تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۸

”منصور نے منیزہ کو طلاق دے دی ہے۔” مسعود علی نے طلحہ کے کمرے میں داخل ہوئے ہوئے کہا۔ وہ اس وقت فیکٹری میں ہی تھے۔
”کیا…؟ منصور چچا نے… مائی گاڈ…” طلحہ یک دم پریشان ہو گیا۔ مسعود علی اب کرسی پر بیٹھ رہے تھے۔
”مگر آپ کو یہ سب کس نے بتایا ہے؟”
”منیزہ کے بھائی نے مجھے فون کیا تھا۔ منیزہ امبر کے ساتھ اپنے میکے چلی گئی ہے۔ منصور نے ان دونوں کو گھر سے نکال دیا ہے۔”
”مگر کیوں؟ امبر کو کیوں؟” طلحہ بے چین ہوا۔
”منیزہ نے رخشی کے گھر جاکر اس سے جھگڑا کیاتھا اور منصور نے اسی بات پر غصے میں آکر اسے طلاق دے دی۔ امبر بھی منیزہ کے ساتھ ہی گھر چھوڑ کر چلی گئی۔ تم جانتے ہو وہ بالکل عقل سے پیدل ہے۔ اس سے اور توقع بھی کیا کی جاسکتی ہے۔” مسعود علی نے تبصرہ کیا۔
”پہلے اس نے یہ رخشی والا مسئلہ کھڑا کیا اور اب…” مسعود علی نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
”لیکن اب ہو گا کیا؟” طلحہ بڑبڑایا۔
”منیزہ کا بھائی چاہتا ہے کہ میں منصور سے مصالحت کی بات کروں۔”
”مصالحت کی بات… یہ کیسے ہو سکتا ہے آپ خود ہی تو کہہ رہے ہیں کہ منصور چچا نے انہیں طلاق دے دی ہے۔”
”اس کا بھائی کہہ رہا تھا، ابھی منصور نے زبانی طلاق دی ہے، تحریری طور پر طلاق نہیں دی۔ اگر میں اسے مجبور کروں تو ہو سکتا ہے کہ وہ منیزہ کو تحریری طور پر طلاق دینے سے باز رہے۔ اس کے بھائی کو یہ فکر لاحق ہو رہی ہوگی کہ اب منیزہ کو اسے اپنے پاس رکھنا پڑے گا۔ تمہیں منیزہ کے مزاج کا تو اندازہ ہی ہے۔ وہ ہر جگہ کیسے ایڈجسٹ ہو سکتی ہے اور پھر ان حالات میں۔”
”آپ نے ان سے کیا کہا؟”
”میں نے اس سے صاف صاف کہہ دیا کہ میں اس معاملے میں کوئی مداخلت نہیں کر سکتا۔ طلاق نہ ہوئی ہوتی تو میں منصور کو سمجھانے کی کوشش کرتا لیکن اب… اب بہت دیر ہو چکی ہے، ویسے بھی یہ ضروری نہیں ہے کہ منصور میری ہر بات مانے۔”
منصور چچا کے مزاج کا واقعی پتہ نہیں ہوتا۔ لیکن یہ سب کچھ بہت برا ہوا ہے آخر منصور چچا کو کیا ضرورت تھی اس طرح منیزہ چچی کو طلاق دینے کی۔ شادی کر لی تھی تو ٹھیک ہے۔ سب کچھ اسی طرح چلتا رہنے دیتے۔”
”اس میں منیزہ کی بھی بے وقوفی ہے۔ اسے کس نے مشورہ دیا تھا کہ وہ رخشی کے گھر پہنچ جائے۔”




”منیزہ چچی کی تو خیر آپ بات ہی نہ کریں۔ آپ جانتے ہی ہیں ان کی عادتوں کو۔ وہ اپنے آپ کو ضرورت سے زیادہ عقل مند سمجھتی ہیں۔” طلحہ نے تبصرہ کیا۔ ”مگر مجھے تو اب یہ پریشانی ہو رہی ہے کہ منصور چچا کا رویہ پتہ نہیں ہمارے ساتھ کیسا ہو گا۔؟”
”کیوں ہمارے ساتھ اس کے رویے کو کیا ہوگا جب ہم کسی معاملے میں مداخلت ہی نہیں کر رہے تو وہ ہمارے ساتھ اپنا رویہ کیوں تبدیل کرے گا۔” مسعود نے کہا۔
”امبر کی اس طرح کی حمایت کو وہ کیا معنی دیں گے؟”
”یہ ان کا اپنا مسئلہ ہے۔ وہ ہمیں اس میں کیوں انوالو کریں گے۔”
”رخشی کی وجہ سے اگر وہ منیزہ چچی کو طلاق دے سکتے ہیں تو امبر کی ان کے نزدیک کیا اہمیت ہو سکتی ہے۔”
”اور کچھ امبر خود بھی تو احمق ہے اگر اس کی کچھ اہمیت ہے بھی تو وہ اسے ختم کر لے گی۔” مسعود نے فکر مندی سے کہا۔
”امبر مجھ سے بھی یقینا رابطہ کرے گی کہ میں آپ کو منصور چچا سے بات کرنے کے لیے کہوں؟” طلحہ کو اپنی فکر ہونے لگی۔
”تم اس سے صاف صاف کہہ دینا کہ میں اس معاملے میں مداخلت نہیں کر سکتا۔ میں منصور کا بڑا بھائی ضرور ہوں مگر منصور ہر معاملے میںمجھ سے مشورہ کرنے کا عادی نہیں ہے اور اب تو ویسے بھی طلاق ہو چکی ہے۔ بلکہ بہتر تو یہ ہے کہ تم فی الحال امبر سے گریز کرو۔ اس سے اس مسئلے کے بارے میں بات ہی نہ کرو۔”
”گریز کیسے کروں گا میں اس سے… وہ کبھی بھی فون پر مجھ سے رابطہ کر سکتی ہے۔”
”تم اسے کسی بھی طرح ٹال دینا۔ بہتر یہ ہے کہ کچھ دن کے لیے کسی دوسرے شہر چلے جاؤ۔”
٭٭٭
”روشان سے کیا کہہ رہے تھے آپ؟” منصور علی کے بیڈروم میں آتے ہی رخشی نے ان سے پوچھا۔ اس نے روشان اور ان کے درمیان ہونے والی ساری گفتگو کو کوریڈور میں کھڑے ہو کر چھپ کر سنی تھی اور اس گفتگو نے اسے تشویش میں مبتلا کر دیا تھا۔
”کیا کہہ رہا تھا میں روشان سے؟” منصور علی نے جواباً پوچھا۔ وہ اس وقت ذہنی طور پر بری طرح الجھے ہوئے تھے۔
”اگر روشان یہاں نہیں رہنا چاہتا تو آپ اسے زبردستی یہاں کیوں رکھ رہے ہیں؟”
”وہ میرا اکلوتا بیٹا ہے رخشی۔” سگریٹ کا ایک کش لے کر انہوں نے رخشی سے کہا۔
”تو…؟” رخشی نے ماتھے پر چند بل ڈالتے ہوئے کہا۔
”میں اسے اس کی ماں کے پاس نہیں بھیج سکتا۔”
”اس کی مرضی کے بغیر آپ اسے یہاں کیسے رکھ سکتے ہیں؟”
”کیوں نہیں رکھ سکتا… میں اس کا باپ ہوں۔”
”اور منیزہ اس کی ماں ہے اور وہ اسی کے پاس رہنا چاہتا ہے۔”
”وہ احمق ہے۔” منصور علی نے ہاتھ کو جھٹکتے ہوئے کہا۔
”جب آپ نے طلاق دے کر اس سے تمام تعلقات ختم کر لیے تو پھر بچوں کو زبردستی اپنے پاس رکھنے کا کیا مطلب ہے… انہیں بھی اس کے پاس بھیجیں۔”
”میرا تعلق منیزہ کے ساتھ ختم ہوا ہے۔ بچوں کے ساتھ نہیں۔ میں ان کا باپ ہوں۔” منصور علی نے پتہ نہیں کس ذہنی رو میں آکر کہا۔
”جن بچوں کو آپ کی پرواہ نہیں ہے، آپ ان کی پرواہ کیوں کر رہے ہیں؟”
”وہ ابھی بے وقوف ہیں۔ بہت سے حقائق کو نہیں سمجھتے۔ میرے پاس رہیں گے تو بہت کچھ سمجھنے لگیں گے۔”
”اور اس رویے کے ساتھ وہ یہاں رہیں گے تو میرا کیا ہوگا۔” رخشی نے کہا۔
”کیا مطلب…؟ تمہارا کیا ہوگا؟”
”جو سلوک آپ کی بیوی نے میرے گھر کے گیٹ پر میرے ساتھ کیا، وہی سب کچھ آپ کے بچے گھر کے اندر میرے ساتھ کریں گے۔”
”وہ کچھ نہیں کریں گے۔”
”کچھ نہیں کریں گے؟ آپ نے اپنے بیٹے کی باتیں سنی ہیں۔ صرف گالیوں کی کمی تھی ورنہ اور تو سب کچھ کہہ دیا ہے اس نے میرے بارے میں۔”
”تم نے اس کی باتیں سن لیں؟”
”نہیں سننی چاہیے تھیں؟” رخشی نے شرمندہ ہوئے بغیر جواباً پوچھا۔
”وہ ابھی غصے میں تھا اس لیے اس طرح کی باتیں کر رہا تھا ورنہ وہ اس طرح کا بچہ نہیں ہے۔” منصور علی نے اسے اطمینان دلانے کی کوشش کی۔
”منصور! میں اس طرح کے ماحول میں نہیں رہ سکتی۔ یہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔”
”میں اسی لیے تو تمہیں اس گھر میں نہیں لارہا تھا۔ تمہارے لیے وہی گھر بہتر تھا۔” منصور نے کہا۔
رخشی اس کی بات پر مشتعل ہو گئی۔ ”کیوں بہتر تھا میرے لیے وہ گھر… میں اس گھر میں رہنا چاہتی ہوں۔ آپ اپنے بچوں کو اس گھر میں بھیج دیں۔” اس نے تنک کر کہا۔
”وہ گھر تمہارے نام ہے۔ یہ جانتی ہو تم… پھر انہیں وہاں کیسے بھیج سکتا ہوںاور پھر یہ اکیلے وہاں کیسے رہ سکتے ہیں۔”
”میں اکیلی رہ سکتی تھی تو یہ بھی رہ سکتے ہیں۔ چھوٹے بچے تو نہیں ہیں۔ اور اگر آپ کو ان کی اتنی ہی فکر ہے تو آپ انہیں منیزہ کے پاس بھجوا دیں۔ وہ جیسے چاہے انہیں رکھے۔ کم از کم آپ کو تو ان کی پریشانی نہیں ہو گی۔”
”میں بیٹیوں کو اس کے پاس بھجوا سکتا ہوں مگر بیٹے کو نہیں یہ بات تو طے ہے۔” منصور نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
”کیوں روشان کو کیوں نہیں بھجوا سکتے۔”
”میں ترپ کا پتا اس احمق عورت کے ہاتھ میں نہیں دے سکتا… اور تم بھی کچھ عقل سے کام لو… روشان منیزہ کے پاس چلا گیا تو سمجھو میری جائیداد کا ایک بڑا حصہ اس کے پاس چلا جائے گا۔ آج نہیں تو کل وہ کورٹ میں اسے میرے خلاف لے جائے گی۔ تب میں کیا کروں گا؟” منصور علی نے سگریٹ کا بچا ہوا ٹکڑا ایش ٹرے میں پھینکتے ہوئے کہا۔
”اور پھر میں اپنے اکلوتے بیٹے سے ہاتھ دھونا نہیں چاہتا۔ میں اسے اپنے پاس رکھنا چاہتا ہوں۔ کل کو وہ میری جگہ اس فیکٹری کو سنبھالے گا۔ وہ میرے ہاتھ سے نکل گیا تو سب نکل جائے گا۔ مجھے زبردستی کرنی پڑے تب بھی میں اسے اس گھر میں سے نہیں جانے دوں گا۔”
”اور جواب آپ اسے کہہ کر آئے ہیں کہ وہ جانا چاہتا ہے تو چلا جائے۔”
”چوکیدار اسے گھر سے نکلنے نہیں دے گا، وہ زیادہ سے زیادہ گیٹ تک ہی جاسکتا ہے۔” منصور علی نے ایک اور سگریٹ سلگاتے ہوئے کہا۔ رخشی کچھ دیر خاموشی سے بیٹھی منصور علی کو دیکھتی رہی پھر اس نے منصور سے کہا۔
”آپ روشان کو گھر میں رکھنے کے بجائے کسی ہاسٹل میں داخل کروا دیں۔” منصور نے چونک کر اسے دیکھا۔
”تمہیں یہ خیال کیوں آیا ہے؟”
”وہ بہت ایگریسو ہو رہا ہے۔… مجھے اس سے خوف آرہا ہے۔” رخشی نے بے حد سنجیدگی سے کہا۔
”بچوں جیسی باتیں مت کرو۔” منصور علی نے کہا۔ ”تھوڑا بہت غصہ تو اسے آنا ہی تھا۔ کچھ دن گزر جائیں گے تو وہ خود ہی نارمل ہو جائے گا۔”
”آخر اسے ہاسٹل میں داخل کروانے پر آپ کو کیا اعتراض ہے۔ کیا چوبیس گھنٹے اسے اپنی نظروں کے سامنے رکھنا ضروری ہے آپ کے لیے؟” رخشی بری طرح چڑ گئی۔
”یہ بعد کی بات ہے۔”
رخشی نے اس بار کچھ نہیں کہا۔ وہ ایش ٹرے میں پڑے ہوئے سگریٹ کے ٹکڑے کر دیکھ رہی تھی۔
جس میں سے ہلکا ہلکا دھواں اٹھ رہا تھا۔ وہ ان چیزوں اور کاموں کے بارے میں سوچ رہی تھی جو اب اسے آئندہ کرنے تھے۔ اسے بہت سارے کام کرنے تھے۔ بہت سارے معاملات نمٹانے تھے۔ کچھ حساب وہ چکا چکی تھی۔ کچھ حساب اسے چکانے تھے۔ اس گھر میں آنے سے پہلے اس کا خیال تھا اس کے راستے کی واحد رکاوٹ امبر تھی اور امبر خود ہی اس کے راستے سے ہٹ گئی تھی۔ لیکن اس گھر میں پہنچنے کے بعد اسے پتا چلا تھا کہ منصور علی کی ایک اور رکاوٹ بھی تھی جس کا اسے سامنا تھا۔ منصور علی کا اکلوتا بیٹا روشان وہ اب بہت سے معاملات کے بارے میں نئے سرے سے سوچ رہی تھی۔ ”جائیداد کا وارث” منصور کا جملہ اس کے ذہن میں گونج رہا تھا۔ اس کے ماتھے پر پڑے ہوئے بلوں میں اضافہ ہو گیا تھا۔ منصور علی اب تیسرا سگریٹ سلگا رہے تھے۔ رخشی ”تیسرے رستے” کے بارے میں سوچ رہی تھی۔
٭٭٭
”چلیں پھر…؟” روشان نے صبغہ کے فون رکھتے ہوئے کہا۔ جو بہت الجھی ہوئی اور سنجیدہ نظر آرہی تھی۔
”روشان! ہم فی الحال کہیں نہیں جارہے۔” صبغہ نے اپنے چہرے کو اپنے ہاتھوں سے رگڑتے ہوئے کہا۔
”کیا مطلب؟” روشان کے ماتھے پر بل آگئے۔
”پاپا بہت ضدی ہیں۔ وہ وہی کریں گے جو انہوں نے کہا ہے۔ ہم خالی ہاتھ کچھ نہیں کر سکیں گے۔ ہمارے ایگزامز ہونے والے ہیں، ہم انکل کے گھر کیسے رہیں گے؟”
”تمہیں یہاں رہنا ہے رہو… میں یہاں نہیں رہوں گا۔”
”یہ ہمارا گھر ہے روشان…”
”یہ ہمارا گھر نہیں ہے۔ یہ پاپا کا گھر ہے۔ یہ ان کی نئی بیوی کا گھر ہے۔”
”پاپا نے جو کچھ کیا ہے غلط کیا ہے مگر ہم اس گھر کو چھوڑ کر بھی غلطی کریں گے۔ رخشی تو یہی چاہے گی کہ ہم اس گھر کو چھوڑ کر چلے جائیں۔ اس کے لیے راستہ صاف کر دیں۔ مگر ایسا کیوں کریں۔ ابھی تو پاپا ہم سے رکنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ گھر چھوڑ دیں گے تو یہاں واپس نہیں آسکیں گے۔” روشان نے اس بار کچھ الجھی ہوئی نظروں سے صبغہ کو دیکھا۔
”ہمیں یہیں رہنا چاہیے روشان! اس گھر کو چھوڑ کر نہیں جانا چاہیے۔ ٹھیک ہے، پاپا نے ممی کو طلاق دے دی ہے۔ مگر ہو سکتا ہے کچھ عرصہ کے بعد ہم انہیں مجبور کر دیں کہ وہ کم از کم ممی کو اس گھر میں ہمارے پاس رہنے دیں۔ اور خود اپنی بیوی کے ساتھ دوسرے گھر میں چلے جائیں۔ ہو سکتا ہے وہ ہماری بات مان جائیں۔”
وہ اب اسے سمجھا رہی تھی۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۷

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!