تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۸

”پاپا’ امبر کو کس حد تک جانتے ہیں؟”
”وہ ان کے بزنس پارٹنر کی بیٹی ہے۔ وہ یقینا اسے تم سے بہتر جانتے ہوں گے۔”
”نہیں میں نہیں سمجھتا کہ وہ اسے مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔” اسد نے دو ٹوک لفظوں میں کہا۔ ”میں اس کے بارے میں بہت زیادہ معلومات رکھتا ہوں اور کم از کم کسی نے اس کے بارے میں یہ نہیں کہا کہ وہ اچھی لڑکی نہیں ہے۔”
”تمہارا ذریعہ معلومات جان سکتی ہوں میں؟” شائستہ نے چبھتے ہوئے لہجے میں پوچھا۔
”نہیں۔” اسد نے بھنویں اُچکاتے ہوئے کہا۔
”اس کا مطلب ہے کہ ان معلومات میں سچائی نہیں ہے۔” شائستہ نے تلخی سے کہا۔
”اس کا یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ میں کچھ باتیں آپ کو بتانا نہیں چاہتا۔”
شائستہ نے ایک گہرا سانس لیا۔ اسے اسد سے اسی طرح کے ردعمل کی توقع تھی۔ وہ بے حد صاف گو تھا۔ اور وہ شروع سے ہی ایسا تھا مگر آج پہلی بار اس کی صاف گوئی اسے پریشان کر رہی تھی۔
”ٹھوس وجوہات؟ ٹھوس وجوہات پر بات کرنی ہے ہمیں۔” اسد نے ایک بار پھر شائستہ کو گفتگو میں واپس گھسیٹا۔
”وہ ایک طلاق یافتہ ہے۔” شائستہ نے اس بار تیز آواز میں کہا۔
”کم آن ممی۔!” اسد نے ہاتھ جھٹکا ۔ ”آپ اس طرح کہہ رہی ہیں کہ جیسے سو سال کی شادی شدہ زندگی گزار کر اسے طلاق ہوئی ہے۔” شائستہ ہونٹ بھینچے اسے دیکھتی رہی۔
”نکاح ہوا تھا اس کا … شادی نہیں … نکاح اور منگنی میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہوتا۔”
”بہت فرق ہوتا ہے نکاح اور منگنی میں۔”
”کیا فرق ہوتا ہے؟ آپ بتا دیں تاکہ مجھے بھی تو پتا چلے۔” اس نے تُرکی بہ تُرکی کہا۔ ”اور جہاں تک اس کی طلاق کا تعلق ہے تو میں جانتا ہوں اس کو کیوں ہوئی ہے۔” اس کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ ”اس کے باپ نے اس کے شوہر کو فیکٹری سے الگ کر دیا۔ اس کے شوہر نے جواباً اس کو طلاق دے دی۔ اس قسم کے حالات میں ایسا ہی ہوتا ہے۔”
”تم ابھی بہت کم عمر ہو۔ بہت ساری چیزوں کو تم نہیں سمجھ سکتے۔” شائستہ نے کہا۔
”کم از کم میں آپ سے اس قسم کی بچکانہ بات کی توقع نہیں رکھتا تھا۔ بیس سال کا ہو چکا ہوں۔ بچہ نہیں ہوں۔ میچور ہوں۔”
”اس کے اپنے شوہر کے ساتھ کس طرح کے تعلقات رہے ہوں گے ‘ تم کو اندازہ ہے اس کا۔”
”ہاں’ مجھے اندازہ ہے۔” اسد نے لاپروائی سے کہا۔ ”میں جانتا ہوں وہ ملتی رہی ہے اس سے۔ کیا نام ہے اس کا۔” اسد نے ایک لمحہ رک کر اس کا نام یاد کیا۔ ”ہاں طلحہ … سوواٹ…”




”اور تمہاے لیے یہ بات کوئی معنی نہیں رکھتی؟” شائستہ نے بے یقینی سے کہا۔
”نہیں میرے لیے یہ بات کوئی معنی نہیں رکھتی۔ ظاہر ہے دونوں ایک دوسرے میں انٹرسٹڈ تھے۔ رشتہ تھا ایک ان کا ملنے کا حق تھا انہیں۔”
”اور اس حق میں وہ کیا کچھ نہیں کر چکے ہوں گے’ تم سوچ سکتے ہو؟” شائستہ نہیں جانتی تھی یہ جملہ اس کی زبان پر کہاں سے آیا تھا۔’ لاشعور سے۔ یا ماضی سے … اسد ایک لمحے چپ ہو کر اس کا چہرہ دیکھتا رہا اور پھر اس نے کہا۔
”اچھا … کر لیا ہو گا انہوں نے کچھ تو …؟”
شائستہ اس بار اپنی آواز پر قابو نہیں رکھ سکی۔ اس نے تقریباً چلاتے ہوئے کہا۔ ”تو …؟ تو …؟ تمہارے نزدیک اس کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔ تمہیں پروا ہی نہیں ہے کہ ان کے تعلقات کی نوعیت کیا رہی ہے۔ شیم آن یو۔”
”ممی میں بھی کوئی day’ saints پر پیدا نہیں ہوا۔ ہزار افیئرز تو میرے بھی رہے ہیں۔ باہر میں کیا کرتا رہا ہوں آپ کو پتا ہے؟” اسد نے بھی اتنی ہی بلند آواز کے ساتھ کہا۔
”اپنے آپ کو ایک لڑکی کے لیے اتنا نیچے مت گراؤ۔” شائستہ کی آواز اس بار بلند نہیں تھی مگر اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہو رہا تھا۔
”میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ آپ اس بات پر اتنا فس کیوں کر رہی ہیں۔”
”فس تو تم نے کھڑا کر رکھا ہے۔ دفع کرو اس لڑکی کو۔ کیا رکھا ہے اس میں۔ اس جیسی لاکھوں ہیں۔”
”ہوں گی مگر مجھے وہی چاہیے۔ کل تک آپ میرے ساتھ تھیں۔ مجھے بتا رہی تھیں کہ ہاں امبر اچھی’ خوبصورت لڑکی ہے۔ مجھے بھی ہمیشہ بہت اٹریکٹو لگی ہے۔” اسد نے شائستہ کے جملے دہرائے۔ ”اور اب پاپا کے ساتھ بیس منٹ کی ایک ملاقات کیا ہوئی ہے کہ آپ کی ٹون بدل گئی ہے۔”
”میری ٹون اس لیے بدل گئی ہے کیونکہ موریلٹی کوئی چیز ہوتی ہے جن کے بغیر کوئی زندگی نہیں گزار سکتا۔ اور تمہارے اندر موریلٹی نام کی کوئی چیز نہیں رہی۔ تم آنکھیں بند کر کے کیچڑ میں کودنے کی تیاری کر رہے ہو۔”
شائستہ کے اس جملے نے پہلی بار صحیح معنوں میں اسد کو پتا دیا۔
”مورل ویلیوز …” اس نے سرخ چہرے کے ساتھ کہا۔ ”اب آپ مجھے بتائیں گی کہ موریلٹی کیا ہوتی ہے۔ اور کیا نہیں … زندگی گزارنے کے گُر اب مجھے آپ سے دیکھنے پڑیں گے۔؟”
وہ آپے سے باہر ہو ہا تھا۔” میں اچھی طرح جانتا ہوں۔ موریلٹی کیا ہوتی ہے۔ کم از کم مجھے اس پر آپ سے لیکچر نہیں چاہیے۔”
”ایک آوارہ لڑکی کو لا کر میرے سر پر بٹھانا چاہتے ہو۔ اور کہہ رہے ہو کہ تم کو موریلٹی کا پتہ ہے۔”
”آوارگی’ کیا آوار گی کی ہے اس نے؟”
”طلحہ کے ساتھ پھرتی رہی ہے وہ۔” شائستہ غرائی۔
”طلحہ اس کا شوہر تھا۔”
”صرف نکاح ہوا تھا’ اس کے ماں باپ نے اسے رخصت نہیں کیا تھا گھر۔”
”اپنے شوہر کے ساتھ پھر ناغلط ہے۔؟” اسد کا لہجہ بے حد عجیب تھا۔
”ہاں غلط ہے۔”
”نکاح کا تعلق کچھ نہیں ہوتا؟”
”نہیں’ کچھ نہیں ہوتا۔”
”اگر اس مرد کے ساتھ پھر ناغلط ہے جس کے ساتھ صرف نکاح کا رشتہ ہو تو پھر ان مردوں کے ساتھ پھرنا بھی غلط ہو گا’ جن کے ساتھ کوئی تعلق سرے سے ہو ہی نا؟”
”ہاں ان مردوں کے ساتھ پھرنا بھی غلط ہے۔” شائستہ نے اسی لہجے میں کہا۔
”تو پھر آپ ان مردوں کے ساتھ کیوں پھرتی ہیں’ جن کے ساتھ آپ کا کوئی تعلق نہیں ہے؟”
اس کی سرد آواز نے شائستہ کا سارا خون نچوڑ کے رکھ دیا۔
”آپ کس کس کے ساتھ پھرتی ہیں کیا پاپا نے کبھی آپ سے پوچھا۔؟” وہ انگلی اٹھا کر میز کے دوسری جانب بیٹھا شائستہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
”پاپا کس کس کے ساتھ پھرتے ہیں’ کیا آپ نے کبھی ان سے پوچھا۔” شائستہ دم سادھے ہوئے تھی۔
”میں کس کس کے ساتھ پھرتا ہوں…؟ کیا آپ نے کبھی مجھ سے پوچھا۔؟” وہ ایک ایک لفظ پر زور ڈالتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ ”یہ تو ہو گئیں ہمارے گھر کی مورل ویلیوز …” وہ استہزائیہ انداز میں مسکرایا۔
”اس مورل اسٹرکچر میں اگر امبر بھی آ جاتی ہے تو کیا فرق پڑے گا۔”
وہ ایک لمحہ کے لیے رکا۔ پھر اس نے اسی لہجے میں تیز نظروں سے شائستہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔ ”اپنے لیے ایک مورل اسٹینڈرڈ دوسرے کے لیے کچھ اور کیوں یہ fairplayتو نہیں ہے۔”
”وہ سب مرد میرے دوست ہیں۔” شائستہ نے بہت دیر بعد اپنی خاموشی توڑی۔
”ہوں گے … یقینا ہوں گے۔ مجھے کوئی شبہ نہیں۔” اسد نے ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا۔ ”لیکن آپ کو اگر اپنے دوستوں کے ساتھ پھرنے کا حق ہے تو امبر کو اپنے شوہر کے ساتھ پھرنے کا حق کیوں نہیں… عورت اور مرد کی دوستی کو ہمارا معاشرہ نہیں مانتا… نکاح جیسے رشتے کو تو ہر معاشرہ مانتا ہے۔”
”تم اس کے عشق میں اتنے پاگل ہو گئے ہو کہ…”
اسد نے شائستہ کی بات اطمینان بھرے لہجے میں کاٹ دی۔ ”عشق میں اب کوئی پاگل نہیں ہوتا۔ نہ ہی کوئی اب عشق کرتا پھرتا ہے۔ مجھے صرف امبر میں انٹرسٹ ہے Interest with a capital I اور بس۔ اور یہ اسی قسم کا انٹرسٹ ہے جو پاپا نے آپ میں لیا تھا۔
اور جس کی وجہ سے آپ ان کی بیوی بنی تھیں۔” وہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔
”ایک چیز اگر آپ دونوں کے لیے ٹھیک ہے تو میرے لیے کیوں ٹھیک نہیں۔ اور پھر امبر کے ساتھ مجھے رہنا ہے۔ آپ دونوں کو نہیں۔”
شائستہ دم سادھے اسے بولتے ہوئے سن رہی تھی۔
”آپ کی پسند سے ہو یا پسند کے بغیر … شادی تو مجھے اسی کے ساتھ کرنی ہے۔” اس نے کندھے اُچکاتے ہوئے کہا۔
”اور کر لوں گا … کیونکہ آج تک میں نے تو دنیا میں ایسی کوئی لومیرج نہیں دیکھی جس پر پیرنٹس نے اعتراضات نہ کیے ہوں۔ چاہے خود پیرنٹس نے گھر سے بھاگ کر شادی کی ہو۔”
وہ تلخی سے نیپکن اپنی پلیٹ میں رکھے ہوئے سلائس پر پھینک کر ڈائننگ روم سے نکل گیا۔ شائستہ پتھر کے مجسمے کی طرح اسے وہاں سے جاتا دیکھتی رہی۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا اس نے یہ سب اسد کے منہ سے سنا تھا۔ وہ پہلی بار آج اس آئینے میں اپنا چہرہ دیکھ رہی تھی۔ جو ہر اولاد اپنے ماں باپ کو دکھایا کرتی ہے۔ اور ہارون کمال کے ساتھ اتنے سال گزارنے کے بعد اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ اولاد کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے آئینے میں اس کا عکس اس قدر بھیانک ہو گیا تھا اسد کے منہ سے نکلنے والے لفظ کسی بازگشت کی طرح اسے اپنے حصار میں لیے ہوئے تھے۔ وہ انہیں جھٹکنے کی کوشش کر رہی تھی’ اپنی سماعتوں سے’ اپنے ذہن سے۔ اپنے اعصاب سے … مگر بعض آوازیں صرف گونج بننے کے لیے ہی ہوتی ہیں اور اس نے چند لمحے پہلے ایسی ہی ایک آواز سنی تھی۔
”جنریشن گیپ … آج کل کی نسل…” اس نے اپنے اندر پڑتی ہوئی دراڑوں کو تسلیوں کی مٹی سے بھرنا چاہا۔”اسد سمجھ جائے گا۔ ابھی تو غصے میں تھا۔ غصے میں تو انسان کچھ بھی کہہ دیتا ہے۔ ورنہ وہ تو ہمیشہ مجھ پر فخر کرتا رہا ہے۔” اس نے توجیہات کا انبار لگانا شروع کر دیا۔ ”مجھے آئیڈیل مدر کہتا رہا ہے۔ اس کے دوست تک مجھے ایڈمائر کرتے ہیں۔ وہ شائستہ کمال کا نام کہیں لے تو اسے کچھ اور نہیں کہنا پڑے گا۔”
وہ کرسی کھینچ کر کھڑی ہو گئی۔
”بس یہ ایک لڑکی کا معاملہ تھا اس لیے۔ وہ اتنا ضدی ہو گیا’ لیکن بہت جلد پچھتائے گا اور خود ہی آ کر مجھ سے ایکسکیوز کرے گا۔” وہ خود کلامی کرتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئی۔
”اور امبر … امبر کو تو میں کبھی اس گھر میں نہیں لاؤں گی … No way” اس نے تنفر آمیز انداز میں اپنے سر کو ہلاتے ہوئے کہا۔ ”ہارون بالکل ٹھیک کہہ رہا تھا۔ وہ اس گھر میں آنے کے قابل ہی نہیں ہے۔”
٭٭٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۷

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!