اپنا بیگ سنبھالتی ہوئی وہ آگے بڑھی اور اس نے ایک بار پھر گیٹ پر بیل دی۔ وہ کچھ حیران تھی کہ اس کی فرینڈ کی کار کے ہارن کی آواز سن کر بھی چوکیدار نے گیٹ نہیں کھولا تھا۔
بیل دینے کے چند منٹ بعد بھی اسے انتظار کرنا پڑا۔ چوکیدار نے ہارن کی آواز پر گیٹ کے اندر سے صبغہ کو دیکھ لیا تھا مگر گیٹ کھولنے کے بجائے وہ انٹر کام پر منصور علی کو صبغہ کے بارے میں بتانے اور اس کے لیے گیٹ کھولنے کے لیے اجازت لینے میں مصروف ہو گیا۔ صبغہ تب تک بیل بجاتی رہی۔ منصور کے اجازت دینے پر چوکیدار نے اپنے کیبن سے باہر آکر گیٹ کھول دیا۔
”اتنا انتظار… گیٹ کیوں نہیں کھول رہے تھے آپ۔ کم از کم دیکھ تو لیتے کہ میں کھڑی ہوں باہر۔” صبغہ نے اسے دیکھ کر کچھ ناراضی سے کہا اور پھر بیگز کی طرف اشارہ کیا۔ ”میرا سامان لے آئیں۔” وہ خود گیٹ کراس کر گئی۔ چوکیدار نے اس کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا۔ اس نے آگے بڑھ کر گیٹ کے باہر پڑے ہوئے بیگ اٹھا لئے۔ صبغہ تب تک تیز قدموں سے ڈرائیووے کو عبور کرتے ہوئے پورٹیکو کی طرف جارہی تھی۔ اس کا سامان اٹھائے اس کے پیچھے اندر آتے ہوئے چند لمحوں کے لیے چوکیدار کے دل میں آیا کہ وہ صبغہ کو دوپہر ہونے والے واقعات کے بارے میں بتا دے۔صبغہ کے انداز سے اسے اندازہ ہو چکا تھا کہ وہ ان تمام واقعات کے بارے میں بے خبر تھی مگر اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس کی اطلاع پر کس طرح کے ردِّعمل کا اظہار کرتی۔
منصور علی اس وقت گھر پر ہی موجود تھے، وہ کچھ دیر پہلے ہی رخشی کو وہاں لے کر آئے تھے، اگرچہ وہ رخشی کو اتنی جلدی وہاں لانا نہیں چاہتے تھے مگر رخشی کی ضد اور اصرار پر وہ مجبور ہو گئے تھے۔




روشان کو اسکول سے واپس آنے پر گھر پر ہونے والے واقعات کے بارے میں پتا چلا تھا۔ منصور اس وقت گھر پر نہیں تھے۔ روشان اور اس کی چھوٹی دونوں بہنیں شاکڈ تھیں۔ وہ طلاق کے بارے میں نہیں جانتی تھیں، ان کے لیے صرف اتنا ہی کافی تھا کہ منیزہ کومنصور نے گھر سے نکال دیا تھا ملازموں سے یہ جان کر کہ منصورعلی نے منیزہ کو طلاق دے دی ہے روشان کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ اس نے فوری طور پر منیزہ کے میکے فون کرکے اس کے بارے میں جاننے کی کوشش کی۔ منیزہ اور امبر وہیں پر تھیں۔ منیزہ نے اسے بھی گھر چھوڑ آنے کے لیے کہا لیکن جب روشان نے وہاں سے نکلنے کی کوشش کی تو۔چوکیدار نے اسے گھر سے نکلنے نہیں دیا۔
”منصور صاحب کہہ گئے ہیں کہ ان کے آنے تک آپ کہیں نہیں جاسکتے۔”
چوکیدار نے روشان سے کہا تھا۔ روشان نے واپس آکر منصور علی سے اس کے موبائل پر رابطہ کرنے کی کوشش کی، وہ ناکام رہا۔ منصور علی نے کال ریسیو نہیں کی، انہیں اندازہ تھا کہ گھر سے اس وقت آنے والی یہ کال روشان ہی کی ہو سکتی تھی اور وہ روشان سے فون کے بجائے آمنے سامنے بات کرنا چاہتے تھے۔ انہیں یقین تھا کہ جو کچھ وہ امبر کو نہیں سمجھا سکے، وہ روشان کو سمجھا لیں گے۔
رخشی کے ساتھ گھر پہنچنے پر انہوں نے روشان اور اس سے چھوٹی اپنی دونوں بیٹیوں کو لاؤنج میں انتظار کرتے پایا۔ روشان نے رخشی پر نظر نہیں ڈالی تھی۔ اس کے بس میں ہوتا تو وہ اس کی گردن مروڑ دیتا۔
”تم اندر جاؤ، میں روشان سے بات کرکے آتا ہوں۔” منصور علی نے روشان کے کچھ کہنے سے پہلے ہی رخشی کو اندر جانے کا اشارہ کیا۔
”یہ یہاں کیوں آئی ہے؟” روشان نے تند و تیز لہجے میں منصور سے کہا۔
”تم اس کے بارے میں تمیز سے بات کرو، وہ میری بیوی ہے اور یہ میرا گھر ہے، میں جسے چاہوں یہاں لا سکتا ہوں۔” منصور نے اسے جھڑکا۔
”اوکے… آپ اگر اسے لے آئے ہیں تو پھر ہم لوگوں کو یہاں سے جانے دیں، میں یہاں نہیں رہنا چاہتا۔” روشان نے اسی انداز میں کہا۔ ”جب آپ نے ممی اور امبر کو نکال دیا ہے تو ہمیں یہاں کیوں رکھ رہے ہیں۔”
”میں نے ان دونوں کو یہاں سے نہیں نکالا… یہ ان کا اپنا انتخاب تھا۔”
”آپ نے ممی کو طلاق دے دی ہے۔”
”وہ اسی قابل تھی۔ یہ کام جومیں نے آج کیا ہے، یہ مجھے کئی سال پہلے کر لینا چاہیے تھا۔” منصور نے بھی اسی کے انداز میں کہا۔ ”میرے اور منیزہ کے جھگڑے میں تم لوگوں کو انوالو نہیں ہونا چاہیے۔ امبر اپنی مرضی سے منیزہ کے ساتھ گئی ہے۔”
”ہم بھی اپنی مرضی سے یہاں سے جانا چاہتے ہیں۔”
”وہ عورت کیا دے سکتی ہے تمہیں، وہ خود بھی خوار ہو گی او رتمہیں بھی کرے گی۔”
”خوار کرنے کا سلسلہ تو آپ نے شروع کیا ہے پھر اب آپ کو ہماری کیوں فکر ہو رہی ہے۔ آپ چند گھنٹوں میں اپنی نئی بیوی اس گھر میں لے آئے ہیں، اس سے زیادہ کیا کریں گے۔”
”اپنا منہ بند رکھو، یہ مت بھولو کہ تم کس سے بات کر رہے ہو۔” منصور علی کو غصہ آگیا۔ ”میں نہیں چاہتا کہ تم اس عورت کے پاس جا کر اپنی زندگی برباد کرو۔”
”وہ عورت میری ممی ہیں۔”
”وہ ایک بے وقوف عورت ہے، بے وقوف اور ضدی… اور جس عورت میں یہ دونوں خصوصیات ہوں، وہ عورت کوئی رشتہ نہیں نبھا سکتی۔” منصور نے تنفر سے کہا۔
”آپ تو بے وقوف نہیں تھے، آپ نے رشتے نبھالیے؟” منصور چند لمحوں کے لیے کچھ نہیں کہہ سکے۔
”وہ اپنی تباہی کی خود ذمہ دار ہے۔” انہوں نے کچھ دیر کے بعد کہا۔”میں نے دوسری شادی کرکے کوئی گناہ نہیں کیا تھا کہ وہ اس پر اس طرح ہنگامہ برپا کر دیتی۔ میں ایک چھوڑ کر تین شادیاں اور کرتا، اسے کیا تکلیف تھی۔”
منصور اب روشان کو لاشعوری طور پر وضاحتیں دینے میں مصروف تھے۔
”اس عورت نے ساری زندگی مجھے استعمال کیا، گھر کو جہنم بنا کر رکھ دیا، تمہیں اندازہ ہی نہیں کہ میں اس کے ساتھ کتنی مشکل زندگی گزار رہا تھا، صرف تم لوگوں کی وجہ سے۔”
روشان بے یقینی سے باپ کو جھوٹ بولتے دیکھ رہا تھا۔ چند ماہ پہلے اس نے منصور علی کو کبھی منیزہ سے ناخوش نہیں دیکھا تھا، کبھی نہیں… اور اب یک دم وہ اسے اپنے اس ذہنی سکون کے بارے میں بتا رہے تھے جس سے وہ محروم تھے۔ منصور اب روشان کو منیزہ کے رخشی کے گھر جانے کے بارے میں بتا رہے تھے۔ روشان بے تاثر چہرے اور سرد مہری کے ساتھ منصور علی کو دیکھ رہا تھا۔ وہ خود منیزہ کی جگہ ہوتا تو یہی کرتا۔ اس نے دل میں اعتراف کیا مگر باپ سے یہ نہیں کہا۔
”تم اس کے پاس چلے جاؤ گے تو وہ تمہیں کہاں رکھے گی، تمہارے اخراجات کہاں سے پورے کرے گی۔ میں تو اسے کچھ نہیں دوں گا، ایک پیسہ تک نہیں۔ اگر تم امبر کی طرح یہ گھر چھوڑ کر چلے جاتے ہو تو میں تمہیں دوبارہ کبھی یہاں آنے نہیں دوں گا۔ میں تمہیں اپنی جائیداد میں سے کوئی حصہ تک نہیں دوں گا۔ جس اسکول میں تم پڑھ رہے ہو، اس کی فیس منیزہ تو افورڈ نہیں کر سکتی۔”
”مجھے صرف چند ماہ اسکول میں گزارنے ہیں پھر مجھے کسی فیس کی ضرورت نہیں پڑے گی۔” روشان نے باپ کو یاددہانی کروائی۔
”اولیولز کر لو گے تو کیا کرو گے…؟ دنیا سڑک پر تمہارے استقبال کے لیے کھڑی نہیں ہو گی کہ تم اس اسکول سے اولیولز کرکے نکلو اور تمہیں کسی بڑے عہدے پر فائز کر دیا جائے۔” منصور نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
”کر لوں گا کچھ نہ کچھ، آپ کو اس کے بارے میں کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔” روشان نے اکھڑے ہوئے لہجے میں ہکا۔ ”آپ کو میری پرواہ ہوتی تو آپ یہ سب نہ کرتے جو آپ نے کیا ہے۔”
”جو میں نے کیا ہے، اس کا تعلق میری زندگی سے ہے، تمہاری زندگی سے نہیں۔” منصور نے کہا۔
”میں یہاں سے جانا چاہتا ہوں، آپ مجھے یہاں سے جانے دیں۔” منصور کی بات کا جواب دینے کی بجائے روشان نے اصرار کیا۔
”میں تمہیں بتا چکا ہوں، میں تمہیں یہاں سے جانے نہیں دوں گا۔” منصور علی نے اسی دو ٹوک انداز میں کہا۔ ”تم میرے اکلوتے بیٹے ہو، مجھے تم سے کتنی محبت ہے، تم جانتے ہو۔ تم میری تمام جائیداد کے وارث ہو، میں تمہیں سڑکوں پر دھکے کھانے یا رشتہ داروں کے گھروں پر ان کے ٹکڑوں پر پلنے کے لیے نہیں چھوڑ سکتا۔” منصور نے کہا۔
”آپ صرف اپنی فکر کریں۔” اس نے تحقیر آمیز لہجے میں کوریڈور کی طرف ہاتھ کا اشارہ کیا۔ ”یا پھر اپنی اس نئی بیوی کی فکر کریں جسے آپ یہاں لے کر آئے ہیں۔”
منصور اس کی بات پر مشتعل ہو گئے۔
”اپنی زبان پر قابو رکھو، میری محبت سے ناجائز فائدہ نہ اٹھاؤ۔ اب اور کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، اپنے کمرے میں جاؤ، میں کل دوبارہ تم سے بات کروں گا۔”
منصور علی پاؤں پٹختے ہوئے اپنے کمرے کی طرف چلے گئے۔
وہ اپنے کمرے میں گئے ہی تھے جب چوکیدار نے انٹر کام پر انہیں صبغہ کی آمد کا بتایا۔ وہ ان سے پوچھ رہا تھا کہ کیا اسے صبغہ کو اندر آنے دینا چاہیے۔ منصور رخشی کے تیوروں کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک بار پھر ان ہی قدموں سے واپس لاؤنج میں آگئے۔
روشان اور ان کی چھوٹی دونوں بیٹیاں ابھی بھی لاؤنج میں ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ منصور کا بلڈپریشر ہائی ہونے لگا۔
روشان انہیں دیکھ کر ایک بار پھر کھڑا ہو گیا۔ ”ہمیں یہاں سے جانا ہے۔” اس نے کھڑے ہوتے ہوئے اسی اکھڑ اندازمیں کہا۔
”صبغہ آرہی ہے، میں اس سے بات کرنے کے لیے آیا ہوں۔” منصور نے تحکمانہ انداز میں کہا۔
”آپ کیا سمجھتے ہیں کہ وہ آپ کے کہنے پر یہاں رہنے کے لیے تیار ہو جائے گی۔”
”ان میں سے کوئی بھی اگر یہاں رہنا نہیں چاہتا تو نہ رہے، میں زبردستی نہیں کروں گا مگر روشان تمہاری بات دوسری ہے۔ تمہیں اپنی ماں کی طرح تنگ نظری کا مظاہرہ کرنے کی بجائے میرا نقطہ نظر بھی سمجھنا چاہیے، ابھی تم چھوٹے ہو۔” منصور علی کا انداز بہت مصالحانہ تھا۔ ”چند سالوں بعد جب تم بڑے ہو جاؤ گے تو میری سچویشن کو زیادہ اچھی طرح سمجھ سکو گے۔”
روشان نے اس بار کچھ نہیں ہا، وہ نروٹھے انداز میں لاؤنج کے دروازے پر نظریں جمائے کھڑا رہا۔ واضح طور پر وہ صبغہ کے اندر آنے کا انتظار کر رہا تھا۔
”تمہارے پاس موجود ہر آسائش صرف میری وجہ سے ہے، میں نہ ہوں تو تم لوگوں کے پاس کچھ بھی نہ رہے۔” منصور کے لہجے کی نرمی لحظہ بہ لحظہ بڑھتی جارہی تھی۔ ”اور تم لوگ مجھے اس کا صلہ یہ دے رہے ہو۔ منیزہ نے کیا کیا ہے تمہارے لیے، کچھ بھی نہیں۔ تم لوگوں کو میرا ذرہ برابر خیال نہیں ہے، تم لوگوں کو صرف منیزہ سے ہمدردی ہے۔”
”جو کچھ آپ نے ان کے ساتھ کیا ہے، اس کے بعد صرف ہمیں ہی نہیں، ہر ایک کو انہیں کے ساتھ ہمدردی ہوگی۔” روشان ان کی گفتگو سے متاثر ہوئے بغیر بولا۔
”دوسری شادی کوئی جرم نہیں ہے۔” منصور نے مدافعانہ لہجے میں کہا۔
”میں تو کسی کے سامنے شرم سے سربھی نہیں اٹھا سکوں گا، جب کوئی مجھ سے آپ کی اس عمر میں شادی کے بارے میں سوال کرے گا۔”
”چھپالینا اس بات کو، اگر تم میری شادی پر اتنے ہی شرمسار ہو۔”
”میں چھپاؤں گا اور سب کچھ چھپا رہے گا۔” روشان یکدم چلایا۔ ”پوری کالونی کے سامنے آپ نے ممی کو دھکے دے کر گھر سے نکالا ہے، کوئی لحاظ کیے بغیر اور آپ مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ میں اس خبر کو چھپالوں۔ اندھوں اور بہروں کے شہر میں رہتا ہوں میں؟”
”تمہیں اپنی ماں کی تکلیف اور بے عزتی کا احساس ہو رہا ہے، مگر اس تکلیف اور بے عزتی کا احساس نہیں ہے جس سے اس نے مجھے اور رخشی کو دوچار کیا ہے، اس نے رخشی کے گھر کے باہر اسی طرح کا ہنگامہ کیا تھا پوری کالونی کے سامنے۔”
”رخشی کی اگر بے عزتی ہوئی ہے تو آپ کی وجہ سے ہوئی ہے۔ آپ نے اس سے کیوں خفیہ شادی کر رکھی تھی اور میں… میرا تو دل چاہتا ہے کہ اسے شوٹ کر دوں۔ یہ امبر کی دوست بن کر یہاں آئی اور اس نے ہمارے گھر پر قبضہ کر لیا۔” روشان کے لہجے میں رخشی کے لیے بے پناہ نفرت تھی۔ ”ممی تو صرف اس کی بے عزتی کرکے آئی تھیں، میں ہوتا تو میں وہاں اسے شوٹ کرکے آتا۔”
”یہ سارا زہر تمہاری ماں نے تم لوگوں کے اندر انڈیل رکھا ہے، میں نے بہت اچھا کیا اس عورت کو طلاق دے دی، مجھے کوئی شرمندگی نہیں ہے۔ وہ اور کچھ سال یہاں اس گھر میں میرے ساتھ رہ جاتی تو پتا نہیں اور کتنا زہر تم لوگوں کے اندر بھر دیتی۔” منصور علی ایک بار پھر مشتعل ہو گئے۔
صبغہ اسی وقت لاؤنج میں داخل ہوئی۔ ”السلام علیکم پاپا!” اس نے اندر داخل ہوتے ہی منصور کو دیکھتے ہوئے کہا۔ منصور کے تاثرات پر اس نے بعد میں غور کیا تھا۔ منصور نے جواب دینے کے بجائے اس سے نظریں چرائی تھیں۔
اگلے لمحے صبغہ نے روشان اور اپنی چھوٹی دونوں بہنوں کو دیکھا اور پھر لاؤنج کے صوفوں کے پاس پڑے بیگز کو پھر اس نے روشان اور اپنی چھوٹی دونوں بہنوں کے چہروں کو دیکھا جو ستے ہوئے تھے، وہ کچھ حیران ہوئی۔
”کیا ہوا، آپ لوگ کہیں جارہے ہیں؟” اس نے روشان اور منصور کے چہروں پر باری باری نظریں دوڑاتے ہوئے کہا۔ روشان چند قدم آگے بڑھ آیا۔
”پاپا نے ممی کو طلاق دے کر امبر کے ساتھ گھر سے نکال دیا ہے۔” اس نے صبغہ سے کہا۔ صبغہ کا رنگ اڑ گیا۔ چوکیدار اب اندر آکر بیگ اس کے پاس رکھ کر باہر جارہا تھا۔
صبغہ بے یقینی کے عالم میں روشان اور منصور کو دیکھنے لگی۔
”’کیا کہہ رہے ہو تم؟” اس نے بمشکل کہا۔ ”ہم لوگ بھی گھر چھوڑ کر جارہے ہیں آپ بھی چلیں۔” روشان نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ صبغہ اب منصور علی کو دیکھ رہی تھی۔ جو اپنے دونوں ہاتھ کمر پر رکھے کھڑے تھے۔
”آپ… پاپا آپ… آپ نے ممی کو طلاق دے دی ہے؟ آپ نے انہیں گھر سے نکال دیا ہے؟” وہ بے اختیار منصور کی طرف آئی۔
”ہاں۔ میں نے اسے طلاق دے کر گھر سے نکال دیا ہے۔” منصور نے تلخی سے کہا۔
”کیوں؟… کیوں…؟ آپ نے ایسا کیوں کیا ہے؟ ممی نے کیا کیا تھا؟ ان کا کیا قصور تھا…؟” صبغہ یکدم رونے لگی۔
”تم لوگ یہاں سے جانا چاہتے ہو… دفع ہو جاؤ اور دوبارہ کبھی مجھے اپنی شکل نہ دکھانا…” منصور علی یک دم چلانے لگے۔
”اور تم…” منصور علی… صبغہ کی طرف متوجہ ہوئے۔ ”تم بھی جانا چاہتی ہو چلی جاؤ۔ جو اس وقت مجھے چھوڑ کر منیزہ کے پاس جائے گا وہ پھر ہمیشہ کے لیے منیزہ کے پاس ہی رہے گا۔ میں تم لوگوں کواپنی جائیداد سے عاق کر دوں گا ایک پھوٹی کوڑی تک نہیں دوں گا۔” وہ اسی طرح چلاتے ہوئے لاؤنج سے نکل گئے۔
”ہوں… جائیداد میں سے حصہ…” روشان نے نخوت سے کہا ”ہمیں ضرورت نہیں ہے ان کی جائیداد کی… نہ ہی اس گھر کی، تم بھی اپنا بیگ تیار کرو اور چلو ہمارے ساتھ۔” روشان نے صبغہ سے کہا۔
”تم نے پاپا کی بات سنی ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم یہاں سے چلے گئے تو یہ ہمیشہ کے لیے ہو گا۔” صبغہ نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔
”میں یہاں نہیں رہ سکتا۔ میں اس کو اس گھر میں اپنی ممی کے کمرے میں رہتے ہوئے تو نہیں دیکھ سکتا۔”
”میں ممی سے بات کرتی ہوں۔” صبغہ نے یک دم اٹھ کر فون کی طرف جاتے ہوئے کہا۔ ”کیا انکل مسعود کو پتا ہے کہ پاپا نے ممی کو گھر سے نکال دیا ہے؟” صبغہ نے کال کے لیے نمبر ڈائل کرتے ہوئے روشان سے پوچھا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۷

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!