”یہ تو تم شائستہ سے پوچھو، میری ذاتی رائے یہی ہے کہ اس میں اس کی خواہش بھی شامل ہوگی… باقر شیرازی کو خواب میں تمہاری بیوی دکھائی نہیں دی ہوگی۔ یقینا دونوں کے درمیان اچھی خاصی شناسائی ہوگی۔”
”اور اگر میں اسے طلاق نہیں دیتا تو تم کیا کرو گی… یہ تصویریں میری بیوی کو دکھاؤ گی۔”
”نہیں… اخبار میں چھپوا دوں گی؟”
ہارون نے ایک لمحہ کے لیے اسے دیکھا پھر کھلکھلا کر ہنس پڑا۔
”کیسی باتیں کر رہی ہو… ان تصویروں میں صرف میں ہی نہیں تم بھی ہو… ان کے شائع ہونے کی صورت میں تم لوگوں کے سامنے آنے کے قابل نہیں رہو گی… میرا کیا ہے۔ لوگ دو چار دن باتیں کریں گے پھر بھول جائیں گے مگر تم تباہ ہو جاؤ گی۔”
یقینا ایسا ہی ہوتا اگر میں کوئی خاندانی عزت دار عورت ہوتی۔”
صبیحہ نے بھی اسی طرح قہقہہ لگا کر کہا۔ ہارون کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوگئی۔
”خوش قسمتی سے یا بدقسمتی سے میں نہ خاندانی ہوں نہ عزت دار۔ اس لیے مجھے کوئی خوف نہیں ہے، البتہ تم معاشرے کے تمام اصول و ضو ابط کے مطابق خاندانی بھی ہو اور عزت دار بھی، تمہیں تو خوف کھانا ہی چاہیے ان تصویروں کی اشاعت سے۔”
”میں شائستہ سے بات کرنا چاہتا ہوں، اس سارے معاملے کے بارے میں۔ اس کے بعد ہی۔”
صبیحہ نے ہارون کو اپنی بات مکمل نہیں کرنے دی۔
”نہیں صاحب! یہ ممکن نہیں ہے، یہ تصویریں آپ کو اس لیے نہیں دکھائی گئیں کہ آپ شائستہ کو ان کے بارے میں بتائیں۔ آپ تو ہر چیز کو راز رکھنے میں ماہر ہیں پھر ان تصویروں کے بارے میں کیوں بات کرنا چاہتے ہیں شائستہ سے، بقول آپ کے آپ عورت کی انگلی پکڑ کر چلنے والے مردوں میں سے نہیں ہیں پھر اس صلاح و مشورے کی کیا ضرورت آن پڑی۔”
صبیحہ کی مسکراہٹ چبھتی ہوئی تھی اور اس کی آنکھوں میں ہارون کے لیے ہتک تھی۔
”اور یہ تصویریں تو ابھی ابتدا ہیں، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ باقر شیرازی خاصا لمبا چوڑا پروگرام بنائے ہوئے ہے، اگر آپ شائستہ کو طلاق نہیں دیتے تو۔”
وہ اسے سرد آنکھوں کے ساتھ دیکھتا رہا۔
”تمہارے لیے بہتر ہے کہ تم اسے طلاق دے دو۔ اگر زر، زن اور زمین میں سے کسی کو چھوڑنا پڑے تو زن کو چھوڑ دینا چاہیے، کیونکہ یہ وہ چیز ہے جسے کبھی بھی حاصل کیا جاسکتا ہے اگر پاس زر اور زمین ہو تو… لیکن اگر یہ دونوں چیزیں چلی جائیں تو پھر ان کو واپس حاصل کرنے کے لیے زمین آسمان ایک کرنے پڑتے ہیں ۔ تم تو ویسے بھی بہت عقل مند ہو۔”
”میں باقر شیرازی سے ملنا چاہتا ہوں۔”
”وہ شاید تم سے ملنا پسند نہ کرے، تمہیں کوئی پیغام بھجوانا ہے تو میں موجود ہوں، میرے ہاتھ بھجوا سکتے ہو۔”
ہارون نے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے ایک تلخ مسکراہٹ کے ساتھ، ہاتھ کے اشارے کے ساتھ دور کھڑے ویٹر کو اپنی طرف بلایا۔
”پھر میں باقر شیرازی کو کیا پیغام دوں؟”
وہ پلکیں جھپکائے بغیر صبیحہ کو دیکھتا رہا۔
٭٭٭
شائستہ اور باقر شیرازی کے درمیان ایک ہفتہ سے کوئی رابطہ نہیں ہوا تھا۔ عام طور پر وہ ہی اسے فون کیا کرتا تھا۔ شائستہ سے ہمیشہ اس کی خاصی لمبی چوڑی گفتگو ہوتی تھی۔ پچھلے ہفتے اس نے فون پر شائستہ کو اس کے بیٹے کی تلاش کے بارے میں کچھ معلومات فراہم کی تھیں۔
”اس بچے کو کسی فیملی کے ذریعے ایک لڑکی نے ایڈاپٹ کیا ہے۔ ایک دو دن تک میں اس لڑکی کو ٹریس آؤٹ کروا لوں گا پھر تمہیں اس کے بارے میں سب کچھ پتا چل جائے گا۔”
اس نے پچھلی بار شائستہ کو فون پر اطلاع دی تھی۔
اور اس کے بعد اب تک اس کی طرف سے کوئی فون کال نہیں آئی تھی۔ شائستہ بے چینی سے اس کی کال کا انتظار کرتی رہی مگر جب انتظار کو ایک ہفتہ گزر گیا تو اس نے باقر کو خود کال کرنے کا فیصلہ کیاں
اس نے باقر شیرازی کے آفس کال کیا تھا۔ جہاں اس کے پی اے نے کال ریسیو کی۔
”باقر شیرازی صاحب کے انتقال کو آج تیسرا دن ہے۔”
وہ شاکڈ رہ گئی۔
٭٭٭
ہارون کمال ایک بار پھر صبیحہ کادوانی کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔ اس بار دونوں کے چہروں پر موجود تاثرات مختلف تھے۔ صبیحہ کا چہرہ پھیکا اور بے رونق لگ رہا تھا جبکہ ہارون بہت پراعتماد مسکراہٹ کے ساتھ ٹانگ پر ٹانگ رکھے سگریٹ پینے میں مصروف تھا۔ سگریٹ کا آخری کش لگاتے ہوئے اس نے سامنے پڑی ہوئی ٹیبل پر موجود ایش ٹرے میں سگریٹ کو مسل دیا۔
”تم واقعی بہت لکی ہو ہارون کمال۔” صبیحہ نے تصویروں اور نگیٹیو کا ایک لفافہ اس کے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔
”اگر باقر شیرازی کو ہارٹ اٹیک نہ ہو جاتا تو آج سب کچھ مختلف ہوتا۔ بہرحال میری اور تمہاری کوئی ذاتی لڑائی نہیں ہے، میں اسی لیے تمہیں یہ سب کچھ واپس کر رہی ہوں We are friends again۔”
اس نے ایک خوش دلانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
“Of course we are” ہارون نے اس لفافے کو کھولتے ہوئے اندر موجود تصویروں پر ایک نظر دوڑائی۔
”کیا میں یہ یقین کرلوں کہ تمہارے پاس کوئی اور تصویر اور نگیٹو موجود ہے؟”
”بالکل میں نے تمہیں بتایا ہے، یہ تمہاری اور میری ذاتی لڑائی نہیں تھی۔ اس لیے میں ان چیزوں کو پاس رکھ کر کیا کروں گی۔” صبیحہ نے اسے یقین دلاتے ہوئے کہا۔
”اچھی بات ہے میں یقین کرلیتا ہوں، لیکن ایک بات تمہیں بتا دوں۔ میں قسمت پر انحصار کرتے ہوئے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے والا شخص نہیں ہوں۔”
”اگر تم لکی نہ ہوتے تو اپنے اس ٹمپرامنٹ کے ساتھ تم بہت پہلے کسی بڑی مصیبت میں پھنس چکے ہوتے مان لو تم لکی ہو۔”
ہارون نے ایک قہقہہ لگایا۔ صبیحہ اپنا شولڈر بیگ لے کر کھڑی ہو چکی تھی۔ ہارون نے کھڑے ہوتے ہوئے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا۔ صبیحہ نے اس سے ہاتھ ملایا، مگر ہارون نے ہاتھ ملانے کے بعد اس کا ہاتھ چھوڑنے کے بجائے تھامے ہوئے کہا۔
”تمہارے ساتھ بہت اچھا وقت گزرا اور شاید کچھ اور گزرتا، اگر تم یہ حماقت نہ کرتیں۔ بہرحال جو بھی تھا اچھا وقت گزرا۔”
اس نے ایک گہرا سانس لے کر اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔
”ْیا یہ بہتر نہیں ہے کہ ہم ماضی کو بھول جائیں، باقر شیرازی کی موت کے ساتھ ہی سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔ ہم اب بھی بہت سا اچھا وقت ساتھ گزار سکتے ہیں۔”
صبیحہ نے جانے سے پہلے اس سے کہا۔ ہارون نے کچھ کہنے کے بجائے صرف ایک عجیب سی مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھا اور چند لمحے خاموش رہنے کے بعد کہا۔
”خدا حافظ۔” صبیحہ نے کندھے اچکاتے ہوئے سر جھٹکا اور پھر لاؤنج سے باہر نکل گئی۔
٭٭٭
اگلے دن صبح ناشتے کی میز پر ہارون کمال اخبار کے بیک پیج پر موجود ایک خبر کو بڑی دلچسپی کے ساتھ پڑھ رہا تھا۔
”سرکاری افسر کی بیوی کا دن دہاڑے قتل۔ کل دوپہر شہر کی ایک مصروف سڑک پر ایک سرکاری افسر کی بیوی صبیحہ کادوانی کو کارچوری کرنے کی واردات کے دوران بے رحمی سے قتل کر دیا گیا۔ پولیس مزید تفتیش میں مصروف ہے۔”
Some say the world will end in fire.
(کچھ لوگ کہتے ہیں دنیا آگ سے ختم ہوگی)
Some say in ice
(کچھ کہتے ہیں برف سے)
What I’ ve tasted of desire
(جہاں تک میں خواہش کو جان سکا ہوں)
I hold with those who favour fire
(تو میں ان لوگوں کے ساتھ ہوں جو آگ کا کہتے ہیں)
But if it had to perish twice
(لیکن اگر دنیا کو دوسری بار بھی ختم ہونا پڑے)
I think I know Enough of hate
(تو نفرت کو اچھی طرح جان لینے کے بعد میرا خیال ہے)
To say that for destruction
(میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ تباہی کے لیے)
Ice is also great
(برف بھی زبردست ہے)
And would suffice
(اور کافی رہے گی)
٭٭٭
بارہ سال کے بعد
منصور علی نے امبر کو کالج کے گیٹ سے باہر آتے دیکھا تو انہوں نے گاڑی کو اسٹارٹ کرلیا۔
امبر اب متلاشی نظروں سے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔ منصور علی کی گاڑی دیکھ کر وہ ان کی طرف آگئی۔
منصور علی نے اپنے ساتھ والی سیٹ کے دروازے کا لاک کھول دیا۔
”ہیلو پاپا!” امبر نے دروازہ کھول کر اپنا بیگ پچھلی سیٹ پر رکھتے ہوئے کہا۔ منصور مسکرا کر کار سڑک پر لے آئے۔
”کالج میں پہلا دن کیسا رہا؟” انہوں نے ہجوم میں سے کار نکالتے ہوئے اس سے پوچھا۔
”بس ٹھیک ہی تھا۔” اس نے اپنے بالوں کو جھٹکتے ہوئے بڑی لاپروائی سے کہا اور گلوکمپارٹمنٹ کھول کر ہیر برش نکالنے لگی۔
منصور نے گردن موڑ کر اسے دیکھا ”ٹھیک ہی تھا… یعنی اچھا نہیں گزرا؟”
”ابھی تو شروع کے دن ہیں پاپا… ایڈجسٹ ہوتے ہوئے کچھ دیر تو لگے گی۔ ”اس نے بالوں میں برش کرتے ہوئے کہا۔
”سعدیہ وغیرہ سے ملاقات ہوئی تمہاری؟” انہوں نے اپنی بڑی بہن کی بیٹی کا نام لیتے ہوئے پوچھا۔
”ہاں، میں نے سارا دن سعدیہ اور نائلہ کے ساتھ ہی گزارا…” اپنے اسٹیپس میں کٹے ہوئے بالوں کو ایک جھٹکے سے پیچھے کرتے ہوئے اس نے ہیربرش دوبارہ گلوکمپارٹمنٹ میں رکھ دیا۔ اور اس میں سے چیونگم کی ایک اسٹک نکال لی۔
”پاپا! مجھے تو اب آپ گاڑی لے دیں۔ میں خود ہی کالج چلی جایا کروں گی۔” اس نے چیونگم منہ میں ڈالتے ہوئے فرمائش کی۔
”بھئی، یہ تمہاری ہی تو گاڑی ہے۔” منصور علی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”جی نہیں، میں اپنی ذاتی گاڑی کی بات کر رہی ہوں۔” اس نے ”ذاتی” پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”میری ہر چیز تمہاری ذاتی ہی ہے۔” منصور علی نے پیار سے کہا۔