تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۸

اسد دستک دے کر ہارون کمال کی اسٹڈی میں داخل ہوا۔ ہارون کمال نے نظر اٹھا کر بھی اسے نہیں دیکھا۔ ٹیبل کے دوسری طرف چیئر پر بیٹھے ہوئے وہ مکمل طور پر اس فائل کو دیکھتا رہا جسے وہ ہاتھوں میں لیے ہوئے تھا۔ اس نے اسد کی موجودگی کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا تھا۔ اسد کچھ دیر نروس انداز میں اندر داخل ہونے کے بعد بے مقصد کھڑا رہا’ لیکن جب اسے اندازہ ہوا کہ ہارون فی الحال اس پر توجہ دینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا تو اس نے ہلکا سا ایکسکیوز کر ہارون کمال کو اپنی طرف متوجہ کیا۔
”پاپا ! آپ نے بلوایا تھا؟” گردن یا جسم کو کوئی حرکت دیے بغیر ہارون نے وہیں اسی انداز میں بیٹھے بیٹھے تیوریاں چڑھا کر اسے دیکھا۔
”ہاں ‘ بیٹھو۔”اس کی آواز اور لہجہ دونوں ہی بے حد سپاٹ تھے۔ اسد کی نروس نیس میں کچھ اور اضافہ ہو گیا وہ کرسی کھینچ کر ہارون کے بالمقابل میز کے دوسری جانب بیٹھ گیا اور منتظر نگاہوں سے ہارون کو دیکھنے لگا جو ایک بار پھر اس فائل کے مطالعے میں غرق ہو چکا تھا۔ چند اعصاب شکن لمحوں کے بعد ہارون کمال نے فائل بند کر کے میز پر پھینک دی۔ ٹیبل پر پڑے سگریٹ کے پیکٹ سے اس نے ایک سگریٹ نکالا اور لائٹر کے ساتھ اسے سلگایا پھر ایک کش لے کر اس نے پہلی بار اسد کو غور سے دیکھا۔ اس کی آنکھوں سے جھلکتی ناراضی اسد سے پوشیدہ نہیں رہی’ مگر اسے ہارون کمال سے اس معاملے میں اسی ردعمل کی توقع تھی۔
کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر ہارون نے سگریٹ کے کش لے کر اسے انگلیوں میں دبایا اور سرد لہجے میں اسے مخاطب کیا۔
”صبح شائستہ سے تمہاری کچھ باتیں ہوئی ہیں’ میں وہ جاننا چاہتا ہوں۔”
اسد کے ماتھے پر ہلکا سا پسینہ آ گیا۔ ”ممی نے آپ کو بتا دیا ہو گا۔” اس نے ہلکی سی ہکلاہٹ کے ساتھ کہا۔
”ہاں’ اس نے تو مجھے بتا دیا ہے مگر میں تمہارے منہ سے یہ سب سننا چاہتا تھا۔ مجھے بھی تو پتا چلنا چاہیے کہ تم امبر کے عشق میں کس حد تک مجنوں بنے ہوئے ہو۔”
اسد ہلکی سی کھسیانی ہنسی ہنسا۔ ”نہیں پاپا! ایسی تو کوئی بات نہیں ہے۔”
”اچھا ‘ ایسی کوئی بات نہیں ہے تو پھر صبح خوامخواہ بھونکتے رہے ہو تم۔” ہارون نے ترشی سے اس کی بات کاٹی۔ اسد کا جسم یک دم تن گیا۔ چند لمحوں کے لیے وہ کچھ بول نہیں سکا۔ شاید اسے ہارون کمال سے اس قسم کے جملے کی توقع نہیں تھی۔ چند لمحوں کے بعد اس نے ہارون سے کہا۔
”میں نے صرف اپنی خواہش ان کو بتائی تھی۔” ہارون نے ایک بار پھر اس کی بات کاٹی۔ اس بار اس کی آواز بے حد بلند اور لہجہ تندوتیز تھا۔
”No” And i said (اور میں نے کہا نہیں۔) اور No کا مطلب تو تم جانتے ہی ہو گے۔”




اسد ہونٹ بھینچے کچھ لمحے خاموش رہا پھر اس نے کہا۔ ”لیکن Noکی کوئی وجہ بھی تو ہو گی۔”
”فرض کرو’ کوئی وجہ نہیں ہے پھر …؟” ہارون نے جیسے چیلنج کرنے والے انداز میں تیسری دفعہ اس کی بات کاٹی۔
”وہ لڑکی تمہاری بیوی بن کر کبھی اس گھر میں نہیں آ سکتی۔ تمہیں اگر شوق ہے تو اس گھر کو چھوڑ کر اس سے شادی کر لو’ اگر کر سکتے ہو تو۔”
”پاپا ! میں …” اسد نے ایک بار پھر کچھ کہنے کی کوشش کی۔
ہارون نے اسے جملہ پورا نہیں کرنے دیا۔ ”اسد کمال صاحب! آپ آخر کس برتے پر عشق فرما رہے ہیں؟ آپ ہیں کیا؟ اوقات کیا ہے آپ کی؟”
”مجھے اس طرح teaseمت کریں پاپا!” اسد نے پہلی بار ناراضی سے کہا۔ ”اپنی مرضی سے شادی میرا حق ہے۔”
”تو یہ حق تم اس وقت لینا جب اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر دو قدم چلنے کے قابل ہو جاؤ گے۔ ماں باپ کی گود میں بیٹھ کر عشق فرمانے کی ضرورت نہیں ہے۔”
”میں سمجھتا تھا پاپا! کہ آپ بہت براڈ مائنڈڈ ہیں مگر یہ میری غلط فہمی تھی۔ آپ تو بہت rigid(کٹر)’ بہت narrow-minded (تنگ ذہن ) ہیں۔” اسد اپنے دلی جذبات چھپا نہیں سکا۔
”تم مجھے narrow-minded کہو یا rigid میں امبر سے تمہاری شادی نہیں کر سکتا۔”
”اس میں آخر برائی کیا ہے؟”
”وہ مجھے پسند نہیں ہے۔” ہارون کمال نے کہا۔
”شادی مجھے کرنی ہے اس سے ۔ ” اسد نے جتانے والے انداز میں کہا۔
”مگر اسے میرے خاندان کا حصہ بننا ہے جو میں اسے بنانا نہیں چاہتا۔”
”اس کے فادر کے ساتھ آپ بزنس کر رہے ہیں۔”
”وہ میرا ذاتی معاملہ ہے۔”
”پاپا! میں آپ کی بات سمجھ نہیں پا رہا۔” اسد کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔
”تمہیں کچھ بھی سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تم آرام سے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے جاؤ’ کچھ سال بعد دیکھیں اور سوچیں گے کہ تمہاری شادی کہاں اور کس کے ساتھ کرنی ہے مگر امبر نہ آج قابل غور ہے’ نہ ہی آئندہ کبھی ہو گی۔ اس شہر یا ملک میں لڑکیوں کی کمی نہیں ہے کہ ہارون کمال کے بیٹے کے لیے ایک آوارہ اور طلاق یافتہ لڑکی کو ہی چنا جائے۔”
اس نے کچھ کہنا چاہا مگر ہارون نے ہاتھ اٹھا کر اسے بات کرنے سے روک دیا۔
”امبر کا معاملہ آج ختم ہو گیا۔ اس کے بعد دوبارہ میں اس معاملے پر تم سے کوئی بات کروں گا’ نہ ہی تم شائستہ سے اس بارے میں بات کرو گے۔”
ہارون کمال نے اپنے سامنے پڑی فائل اٹھالی۔ ”اب تم جا سکتے ہو۔”
اسد چند لمحے میز کے دوسری طرف بیٹھا الجھی ہوئی نظروں سے اسے دیکھتا رہا پھر وہ یک دم قدرے ناراضی کے عالم میں اٹھا اور اسٹڈی کا دروازہ کھول کر لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے باہر نکل گیا۔ اس کے دروازہ بند کر کے باہر جاتے ہی ہارون کمال نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی فائل ایک بار پھر میز پر پھینکنے والے انداز میں رکھ دی۔ ماتھے پر بل لیے وہ کچھ سوچنے والے انداز میں بند دروازہ کو گھورتا رہا پھر اس نے ہاتھ بڑھا کر ٹیبل پر پڑا سگریٹ کا پیکٹ اٹھا لیا۔ پیکٹ کے اندر سے ایک اور سگریٹ نکال کر اس نے اسے پہلے والے سگریٹ کے ساتھ سلگایا۔
٭٭٭
”آپ نے … آپ نے دیکھا اسے … اپنے بیٹے کو … اس کے لب و لہجے کو … اس کی زبان کو؟
رخشی غصے سے کانپ رہی تھی۔ اس سے بات ٹھیک سے نہیں ہو پا رہی تھی۔ دوسری طرف منصور علی خود بھی اب تک ساکت کھڑے تھے۔ روشان کے منہ سے نکلنے والے جملوں نے خود ان کے جسم میں بھی سنسنی دوڑا دی تھی۔
”یہ … یہ … جو کچھ کہہ رہا ہے … اس کے پیچھے کہلوانے والے ہیں … اس کی ماں اور بہنیں ہیں جو اسے ہر وقت میرے خلاف بھڑکاتی رہتی ہیں اور یہ … یہ … مجھے اس سے خوف آتا ہے … منصور! یہ واقعی مجھے مار ڈالے گا۔”
”وہ غصے میں تھا’ اس لیے اس طرح کی بات کہہ کر چلا گیا۔” منصور علی نے بالآخر اپنی خاموشی توڑتے ہوئے اس کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو بھی تسلی دینے کی کوشش کی۔
”غصے میں … غصے میں وہ آج اس طرح کی بات کہہ کر گیا ہے’ کل کو وہ سب کچھ کر گزرے گا اور آپ پھر یہی کہیں گے کہ اس نے یہ سب کچھ غصے میں کیاہے۔”
”نہیں’ وہ ایسا کچھ نہیں کرے گا’ وہ ایسا کچھ نہیں کر سکتا’ میں اچھی طرح جانتا ہوں اس کو۔ اتنی ہمت نہیں ہے اس میں۔” منصور علی نے اس بار آگے بڑھ کر اس کے کندھے کو تھپتھپایا۔
”ہمت نہیں ہے اس میں۔” رخشی نے اپنے کندھے پر رکھا ان کا ہاتھ جھٹکا۔ ”آپ کے سامنے وہ مجھے قتل کی دھمکی دے گیا ہے اور آپ کو ابھی اس کی ہمت پر شبہ ہے۔ آپ کے سامنے میرے ساتھ ان کا سلوک ایسا ہے۔ آپ کے پیچھے یہ میرے ساتھ کیا کرتے ہیں’ آپ کو اندازہ ہی نہیں۔”
”میں اسی لیے تمہیں اس گھر میں نہیں لانا چاہتا تھا۔ تم سے کہا تھا میں نے کہ بہتر ہے تم اپنے گھر میں ہی رہو۔”
منصور علی کے جملے نے رخشی کو اور بھڑکایا۔ ”کیوں نہ آتی میں یہاں اس گھر میں’ کیا یہ میرا گھر نہیں ہے؟ آپ کے بچوں کا گھر ہے؟ اس پر میرا کوئی حق نہیں ہے؟”
”رخشی … رخشی … پلیز کول ڈاؤن۔ میری بات کو سمجھو۔” منصور علی نے اس کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔
”نہیں’ مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے آپ کی بات سمجھنے کی۔ اگر آپ میری بات نہیں سمجھ سکتے تو میں بھی آپ کی بات نہیں سمجھ سکتی۔ یہاں سے بھیجنا چاہتے ہیں تو چلی جاتی ہوں میں یہاں سے۔” منصور علی نے اس کا بازو پکڑ کر اسے کمرے سے نکلنے سے روکا۔
”خدا کے لیے رخشی! میری بات کا غلط مطلب مت لو۔ میں جو بھی کہہ رہا ہوں’ تمہاری ہمدردی میں کہہ رہا ہوں۔ میں کیوں تمہیں یہاں سے بھیجنا چاہوں گا’ میں روشان کی طرف سے تم سے معذرت کرتا ہوں۔”
”آپ معذرت مت کریں’ وہ معذرت کرے۔”
”تمہیں پتا ہے اس کا … اس کا دماغ خراب ہو رہا ہے آج کل۔ وہ کہاں کرے گا معذرت۔” منصور علی کو روشان کے مزاج کا بھی اچھی طرح پتا تھا۔
”تو پھر آپ بھی معذرت مت کریں’ اپنے بیٹے کے لیے اس طرح کی محبت میرے سامنے مت ظاہر کریں۔”
”میں محبت کہاں ظاہر کر رہا ہوں’ میں تو اس کی حرکت پر شرمندگی محسوس کر رہا ہوں’ اس لیے تم سے معذرت کر رہا ہوں اور جہاں تک اس کی ماں کا تعلق ہے’ میں آئندہ اسے کسی صورت میں اس سے بات نہیں کرنے دوں گا۔”
”اور وہ آپ کی بات مان لے گا؟”
”اسے ماننا پڑے گی۔”
”چوبیس گھنٹے آپ نگرانی کریں گے اس کی؟ یہاں … کالج … باہر … ہر جگہ؟” منصور علی اس کے طنز پر چند لمحے کچھ نہیں کہہ سکے۔ ”وہ کبھی اپنی ماں کے ساتھ رابطہ ختم نہیں کرے گا اور وہ ہمیشہ میرے اور میرے آنے والے بچے کے سر پر تلوار کی طرح لٹکتا رہے گا۔”
”میں اسے سمجھاؤں گا۔”
”منصور! آپ اپنے آپ کو اور مجھے بے وقوف بنانے کی کوشش مت کریں۔ آپ کے سمجھانے کا آپ کی اولاد پر کتنا اثر ہوتا ہے’ آپ اچھی طرح جانتے ہیں پھر کیوں اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں۔”
”تو پھر تم مجھے بتاؤ’ میں کیا کروں۔ میں زیادہ سے زیادہ یہی کر سکتا ہوں۔”
”میں آپ کی پچھلی بیوی جیسی خود غرض عورت ہوتی تو کہتی کہ آپ اپنے اس بیٹے کو گھر سے نکال کر اس کی ماں کے پاس بھیج دیں مگر میں جانتی ہوں’ آپ کو اس سے کتنی محبت ہے’ آپ اسے کبھی اپنی سابقہ بیوی کے پاس بھیجنا نہیں چاہیں گے۔”
رخشی نے یک دم اپنا لہجہ نرم کیا۔ منصور علی نے مشکور نظروں سے اسے دیکھا۔
”میں اسی لیے تم سے کہہ رہا ہوں کہ میں اسے سمجھاؤں گا’ وہ تمہاری عزت کرے گا’ اسے کرنا پڑے گی۔”
”مجھے اس سے عزت اور احترام کی توقع ہے’ نہ ضرورت۔ میں صرف تحفظ چاہتی ہوں اپنا اور اپنے بچے کا۔” رخشی نے منصور علی کی بات کاٹ دی۔ ”میں آپ سے یہ نہیں کہہ رہی کہ آپ اسے اپنی سابقہ بیوی کے پاس بھیج دیں مگر آپ اسے ہاسٹل تو بھجوا سکتے ہیں۔”
منصور علی چپ چاپ اسے دیکھتے رہے۔
”وہ اس گھر میں نہیں ہو گا تو کم از کم مجھے اس سے کسی نقصان کا خطرہ بھی نہیں ہو گا اور وہ ہاسٹل میں رہے گا تو کم از کم وہ اپنی ماں کے ساتھ اتنے لمبے چوڑے رابطے نہیں کر سکے گا’ جتنے وہ اب کرتا ہے۔ اسے آپ ہاسٹل میں داخل کروائیں۔”
رخشی نے اپنے جملے کے آخری حصے پر زور دیتے ہوئے کہا۔ منصور علی عجیب شش و پنج میں تھے۔
٭٭٭
”ممی! امبر ٹھیک ہو جائے تو پھر کرائے پر گھر لے کر ہم سب لوگ اکٹھے رہیں گے۔”
منیزہ نے حیرت سے صبغہ کے چہرے کو دیکھا۔ وہ دونوں اس وقت کلینک کے لان میں لکڑی کے ایک بینچ پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ امبر کو یہاں ایڈمٹ ہوئے آج دوسرا دن تھا۔ منیزہ اس کے پاس کلینک میں ہی تھیں اور صبغہ آج پھر چوری چھپے اسے دیکھ آئی تھی۔ دو دن میں امبر کی حالت میں کوئی بہتری نہیں آئی تھی مگر ڈاکٹر انہیں امید دلا رہا تھا کہ چند اور دن گزرنے پر وہ آہستہ آہستہ بہتر ہونا شروع ہو گی۔ وہ امبر کو مسلسل سکون بخش ادویات دے رہے تھے۔
صبغہ اور منیزہ کچھ دیر پہلے امبر کے پاس اندر تھیں پھر امبر کے ڈاکٹر کے ساتھ سیشن کے دوران وہ دونوں باہر آ کر بیٹھ گئیں۔
”تم کیا کہہ رہی ہو؟۔” منیزہ کو اس کی تجویز پر جیسے شاک لگا تھا۔
”حالات دن بدن خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ گھر میں بہت ٹینشن ہے۔ روشان نے رخشی سے کوئی جھگڑا کیا ہے اور پاپا روشان سمیت ہم سب سے ناراض ہیں۔ وہ روشان کو ایکسکیوز کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں اور وہ نہیں کر رہا۔”
”میں نے تم لوگوں سے پہلے بھی کہا تھا کہ تم لوگ اس گھر میں مت رہو’ میرے پاس آ جاؤ۔”
”آپ کے پاس آنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا ممی! آپ تو خود بہت مشکل حالات سے گزر رہی ہیں۔ انکل صفدر ہمارا آپ کے پاس آنا برداشت نہیں کریں گے۔”
”تم لوگ پہلے آ جاتے تو ایسا نہ ہوتا۔” منیزہ نے قدرے شکست خوردہ انداز میں کہا۔
”فوری طور پر نہ ہوتا لیکن بعد میں یہی سب ہونا تھا۔ چھ افراد کا بوجھ اٹھانا ان کے لیے مشکل ہے۔” صبغہ لکڑی کے بینچ کی پشت کو اپنے ناخن سے کرید رہی تھی۔
”میں نے سوچا تھا کہ پاپا کے گھر پر رہ کر میں کم از کم آپ کا بوجھ تو کم کر سکتی ہوں مگر مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ پاپا اس حد تک تنگ کریں گے ہمیں۔ بعض دفعہ مجھے لگتا ہے جیسے روشان کے علاوہ انہیں ہم میں سے کسی میں دلچسپی نہیں ہے’ وہ ہمیں رکھنا ہی نہیں چاہتے تھے اور شاید ان کو توقع بھی نہیں تھی کہ ہم لوگ امبر کے اس طرح چلے جانے کے بعد بھی ان کے ساتھ رہنے پر تیار ہو جائیں گے۔” وہ بے حد ملول اور دل گرفتہ تھی۔
”میں نے روشان سے کہا بھی ہے کہ وہ ایکسکیوز کر لے۔ کیا فرق پڑتا ہے اتنی ذلت کے بعد ایکسکیوز کا ایک جملہ کہہ دینے سے’ مگر وہ میری بات سن ہی نہیں رہا اور پاپا … وہ اب اسے ہاسٹل بھجوا رہے ہیں۔”
”ہاسٹل؟”
”ہاں’ رخشی کو اس کی وجہ سے گھر میں خوف محسوس ہوتا ہے۔”
”اس چڑیل کو کسی سے خوف کیسے آنے لگا؟” منیزہ نے نفرت سے کہا۔
”یہ ڈرامہ نہیں کرے گی وہ تو اسے گھر سے کیسے نکلوائے گی اور مجھے تو لگتا ہے’ اس کے بعد وہ ہمیں بھی گھر سے نکلوا دے گی’ اس لیے ممی! میں کہہ رہی ہوں’ ہم کہیں الگ گھر لے کر اکٹھے رہ لیتے ہیں۔” اس نے اپنی بات کے اختتام پر منیزہ کا ہاتھ پکڑ لیا۔
”کیسے اکیلے رہیں گے؟ کرایہ کہاں سے دیں گے؟ گھر کا خرچ کہاں سے چلائیں گے؟ بہت مشکل ہے یہ ؟”
”امبر ٹھیک ہو جائے گی ممی! تو میں اور امبر کہیں جاب کر لیں گے’ ایک دو سال میں روشان بھی ہمارے ساتھ پارٹ ٹائم کہیں کام کر لے گا۔ تھوڑی مشکل ہو گی مگر پھر سب کچھ ٹھیک ہوتا جائے گا۔” صبغہ نے اصرار کیا۔
”تم اور امبر کیا کام کرو گی۔ امبر نے گریجویشن مکمل نہیں کی۔ تم نے صرف اے لیولز کیا ہے۔ کیا جاب مل سکتی ہے تمہیں۔ فرض کرو مل بھی جائے’ تب بھی اخراجات پورے نہیں ہوں گے۔ روشان کی فیس کہاں سے جائے گی۔ زارا اور رابعہ کا اسکول کتنا مہنگا ہے’ تمہیں پتا ہے پھر گھر کا کرایہ … بل … کم از کم پچاس ساٹھ ہزار چاہیے ہمیں ہر ماہ … اتنے پیسے تم دونوں مل کر نہیں کما سکتیں۔” منیزہ نے مایوسی سے کہا۔
”ممی ! کوئی چھوٹا گھر لے لیں گے’ ایک کمرے کا … کسی عام سے علاقے میں … جس کا کرایہ ہزار پندرہ سو تک ہو… رابعہ اور زارا کو کسی گورنمنٹ اسکول میں داخل کروا دیں گے۔”
”ایک کمرے کا گھر … کسی عام علاقے میں … تمہارا دماغ ٹھیک ہے؟” منیزہ نے کہا۔ ”آج تک کبھی رہے ہو تم لوگ ایک کمرے کے گھر میں … کیسے رہو گے وہاں۔”
”بہت سارے لوگ رہتے ہیں ممی! ” صبغہ نے مدھم آواز میں کہا۔
”وہ مجبور ہوتے ہوں گے۔” منیزہ نے بے ساختہ کہا۔
”ہم کیا ہیں؟”
”ہم ابھی اتنے مجبور نہیں ہوئے ہیں۔ صفدر بھائی کے گھر میں میرا حصہ ہے۔ میرے ابا کی جائیداد ہے وہ۔ میں کیوں اس گھر کو چھوڑ کر کہیں اور رہوں اور پھر اتنے سال میں نے اتنے احسان کیے ہیں صفدر بھائی پر۔ بزنس میں تمہارے باپ کے ذریعے کتنی مدد کروائی ہے ان کی اور آج وہ میرے اور میرے بچوں کے کام نہیں آ سکتے۔ کیوں ان کا گھر چھوڑ کر ہم کہیں اور رہیں۔ میرا حق بنتا ہے کہ وہ میری اور میرے بچوں کی ذمہ داری اٹھائیں۔” منیزہ نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
”حق ان پر جتایا جاتا ہے ممی! جو اپنا فرض محسوس کرتے ہیں مگر جو فرض کو بوجھ سمجھیں’ ان پر حق جتانا حماقت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔”
”تم جو چاہے کہو’ میں اس گھر کو نہیں چھوڑوں گی۔”
”کل کو وہ آپ کو وہاں سے نکلنے پر مجبور کر دیں گے’ تب بھی تو آپ کو وہ گھر چھوڑنا پڑے گا۔”
”اگر اس گھر کو چھوڑنے کے لیے مجھے کسی نے کہا تو میں اس پر کیس کروں گی’ جائیداد میں سے اپنا حصہ لوں گی پھر گھر چھوڑدوں گی۔”
صبغہ کو منیزہ پر ترس آیا۔ ”کیسے کیس لڑیں گی آپ؟ کورٹ میں جانے کے لیے پیسہ چاہیے۔ آپ کے پاس اتنا پیسہ ہے…؟ اور کتنے سال لگتے ہیں ایسے کیسز میں … یہ جانتی ہیں آپ … آپ کیس لڑ سکتیں تو پاپا کے خلاف لڑتیں۔ وہ نہیں لڑ سکیں تو اپنے بھائی کے خلاف کیسے لڑیں گی۔”
”صبغہ! تم جو چاہو کہو’ بہرحال میں صفدر بھائی کا گھر نہیں چھوڑوں گی جو کچھ تم کہہ رہی ہو’ یہ کہنا ہی آسان ہے’ کرنا کتنا مشکل ہے’ یہ تم نہیں جانتیں۔” منیزہ درشتی سے کہتے ہوئے اٹھ کر کھڑی ہو گئیں۔
”دنیا کے دھکے کھانے سے بہتر ہے’ بندہ اپنوں کے جوتے کھا لے۔ کم از کم دنیا میں عزت تو رہتی ہے۔” منیزہ کہتے ہوئے اندر چلی گئیں۔ وہیں بیٹھے انہیں دیکھتی رہی۔
منیزہ زندگی کے تلخ سبق بالآخر سیکھ رہی تھیں۔ صبغہ کا دل چاہا وہ منیزہ سے پوچھے کہ اگر جوتے ہی کھانے تھے تو کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ وہ دوسری بیوی بن کر اپنے گھر میں رہتے ہوئے جوتے کھا لیتیں۔ کم از کم اس وقت ان سب کے پاس ایک چھت’ ایک گھر تو ہوتا۔ وہ اکٹھے تو رہ رہے ہوتے۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے چہرہ مسلا۔ وہ جانتی تھی منیزہ غلط نہیں کہہ رہی تھیں۔ اپنے گھر سے بے گھر ہونے کے بعد اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ پیسے کے بغیر اپنے بل بوتے پر رہنے کا خواب دیکھنا نری حماقت تھا۔ شاید اب وہ پہلی بار پریکٹیکل ہو کر سوچ رہی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے بھائی اور بھابھی کی تندوترش باتیں سننے کے باوجود اسی گھر میں کسی نہ کسی طرح گزارا کرنے پر تیار تھیں۔ وہ گھر اب جیسے ان کی آخری امید’ آخری سہارا بن چکا تھا اور وہ اس امید اور اس سہارے سے محروم ہونا نہیں چاہتی تھیں۔
دوسری طرف صبغہ چند سال بعد کے حالات اور زندگی کو تصور میں دیکھ رہی تھی۔ اسے اس بات میں کوئی شبہ نہیں تھا کہ جلد یا بدیر منیزہ اور امبر کو صفدر انکل کا گھر چھوڑنا پڑے گا اور اسے یہ حقیقت ماننے میں بھی کوئی تامل نہیں تھا کہ خود انہیں بھی منصور علی کے گھر سے نکلنا پڑے گا۔ سوال صرف کب کا تھا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۷

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!