تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۸

”تو طلاق ہو جانے دو … وہ لوگ اس قابل نہیں ہیں کہ ان کے ساتھ کوئی تعلق رکھا جائے۔” منصور علی نے اس قدر سردمہری کے ساتھ کہا کہ صبغہ بے یقینی سے ان کے چہرے کو دیکھتی رہی’ وہ کسی باپ کا چہرہ نہیں تھا یا شاید … اس کے لیے باپ کا چہرہ نہیں تھا۔
”ہماری زندگیاں برباد ہو جانے دیں؟”
”ایک طلاق سے کسی کی زندگی برباد نہیں ہوتی۔” منصور علی نے کندھے جھٹکتے ہوئے کہا۔ صبغہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ منصور علی کہہ رہے تھے۔ ”جو رشتہ چل نہ سکے اس کا ختم ہو جانا ہی بہتر ہوتا ہے۔ طلاق ہو جائے گی تو میں تمہاری شادی کسی دوسری جگہ پر کر دوں گا۔ تمہیں کوئی فکر نہیں ہونی چاہیے۔ منصور علی کی بیٹیوں کے لیے رشتوں کی کمی نہیں ہے۔”
”اور اتنے سالوں سے جو آپ نے ہمیں اس رشتے میں باندھا ہوا تھا تو … اس کی کوئی وقعت ‘ کوئی حیثیت ہی نہیں تھی آپ کی نظر میں’ ایک فیکٹری آپ کے لیے دوسرے ہر رشتے سے بڑھ کر ہے؟”
”ہاں وہ فیکٹری میرے لیے ہر رشتے سے بڑھ کر ہے۔ آسمان سے پلیٹ میں رکھ کر کوئی فیکٹری نہیں آ جاتی۔ خون پسینہ لگتا ہے اس میں۔ دن رات محنت کرنی پڑتی ہے۔ اور اتنی محنت کے بعد میں صرف تم لوگوں کے لیے تو اس فیکٹری سے ہاتھ نہیں دھو سکتا۔”
”آپ نے اپنی مرضی سے اسی فیکٹری میں ان لوگوں کو رکھا تھا۔ آپ کو شروع میں ہی انہیں وہاں نہیں رکھنا چاہیے تھا اگر بعد میں آپ نے انہیں اس طرح نکالنا تھا…”
”مجھے تمہارے مشوروں اور نصیحتوں کی ضرورت نہیں ہے۔ میں تمہیں بتا چکا ہوں کہ میں اپنے بزنس کو ان رشتوں کے لیے قربان نہیں کر سکتا۔ تمہیں بھی ایسے خود غرض اور لالچی لوگوں کی پروا نہیں ہونی چاہیے۔ جو صرف فیکٹری کے لیے تم سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔”
”اسامہ مجھے طلاق نہیں دے گا۔ مجھے کوئی پریشانی نہیں ہے۔”
منصور عجیب سے انداز میں ہنسے۔ ”اچھا’ وہ طلاق نہیں دے گا …! تو پھر تو اس تمام بحث کا کوئی فائدہ ہی نہیں ہے۔ پھر تم مجھ سے کیوں یہ سب کچھ کہہ رہی ہو؟”
”پاپا! طلحہ بھائی امبر کو طلاق دے رہے ہیں۔”
”تو یہ امبر کا … اس کی ماں کا اور طلحہ کا معاملہ ہے۔ میں اس میں کیا کروں؟”




”یہ طلاق آپ کی وجہ سے ہو رہی ہے۔ آپ انہیں اس فیکٹری سے نہ نکالتے تو وہ یہ قدم کبھی اٹھانے کا نہیں سوچتے۔”
”چلو مان لیا۔ یہ طلاق میری وجہ سے ہو رہی ہے۔ تو پھر میں کیا کروں۔”
”پاپا! امبر بیٹی ہے آپ کی۔”
”جو میرے گھر پر نہیں ہے۔ اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔”
”آپ کو یاد ہے’ آپ کتنی محبت کرتے تھے اس سے۔”
”میری حماقت تھی وہ۔”
”پاپا! باپ تو اولاد کے لیے بہت ساری قربانیاں دیتے ہیں۔”
”میں نے اپنی زندگی کے بیس سال تم لوگوں کے لیے قربانیاں دیتے ہی گزارے ہیں۔ اور اس کے بدلے تم لوگوں نے مجھے کیا دیا۔ گستاخی۔ حکم عدولی … بدتمیزی۔”
”پاپا پلیز! امبر کی زندگی برباد مت کریں۔”
”اس کی زندگی اس کی اپنی وجہ سے برباد ہو رہی ہے۔ میری وجہ سے نہیں۔”
”پلیز پاپا! اس پر رحم کریں۔ ایسا مت کریں۔”
”تم مجھ سے صرف اپنی بات کرو۔ اس کی بات مت کرو۔ میرے لیے وہ اسی دن مر گئی تھی جس دن وہ اس گھر کو اپنی ماں کے لیے چھوڑ کر گئی تھی۔”
”پاپا پلیز … اپنے فیصلے پر ایک بار پھر سوچیں۔” وہ گڑگڑائی۔
”مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔” منصور علی نے دو ٹوک انداز میں کہا اور لاؤنج سے نکل گئے۔
٭٭٭
”آپ جو چاہے کہیں’ میں صبغہ کو طلاق نہیں دے سکتا۔” اسامہ نے دو ٹوک انداز میں شبانہ سے کہا۔ وہ دو دن کے بعد ایک بار پھر رات کو اس کے کمرے میں آ کر وہی موضوع لے بیٹھی تھیں۔
”تمہیں اپنے ماں باپ کی پروا نہیں ہے’ صرف اس لڑکی کی پروا ہے جس کے باپ نے ہم لوگوں کے ساتھ بھکاریوں سے بھی بدتر سلوک کیا ہے۔
”میں نے کب کہا ہے کہ انہوں نے ہمارے ساتھ بُرا سلوک نہیں کیا۔” اسامہ نے جواباً کہا ”انہوں نے بہت بُرا سلوک کیا ہے۔ لیکن آپ مجھے صرف یہ بتائیں کہ اس میں قصور کس کا ہے۔ منصور چچا کا یا صبغہ کا۔”
”صبغہ’ منصور کی بیٹی ہے۔”
”اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟”
”کیوں فرق نہیں پڑتا۔” شبانہ نے اکھڑے ہوئے لہجے میں کہا۔ ”منصور کو ہمارے بیٹوں کا احساس نہیں ہے تو پھر وہ اپنی بیٹیاں اپنے گھر رکھے۔ ہمیں بھی ان کی ضرورت نہیں ہے۔”
”منصور چچا کو آج کل کسی کا احساس نہیں ہے۔ اپنی اولاد کا بھی نہیں۔ ہوتا تو وہ یہ سب کچھ نہ کر رہے ہوتے۔” اسامہ نے کہا۔ ”اور اگر آپ یہ سمجھتی ہیں کہ ان دونوں طلاقوں سے منصور چچا کے … کوئی ہوش ٹھکانے آ جائیں گے تو آپ غلط سوچ رہی ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہو گا۔ بلکہ منصور چچا تو خوش ہوں گے کہ ان کی ہم سے جان ہمیشہ کے لیے چھوٹ گئی۔ آپ کو اندازہ ہے کہ وہ پہلے ہی صبغہ اور میرے میل جول اور گفتگو پر پابندی لگا چکے ہیں۔ اور جلد یا بدیر ان کا اگلا قدم طلاق کا مطالبہ ہی ہو گا۔”
”اسی لیے تو میں تم سے کہہ رہی ہوں کہ اس سے پہلے کہ وہ طلاق کا مطالبہ کرے ہمیں طلاق اس کے منہ پر مار دینی چاہیے۔”
”اگر منصور چچا بھی طلاق کا مطالبہ کریں گے تو بھی میں صبغہ کو طلاق نہیں دوں گا۔” اسامہ نے دوٹوک انداز میں کہا۔ ”میں اُسے منصور چچا یا آپ لوگوں کے لیے نہیں چھوڑ سکتا۔”
”تمہیں شرم آنی چاہیے۔ تم ماں باپ کی حکم عدولی کر رہے ہو۔”
”ماں باپ غلط بات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔”
”غلط اور صحیح کا فیصلہ تم ہم پر چھوڑ دو۔”
چھبیس سال کا ہونے کے بعد کوئی بھی اپنے فیصلے ماں باپ پر نہیں چھوڑتا۔”
”تم کس قدر خود غرض انسان ہو۔ صرف اپنی خوشی کا سوچ رہے ہو۔”
”آپ سب بھی خود غرض ہیں’ صرف اپنی انا کے لیے دو زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔”
”یہ خاندان کی عزت کی بات ہے۔”
”صبغہ کو طلاق دے کر خاندان کی کون سی عزت بحال ہو جائے گی۔”
”بحث مت کرو میرے ساتھ۔”
”آپ بھی مجھ سے غلط مطالبے نہ کریں۔”
”صبغہ میں ایسے کون سے سُرخاب کے پر لگے ہیں کہ تم اسے چھوڑ نہیں سکتے۔”
”اس میں سرخاب کے پر نہیں تھے تو آپ نے مجھ سے اس کا نکاح کیوں کیا تھا؟”
”غلطی ہو گئی تھی۔”
”میں اب ایک اور غلطی کرنا نہیں چاہتا۔”
”طلحہ بھی تو طلاق دے رہا ہے۔ وہ تو تمہاری طرح نہیں کر رہا۔”
”یہ طلحہ کی مرضی ہے وہ جو چاہے کرے’ مگر میں اپنی زندگی کے فیصلے طلحہ کے نقش قدم پر چل کر نہیں کر سکتا۔”
”منصور تمہیں گھاس تک نہیں ڈالے گا۔”
”مجھے ان کی گھاس میں کوئی دلچسپی ہے بھی نہیں۔ مجھے صرف صبغہ میں دلچسپی ہے۔ میرے لیے وہ کافی ہے۔”
”تمہارا یہ فیصلہ ہمارے خاندان کو تقسیم کر دے گا۔”
”کوئی بات نہیں’ کم از کم یہ میرے گھر کو بننے سے پہلے تو نہیں توڑے گا۔”
”اسامہ! تم اپنے ماں باپ کے بارے میں سوچو۔ ہمیں تم پر کتنا مان تھا۔”
”اور اپنی بیوی کو طلاق نہ دینے سے یہ سارا مان ختم ہو جائے گا۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر مجھے یہ کہنے دیں کہ آپ نے ایک غلط چیز پر اپنے مان کی بنیاد رکھی ہے۔”
”میں صبغہ کو کبھی اپنی بہو کے طور پر قبول نہیں کروں گی۔”
”وہ آپ کا فیصلہ ہو گا اور میں آپ کے فیصلے کا احترام کروں گا۔”
”ہم اسے اس گھر میں آنے نہیں دیں گے۔”
”میں ویسے بھی اسے اس گھر میں لانے کا ارادہ نہیں رکھتا۔
”تمہارے پاپا تمہیں جائیداد سے عاق کر دیں گے۔”
”اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میرے پاس ڈگری ہے۔ مجھے بڑی آسانی سے کسی اچھی جگہ جاب مل سکتی ہے۔”
”ایک معمولی لڑکی کے لیے تم ہم سب کو چھوڑ دو گے۔؟”
”ایک معمولی لڑکی کو نہ چھوڑنے کی وجہ سے آپ مجھے جائیداد سے عاق کر دیں گے؟”
”ہم منصور سے کوئی تعلق رکھنا نہیں چاہتے۔ ہم اس کی اولاد کو بھی اس گھر میں برداشت نہیں کر سکتے۔”
”آپ اسے منصور کی اولاد نہ سمجھئے آپ اسے صرف میری بیوی سمجھیں۔ شادی کے بعد وہ ویسے بھی منصور چچا کے گھر کبھی نہیں جائے گی۔ میں اسے وہاں جانے نہیں دوں گا۔”
”لیکن تم ہماری بات نہیں مانو گے۔”
”ممی! آپ نے اپنی مرضی سے میرا نکاح کیا۔ اب ایک معمولی بات پر اسے ختم کرنا چاہتی ہیں۔ یہ کھیل تماشا تو نہیں ہے؟”
شبانہ تھک گئیں۔ اس کے پاس ہر بات کا جواب تھا’ یا پھر فی الحال وہ انہیں لاجواب کر رہا تھا۔ بات جہاں سے شروع ہوئی تھی’ پھر وہیں پر آ کر ختم ہو رہی تھی۔
شبانہ دو گھنٹے اس کے ساتھ مغز ماری کرنے کے بعد اٹھ کھڑی ہو گئیں۔ وہ ٹس سے مس نہیں ہوا تھا۔ اور اس کا یہ فیصلہ ان سب کے لیے بہت پریشانی کا باعث بن رہا تھا۔
”تم بہت پچھتاؤ گے۔ یاد رکھنا اسامہ! بہت پچھتاؤ گے۔”
اسامہ نے کمرے سے باہر نکلتے ہوئے ان کو کہتے سنا مگر اس نے جواباً کچھ نہیں کہا۔ وہ جانتا تھا اس وقت وہ جس موڈ میں تھیں اس موڈ میں وہ ان سے اسی طرح کے جملوں کی توقع کر سکتا تھا۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ ان کی کہی ہوئی بہت سی باتیں دھمکی کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھیں۔ اسے نہ تو کوئی عاق کرنے والا تھا نہ ہی گھر سے نکال سکتا تھا۔ ایسا کرنا اپنے ہی گھر کو تقسیم کرنے کے برابر ہوتا اور مسعود یا شبانہ ایسی حماقت نہیں کر سکتے تھے۔ مگر وہ یہ بھی جانتا تھا کہ صبغہ سے اگر اس کی شادی ہو بھی گئی لور وہ اس گھر میں آ بھی گئی تب بھی شبانہ اور دوسرے گھر والے اس کے لیے بہت سے مسائل کھڑے کرنے والے تھے۔ اس لیے … وہ سنجیدگی سے الگ گھر کے بارے میں بھی سوچ رہا تھا۔ اور صرف الگ گھر کے بارے میں ہی نہیں بلکہ اپنے متوقع بزنس یا جاب کے بارے میں بھی۔
صبغہ کے کہنے پر وہ ایک دن پہلے طلحہ سے بھی اس معاملے پر دوبارہ بات کر چکا تھا مگر طلحہ کے تیور دیکھ کر اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ کسی قیمت پر اپنا فیصلہ بدلنے والا نہیں تھا۔ اور فیصلہ بدلنے کے لیے اسے سمجھانا صرف وقت ضائع کرنے کے مترادف تھا۔ اس لیے اس نے اس معاملے میں بہت جلد ہتھیار ڈال دیے تھے۔ اس کے لیے بہتر تھا کہ وہ صرف اپنے اور صبغہ کے معاملہ کو ہی نپٹائے۔
٭٭٭
امبر نے حیرانی سے ایک لمحہ کے لیے صبغہ کا چہرہ دیکھا اور پھر یک دم قہقہہ لگا کر ہنس پڑی۔ ”طلحہ مجھے طلاق دے دے گا؟ امپاسبل۔”
صبغہ نے اسے چند دن بعد فون کر کے اپنے کالج بلوایا تھا’ صرف وہی جگہ تھی جہاں وہ کسی پریشانی کے بغیرامبر سے مل سکتی تھی۔ وہ منیزہ کی طلاق کے بعد پہلی بار مل رہی تھیں۔ ایک دوسرے کو دیکھ کر دونوں کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔
”ممی کیسی ہیں؟” صبغہ نے خود پر قابو پاتے ہوئے اس سے پوچھا۔
”وہ ٹھیک ہیں … روشان کیسا ہے؟ اور زارا اور رابعہ ؟”
”وہ بھی ٹھیک ہیں۔” صبغہ نے کہا۔
”یہ منصور کی مہربانی ہی تھی کہ انہوں نے فون پر ان لوگوں کے آپس میں رابطے پر پابندی نہیں لگائی تھی۔ صبغہ تقریباً ہر روز فون پر ان لوگوں سے بات کرتی تھی۔ مگر فون کسی شخص سے ملاقات کا متبادل نہیں ہو سکتا تھا۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۷

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!