تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۸

”انکل کا گھر تو ہمارا نہیں ہو گا۔ وہاں ہم کتنے دن رہ سکیں گے۔ کون سپورٹ کرے گا ہمیں؟ یہ ساری زندگی کی بات ہے۔ ایک دو دن کا معاملہ تو نہیں ہے۔”
”تم مسعود انکل سے بات کرو… ان سے کہو کہ وہ پاپا سے بات کریں۔” روشان نے اس بار دھیمے لہجے میں صبغہ سے کہا۔
”وہ بات نہیں کریں گے۔ انہیں بات کرنی ہوتی تو وہ اب تک کر چکے ہوتے۔ کوئی بھی ہماری مدد نہیں کرے گا۔ کم از کم خود کو نقصان پہنچنے کی صورت میں تو کبھی نہیں۔ تمہیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ ہمیں جو بھی کرنا ہے خود ہی کرنا ہے۔”
روشان کچھ جھنجھلایا ہوا اس کے پاس آکر بیٹھ گیا۔
”یہ سب کچھ امبر کی وجہ سے ہوا ہے۔ یہ مصیبت اسی کی لائی ہوئی ہے۔”
”اس کو کیا پتا تھا روشان کہ رخشی یہ سب کچھ کرے گی۔” صبغہ نے اس کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔
”مجھے کبھی بھی رخشی اچھی نہیں لگی۔ اس کی شکل دیکھ کر مجھے غصہ آتا تھا۔ مجھے پتا ہوتا کہ وہ کبھی یہ سب کچھ کرے گی تو میں… میں…” روشان کا چہرہ ایک بار پھر غصے سے سرخ ہونے لگا۔
”صرف رخشی کاقصور نہیں ہے۔ پاپا کا بھی قصور ہے۔ پاپا نے بھی تو خود غرضی کی حد کردی ہے۔” صبغہ نے اپنی چھوٹی دونوں بہنوں کو دیکھتے ہوئے کہا، وہ اب وہیں صوفہ پر سوئی ہوئی تھیں۔
”یہ سب ہمارے ساتھ کیوں ہوا ہے۔ دنیا میں اتنے لوگ ہیں آخر ہمارے ساتھ ہی یہ سب کچھ کیوں ہوا ہے۔” روشان نے اس بار کچھ بے بسی سے کہا۔
”مجھے تو یقین نہیں آرہا کہ یہ سب کچھ ہو چکا ہے۔ میں نے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں ٹرپ سے واپس آؤں گی تو… رخشی نے ممی کی تمام چیزوں پر قبضہ کر لیا ہو گا۔ ان کی جیولری، ان کی تمام چیزوں پر۔”
”میں صبح ممی کے کمرے میں جاکر وہاں سے ممی کی تمام چیزیں لے آؤں گا۔” روشان کو یک دم خیال آیا۔
”رخشی ہنگامہ کھڑا کر دے گی۔”




”مجھے اس کی پرواہ نہیں ہے۔ وہ بھونکتی ہے تو بھونکتی رہے۔” روشان نے نفرت سے کہا۔
”پاپا اس کی سائیڈ لیں گے، تمہاری نہیں۔ تمہیں کیا ضرورت ہے ممی کی جیولری اور دوسری چیزوں کی۔” صبغہ نے اس سے کہا۔ ”پاپا کو خیال ہوگا تو وہ خود یہ ساری چیزیں ہمیں دے دیں گے۔ یا پھر رخشی سے کہہ دیں گے کہ وہ انہیں ہاتھ نہ لگائے۔”
”پاپا کچھ بھی نہیں کہیں گے… جو کچھ اب تک وہ کر رہے ہیں، رخشی کے کہنے پر ہی کر رہے ہیں اور تمہارا خیال ہے کہ وہ رخشی کو ان چیزوں کو استعمال کرنے سے روک دیں گے۔”
”روشان! ہم فی الحال رخشی سے یا کسی سے بھی کوئی جھگڑا افورڈ نہیں کر سکتے۔ ممی نے بھی ایک بار جھگڑا کرنے کی کوشش کی تھی تم نتیجہ دیکھ رہے ہو۔” وہ اب بے حد سنجیدہ تھی۔ ”میں نہیں چاہتی ہمارے ساتھ بھی یہی ہو۔ پاپا ہمیں بھی اسی طرح دھکے دے کر گھر سے نکال دیں۔”
”تو نکال دیں… مجھے تو پرواہ نہیں ہے۔”
”فضول باتیں مت کرو۔ جو میں سمجھانے کی کوشش کر رہی ہوں۔ وہ سمجھو۔” صبغہ نے اس بار اسے ڈانٹا۔
”تمہیں رخشی سے کس قسم کا کوئی جھگڑا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ تو چاہتی ہی یہی ہو گی کہ تم اس سے کوئی جھگڑا کرو۔ اور اسے پاپا کے کان ہمارے خلاف بھرنے کاموقع ملے۔ وہ بے حد چالاک ہے۔ بلکہ مکار اور خود غرض کہنا چاہیے۔ تم دعا کرو کوئی تصفیہ ہو جائے۔”
”مجھے تو نہیں لگتا رخشی کبھی ممی کے ساتھ کوئی تصفیہ ہونے دے گی۔ اسے ایسا کرنا ہوتا تو وہ ممی کو گھر سے نکلوا کر اس طرح ہمارے گھر پر قبضہ کبھی نہ کرتی۔” اس کے لہجے میں بے انتہا مایوسی تھی۔
اس رات وہ دونوں وہیں لاؤنج میں چپ چاپ بیٹھے رہے۔ انہوں نے ساری رات جاگتے ہوئے گزارتی تھی۔ زندگی یک دم انہیں ایک عجیب موڑ پر لے آئی تھی۔ اندھی گلی شاید اسے ہی کہتے تھے۔
صبغہ کا مزاج امبر سے بہت مختلف تھا۔ رونے دھونے کے بعد اب وہ اس صورتِ حال پر ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کر رہی تھی۔
منصور علی کو ان کی عدم موجودگی یا ان کے چلے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ وہ اندازہ کر سکتی تھی کہ اس وقت ان کے لیے رخشی ہی کافی تھی۔ باقی کسی رشتے کی ضرورت نہیں رہی تھی انہیں۔ مگر خود وہ سب ہر لحاظ سے تب تک منصور علی کے محتاج تھے۔ روشان کو سمجھانا اس کے لیے مشکل نہیں تھا اس کی روشان سے بہت انڈر اسٹینڈنگ تھی۔ باقی تمام بہنوں کی نسبت روشان اسی سے زیادہ قریب تھا اور وہ جانتی تھی کہ شدید غصے میں ہونے کے باوجود وہ صبغہ کو اکیلا منصور علی کے گھر پر چھوڑ کر نہیں جائے گی۔ مگر رخشی اسے خوفزدہ کر رہی تھی جس نے منیزہ کو طلاق دلوانے کے چند گھنٹے بعد ہی اس کے گھر پر قبضہ کر لیا تھا۔ وہ اور کیا کیا کر سکتی تھی۔ کم از کم صبغہ یہ اندازہ نہیں لگا سکتی تھی مگر وہ یہ ضرور جانتی تھی کہ وہ ان سب کو وہاں نہیں دیکھنا چاہتی ہوگی اور اسی لیے صبغہ نے وہیں ٹھہرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
٭٭٭
”تم نے یہ فیصلہ کرنے میں کچھ جلد بازی کی۔ مگر اچھا فیصلہ کیا۔” منصور اگلے دن آفس میں ہارون کمال سے کہہ رہا تھا۔ ”مجھے اندازہ نہیں تھا کہ تم اتنی بہادری کا مظاہرہ کرو گے۔ میں تو سمجھتا تھا، تم ابھی سوچنے میں بہت دیر لگاؤ گے اور شاید کبھی بھی اپنی بیوی کو طلاق نہ دے سکو، لیکن تم نے مجھے حیران کر دیا۔”
”صرف تمہیں ہی نہیں اس بار میں نے بہت سے لوگوں کو حیران کیا ہے۔ لوگوں کو حیران کرتے رہنا چاہیے۔” منصور علی نے شگفتگی کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی۔ ہارون کمال جدوجہد کرکے مسکرایا۔
”ویسے تمہیں امبر کو گھر سے نکالنا نہیں چاہیے تھا۔” ہارون نے کچھ دیر کی خاموشی کے بعد کہا۔
”میں نے اسے گھر سے نہیں نکالا، اس نے خود میرے گھر پر رہنے کے بجائے منیزہ کے ساتھ جانے کو ترجیح دی۔” منصور علی نے وضاحت کی۔
”پھر بھی… وہ تمہاری بیٹی تھی۔ تمہیں اس کا خیال کرنا چاہیے تھا۔ بیٹی کے ساتھ اس طرح کا رویہ مناسب نہیں تھا۔” ہارون کمال نے ایک بار پھر ہمدردی کا اظہار کیا۔
”مناسب تھا یا نہیں… اس نے ہر چیز کا انتخاب خود کیا۔ ورنہ باقی سارے بچے بھی تو میرے ہی گھر پر ہیں۔ وہ کیوں نہیں اس طرح اپنی ماں کے پیچھے بھاگے گئے۔” منصور علی نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
ہارون کمال خاموش رہا پھر کچھ دیر کے بعد اس نے کہا۔
”تم نے مسعود علی اور اس کے بیٹوں کے بارے میں کیا سوچا ہے؟” یک دم پوچھے جانے والے اس سوال نے منصور علی کو حیران کیا۔
”مسعود بھائی اور ان کے بیٹوں کے بارے میں کیا سوچنا ہے۔ مجھے؟”
”انہیں اپنے بزنس سے الگ کردو۔” ہارون کمال نے بے حد سنجیدگی سے کہا۔
”کیا…؟” منصور نے بے اختیار کیا۔
”ہاں… انہیں اپنے بزنس سے الگ کردو۔”
”لیکن کیوں… اس کی کیا ضرورت ہے؟” منصور نے اعتراض کیا۔
”تمہیں آستین کے سانپ نہیں پالنے چاہئیں۔ مسعود علی اور اس کے بیٹے رخشی سے تمہاری شادی کو دل سے قبول نہیں کریں گے۔”
”انہوں نے ابھی تک تو کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا اور میرا خیال ہے کہ وہ کسی رد عمل کا اظہار کریں گے بھی نہیں۔” منصور نے کہا۔
”ہاں… ہو سکتا ہے ظاہری ظور پر وہ تم سے کچھ نہ کہیں، لیکن اندر سے ان کی ہمدردیاں تمہارے ساتھ تو کبھی نہیں ہوں گی۔” ہارون کمال نے کہا۔ ”تمہیں اچھی طرح یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ وہ تمہارے بارے میں ہر قسم کی انفارمیشن تمہاری سابقہ بیوی کو پہنچاتے رہیں گے اور وہ اسے تمہارے خلاف استعمال کر سکتی ہے۔”
”لیکن…” ہارون کمال نے اس کی بات کاٹ دی۔
”مسعود علی امبر اور صبغہ سے اپنے بیٹو ںکی شادی ہو جانے کے بعد یہ سوچ رہا ہو گا کہ تمہاری اس فیکٹری پر اس کا مکمل قبضہ ہو جائے گا۔ لیکن رخشی سے دوسری شادی کرکے تم نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ وہ یہ سب کچھ آسانی سے تو نہیں بھولیں گے۔”
ہارون کمال بڑی چالاکی کے ساتھ کہہ رہا تھا۔ ”امبر اور صبغہ کی ان دونوں کے ساتھ رخصتی ہو جائے گی اور یہ دونوں اس فیکٹری کو چلاتے رہیں گے تو منیزہ اپنی بیٹیوں کے ذریعے ان دونوں کو استعمال کرتی رہے گی۔ بلکہ یہ سب مل کر تمہیں استعمال کریں گے اور آہستہ آہستہ یہ فیکٹری تم سے چھین لیں گے۔ تم اپنی بیوی سے تو اچھی طرح واقف ہی ہو، وہ کیا کر سکتی ہے۔ یہ بھی جانتے ہی ہو گے۔”
منصور علی اس کی بات پر یک دم پریشان ہو گئے۔
”تو پھر… مجھے کیا کرنا چاہیے۔” انہوں نے ہارون سے پوچھا۔
”تمہارے پاس دو راستے ہیں۔”
”کون سے دو راستے؟”
”یا تو تم امبر اور صبغہ کی شادی طلحہ اور اسامہ سے نہ کرو۔”
”یہ تو ناممکن ہے۔ ان کے نکاح ہو چکے ہیں، اور اب… اب میں کیا کہہ کر یہ طلاق کروا سکتا ہوں اور پھر دونوں کو…” منصور علی نے نفی میں سرہلایا۔
”ہاں میں جانتا تھا… یہ بہت مشکل ہے۔ اسی لیے میں نے پہلے اس آپشن کی بات نہیں کی۔” ہارون کمال نے سنجیدگی سے کہا ”صرف دوسرے آپشن کی بات کی ہے۔”
”یعنی طلحہ اور اسامہ کو فیکٹری سے نکال دوں۔” منصور علی نے سمجھتے ہوئے کہا۔
”وہ کوئی تمہارے ملازم تو نہیں ہیں کہ تم انہیں فیکٹری سے نکالو گے۔” ہارون نے کہا۔
”تم صرف ان کے ساتھ اپنا کانٹریکٹ ختم کر دو۔ ان سے کہہ دو کہ تم ان کے ساتھ اب مزید آگے بزنس نہیں کر سکتے کیونکہ تم یہ فیکٹری مجھے بیچ رہے ہو۔”
منصور نے چونک کر اسے دیکھا۔ ”تمہیں بیچ رہا ہوں؟”
ہارون ہنسا… ”صرف زبانی طور پر بعد میں تم فیکٹری کو چلاتے رہنا اور یہ تو تم نے کانٹریکٹ میں بھی لکھوایا ہے کہ تم انہیں ان کے شیئرز کی قیمت دے کر کبھی بھی ان سے تعلق ختم کر سکتے ہو۔” ہارون کمال نے انہیں یاد دلایا۔ منصور علی جیسے کسی سوچ میں پڑ گئے۔
”تم زندگی میں ہمیشہ سولو فلائٹ کرکے جیتتے رہے ہو۔ اب بھی اسی طرح سے کامیاب رہو گے۔” ہارون کمال نے انہیں سوچتے دیکھ کر کہا۔
”مسعود علی یا اس کے بیٹے تمہاری فیکٹری کے لیے کوئی ایسا کام نہیں کر رہے جو کوئی اور نہیں کرسکتا۔ وہ تم پر ایک بوجھ سے زیادہ کچھ نہیں۔ تمہیں ان کی ضرورت تھی کیونکہ تم باہر تھے اور اب تم یہا ںہو… اپنی فیکٹری کو خود دیکھ سکتے ہو، بلکہ دیکھ رہے ہو۔” ہارون کمال کہہ رہا تھا۔
”لیکن مسعود بھائی اس تمام معاملے پر بہت شور کریں گے۔” انہوں نے کچھ دیر کی خاموشی کے بعد کہا۔
”کرنے دو۔ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ تمہیں فکر نہیں ہونی چاہیے۔”
”مجھے فکر نہیں ہے۔ لیکن اگر انہوں نے امبر اور صبغہ کو طلاق دے دی تو…؟” منصور علی نے بالآخر اپنے خدشے کا اظہار کیا۔
”تو یہ ان کا مسئلہ ہے۔ امبر تمہارے پاس نہیں ہے۔ تمہیں اس کی پرواہ نہیں ہونی چاہیے اور صبغہ کے لیے رشتوں کی کوئی کمی نہیں ہو گی۔ تمہیں اسامہ اور طلحہ سے اچھے داماد مل جائیں گے۔” ہارون کمال نے انہیں یقین دلایا۔
منصور علی کچھ کہنے کے بجائے خاموش رہے، ہارون کمال ان سے جو کچھ کہہ رہا تھا، اس کے بارے میں انہوں نے ابھی تک سوچا ہی نہیں تھا۔
”تم خاموش کیوں ہو گئے ہو؟”
”کچھ نہیں، میں تمہاری بات کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔” منصور علی نے کچھ ٹالنے والے انداز میں کہا۔
”بہت زیادہ سوچ و بچار کوئی اچھی عادت نہیں ہے۔” ہارون کمال نے جتانے وال انداز میں کہا۔ ”اور تم تو ویسے بھی فوری فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہو۔ فوری اور اچھا فیصلہ کرنے کی۔”
”لیکن ہر فیصلہ اتنی جلدی اور آسانی سے نہیں کیا جاسکتا۔” منصور علی اپنی کرسی سے اٹھ کر کمرے میں ٹہلنے لگے تھے۔ ”کچھ فیصلے سوچ و بچار مانگتے ہیں۔”
”اس فیصلے میں ایسی کون سی چیز ہے جو تمہیں سوچنے پر مجبور کر رہی ہے؟” ہارون کمال نے اپنی بھنویں اچکا کر کہا۔ ”شادی کے یا طلاق کے فیصلے سے زیادہ مشکل اور اہم تو نہیں ہے یہ فیصلہ۔”
”میں پوری دنیا کو یک دم اپنے خلاف نہیں کر سکتا۔” منصور علی نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا۔
”کیا مطلب؟”
”مطلب یہ کہ ابھی خاندان میں میری اس شادی اور منیزہ کو دی جانے والی طلاق کی وجہ سے بہت ہنگامہ برپا ہوگا۔ اب اگر اس کے ساتھ ساتھ میں اپنے بھائی اور بھتیجوں کے خلاف کوئی قدم اٹھاؤں گا تو اس ہنگامے کو اور ہوا ملے گی۔ میں نہیں چاہتا کہ منیزہ کے اپنے خاندان کے ساتھ میرا خاندان بھی ان کے ساتھ جاکھڑا ہو۔” منصور علی نے سنجیدگی سے کہا۔
”تو…؟” ہارون کمال کے ماتھے پر کچھ بل آئے۔
”تو یہ کہ اس وقت فوری طور پر اس طرح کا کوئی قدم اٹھانے سے بہتر ہے کہ میں کچھ دیر انتظار کروں۔” منصور علی نے سنجیدگی سے کہا۔ ”کچھ وقت گزرے گا تو میرے اس طرح کے کسی اقدام پر اتنا ہنگامہ برپا نہیں ہو گا جتنا اب ہو رہا ہے۔”
”اور یہ انتظار کتنا لمبا ہوگا؟” ہارون کمال میز پر قدرے آگے جھکتے ہوئے بولا۔
”میں نہیں جانتا۔” منصور علی نے کندھے اچکائے۔ ”آگے چل کر حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں، یا کر سکتے ہیں اس کے بارے میں ابھی کچھ کہنا تو بہت مشکل ہے۔”
”اور اس عرصے کے دوران تمہارے بھائی اور بھتیجوں کو کھلی چھٹی ملی رہے؟” ہارون کمال نے سرد مہری سے کہا۔
”کیسی کھلی چھٹی؟”
”سب کچھ کرنے کی کھلی چھٹی… جب تک تم انہیں نکالنے کا فیصلہ یا ارادہ کرو گے۔ وہ سب کچھ سمیٹ چکے ہوں گے۔”
منصور علی بے اختیار ہنستے۔ ”کیا سمیٹ چکے ہوں گے، اتنے اختیارات نہیں ہیں ان کے پاس۔”




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۷

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!