تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۴

ہر گزرتے دن کے ساتھ رخشی کے لیے یہ ستائش بڑھتی جارہی تھی۔ اس دن وہ طلحہ کے ساتھ ایک ہوٹل میں کھانا کھانے کے لیے گئی ہوئی تھی اور وہاں بھی کالج کے ڈرامہ کے ذکر پر وہ فوراً رخشی کا ذکر لے بیٹھی۔
”طلحہ! تم اگر اسے دیکھ لو تو تم بھی دیکھتے رہ جاؤ… She is really very pretty” اس نے بڑی فیاضی کے ساتھ اس کی تعریف کرتے ہوئے کہا۔
طلحہ نے رخشی کے ذکر میں کچھ زیادہ دلچسپی نہیں لی۔ ”میرے لیے بس ایک خوبصورت لڑکی ہی کافی ہے۔”
”تم اگر اسے ایکٹنگ کرتے دیکھ لو تو تم کہو کہ یہ کالج میں کیا خوار ہوتی پھر رہی ہے۔ اسے تو نیشنل نیٹ ورک پر ہونا چاہیے” امبر نے جیسے طلحہ کی بات سنی ہی نہیں۔
”اس میں وہ گلیمر ہے جو ایکٹریسز اور ماڈلز میں ہوتا ہے۔ میں نے تو اس کو مشورہ بھی دیا ہے شوبز کی طرف جانے کو۔”
”اچھا پھر۔” طلحہ نے رسمی طور پر پوچھا۔
”مگر وہ نہیں مانی۔” امبر نے کچھ مایوسی سے کہا۔
”کیوں؟”
”اس کی فیملی میں شوبز میں کوئی نہیں گیا… اس کی امی ویسے بھی خاصی کنزرویٹو ہیں… وہ تو فرینڈز کے گھر جانے نہیں دیتیں تو یہ شوبز تو دور کی بات ہے۔” امبر نے اپنے کندھے پر آئے ہوئے بالوں کو ہاتھ سے پیچھے جھٹکتے ہوئے کہا۔
”ہاں ہر فیملی کی کچھ روایات ہوتی ہیں۔ ہو سکتا ہے اس کی فیملی بھی پسند نہ کرتی ہو ان سب چیزوں کو۔” طلحہ نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔
”بِیلِیومی طلحہ… اتنا اچھا ڈانس کرتی ہے وہ کہ بس۔” امبر اب بھی اسی کا ذکر کر رہی تھی۔” ڈانس تو میں بھی کر لیتی ہوں مگر اسے دیکھ کرمجھے واقعی پتا چلا کہ ڈانس کسے کہتے ہیں… وہ تو بالکل پرفیکٹ ہے۔”
طلحہ اس کی بات پر ہنسا۔ ”اور تم کہہ رہی ہو کہ وہ خاصے کنزرویٹو گھرانے سے تعلق رکھتی ہے… یہ ڈانس وغیرہ… کنزرویٹو فیملیز میں کہاں سے آگیا۔”
”یہ مجھے نہیں پتا کہ کیسے آگیا مگر بہر حال وہ زبردست ڈانس کرتی ہے… ہم سب تو اسے دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔” امبر نے سوفٹ ڈرنک کا گھونٹ لیا۔ ”اور ہاں۔” پیتے پیتے اچانک یاد آیا۔ ”تم بہت پسند آئے ہو اسے۔”
طلحہ کو سوفٹ ڈرنک پیتے پیتے بے اختیار اچھو لگا۔ ”میں؟” اس نے حیرانی سے کہا۔
”ہاں تم… اس میں اتنا حیران ہونے والی کیا بات ہے؟”
”مگر مجھے کیسے جانتی ہے وہ؟”
”کیا بے وقوفی کی باتیں کرتے ہو تم؟” امبر نے جیسے اس کی عقل پر افسوس کیا۔ ”میں نے بتایا ہے اسے تمہارے بارے میں… بلکہ تصویریں دکھائی تھیں تمہاری۔ انہیں ہی دیکھ کر اس نے تمہاری تعریف کی تھی… بلکہ وہ تو مجھ سے کہہ رہی تھی کہ میں تمہیں اس سے ملواؤں۔”
”تم نے کیا کہا؟”
”میں نے کہا ٹھیک ہے۔ میں اسے تم سے ملواؤں گی۔”
”مگر وہ مجھ سے مل کر کیا کرے گی؟” طلحہ نے اس بار قدرے بیزاری سے کہا۔




”کیا کرے گی… تم بھی آج عجیب باتیں کرنے تلے ہوئے ہو، وہ میری دوست ہے اس لیے تم سے ملنا چاہتی ہے۔ تم میں اس کی دلچسپی کی یہی واحد وجہ ہے۔”
”کم آن امبر! ہر دوست کو مجھ سے ملوانے نہ نکل کھڑی ہوا کرو… ایک تو تمہارا سوشل سرکل خاصا وسیع ہے، اوپر سے تم پر جیسے یہ فرض ہے کہ تم ہر جاننے والے یا والی کومجھ سے ملوانا چاہتی ہو۔ اس بات سے قطع نظر کہ میں کسی سے ملنا چاہتا ہوں یا نہیں۔”
”تم کیو ںنہیں ملنا چاہتے میرے جاننے والوں سے۔” اس بار امبر نے قدرے ناگواری سے کہا۔
”تمہیں کچھ کرنے کو کس نے کہا ہے۔ ملنے کو ہی تو کہا ہے، اور ویسے پہلے تو کبھی تم نے میری فرینڈز کے لیے اتنی ناپسندیدگی نہیں جتائی۔ اب رخشی کی بار کیا ہو گیا ہے۔ کہیں ممی کی طرح تم کو بھی کلاس فوبیا نہیں ہو گیا۔” امبر نے قدرے تیکھے انداز میں اس سے کہا۔
”کیا کلاس فوبیا…؟ اگر ہو بھی گیا ہو تو تم کو اس سے کیا… تم ان چیزوں کی پرواہ کہاں کرتی ہو۔ چاہے میں تمہیں سمجھاؤں یا کوئی اور… تمہیں بس کوئی چیز پسند آنی چاہیے۔ چاہے وہ کسی کنوئیں میں پڑی ہو گی… تم اسے نکال کر جھاڑ پونچھ کر اپنے گھر کی سب سے بہترین جگہ پر سجا دو گی۔” امبر لاپروائی سے اس کی باتیں سنتی رہی۔
طلحہ اب کھانا کھاتے ہوئے مسکرا رہا تھا۔ ”مسٹر طلحہ مسعود! ہم سب یہی کرتے ہیں۔ جو چیز ہمیں اچھی لگتی ہے، ہم اسے اپنی زندگی میں سب سے اہم جگہ دے دیتے ہیں۔ اس چیز کی Roots کی کھدائی شروع نہیں کر دیتے۔”
”ہو سکتا ہے، مگر جس طرح کے معیار تمہارے ہیں اس طرح کے معیار بہت کم لوگوں کے ہیں۔ خیر وقت کے ساتھ ساتھ تمہارے یہ معیار بدل جائیں گے۔”
”شاید آخری……
بس ایسے ہی، تمہاری فرینڈز سے مل کر آخر میں کروں گا کیا؟” طلحہ کے لہجے میں بھی بیزاری آگئی۔
یہ جملہ اس طرح کہنا چاہیے کہ وقت کے ساتھ ساتھ تم میرے معیار بدل دو گے۔” امبر نے کھانا کھاتے کھاتے رک کر کہا۔
”ہاں میں کوشش ضرور کروں گا۔”
”تم اس کوشش میں بری طرح ناکام رہو گے۔ میں کبھی کسی کلاس فوبیا کا شکار نہیں ہوں گی… زندگی میں جب بھی مجھے جو چیز اچھی لگے گی۔ میں اسے اسی طرح سراہوں گی۔ چاہے دوسرے اس بات کو کتنا برا ہی کیوں نہ سمجھیں۔”
وہ ایک بار پھر کھانا کھانے لگی۔ طلحہ نے ایک لمحہ کے لیے رک کر اسے گہری نظروں سے دیکھا پھر وہ کندھے اچکا کر کھانا کھانے لگا۔ وہ جانتا تھا کہ امبر کی لاپروائی سے کہی ہوئی بات پتھر پر لکیر تھی… وہ اگر یہ کہہ رہی تھی کہ وہ نہیں بدلے گی تو اس کا ہر زبان میں یہی مطلب تھا کہ وہ نہیں بدلے گی… اور اس کے ساتھ زندگی گزارنے کا مطلب یہ تھا کہ خود اسے اپنے اندر بہت سی تبدیلیاں لانی پڑیں گی اور وہ اس کے لیے تیار تھا… او ریہ کمپرومائز وہ صرف امبر منصور علی ہی کے لیے کر سکتا تھا۔ کسی دوسری لڑکی کے لیے نہیں۔
٭٭٭
mirror mirror on the wall
“Tell me who is the fairest of us all”
رخشی ایک قد آدم آئینے کے سامنے کھڑی اپنے ڈائیلاگز دہرا رہی تھی… بیک اسٹیج ڈرامہ کے تمام کیریکٹر اپنے اپنے سینز کو آخری بار دیکھ رہے تھے۔ اگلا آئٹم یہی تھا اور ان کے پاس اب صرف دس منٹ رہ گئے تھے۔ جوں جوں ان کے ڈرامہ کا وقت قریب آتا جارہا تھا۔ امبر کی گھبراہٹ بڑھتی جارہی تھی جبکہ رخشی پہلے سے زیادہ پر اعتماد نظر آرہی تھی یوں جیسے یہ سب کچھ اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہو۔
امبر اب بھی اپنے ڈائیلاگز بھول رہی تھی اس میں اس کی یاداشت سے زیادہ گھبراہٹ کا ہاتھ تھا جبکہ رخشی نے ایک بار بھی اپنے اسکرپٹ کو نہیں دیکھا تھا وہ اپنے ہر سین کو اکیلے ہی باری باری دہراتی جارہی تھی یوں جیسے وہ اس وقت واقعی اس کردار میں مکمل طور پر ڈھل گئی تھی۔ یوں جیسے وہ واقعی ایک ملکہ تھی… یوں جیسے سنووائٹ واقعی اس کے رحم و کرم پر تھی… امبر اور رخشی دونوں ہی اپنے مکمل کاسٹیوم میں تھیں اور وہاں موجود لوگوں کے لیے یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ ان میں سے کون زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی… مگر شاید Talk of the town وہی بنتی جو اپنے رول کو اچھی طرح سے ادا کر لیتی… اگرچہ رخشی کے جسم پر موجود لباس اتنا قیمتی اور خوبصورت نہیں تھا جتنا امبر کے جسم پر موجود لباس تھا مگراس قدرے کم قیمت لباس کو رخشی کے وجود نے بیش قیمت کر دیا تھا۔ کسی کی نظر اس کے لباس پر جا ہی نہیں رہی تھی۔ یہ اس کا چہرہ تھا جس سے نظریں ہٹانا مشکل ہو گیا تھا… مگر خود رخشی کی نظریں اس سفید لباس پر ٹکی ہوئی تھیں جو امبر نے پہنا ہوا تھا۔ اس کی نظروں میں رشک اور ستائش واضح طور پر چھلک رہی تھی۔
”میں بہت نروس ہوں رخشی…! مجھے لگ رہا ہے میں سب کچھ بھول گئی ہوں۔” امبر نے ایک بار پھر اسکرپٹ کو دیکھتے ہوئے جھلا کر کہا۔
”گھبرانے کی کوئی بات نہیں… میں ہوں نا اسٹیج پر کچھ بھی بھولے گا تو تمہیں یاد کروا دوں گی، مجھے تمہارے سارے ڈائیلاگز یاد ہیں۔” رخشی نے اسے تسلی دی۔
”لیکن اگر مجھے ڈائیلاگز ان سینز میں بھولے جن میں تم میرے ساتھ نہیں ہو تو؟” امبر اب بھی فکر مند تھی۔
امبر نے فکر مندی کے عالم میں سرہلایا او رایک بار پھر چکر لگاتے ہوئے اسکرپٹ کو دیکھنے لگی۔ ڈرامہ میں صرف دو سین ایسے تھے جہاں امبر اور رخشی کا آمنا سامنا تھا… باقی تمام سینز میں وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ تھی جہاں وہ اپنے مکمل کاسٹیوم میں ایک دوسرے کو جانتے ہوئے سامنے آتیں اور اسی لیے وہ زیادہ فکر مند تھی کہ اگر وہ کسی دوسرے سین میں ڈائیلاگز بھول گئی تو ضروری نہیں کہ اس کے ساتھ دوسرے لوگوں کو اس کے ڈائیلاگز یاد ہوں… یا یہ کہ وہ اگر ایک بار ڈائیلاگز بھول گئی تو پھر دوسروں کے بتانے پر اسے سب کچھ یاد آجائے گا۔
مگر اس کی یہ ساری گھبراہٹ اس وقت غائب ہو گئی تھی جب ڈرامہ شروع ہونے پر اسٹیج پر اس کی انٹری ہوئی تھی۔ ہال اس کی انٹری پر تالیوں سے گونج اٹھا تھا۔ بالکل اسی طرح جس طرح رخشی کی انٹری کے وقت گونجا تھا۔
اسے اور رخشی کو بے تحاشا داد مل رہی تھی… رخشی کی طرح وہ بھی اپنے سینز بڑے اعتماد کے ساتھ کر رہی تھی… اس کی ڈائیلاگ ڈلیوری کمال کی تھی اور باقی کمی اس کی خوبصورت آواز اور چہرے نے پوری کر دی تھی… اس کا اعتماد ہر سین کے ساتھ بڑھتا جا رہا تھا… ہر Exit کے ساتھ وہ بیک اسٹیج ہوتی اس وقت رخشی کا سین چل رہا ہوتا اور جب رخشی بیک اسٹیج ہوتی تو اس وقت وہ اسٹیج پر ہوتی اس لیے ڈرامے کے دوران بیک اسٹیج دونوں کا کوئی آمنا سامنا نہیں ہوا تھا۔
اور پھر اسٹیج پر اس کا اور رخشی کا پہلا سین آگیا۔ وہ پہلا سین جس میں دونوں اکٹھی تھیں… اور جس میں دونوں اپنے مکمل کاسٹیوم میں ایک دوسرے کے سامنے آئیں۔ باقی سینز میں رخشی بوڑھی عورت کے روپ میں اپنا حلیہ بدل کر اس کے سامنے آتی اور وہ بھی ایک شہزادی کے لباس کی بجائے سادہ سے کپڑوں میں ملبوس ہوتی… صرف ان ہی دونوں سینز میں دونوں محل میں ایک دوسرے کا سامنا کرتیں… ملکہ… اور سنووائٹ… وہ سین ڈرامے کے کچھ ابتدائی سینز کے بعد آیا تھا جب آئینہ میں دیکھنے کے بعد ملکہ سنو وائٹ کو خود دیکھتی ہے… اور اس سین میں رخشی نے اس کے پیروں کے نیچے سے زمین مکمل طور پر کھینچ لی تھی… ہال میں پہلی بار مکمل خاموشی تھی جامد سکوت اور رخشی کے ایکسپریشنز کو دیکھتے ہوئے امبر نے پہلی بار اپنا اعتمادکھونا شروع کر دیا… وہ واقعی ایک ملکہ لگ رہی تھی… شاہانہ اور سحر انگیز انداز… اور پر تمکنت، کسی مسکراہٹ کے بغیر… پلکیں جھپکائے بغیر رخشی اس کو دیکھتی رہی تھی… اور امبر اپنے ڈائلاگز بھول گئی… رخشی نے کمال اعتماد کے ساتھ اپنے ڈائیلاگز دہرائے تھے اور امبر ہونقوں کی طرح اس کا چہرہ دیکھتی رہی… ہال میں ابھی بھی خاموشی تھی… بیک اسٹیج سے امبر کو کیو دی گئی مگر امبرکی نظریں رخشی پر جمی ہوئی تھیں اور اس کا ذہن بالکل خالی تھا۔
رخشی نے ایک بار پھر اپنے ڈائلاگز دہرائے… امبر اس بار بھی اس کا چہرہ خاموشی سے دیکھتی رہی… حاضرین کو ابھی بھی اندازہ نہیں ہوا کہ وہ اپنے ڈائیلاگز بھول چکی تھی وہ اسے بھی ڈرامے کا ایک حصہ سمجھتے رہے… امبر کو بیک اسٹیج سے ایک بار پھر کیو دی گئی… ایک بار دو بار… اور پھر امبر کو جیسے ہوش آگیا… کچھ گڑبڑاتے ہوئے اس نے ایک قدم پیچھے لیا… حاضرین کو دیکھا… بیک اسٹیج سے ایک بار پھر کیو دی گئی… اور اس بار امبر نے کیو کو Pick کر لیا… رخشی نے اسی سخت لہجے میں اپنے ڈائیلاگز بولے اور Exit کر گئی… ہال اب تالیوں سے گونج رہا تھا اور اگلے سین کے لیے پردہ گر رہا تھا۔ اسٹیج پر وہاں کھڑے امبر کو اندازہ تھا کہ وہ تالیاں کس کے لیے بج رہی تھیں… پردہ گرنے کے بعد وہ بیک اسٹیج پر چلی گئی۔
اگلا سین رخشی کا تھا… اور اس کے بیک اسٹیج جاتے ہی رخشی اپنے سین کے لیے اسٹیج پر آگئی… امبر نے ایک بار پھر اسکرپٹ پکڑ لیا… وہ اب فکر مند تھی… اپنے اگلے کسی سین میں رخشی کا سامنا کرتے ہوئے وہ ڈائیلاگز بھولنا نہیں چاہتی تھی… اور ایسا ہی ہوا تھا۔ رخشی کے ساتھ اپنے اگلے سینز میں وہ ڈائیلاگز نہیں بھولی تھی… ایک بار پھر اس کا اعتماد واپس آتا جارہا تھا… اور ڈرامے کے آخری سین تک وہ اعتماد اپنی انتہا پر پہنچ چکا تھا۔
آخری سین ایک بار پھر رخشی کے ساتھ تھا اور آخری سین میں ایک بار پھر ان دونوں کو شاہی ملبوسات میں ایک دوسرے کا سامنا کرنا تھا… سنووائٹ شہزادے کے ساتھ دربار میں اپنے باپ اور ملکہ کا سامنا کر رہی تھی… اور یہ آخری سین تھا جس نے امبر کے تابوت میں آخری کیل کا کام کیا تھا… وہ ایک بار پھر رخشی کے سامنے اپنے ڈائیلاگز بھول گئی تھی اور اس بار یہ بات ہال میں موجود حاضرین سے چھپی نہیں رہ سکی… بیک اسٹیج سے ملنے والی کیو بھی اس بار اس کے کام نہیں آئیں۔ وہ مکمل طور پر اپنے ڈائیلاگز بھول چکی تھی اور اپنے باپ کے ساتھ بولنے والے ڈائیلاگز کے بجائے وہ اٹکتے ہوئے چند چھوٹے چھوٹے جملے بولنے لگی… وہ اسکرپٹ کا مضبوط ترین حصہ تھا۔ جو اسے اپنے باپ کے سامنے ادا کرنا تھا اور اس کے علاوہ باقی سب مکمل مہارت کے ساتھ اپنے اپنے ڈائلاگز ادا کر رہے تھے جبکہ وہ خود سے سوچ سوچ کر جواب دے رہی تھی اور یقینا وہ ڈائیلاگز جو وہ اب اپنے پاس سے گھڑ رہی تھی وہ اتنے طاقتور نہیں تھے کہ رخشی اور بادشاہ کے رٹے ہوئے جملو ںکا مقابلہ کر سکتے… ڈرامے کا اسکرپٹ بالکل اوریجنل نہیں رکھا گیا تھا اس میں بہت سی تبدیلیاں کر دی گئی تھیں اور ان تبدیلیوں میں وہ لمبے لمبے ڈائیلاگز بھی تھے جو ملکہ، سنو وائٹ اور بادشاہ کو آخری سین میں ادا کرنے تھے اور رخشی کو اس کے ادا کیے ہوئے ہر جملے پر بھرپور داد ملی تھی۔
آخری سین پر پردہ گرتے ہوئے ہال میں ہر ایک کی زبان پر رخشی کا نام تھا ”…Talk of the town” امبر جانتی تھی کس کے بارے میں چرچا ہو گا اور وہ مانتی تھی کہ رخشی کے لیے بجنے والی ایک بھی تالی غلط نہیں تھی… وہ اس داد کی مستحق تھی اور پردہ گرنے کے بعد اس نے خود بھی رخشی کے لیے تالیاں بجانی شروع کر دیں جسے بادشاہ کے گارڈ کھینچتے ہوئے دربار سے باہر لے گئے تھے اور اب وہ بیک اسٹیج کے ایک کونے میں اپنا تاج پکڑے مسکراتے ہوئے اپنے بعد ہونے والا باقی سین اور گرتے ہوئے پردے کو دیکھ رہی تھی اور امبر کو تالیاں بجاتے دیکھ کر وہ مسکرائی تھی… امبر بڑے پرجوش اندازمیں اس کی طرف بڑھی تھی جو اب وہاں موجود سب لوگوں سے داد وصول کر رہی تھی… اور یہ وہ وقت تھا جب اسے پہلی بار ایک بات یاد آئی تھی… اور اس کے قدم ٹھٹکے تھے… رخشی نے دونوں سینز میں ڈائیلاگز بھولنے پر اسے کیو نہیں دی تھی۔
٭٭٭
”کیسا رہا تمہارا ڈرامہ؟” رات کو گھر آنے پر صاعقہ نے سرسری انداز میں رخشی سے پوچھا تھا… رخشی بہت خوش نظر آرہی تھی۔
”بہت اچھا… امی جب میں ویڈیو لے کر آؤں گی تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ میں کتنی خوبصورت لگ رہی تھی اور مجھے کتنی داد ملی۔” رخشی نے پر جوش انداز میں کہا۔
”اور امبر… اس کا کیا ہوا؟” اس کی ماں نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
”وہ بھی بہت خوبصورت لگ رہی تھی مگر… میرے جیسی ایکٹنگ وہ نہیں کر سکی۔”
”اچھا تم اب کھانا کھا لو…” صاعقہ نے اپنے کمرے کی طرف جاتے ہوئے کہا۔ رخشی کو کچھ مایوسی ہوئی۔ وہ ابھی صاعقہ کو اور بہت سی باتیں بتانا چاہتی تھی۔ وہ کچھ بد دل ہو کر اپنے کمرے میں چلی آئی… کپڑے تو وہ کالج میں ڈریسنگ روم میں ہی تبدیل کر آئی تھی مگر اس کے چہرے پر میک اپ اب بھی موجود تھا وہ اپنے کمرے میں آکر آئینے کے سامنے کھڑی ہو گئی اور آئینے میں نظر آنے والے عکس نے اسے ایک بار پھر جیسے کالج کے اسٹیج پر پہنچا دیا تھا۔ وہ اپنے عکس کو آئینے میں دیکھتے ہوئے زیر لب مسکرانے لگی… فخریہ مسکراہٹ… اس کے کانوں میں چند گھنٹے پہلے اس سے کہے ہوئے بہت سے لوگوں کے ستائشی جملے گونجنے لگے۔ وہ جانتی تھی اگلے کئی ہفتوں تک وہ کالج میں جہاں سے بھی گزرے گی… اسے سر اونچا کرکے ستائشی نظروں سے دیکھا جائے گا… اس کی مسکراہٹ گہری ہو گئی… وہ اپنے عکس پر نظریں جمائے بڑبڑانے لگی۔
mirror mirror on the wall
“Tell me who is fairest of them all”
اسے آئینے میں صرف اپنا عکس ہی نظر آرہا تھا۔
”سیمی اور ظہیر کا جھگڑا ہو گیا ہے۔” عقب میں ابھرنے والی صاعقہ کی آواز نے اسے یک دم پلٹنے پر مجبور کر دیا۔
”اب کس لیے؟” رخشی کی آواز جیسے حلق میں گھٹنے لگی۔
”پچاس ہزار اور مانگ رہا ہے…” صاعقہ کی آواز میں اضطراب تھا۔
”کیوں مانگ رہا ہے؟”
”کیوں مانگتا ہے… عادت سے مجبور ہے… اس بار اس نے بہت مارا ہے سیمی کو… وہ اپنے کمرے میں ہے۔ میں اسی کے پاس بیٹھی ہوں… تم بھی کھانا کھا کر وہیں آجانا… وہ پوچھ رہی تھی تمہارے بارے میں… مصیبتیں ہیں کہ ختم ہی نہیں ہوتیں۔ ایک جاتی ہے تو دوسری آجاتی ہے۔ میری تو قسمت ہی خراب ہے… عذاب ہیں کہ میری جان کو چمٹ ہی گئے ہیں۔ تنویر مسلسل مکان خالی کرنے کو کہہ رہا ہے۔ آج شام بھی آیا ہوا تھا…”
وہ بڑبڑاتے ہوئے کمرے سے نکل گئی۔ رخشی نے پلٹ کر دھواں دھواں آنکھوں کے ساتھ آئینے کو ایک بار پھر دیکھا… اس بار آئینے میں بہت سی لکیریں ابھر آئی تھیں یوں جیسے آئینہ چٹخ گیا ہو… اور وہاں اب اس کا عکس نہیں تھا… وہاں ان چٹخے ہوئے ٹکڑوں کے درمیان امبر کا عکس تھا… اسی سفید میکسی میں… کھلے گھنگھریالے بالوں پر مختلف رنگوں کے پھولوں سے سجا ہوا خوبصورت چہرہ… دھویں میں بھری کڑواہٹ اس کی آنکھو میںنمی لانے لگی۔
mirror mirror on the wall
“I know who is the fairest of us all”
٭٭٭
”پاپا اگر میں بادشاہ کی جگہ ہوتی نا تو میں کوئین کے بجائے سنو وائٹ کا گلا دبا دیتی… اف اتنی ڈفر اور ڈل سنو وائٹ… شکل کے علاوہ اس میں کچھ اچھا ہی نہیں۔”
صبغہ امبر کا مذاق اڑا رہی تھی… وہ بھی منیزہ او راپنی دوسری بہنوں کے ساتھ امبر کا ڈرامہ دیکھنے گئی تھی… منصور علی انہیں واپسی پر لینے آئے تھے اور واپسی کا پورا سفر اس ڈرامے کی باتوں میں ہی کٹا تھا او ریہ باتیں گھر آنے پر بھی ختم نہیں ہوئی تھیں۔
”تم صحیح کہہ رہی ہو… دل تو میرا بھی یہی چاہ رہا تھا۔” امبر نے ایک گہرا سانس لے کر صبغہ کی ہاں میں ہاں ملائی۔ ”Rakhsi is simply stunning” اس نے ایک بار پھر رخشی کی تعریف کی۔
”اتنی تعریفیں کرنے کی ضرورت نہیں ہے اس کی… وہ کوئی آسمان سے اتری ہوئی مخلوق نہیں ہے… امبر کے سامنے تو کچھ بھی نہیں لگ رہی تھی۔” منیزہ کو امبر اور صبغہ دونو ںکی باتیں بری لگیں… انہیں ڈرامے کے دوران ہال میں رخشی کے لیے بجنے والی تالیاں بھی بری لگی تھیں… ان تالیو ںکو برداشت کرنا ان کی مجبوری تھی مگر اب یہاں بھی رخشی کی تعریفیں سننا۔
”خیر ممی! یہ تو آپ زیادتی کر رہی ہیں… رخشی واقعی خوبصورت لگ رہی تھی…” صبغہ نے کہا۔
”بھئی مجھے تو اپنی بیٹی کے علاوہ اور کوئی خوبصورت لگتا ہی نہیں… بلکہ اور کوئی خوبصورت ہو ہی نہیں سکتا۔” منصور علی نے بڑے پیار سے امبر سے کہا۔
وہ مسکراتی ہوئی اٹھ کر ان کے پاس صوفہ پر آگئی اور ان کے ساتھ بیٹھ کر اس نے ان کے بازو میں بازو ڈالتے ہوئے بڑے لاڈ سے ان کے کندھے پر سر رکھ دیا۔
”پاپا… رخشی واقعی بڑی خوبصورت لگ رہی تھی…” اس نے منمناتے ہوئے کہا۔
”میری تو یہ سمجھ میں نہیں آتا امبر کہ تم اپنے ڈائیلاگز کیوں بھول گئیں… آخری سین میں تو تم نے ستیا ناس کر دیا پورے ڈرامے کا۔” صبغہ کو افسوس ہورہا تھا۔
”میں اس کے چہرے اور ایکسپریشنز کو دیکھتے ہوئے سب کچھ بھول گئی تھی… کچھ دیر کو تو مجھے لگا کہ وہ واقعی کوئین ہے اور میں کسی دربار میں کھڑی ہوں… اتنی طاقتور تھی اس کی موجودگی کہ میں آپ کو بتا نہیں سکتی پاپا…! آپ جب ویڈیو دیکھیں گے تو آپ کو پتا چلے گا کہ میں نہیں کوئی بھی ہوتا وہ رخشی کے سامنے اسٹیج پر کھڑا نہیں ہو سکتا تھا۔” امبر منصور علی کو بتاتی گئی اور اس کی ہر تعریف منیزہ کے ماتھے کی تیوریوں میں اضافہ کر رہی تھی۔
”ایک تو منصور میں آپ کی اس لاڈلی بیٹی کی حرکتوں سے تنگ ہوں… اپنے علاوہ اسے ہر کوئی اچھا لگتا ہے۔ وہاں سب لوگ اس کی تعریفیں کر رہے تھے اور یہ یہاں بیٹھی رخشی کی تعریفیں کر رہی ہے… میں نے تو نظر بھر کر اسے نہیں دیکھا کہ میری نظر ہی نہ لگ جائے اسے… ماشاء اللہ یہ لگ ہی اتنی پیاری رہی تھی مگر میں نے کئی لڑکیوں کو خود اس کی تعریفیں کرتے سنا ہے۔ یہ وہاں بھی ہر ایک کو پکڑ پکڑ کر یہی کہتی پھر رہی تھی کہ رخشی بہت اچھی لگ رہی ہے، رخشی نے کمال کی ایکٹنگ کی۔”
منیزہ نے آخری جملے میں اس کی نقل کی۔
”ایک تو پاپا…! ممی کی کچھ سمجھ میں نہیں آتا… پتا نہیں رخشی سے کیوں اتنا چڑتی ہیں، اب کوئی اچھا کام کرے گا تو میں کہوں گی کہ اچھا کام کیا ہے۔ پھر میں ہی نہیں سب یہی کہہ رہے تھے کہ رخشی نے کمال کی ایکٹنگ کی ہے اور میں جو دو دفعہ ڈائیلاگز بھول گئی، اب کیا اپنے منہ سے اپنی تعریفیں کرتی پھروں… مگر ممی تو کمال کرتی ہیں۔” اس بار امبر نے کچھ چڑ کر کہا۔
”میں ویڈیو لاؤں گی تو آپ خود دیکھ لیجئے گا کہ ہم دونوں میں سے کس نے اچھی ایکٹنگ کی ہے… مگر باپ بن کر اور Biased (متعصب) ہو کر مت دیکھیے گا ویڈیو کو۔” اس نے جیسے منصور کو وارننگ دی۔
”اچھا ٹھیک ہے… میں بالکل منصفانہ رائے دوں گا… اب تم مجھے یہ بتاؤ کہ تم ہم سب کو اس ڈرامے کی کامیابی میں کب پارٹی دے رہی ہو۔”
”اف پاپا…! آپ کیا بات کر رہے ہیں۔ اتنی بے عزتی ہوئی ہے میری اور آپ کہہ رہے ہیں کہ ڈرامے کی کامیابی…” امبر نے ان کے کندھے پر ہلکا سا مُکّا مارتے ہوئے احتجاجاً کہا۔
”صرف تمہاری نہیں ہماری بھی بے عزتی ہوئی۔ خود سوچو تم تو اسٹیج پر تھیں اور ہم وہاں ہال میں بیٹھے ہوئے تھے… کون زیادہ شرمندہ ہوا ہو گا۔” صبغہ نے شرارتی انداز میں کہا۔
”اچھا چلو ڈرامے کی ناکامی کی خوشی میں ہی تم ایک پارٹی کا انتظام کرو… آخر تم نے ڈرامے میں کام تو کیا ہے چاہے برا ہی سہی۔” منصور علی نے امبر سے کہا۔
”ناکامی کی کس کو خوشی ہوتی ہے… کم از کم مجھے تو نہیں ہو سکتی… آپ کو ہوئی ہے تو آپ ہی پارٹی دے دیں۔” امبر نے ایک بار پھر منصور علی کے کندھے پر سر رکھتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے میں دے دیتا ہوں… کب دوں… کہاں دوں۔”
”پاپا! آپ تو واقعی مجھے شرمندہ کرنا چاہتے ہیں پہلے اگر دس لوگوں کو اس کا پتا ہے تو اب سو لوگوں کو پتا چل جائے گا۔”
”تو پھر کیا ہوا… بھئی تم کوئی پروفیشنل ایکٹریس تو ہو نہیں… یہ بس ایک ایکٹویٹی تھی… تفریح کے لیے… کون اس پر اعتراض کرے گا اور پھر یہ کون سا نیشنل نیٹ ورک کا کوئی ڈرامہ تھا کہ تم شرمندہ ہوتی پھرو۔” منصور علی نے اس کی شرمندگی کو کچھ کم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
”ابھی تو طلحہ بھائی پوچھیں گے کہ آپ نے کیا کارنامہ کیا ہے ڈرامے میں… انہیں کیا بتاؤ گی؟” صبغہ نے جیسے اسے ڈرایا۔
”کچھ نہیں کہوں گی۔”
”اب اس کے سامنے بھی کہیں رخشی کی تعریفیں کرنے مت بیٹھ جانا۔” منیزہ کو اچانک خیال آیا۔
”نہیں ممی! اس کے سامنے تو میں اپنی تعریفیں کروں گی اور اتنی تعریفیں کروں گی کہ وہ ہاتھ جوڑ کر چپ کروائے گا… وہ بے وقوف تو نہیں ہے، اسے فوراً پتا چل جائے گا کہ میں جھوٹ بول رہی ہوں۔ آپ بھی بس شرمندہ ہی کروانا چاہتی ہیں۔” امبر نے کچھ خفگی کے عالم میں منیزہ کو دیکھ کر کہا۔
”ویسے بھی ممی…! یہ تو ویڈیو بھی دکھائے گی طلحہ بھائی کو… پھر جھوٹ کی گنجائش کہا ںرہ جائے گی۔ کیو ںامبر؟” صبغہ نے ایک بار پھر اس سے کہا۔
”ہاں ویڈیو تو ضرور دکھاؤں گی… بلکہ سونیا نے تو خود بھی مووی بنائی ہے۔ وہ تو کل ہی مل جائے گی۔”
”خبر دار تم نے طلحہ کو ویڈیو دکھایا… مجال ہے تم میں ذرا بھی عقل ہو۔ میں تمہیں رخشی کی تعریف سے منع کر رہی ہوں اور تم ویڈیو اسے دکھانے کی پلاننگ کر رہی ہو۔” منیزہ نے کچھ ناراضی کے عالم میں امبر سے کہا۔
”اب رخشی کے لیے تھوڑی اسے مووی دکھاؤں گی اپنے لیے دکھا رہی ہوں ایک تو ممی آپ بھی…” امبر نے ناگواری سے کہا۔
”تو رخشی نہیں ہو گی کیا اس میں؟”
”آپ کا کیا مطلب ہے وہ میرے بجائے رخشی کو دیکھتا رہے گا، کمال کرتی ہیں ممی آپ بھی…” امبر کی خفگی میں کچھ اور اضافہ ہوا۔
”امبر! تم ایسا کرو کہ ویڈیو کی ایڈیٹنگ کرواؤ اور رخشی کے تمام سینز کٹوا دو۔ کم از کم ممی کو اسطرح تسلی تو ہو جائے گی کہ طلحہ بھائی کی نظر اس پر نہیں پڑے گی۔” صبغہ نے ہنستے ہوئے امبر کو مشورہ دیا۔
”ہاں مجھے بھی لگتا ہے کہ یہی کروانا پڑے گا… ورنہ ممی تو…” امبر نے مسکراتے ہوئے بات ادھوری چھوڑ دی۔
منصور علی خوشگواری سے ان کے درمیان ہونے والی گفتگو سن رہے تھے… انہو ںنے خاصے لمبے وقفے کے بعد ایک بار پھر گفتگو میں مداخلت کی۔
”بھئی اب ختم کرو اس سارے جھگڑے کو… امبر نے اچھا کام کیا ہے اور رخشی نے بھی… معاملہ ختم۔”
”آپ بھی پاپا…! آپ نے کبھی رخشی کو دیکھا تک تو ہے نہیں…” امبر باپ کی بات پر ہنسی۔
”اچھا بھئی دیکھ لیں گے… یہاں تو آتی جاتی رہتی ہے وہ۔” منصور علی نے خوشگوار انداز میں کہا۔
”ہاں ضرورت سے کچھ زیادہ ہی آتی جاتی رہتی ہے۔” منیزہ ایک بار پھر بڑبڑائیں۔ اس سے پہلے کہ امبر کچھ کہتی فون کی گھنٹی بجنے لگی۔
”یہ طلحہ کا فون ہو گا… میں ذرا اس سے بات کر لوں۔” امبر کو یک دم یا دآیا اور وہ اٹھ کر فون کی طرف بڑھ گئی۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

میرے آسماں سے ذرا پرے — مونا نقوی

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۵

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!