تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۸

”تمہیں گھر جانا ہو گا، مگر مجھے ممی کے پاس جانا ہے۔ تم وہاں چلو جہاں میں کہہ رہا ہوں۔” روشان نے صبغہ سے کہتے کہتے آخری جملہ ڈرائیور سے کہا۔
”وہ صفدر انکل کے ہاں تمہیں لے کر نہیں جاسکتے روشان؟”
”کیوں نہیں لے جاسکتے۔”
”پاپا نے انہیں منع کیا ہے۔ تم اپنے ساتھ ساتھ ان کے لیے بھی مصیبت کھڑی کرنے کی کوشش مت کرو۔” صبغہ نے اس بار اسے ڈانٹا۔
”ضروری تو نہیں ہے کہ یہ گھر جاکر بتائیں۔ ہم کچھ دیر ممی کے پاس رہیں گے پھر واپس آجائیں گے۔ پاپا کو پتا نہیں چلے گا۔”
”روشان صاحب! ان کو پتا چل گیا تو وہ مجھے ایک منٹ میں نوکری سے نکال دیں گے، وہ اب پہلے والے صاحب نہیں رہے ہیں۔ بالکل بدل گئے ہیں۔” ڈرائیور نے منمناتے ہوئے کہا۔
”جانتا ہوں وہ بدل گئے ہیں۔ لیکن تم سے جو میں نے کہا ہے تم وہی کرو۔” روشان نے ان ہی کڑے تیوروں کے ساتھ اس سے کہا۔
”روشان! حماقت مت کرو۔ پاپا کو پتا چل گیا تو وہ ہم سب کو گھر سے نکال دیں گے۔” صبغہ نے اسے ڈانٹا۔
”نکال دیں، مجھے ان کے نکالنے کی پرواہ نہیں ہے۔”
”بہر حال، میں تمہیں وہاں نہیں جانے دوں گی۔ تم اپنے ساتھ ساتھ ہمارا بھی نقصان کرو گے۔” صبغہ نے حتمی لہجے میں کہا۔
”گاڑی روکو…” روشان نے اچانک ڈرائیور سے کہا۔ ڈرائیور گاڑی چلاتا رہا۔
”میں کہہ رہا ہوں گاڑی روکو، ورنہ میں چلتی گاڑی سے کود جاؤں گا۔” روشان نے دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے دھمکایا۔
”پاگل ہو گئے ہو روشان…! کیوں رکوانا چاہتے ہو گاڑی۔”
پچھلی سیٹ پر بیٹھی ہوئی صبغہ نے قدرے گھبرا کر اس کے بازو پر ہاتھ رکھا، دوسری طرف ڈرائیور نے برق رفتاری سے گاڑی سڑک کے کنارے روک دی۔
”میں یہاں اتر کر اکیلا ممی کے پاس جاؤں گا۔ تم لوگ گھر چلے جاؤ۔” روشان نے دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔
صبغہ بھی اپنی سائیڈ کا دروازہ کھول کر باہر نکل آئی۔
”بچوں جیسی حرکتیں مت کرو روشان! تمہاری وجہ سے پاپا ہم سے بھی بہت برا سلوک کریں گے۔”
”میں تھوڑی دیر میں خود ہی واپس گھر آجاؤں گا۔ ضروری تو نہیں کہ پاپا کو کچھ پتا بھی چلے۔” روشان نے کہا۔
”پاپا کو پتا چل جائے گا۔ ہو سکتا ہے، وہ اس وقت گھر پر بیٹھے ہمارا انتظار کر رہے ہوں۔ یا اچانک آجائیں۔” صبغہ نے اسے ڈرایا۔
”یہ بھی ممکن ہے کہ رخشی انہیں تمہارے نہ آنے کے بارے میں بتا دے۔ یا پھر ڈرائیور ہی۔”
”صبغہ! میں ممی سے ملنا چاہتا ہوں، اگر پاپا کو پتا چلتا ہے تو چل جائے۔ مجھے پرواہ نہیں ہے۔ پاپا کے پاس رہنے کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ ہمیں ممی کو مکمل طور پر بھلا دینا ہوگا۔”




”اس وقت ممی کے پاس جانا مناسب نہیں ہے۔ کچھ دن گزر جائیں، معاملات کچھ بہتر ہو جائیں۔ پھر ہم سب ممی کے پاس جائیں گے۔” صبغہ نے اس سے کہا۔
”اور اگر حالات اس سے زیادہ خراب ہو گئے تو…؟” روشان نے چیلنج کرنے والے انداز میںکہا۔
”ضروری تو نہیں ہے کہ ایسا ہی ہو جو تم کہہ رہے ہو۔ ہو سکتا ہے، پاپا کو ہم پر اور ممی پر ترس آجائے اور وہ ہمیں اکٹھے رہنے دیں۔”
”پاپا کو ہم پر ترس نہیں آئے گا صبغہ! انہیں ترس آنا ہوتا تو اب تک آچکا ہوتا۔ تم اس طرح کی باتیں مت سوچو۔”
”لیکن پاپا کو اس طرح مکمل طور پر ناراض کر دینے سے بھی تو ہمارے مسائل حل نہیں ہوں گے۔” صبغہ نے نرمی سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
”ممی اور امبر صفدر انکل کے گھر پر خوش نہیں ہیں۔ نہ ہی صفدر انکل خوش ہیں۔ اگر پاپا نے ہم سب کو نکال دیا تو ہمیں بھی صفدر انکل کے پاس جانا پڑے گا۔ پھر کیا ہوگا۔ تم نے سوچا ہے۔ ممی اور امبر کی پریشانی میں اور اضافہ ہوگا۔” صبغہ نے سنجیدگی سے سمجھایا۔
”میں صرف اس خوف سے تو انہیں نہیں چھوڑ سکتا کہ پاپا ہمیں نکال دیں گے۔” روشان نے تنفر بھرے انداز میں کہا۔
”روشان! صورت حال کی نزاکت کو سمجھنا چاہیے تمہیں۔ ہمارے پاس اس وقت پاپا کی بات ماننے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔” صبغہ نے اس سے کہا ”تم اس طرح کی ضد شروع کر دو گے تو رابعہ اور زارا بھی ضد کریں گی اور میرے لیے ان دونوں کو سمجھانا مشکل ہو جائے گا۔” وہ اب اسے اور نرمی سے سمجھا رہی تھی۔ ”ممی کے پاس جاکر ان سے ملنے سے فی الحال ہمارا کوئی مسئلہ حل نہیں ہو گا بلکہ ہم ان کی اور اپنی پریشانی کو اور بڑھا دیں گے۔ کچھ وقت گزر جانے دو۔ پھر ہم لوگ ممی کے پاس زیادہ آسانی سے جاسکیں گے۔”
روشان جواب میں کچھ کہنے کے بجائے غصے میں دندناتا ہوا گاڑی کی طرف گیا اور فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھ گیا۔ اس کا انداز جتنی بھی ناراضی لیے ہوئے تھا بہر حال اس نے صبغہ کی بات مان لی تھی۔ وہ خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے خود بھی گاڑی کا پچھلا دروازہ کھول کر اندر بیٹھ گئی۔
”تو پھر ہم ممی کے پاس جارہے ہیں؟” اس کے اندر بیٹھتے ہی زارا نے صبغہ کا بازو تھام کر کہا۔
”نہیں۔ ہم ممی کے پاس نہیں جارہے ہیں۔ آپ گھر چلیں۔” صبغہ نے آخری جملہ ڈرائیور سے کہا تھا جو اب بڑی پھرتی سے گاڑی کو اسٹارٹ کر رہا تھا۔
٭٭٭
”منصور نے آپ سے کوئی بات کی ہے؟” شبانہ نے اس رات مسعود علی سے پوچھا جو سونے کی تیاری کر رہے تھے۔
”نہیں کوئی بات نہیں ہوئی۔” مسعود علی نے بیڈ کے کراؤن سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا۔
”کیوں کیا اس کا آپ سے سامنا نہیں ہوا؟” شبانہ کو تجسس ہوا۔
”نہیں۔ سامنا تو روز ہی ہوتا ہے لیکن صرف رسمی سی سلام دعا ہی ہوتی ہے۔ یا پھر فیکٹری کے معاملات کے بارے میں بات ہوتی ہے۔” مسعود علی نے بتایا۔
”اس نے اپنی شادی یا منیزہ کی طلاق کے بارے میں آپ سے بات نہیں کی؟”
”نہیں۔ اس نے اس سلسلے میں کوئی بات نہیں کی اور نہ ہی میں نے کی ہے۔”
”آپ کو تو خیر میں منع نہ کرتی تو آپ ضرور بات کرتے۔”
”اتنا بے وقوف تو میں نہیں ہوں کہ بھڑوں کے چھتے میں خود ہاتھ دوں۔ اور پھر میں رخشی کے بارے میں اب اس سے کہہ بھی کیا لیتا۔” مسعود علی نے کہا۔
”رخشی اب بھی آفس آرہی ہے؟” شبانہ کو اب یک دم رخشی میں دلچسپی پیدا ہوئی۔
”نہیں۔ میں نے سنا ہے کہ وہ اب آفس نہیں آرہی۔ تمہیں پتا ہے، وہ منصور کے دوسرے آفس میں بیٹھتی تھی۔ اس لیے میں یقینی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے واقعی آنا چھوڑ دیا ہے یا نہیں۔” مسعود علی نے کہا۔
”منصور کے رویے میں کوئی تبدیلی آئی ہے؟” شبانہ نے اگلا سوال کیا۔
”اتنی جلدی کیا تبدیلی آئے گی فی الحال تو وہ پہلے جیسا ہی ہے۔” مسعود علی نے تبصرہ کیا۔ ”ویسے تم کس طرح کی تبدیلی کی بات کر رہی ہو؟” مسعود کو خیال آیا۔
”میں اس کے رویے کی بات کر رہی ہوں۔ اصولی طور پر تو منیزہ کو طلاق دینے اور امبر کو گھر سے نکال دینے کے بعد اسے آپ لوگوں سے بھی کچھ کھینچ جانا چاہیے۔”
”نہیں۔ میں نے اس کے رویے میں ایسی کوئی چیز ابھی تک محسوس نہیں کی۔”
”طلحہ کے بارے میں اس نے پوچھا نہیں کہ وہ کہاں ہے؟”
”پوچھا تھا۔ میں نے بتا دیا کہ کچھ دوستوں کے ساتھ کراچی گیا ہے، ایک ڈیڑھ ہفتے میں آجائے گا۔”
”اور تب تک اس کی اور منیزہ کی مکمل طور پر علیحدگی ہو چکی ہو گی۔ کم از کم پھر منیزہ کے یا امبر کی طرف سے کسی مصالحت کے لیے دباؤ نہیں ہو گا۔” شبانہ نے کہا۔
”طلاق کے کاغذات تو اس کے وکیل نے پہلے ہی منیزہ کو بھجوا دیے ہیں۔”
”میں نے سنا ہے کہ اس نے منیزہ کو حق مہر کے نام پر کچھ بھی نہیں دیا۔”
”منیزہ کا حق مہر صرف پانچ ہزار روپے تھا۔ وہ تو اس نے دے دیا ہے۔ ہاں، اس کے علاوہ اس نے منیزہ کو کچھ نہیں دیا۔” مسعود علی نے اطلاع دی۔
”منیزہ کے نام کوئی جائیداد نہیں تھی؟”
”نہیں… ساری جائیداد منصور علی کے اپنے ہی نام پر ہے۔ ہوتی بھی تو منصور اسے کبھی وہ جائیداد نہ دیتا۔ اس نے تو منیزہ کا زیور تک اسے نہیں دیا۔”
”منیزہ نے جائیداد یا زیور کے لیے مقدمہ کر دیا تو؟” شبانہ نے پوچھا۔ ”آخر وہ اس کے پانچ بچوں کی ماں ہے۔ خاص طور پر روشان کے حوالے سے۔”
”امبر کے علاوہ منیزہ کے پاس اور ہے کون…؟ روشان کو تو منصور نے اپنے پاس ہی رکھا ہے اور باقی تینوں بیٹیاں بھی اسی کے پاس ہیں۔ منیزہ اکیلی کیا کر سکتی ہے۔”
”اور اگر کل کو یہ چاروں بچے بھی منیزہ کے پاس چلے آئے تو؟”
”تب بھی مقدمہ کرنے کے لیے اور اسے لڑنے کے لیے منیزہ کو بہت زیادہ پیسے کی ضرورت ہوگی۔ منصور علی کا اثر و رسوخ اتنا زیادہ ہے کہ منیزہ کے لیے یہ مقدمہ جیتنا ناممکن ہو جائے گا۔ ہاںز یادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ کورٹ سے بچوں کے لیے نان و نفقہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے مگر جائیداد کا حصول بہت مشکل ہے۔”
مسعود علی نے نفی میں سرہلاتے ہوئے کہا۔
”ایسے کیسز میں سالوں لگ سکتے ہیں اور منیزہ کا بھائی تو مجھے ابھی سے ساری صورتِ حال سے بہت بیزار اور اکھڑا ہوا لگ رہا ہے۔ اس کے سہارے کے بغیر منیزہ مقدمہ نہیں لڑ سکتی۔ اور وہ مجھے سہارا دینے والوں میںسے نہیں لگ رہا۔”
”امبر اور صبغہ… ان دونوں کی رخصتی کا کیا ہوگا؟” شبانہ نے پہلی بار اصلی موضوع کی طرف آتے ہوئے کہا۔ وہ اس بار بے حد سنجیدہ تھیں۔
”میں کیا کہہ سکتا ہوں اس بارے میں؟” مسعود علی نے کہا۔
”میں جاننا چاہتی ہوں کہ منصور علی ان دونوں کے بارے میں اب کیا سوچ رہا ہے۔ خاص طور پر امبر کو گھر سے نکال دینے کے بعد۔”
”ہو سکتا ہے، اس نے امبر کو وقتی طور پر گھر سے نکالا ہو اور وہ بعد میں اسے اپنے گھر آنے دے۔” مسعود علی نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔
”میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ وہ اگر امبر اور صبغہ دونوں کو اپنے پاس رکھ بھی لیتا ہے تو ان کی رخصتی کب کروائے گا اور صرف رخصتی ہی نہیں، میں یہ بھی جاننا چاہتی ہوں کہ وہ جائیداد میں سے انہیں کتنا حصہ دے گا۔” شبانہ نے کھل کر اپنی نیت کا اظہار کیا۔
”میں اس کے بارے میں بھی کچھ نہیں جانتا۔”
”آپ کو منصور علی سے اس سلسلے میں بات کرنی چاہیے۔”
”یہ کہ وہ اپنی بیٹیوں کو جائیداد میں کتنا حصہ دے گا…؟ حد کرتی ہو تم… میں اس وقت اس سے اس طرح کی بات کیسے کر سکتا ہوں۔” مسعود علی بڑبڑائے۔
”میں جائیداد کی بات نہیں کر رہی، میں رخصتی کی بات کر رہی ہوں۔” شبانہ نے کہا۔ ”جائیداد کے بارے میں تو رخصتی کے موقع پر بھی بات کی جاسکتی ہے۔”
”ہاں۔ رخصتی کے بارے میں بات کی جاسکتی ہے۔” مسعود علی کو کچھ اطمینان ہوا۔
”تو پھر آپ ا س سے اس بارے میں بات کریں۔” شبانہ نے کہا۔
”صرف امبر اور طلحہ کے بارے میں؟”
”نہیں، صبغہ اور اسامہ بارے میں بھی کریں۔” شبانہ نے کہا۔ ”میرا خیال ہے کہ اب وہ دونوں کی اکٹھی ہی رخصتی کر دے گا۔ خاص طور پر اس طرح کے حالات میں۔”
”بہتر ہے کہ میں طلحہ اور اسامہ سے بھی اس سلسلے میں بات کرلوں۔” مسعود کو خیال آیا۔
”وہ کیا کہیں گے، ان کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔” شبانہ نے کہا۔
”اعتراض کی بات نہیں ہے، بات کرنا تو پھر بھی ضروری ہے۔” مسعود علی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ ”کچھ دن ٹھہر جاؤ، طلحہ کراچی سے آجائے، میں اس سے بات کرلوں تو پھر منصور سے بات کرتا ہوں۔”
”آپ تب تک اسامہ سے تو بات کر لیں۔” شبانہ نے کہا۔
”ہاں، اسامہ سے تو کسی بھی وقت بات ہو سکتی ہے۔”
”وہ کل صبغہ سے ملنے منصور کے گھر گیا تھا۔”
مسعود چونکے۔ ”تمہیں کس نے بتایا؟”
”اس نے خود بتایا۔”
”صبغہ نے اسے فون کیا ہوگا؟”
”ہو سکتا ہے لیکن مجھ سے تو یہی کہہ رہا تھا کہ خود ہی گیا تھا۔”
”تمہیں ابھی اسے وہاں جانے سے منع کرنا چاہیے۔ رخشی اور منصور…” شبانہ نے مسعود کی بات کاٹی۔
”آپ سے پہلے ہی منع کر چکی ہوں اسے لیکن آپ اسے جانتے ہیں، وہ اپنی مرضی کا مالک ہے۔”
مسعود نے اس بار کچھ نہیں کہا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۷

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!