”چلو، تم یہی سمجھ لو کہ میں کلاس اور اسٹیٹس کانشس ہوں اور مجھے اس میں کوئی برائی نظر نہیں آتی۔” سونیا نے لاپروائی سے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔ ”اگر ہم ایک برتر کلاس سے تعلق رکھتے ہیں تو پھر ہمیں دوسروں سے ایک خاص فاصلے پر رہنا چاہیے اور رخشی مجھے اپنی کلاس کے کسی گھرانے سے تعلق رکھتی نہیں لگتی… اس کی کلاس اس کی پوری پرسنالٹی سے جھلکتی ہے۔ اس کی باتوں سے… اس کے لباس سے… انداز سے… ہر چیز سے۔” اس بار سونیا نے قدرے ناگوار انداز میں ہونٹ سکیڑ کر کہا۔
”میں دوستی کرتے ہوئے تمہاری فلاسفی پر عمل نہیں کرتی اور نہ ہی میں تمہاری طرح کلاس کانشس ہوں… یہ بہت Mean (معمولی) باتیں ہیں۔” امبر کے جملو ںمیں واضح طور پر ناپسندیدگی تھی۔
”Mean ہوں… یا جو بھی ہوں، بہر حال ان باتوں کی اہمیت ہوتی ہے۔ کم از کم ہمارے گھروں میں تو یہی سکھایا گیا ہے۔” سونیا چڑ گئی۔
”رخشی کے بارے میں تمہاری اپنی رائے ہو سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے اس کی بھی تمہارے بارے میں کچھ بری ہی رائے ہو… مگر جہاں تک میرا تعلق ہے مجھے وہ اچھی لگتی ہے اور میں صرف اس لیے اسے نہیں چھوڑ سکتی کہ وہ تمہیں پسند نہیں ہے۔” امبر نے دو ٹوک انداز میں کہا۔ ”تمہیں اگر وہ بری لگتی ہے تو تم اس سے بات نہ کیا کرو۔ مگر میں تمہارے کہنے پر تو اسے نہیں چھوڑوں گی… بالکل اسی طرح جس طرح میں اس کے کہنے پر تمہیں نہیں چھوڑوں گی۔”
سونیا نے ماتھے پر ناگواری کے چند بلو ںکے ساتھ کچھ دیر خاموشی سے اسے دیکھتے رہنے کے بعد کہا۔
”اور اگر کل کو میں بھی اسی طرح کوئی لڑکی پکڑ کر لے آؤں کہ یہ مجھے اچھی لگتی ہے… اسے بھی اپنے گروپ میں شامل کرنا ہے… تو تمہارا رد عمل کیا ہو گا… تمہیں برا لگے گا نا؟”
”کیوں برا لگے گا، بالکل برا نہیں لگے گا، تم جسے چاہے لے آؤ… میں بڑی خوشی سے اسے ویلکم کہوں گی… اور تمہاری طرح اس کا اور اس کی فیملی کا پوسٹ مارٹم کرنے نہیں بیٹھوں گی۔” امبر نے اس بار قدرے خوشگوار انداز میں سونیا کا مذاق اڑایا۔
”ٹھیک ہے میں بھی کسی کو اسی طرح پکڑ کر لے آؤں گی اور کہوں گی کہ یہ لڑکی مجھے بہت اچھی لگتی ہے… اب اسے بھی رخشی والا اسٹیٹس ملنا چاہیے۔” سونیا نے جیسے اسے دھمکایا۔
”خیر رخشی والا اسٹیٹس تو اسے نہیں دیا جاسکتا مگر یہ وعدہ ضرور کرتی ہوں کہ اسے اس سے زیادہ عزت ملے گی جتنی تم رخشی کو دے رہی ہو۔”
”یعنی اسے کوئی عزت نہیں ملے گی کیونکہ میں تو رخشی کو ذرہ برابر بھی عزت نہیں دے رہی۔” سونیا نے کچھ چبھتے ہوئے انداز میں کہا۔
”میں نہیں جانتی تھی سونیا کہ تم اتنی جیلس ہو گی… بچوں کی طرح ایک فضول بات پر بحث کر رہی ہو چھوڑو اسے، کوئی اور بات کریں۔”
اس بار امبر نے ہلکا سا قہقہہ لگاتے ہوئے سونیا کے کندھے کو نرمی سے تھپکا۔ سونیا پر اس کی بات کا کوئی اثر ہوا یا نہیں، امبر کو اندازہ نہیں ہوا۔ مگر یہ ضرور ہوا کہ سونیا اس وقت بحث ختم کرکے خاموش ہو گئی۔
اپنی دوستوں کے برعکس امبر کو رخشی بہت دلچسپ لگی تھی… وہ بہت خوش مزاج تھی۔ امبر کو اس کی اور اپنی بہت سی عادتیں ایک جیسی لگیں۔رخشی بہت کرید کرید کر ہر بات پوچھا کرتی تھی اور امبر بہت لاپرواہی کے ساتھ اسے اس کے سوال کا جواب دے دیا کرتی تھی۔ رخشی کے برعکس وہ خود زیادہ سوال کرنے کی عادی نہیں تھی۔
٭٭٭
”میرے ساتھ میرے گھر چلو گی؟” رخشی سے چند ملاقاتوں کے بعد ہی ایک دن امبر نے بڑی بے تکلفی سے اسے اپنے ساتھ گھر چلنے کی دعوت دی۔
”تمہارے گھر؟” رخشی اس کی دعوت پر جیسے گڑبڑا گئی۔
”ہاں بھئی میرے گھر…” امبر اس کی گڑبڑاہٹ سے محظوظ ہوئی ”تمہیں اپنے گھر والوں سے ملواؤں گی… اپنے بہن بھائیوں سے… اپنے پیرنٹس سے۔”
”مگر میں نے تو اس بارے میں سوچا نہیں ہے۔” رخشی ابھی بھی متامل تھی۔
”کس بارے میں؟” امبر نے کچھ حیرت سے اسے دیکھا۔
”تمہارے گھر چلنے کے بارے میں۔”
”اس میں سوچنے والی کیا بات ہے۔ ہم فرینڈز ہیں، ایک دوسرے کے گھر تو آنا چاہیے… اگر تم مجھے اپنے گھر نہیں بلاتیں تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ میں بھی تمہیں اپنے گھر نہیں بلاؤں گی۔” امبر نے کہا۔
”نہیں، ایسی بتا نہیں ہے۔ میں تو خود بھی تمہیں اپنے گھر آنے کی دعوت دینا چاہتی تھی مگر پھر مجھے خیال آیا کہ شاید تم نہ آؤ۔” رخشی نے اس کی بات کے جواب میںکہا۔
”کیوں تمہیں یہ خیال کیوں آیا؟” امبر نے فوراً اس سے کہا۔
”بس ایسے ہی… ابھی کچھ دن ہی تو ہوئے ہیں ہماری دوستی کو… اس لیے میں نے سوچا کہ شاید تمہیں اعتراض ہو۔”
”مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے… بہر حال اب تو میں نے پہلے تمہیں دعوت دے دی ہے۔ اب تم میرے گھر چلو۔”
”ہاں میں چلوں گی، مگر ابھی نہیں۔” رخشی کچھ متذبذب تھی۔
”کیوں ابھی کیوں نہیں؟” امبر نے فوراً پوچھا۔
”میں نے ابھی اپنی امی سے پوچھا نہیں؟”
”کس بارے میں؟” امبر نے کچھ حیران ہو کر پوچھا۔
”تمہارے گھر جانے کے بارے میں۔”
”دوست کے گھر جانے کے لیے امی سے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے… چند گھنٹوں ہی کی تو بات ہے۔”
”ہاں وہ ٹھیک ہے مگر پھر بھی… میری امی پریشان ہو جاتی ہیں اس لیے میں انہیں بتائے بغیر کہیں نہیں جاتی۔” رخشی نے اپنے ہونٹوں پر مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔
”اچھا ٹھیک ہے۔ پھر تم اپنی امی سے اجازت لے لو اور میں کل تمہیں اپنے ساتھ لے جاؤںگی۔” امبر نے کچھ سوچنے کے بعد کہا۔
”نہیں امبر کل نہیں۔” رخشی نے کہا۔
”کیوں کل کیوں نہیں؟”
”امی اتنی جلدی تو اجازت نہیں دیں گی کہ آج ان سے پوچھا اور کل میں تمہارے ساتھ چل پڑوں… ویسے بھی ابھی وہ تمہارے بارے میں اتنا جانتی بھی تو نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے، وہ اجازت نہ دیں۔” رخشی نے اس سے کہا۔
”یہ کیا بات ہوئی… اجازت نہیں دیں گی؟ کیا تم نے ان کو میرے بارے میں نہیں بتایا؟”
”بتایا ہے مگر یہ تھوڑی بتایا ہے کہ تم اس طرح مجھے اپنے گھر لے جانے کے بارے میں کہہ رہی ہو…”
”میں خود تمہارے گھر چلوں گی اور تمہاری امی سے اجازت لے لوں گی۔ پھر تو کوئی مسئلہ نہیں رہے گا۔ انہیں یقین آجائے گا کہ میں کوئی بری لڑکی نہیں ہوں۔”
”نہیں نہیں… ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ بس میری امی کچھ زیادہ ہی محتاط رہتی ہیں اس معاملے میں، ہر جگہ جانے نہیں دیتیں ہمیں۔”
”پھر آج تم میرے گھر مت چلو… میں تمہارے گھر چلتی ہوں۔” امبر نے یک دم اس سے کہا۔
”میرے گھر؟” رخشی کے چہرے پر ہلکی سی گھبراہٹ نمودار ہوئی۔
”ہاں کیوں… کیا اب تم مجھے اپنے گھر لے جانا نہیں چاہتیں، یاتمہیں اس کے لیے بھی اپنی امی کی اجازت کی ضرورت ہے؟” امبر نے مسکرائے ہوئے رخشی کے چہرے کے تاثرات دیکھے۔
”نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے… تم چلو میرے ساتھ… امی تو بہت خوش ہوں گی تمہیں دیکھ کر۔” رخشی نے یک دم جیسے خود کو سنبھال لیا۔
”اور پھر میں تمہاری امی سے تمہیں اپنے گھر لے جانے کے لیے اجازت بھی لے لوں گی۔” امبر نے رخشی کے لہجے پر غور کیے بغیر کہا۔
اس دن کالج سے واپسی پر وہ رخشی کے ساتھ اپنی گاڑی میں اس کے گھر گئی۔ گاڑی کو بہت پیچھے سڑک پر کھڑا کرنا پڑا اور پھر وہ رخشی کے ساتھ ان تنگ اور پتلی گلیوں سے گزر کر ایک قدرے بڑے گھر کے سامنے جارکی۔ وہ گھر ان گلیوں کے چند اچھے گھروں میں سے ایک تھا اور خاصا بڑا بھی تھا۔ امبر زندگی میں پہلی بار شہر کے اس حصے میں آئی تھی اور رخشی کی توقعات کے برعکس اس کے چہرے پر کسی قسم کی کوئی ناگواری نہیں تھی۔ وہ دلچسپی سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے پورا رستہ اس سے باتیں کرتی آئی تھی اور اس نے ایک بار بھی یہ نہیں کہا تھا کہ وہ کہاں رہتی ہے یا یہ کہ اسے وہ علاقہ اچھا نہیں لگا۔ حالانکہ رخشی کے دل میں یہ خوف ضرور موجود تھا۔
رخشی کے دستک دینے پر رخشی کی امی نے ہی دروازہ کھولا تھا۔ رسمی سلام دعا کے بعد وہ رخشی اور اس کی امی کے ساتھ اندر چلی گئی… گھر کو خاصے اچھے طریقے سے رکھا گیا تھا اور گھر کی حالت دیکھ کر ایسا نہیں لگ رہا تھا کہ مکین کسی قسم کی مالی مشکلات کا شکار ہو سکتے ہیں۔ رخشی کی طرح اس کی امی بھی بہت خوبصورت تھیں… اور امبر کو یہ دیکھ کر قدرے حیرانی ہوئی کہ وہ اپنے ارد گرد کے ماحول کے برعکس اپنے لباس اور وضع قطع سے بہت ماڈرن نظر آرہی تھیں… جدید طرز کے لباس او رکٹے ہوئے بالوں کے ساتھ وہ اتنی کم عمر لگ رہی تھیں کہ امبر کے لیے یہ یقین کرنا قدرے مشکل ہو گیا کہ وہ رخشی کی امی ہیں… رخشی کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے بعد اس کا اندازہ یہی تھا کہ اس کی امی زیادہ ماڈرن نہیں ہو ںگی… بلکہ انہیں ان کی سوچ خاصی قدامت پرست بھی لگی تھی مگر اب رخشی کی امی کی وضع قطع دیکھنے کے بعد اسے اس بات پر حیرت ہو رہی تھی کہ وہ رخشی کو اپنی فرینڈز کے ہاں آنے جانے سے روکتی ہوں گی۔
”رخشی نے بہت بار تمہارا ذکر کیا ہے… بلکہ سچ تو یہ ہے کہ آج کل یہ ہر وقت تمہارا ہی ذکر کرتی رہتی ہے۔” رخشی کی امی نے ڈرائنگ روم میں امبر کو بٹھاتے ہوئے کہا۔ ‘یہ تمہاری اتنی تعریفیں کرتی رہتی تھی کہ میرا تو دل چاہنے لگا تھا تم سے ملنے کو… اچھا ہی ہوا کہ تم خود یہاں آگئیں اور اب تمہیں دیکھ کر مجھے رخشی کی باتوں پر یقین آگیا ہے ورنہ پہلے میں سمجھتی تھی کہ وہ ہر بات کو بڑھاتی چڑھاتی رہتی ہے۔ اس لیے تمہارے بارے میں بھی ہر بات بڑھا چڑھا کر کر رہی ہے۔”
امبر نے مسکرا کر رخشی کو دیکھا اور پھر اس کی امی سے کہا۔
”اگر آپ میری ممی سے ملیں گی تو وہ بھی آپ کو یہی بتائیں گی کہ میں بھی پچھلے چند دنوں سے رخشی ہی کی باتیں کرتی رہتی ہوں… مجھے لگتا ہے ایک دوسرے کے بارے میں ہم دونوں کی فیلنگز ایک جیسی ہیں۔” اس کی امی اس بات پر مسکرائیں۔
”آنٹی! میں آپ سے ایک بات کی اجازت لینے کے لیے یہاں آئی ہوں۔” امبر نے فوراً ہی کہا۔
”کس بات کی؟”
”میں رخشی کو اپنے گھر لے جانا چاہتی ہوں، مگر رخشی بتا رہی تھی کہ آپ اس بات کو پسند نہیں کریں گی۔ اسی لیے میں خود اس کے ساتھ یہاں آئی ہوں تاکہ آپ سے اجازت لے سکوں۔”
”ہاں رخشی زیادہ کہیں آتی جاتی نہیں ہے… آج کل ماحول بہت خراب ہے۔ پتا نہیں چلتا کہ کون کیسا ہو اسی لیے میں اپنے بچوں کو کہیں آنے جانے سے روکتی ہوں۔” رخشی کی امی نے قدرے وضاحت کرنے والے انداز میں کہا۔
”مگر آنٹی! میرے گھر آنے سے تو نہ روکیں… آپ نے تو مجھے دیکھ ہی لیا ہے… بلکہ آپ چاہیں تو خود بھی رخشی کے ساتھ آجائیں۔ ڈرائیور آپ لوگوں کو پک اور ڈراپ کر دے گا۔” امبر نے بڑی فیاضانہ پیش کش کرتے ہوئے کہا۔
”نہیں خیر ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ میں رخشی کو تمہارے یہاں جانے سے نہیں روکوں گی۔” اس کی امی نے مسکرا کر کہا۔ امبر ان کی بات پر بے اختیار مسکرائی۔
”مگر یہ ہے کہ کوئی فنکشن ہو تو آنا جانا بھی اچھا لگتا ہے۔ بغیر کسی فنکشن کے کسی کے گھر جانا کچھ زیادہ مناسب معلوم نہیں ہوتا۔”اس کی امی کے اگلے جملے نے امبر کی مسکراہٹ کو مدھم کر دیا۔
”مگر آنٹی! اگر کوئی فنکشن نہ ہو تو پھر بندہ کیا کرے۔ میری فرینڈز تو فنکشن کے بغیر ہی میرے گھر آتی رہتی ہیں اور خود میں بھی ان کے گھر جاتی رہتی ہوں… اگر فنکشن کا انتظار کیا جائے تو پھر تو شاید کئی ماہ ایک دوسرے کے گھر آنا جانا نہیں ہو سکے گا۔” امبر نے کچھ مایوسی سے کہا۔ ”لیکن اگر آپ کی یہی شرط ہے تو میں رخشی کے لیے کوئی فنکشن رکھ لیتی ہوں اپنے گھر… کم از کم آپ اسے میرے گھر تو آنے دیں گی۔”
امبر کی بات پر رخشی اور اس کی امی دونوں مسکرا دیں۔
”تم فکر مت کرو، میں فنکشن کے بغیر ہی تمہارے گھر آؤں گی… اب تم چائے تو پیو۔” رخشی نے تسلی دینے والے اندازمیں امبر سے کہا اور چائے کی اس ٹرالی کو اپنی طرف گھسیٹ لیا جو اس کی بہن لے کر اندر داخل ہوئی تھی۔
٭٭٭
دو دن بعد رخشی کالج سے امبر کے گھر آگئی تھی اور پھر یہ آنا جانا جیسے ایک معمول بن گیا تھا۔ وہ امبر کے ساتھ ہی کالج سے گھر چلی آتی اور پھر شام کو امبر اسے اس کے گھر ڈراپ کر دیتی۔ وہ دونوں اکثر گھر پر بھی اس ڈرامہ کی ریہرسل کرتی رہتیں…
اگر رخشی کی امی کو امبر اچھی لگی تھی اور انہوں نے اس کی تعریف کی تھی تو دوسری طرف منیزہ کی رائے رخشی کے معاملے میں کچھ اچھی نہیں تھی۔
پہلے دن ہی جب امبر اسے لے کر گھر آئی تھی انہو ںنے رخشی سے اس کے خاندان کے بارے میں پوچھنا شروع کر دیا تھا… وہ کہاں رہتی ہے۔ اس کے والدکیا کرتے ہیں، ان کی مالی حالت کیسی ہے۔ ان کا گھر کیسا ہے… ان میں سے کسی سوال کا جواب بھی منیزہ کو ایسا نہیں ملا تھا جس سے منیزہ مطمئن یا خوش ہو جاتیں۔ امبر کے برعکس وہ کلاس اور اسٹیٹس کانشیس تھیں۔ وہ شروع سے ہی اپنے بچوں کا ایسے بچوں کے ساتھ میل ملاپ پسند نہیں کرتی تھیں جن کے خاندانو ںکی مالی حیثیت ان سے کم ہوتی… بیرون ملک قیام کے دوران بھی اس بات پر زور دیتی رہی تھیں کہ ان کے بچوں کی کمپنی ”اچھی” ہو… اور ان کے نزدیک اچھے ہونے کا واحد معیار امیر ہونا تھا… اپنے دوسرے بچوں سے انہیں کبھی کوئی شکایت نہں ہوئی تھی یا کم از کم اس حد تک شکایت نہیں رہتی تھی جس حد تک امبر سے ہوتی تھی… وہ شروع ہی سے ماں کے برعکس ایسے معاملات میں خاصی لاپرواہ تھی۔ کوئی کس فیملی سے تعلق رکھتا تھا کس سے نہیں… اس کے نزدیک یہ خاصی ثانوی بات تھی۔ اسکول میں اسے جو بھی اچھا لگتا، وہ اس کے ساتھ دوستی کر لیتی۔ یہ دیکھے یہ سوچے بغیر کہ ایسی دوستیوں اور تعلقات پر منیزہ کا ردعمل کیا ہوگا… منیزہ کی لاکھ ہدایتوں اور نصیحتوں کا بھی اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا… واحد راستہ جو منیزہ کے پاس رہ جاتا تھا۔ وہ ڈانٹ ڈپٹ تھی اور امبر کو ڈانٹنے کا مطلب منصور علی کی ناراضی مول لینا تھی اور وہ اس بات سے خائف رہتی تھیں کیونکہ وہ امبر کے ذریعے منصور سے اپنی بہت سی فرمائشیں پوری کروایا کرتی تھیں۔
امبر کو اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ اس کی دوستوں کی طرح منیزہ بھی رخشی کو ناپسند کر رہی تھی اس کے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ اسے وہ پسند تھی اور نہ صرف وہ اسے پسند کرتی تھی بلکہ رخشی بھی اسے پسند کرتی تھی… کسی سے میل ملاپ کے لیے یہ پسندیدگی ہی اس کا واحد معیار تھی اور رخشی کو بھی اس نے اسی معیار پر پرکھا تھا۔