تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۸

کچھ دیر تک وہ آپس میں بے معنی باتیں کرتی رہی تھیں۔ صبغہ نے اسے جو کچھ بتانے کے لیے بلوایا تھا’ وہ اب اسے بتاتے ہوئے ڈر رہی تھی اور امبر’ اس کے پاس پوچھنے کے لیے کچھ رہا تھا نہ بتانے کے لیے۔ احساسِ جرم کے علاوہ اس کے پاس اس وقت کچھ بھی نہیں تھا۔
پھر بہت ہمت کر کے صبغہ نے اسے فیکٹری سے مسعود علی اور ان کے بیٹوں کی بے دخلی کے بارے میں بتا دیا۔ امبر بے یقینی کے ساتھ اسے دیکھتی رہی تھی مگر جب صبغہ نے طلحہ کی طلاق کے بارے میں اسے بتایا تو وہ بے اختیار ہنس پڑی۔
”میرا اور طلحہ کا رشتہ اتنا کمزور نہیں ہے کہ وہ اسے صرف فیکٹری کی وجہ سے توڑ دے گا۔” اس نے چند لمحوں کے بعد کہا۔
”وہ پاپا جیسا نہیں ہے۔ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔”
صبغہ نے درد کی لہرسی اپنے اندر اٹھتی محسوس کی۔ امبر کی آنکھوں میں نظر آنے والی چمک کتنے دنوں تک رہنے والی تھی۔ اور اس کے بعد’ وہ اپنی اس بہن کو کیسے دیکھ سکے گی۔”
”وہ مجھے نہیں چھوڑ سکتا۔” وہ بڑے یقین سے کہہ رہی تھی۔” میں اس کی دنیا ہوں اور کوئی شخص اپنی دنیا نہیں چھوڑا کرتا۔”
”اب بھی اتنا اعتبار … لوگوں پر اتنا اعتبار امبر!” صبغہ نے بے اختیار اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
”تم رخشی کی وجہ سے کہہ رہی ہو۔ ہاں’ وہاں میں نے دھوکا کھایا۔ مگر یہاں میں دھوکا نہیں کھا سکتی۔ وہ دوستی تھی۔ یہ محبت ہے۔ محبت کبھی جھوٹی نہیں ہوتی۔ خود غرض نہیں ہوتی۔ مادہ پرست نہیں ہوتی۔ اور پھر طلحہ سے میرا خونی رشتہ ہے۔ کزن بھی ہے وہ میرا۔ انکل مسعود کو جانتی ہو تم ۔ وہ کتنا چاہتے ہیں ہمیں۔ وہ ہمارے باپ کی غلطیوں کی سزا ہمیں دیں گے’ کبھی نہیں؟”
اس نے دوٹوک انداز میں کہا۔
”تمہارا رابطہ ہے طلحہ بھائی کے ساتھ؟” صبغہ نے پوچھا۔




امبر کے چہرے کا رنگ یک دم پھیکا پڑا ”نہیں۔ وہ کراچی گیا ہوا ہے۔ تمہیں بتایا تو تھا میں نے۔”
”وہ کراچی سے کئی ہفتے پہلے واپس آ چکے ہیں’ اتنے ماہ وہ کراچی نہیں رہ سکتے تھے۔”
امبر اسے دیکھتی رہی۔ ”ہو سکتا ہے وہ مصروف ہو یا اس نے ویسے ہی رابطہ کرنا مناسب نہ سمجھا ہو۔” اس کی آواز میں کھوکھلا پن تھا۔
”یا وہ مجھ سے کچھ ناراض ہو’ تمہیں بتایا تھا میں نے’ وہ بھی یہ سمجھتا ہے کہ رخشی کو پاپا کے ہاں جاب دلوانا میری غلطی تھی۔”
امبر اب گراؤنڈ میں لگے ہوئے درختوں کو دیکھ رہی تھی۔
”امبر! ممی سے کہو کہ صفدر انکل کو مسعود انکل کے پاس بھجوائیں تاکہ وہ انہیں سمجھائیں’ بلکہ ممی خود ان کے پاس جائیں۔ تم بھی جاؤ’ طلحہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کرو۔ وہ لوگ وہی کرنے والے ہیں جو میں تمہیں بتا رہی ہوں۔”
”نہیں کریں گے صبغہ! تم خوامخواہ پریشان ہو رہی ہو۔ مجھے یقین ہے’ وہ ایسا نہیں کریں گے۔ وہ اتنے خود غرض اور ظالم نہیں ہو سکتے۔”
”کوئی کیا ہو سکتا ہے۔ تم نہیں جانتیں امبر! تم لوگوں کو جاننے اور پہچاننے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔”
”صرف رخشی کو۔ باقی تو میں نے کسی شخص کو جاننے یا پہچاننے میں کبھی دھوکا نہیں کھایا۔”
”پہلے نہیں کھایا تو اب کھا لوگی’ جو میں کہہ رہی ہوں وہ کرو۔” صبغہ نے پُرزور لہجے میں کہا۔
”تم نے اسامہ سے بات کی ہے؟”
”ہاں’ اس سے میری بات ہوتی رہتی ہے’ وہ مجھے طلاق نہیں دے رہا۔” صبغہ کہہ کر رکی پھر اس نے کہا۔
”لیکن میں اس پر بھی اعتبار نہیں کر رہی۔ آج وہ نہیں دے رہا’ کل دے سکتا ہے۔ پرسوں دے سکتا ہے۔”
امبر پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھ رہی تھی۔ ”میں نے اب ہر ایک پر اعتبار کرنا چھوڑ دیا ہے۔”
”طلحہ مجھ سے بہت محبت کرتا ہے صبغہ!” امبر نے پتہ نہیں اسے کیا بتانے کی کوشش کی۔
”وہ دولت سے بھی بہت محبت کرتا ہے۔”
”وہ دولت اور امبر میں سے دولت کا انتخاب تو نہیں کر سکتا۔”
”اگر اس نے کر لیا تو؟” امبر بہت دیر تک اس کا چہرہ دیکھتی رہی پھر اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
”میں اب گھر جانا چاہتی ہوں ۔ تمہیں بس مجھ سے یہی بات کرنا تھی؟” اس نے صبغہ کو دیکھتے بغیر کہا۔
”صبغہ بھی اٹھ کر کھڑی ہو گئی ”ہاں۔”
”پھر میں چلتی ہوں۔”
”ایک منٹ۔” صبغہ نے اسے روکا پھر اپنا بیگ کھول کر اس کے اندر سے ایک چھوٹا بیگ نکال کر اس کی طرف بڑھایا۔
”یہ کیا ہے؟” امبر نے ہاتھ بڑھائے بغیر کہا۔
”اس میں تمہاری جیولری ہے … میں نے تمہارے کمرے سے نکال لی ہے’ تم لے جاؤ۔ ضرورت پڑ سکتی ہے اور اس میں کچھ رقم بھی ہے’ تمہیں ضرورت ہو گی۔”
امبر نے کچھ کہے بغیر وہ بیگ پکڑ لیا۔ اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے صبغہ نے اس کا کندھا تھپتھپایا۔
”سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔” اس نے جھوٹی تسلی دی۔
وہ دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہوئے کالج کے گیٹ تک آ گئیں۔
”گھر کیسے جاؤ گی؟” صبغہ نے پوچھا۔
”رکشہ پر۔” امبر نے کہا۔”ابھی عادت نہیں ہو پا رہی اس پر سفر کرنے کی لیکن ہو جائے گی۔ کچھ وقت گزرے گا تو ہو جائے گی۔” اس کے لہجے میں کھوکھلا پن تھا۔
”رابعہ’زارا اور روشان کو پیار کرنا۔”
صبغہ نے سرہلایا۔
”روشان سے ایک بار میری بات کروا دو۔ اس نے ایک بار بھی مجھ سے بات نہیں کی۔ کیا وہ ابھی تک ناراض ہے مجھ سے۔؟”
”نہیں’ وہ ناراض نہیں ہے۔ بس پریشان رہتا ہے۔ گھر میں بھی زیادہ تر نہیں ہوتا۔ میں تہاری بات کرواؤں گی اس سے۔”
صبغہ نے ایک بار پھر جھوٹ بولا۔ کچھ دیر وہ گیٹ پر کھڑی ایک دوسرے کو دیکھتی رہیں پھر امبر نے کچھ کہے بغیر گیٹ سے باہر کی جانب قدم بڑھا دیے۔ صبغہ دور کھڑی اسے دیکھتی رہی۔ وہ خود اعتمادی جو اس کی چال کا خاصہ تھی وہ غائب ہو چکی تھی۔ اس کے قدموں میں لڑکھڑاہٹ نہیں’ مگر شکست خوردگی ضرور تھی۔ صبغہ کی آنکھیں دُھندلا گئیں۔
٭٭٭
”بیٹھو!” منصور نے خشک لہجے میں سامنے پڑی کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے روشان سے کہا’ جسے انہوں نے کچھ دیر پہلے اسٹڈی میں بلوایا تھا۔ وہ آگے بڑھ کر کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس کے چہرے پر وہی سردمہری تھی جو پچھلے کچھ ماہ میں مستقل طور پر منصور علی کو دیکھ کر اس کے چہرے پر رہنے لگی تھی۔
”مجھے کیوں بلوایا ہے یہاں پر ؟” اس نے بیٹھتے ہی اکھڑ انداز میں کہا۔
”تم سے کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں۔” منصور علی نے سنجیدگی سے کہا۔
وہ اب اس کی اس ٹانگ کو دیکھ رہے تھے جو اس نے بالکل ان کے سامنے بیٹھے ہوئے دوسری ٹانگ پر رکھ لی تھی’ اور ایسا اس نے پہلی بار کیا تھا۔
”میں نے مسعود’ طلحہ اور اسامہ کو اپنی فیکٹری سے الگ کر دیا ہے۔”
”جانتا ہوں۔” وہ اسی سرد مہری سے بولا۔
”صبغہ نے بتایا ہو گا تمہیں۔”
روشان اس بار خاموش رہا مگر ناگواری اس کے چہرے پر جھلک رہی تھی۔ منصور نے ایک گہرا سانس لیا۔
”یہ فیکٹری میں نے طلحہ یا اسامہ کے لیے نہیں بنائی تھی۔ یہ فیکٹری میں نے تمہارے لیے بنائی تھی۔ میری حماقت تھی کہ میں نے ان لوگوں کو اسے چلانے کے لیے رکھ لیا۔ حماقت سمجھ لو یا پھر مجبوری لیکن اب میں نے ان سے نجات حاصل کر لی ہے۔”
منصور اس کے چہرے کو بغور دیکھتے ہوئے کہہ رہے تھے۔ روشان کے چہرے کے تاثرات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ ”صبغہ کو میرے اس فیصلے پر اعتراض ہے۔ ہونا بھی چاہیے’ اسامہ اس کا شوہر تھا اور ظاہر ہے وہ چاہتی ہو گی کہ فیکٹری اس کے شوہر کے ہاتھ سے نہ نکلے۔”
”صبغہ کے بارے میں ایسی بات مت کریں۔ وہ میری بہن ہے۔” روشان نے یکدم ان کی بات کاٹی۔
”دولت بڑے سے بڑے اور گہرے سے گہرے رشتے کو ختم کر دیتی ہے۔” منصور نے اطمینان سے کہا۔
”جیسے آپ نے کر دیا۔”
”اس وقت میں اپنی بات نہیں کر رہا ہوں۔” منصور کا لہجہ کھردرا ہو گیا۔ ”میں تمہاری بات کر رہا ہوں۔ تمہارے مستقبل کی بات کر رہا ہوں۔ وہ فیکٹری تمہاری ہے۔ تمہارے لیے ہے۔ کسی دوسرے شخص کا اس پر کوئی حق نہیں ہے اور میں نے طلحہ اور اسامہ کو صرف تمہارے لیے وہاں سے نکالا ہے۔”
”آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔ آپ نے انہیں وہاں سے اپنی بیوی کے کہنے پر نکالا ہے۔”
”نہیں۔ رخشی نے مجھ سے اس بارے میں کچھ نہیں کہا۔” منصور نے جھوٹ بولا۔
”آپ نے میرے لیے ان لوگوں کو فیکٹری سے علیحدہ کیا ہے تو میں چاہتا ہوں کہ آپ انہیں واپس وہاں لے آئیں۔”
”تم بے وقوف ہو۔ اس عمر میں سب بے وقوف ہی ہوتے ہیں۔” منصور علی نے اسے جھڑکا ”کروڑوں کی فیکٹری تم ان لوگوں کے ہاتھ میں دینا چاہتے ہو جو تمہارے جوان ہونے تک اس کو ہڑپ کر جائیں گے۔”
”حقیقت تو یہ ہے پاپا! کہ مجھے آپ سے اور آپ کی فیکٹری سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔”
منصور کے چہرے کا رنگ بدلا۔ ”ٹھیک ہے اگر تم کو ان معاملات میں کوئی دلچسپی نہیں ہے تو پھر تم ان معاملات سے دور ہی رہنا۔ اس بارے میں صبغہ کی طرف داری کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے تمہیں۔”
”وہ میری بہن ہے۔”
”وہ اسامہ کی بیوی بھی ہے اور اسے تم سے زیادہ اسامہ کی پرواہ ہے۔”
”اسامہ بھائی آپ کے بھتیجے ہیں۔ پرواہ تو آپ کو بھی ہونی چاہیے ان کی۔”
”تم سے زیادہ پرواہ ہونی چاہیے مجھے اس کی؟”
روشان کچھ نہیں بولا۔
”روشان! میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں اور یہ میری محبت کا ثبوت ہے کہ میں نے تمہاری تمام بدتمیزیوں کے باوجود تمہیں یہاں اپنے گھر میں رکھا ہوا ہے لیکن تم میری اس محبت کو میری کمزوری مت سمجھنا۔ اولاد کا کیا ہے۔ رخشی سے مل جائے گی مجھے۔”
روشان نے چونک کر انہیں دیکھا۔ ”اور تم لوگوں سے بہتر ہی ہو گی وہ اولاد … ابھی تو میں سب کچھ تم کو پیار سے سمجھا رہا ہوں مگر کب تک؟ میں تمہارے پیچھے منتیں کرتا نہیں پھروں گا۔ تم کو انتخاب کا حق دوں گا کہ تم جب چاہو مجھے چھوڑ کر چلے جاؤ’ مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ صرف تم کو فرق پڑے گا’ تمہاری بہنوں کی شادیاں ہو جائیں گی وہ اپنے اپنے گھروں میں آرام سے رہیں گی اور تم’ تم میری جائیداد سے عاق ہونے کے بعد دھکے کھاتے پھرو گے۔ ابھی تم کو فیکٹری کی پروا نہیں ہے۔ بہن کی محبت ستا رہی ہے۔ کل کو تم پچھتاتے ہوئے میرے پاس آؤ گے اور میرے گھر کے دروازے بند پاؤ گے پھر سوچو’ کیا کرو گے تم زندگی میں؟ صفدر تمہارے ‘ تمہاری ماں یا تمہاری بہنوں کے لیے کچھ نہیں کر سکتا۔ تم کو شوق ہے تو جا کر کچھ ماہ رہ آؤ اس کے پاس اور دیکھو وہ کون سی آسائشیں تمہارے سامنے لا رکھتا ہے۔”
منصور تلخی سے کہہ کر خاموش ہو گئے پھر انہوں نے ایک سگریٹ سلگایا۔
”تمہارے لیے میرے پاس صرف ایک نصیحت ہے … صرف اپنے بارے میں سوچو۔ ماں کے بارے میں نہیں’ بہنوں کے بارے میں بھی نہیں۔ صرف اپنے بارے میں جب ایسا کرنا شروع کرو گے تو تمہیں اندازہ ہو گا کہ میں تمہارا کتنا بڑا ہمدرد ہوں۔ ایسا نہیں کرو گے تو بہت جلد تم بھی اسی حال کو پہنچ جاؤ گے جس حال میں منیزہ اور امبر پہنچی ہیں۔”
روشان نے سر اٹھا کر سگریٹ کے ان مرغولوں کو دیکھا جو منصور علی کے چہرے کو چھپانے کی کوشش کر رہے تھے۔
وہ کچھ کہے بغیر یک دم اٹھ کر اسٹڈی سے نکل گیا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۷

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!