تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۴

”اب آپ لوگوں کی باری ہے… آپ لوگ اندر چلے جائیں۔” باقر شیرازی کے پی اے نے وزیٹرز روم میں آ تے ہوئے کہا۔ جہاں زرقا اور شمشاد بیگم بیٹھی تھیں۔ پی اے انہیں اطلاع دے کر باہر نکل گیا۔
زرقا نے اپنا پرس کھول کر جلدی سے اس میں سے فیس پاؤڈر نکال لیا اور اسے کھول کر اپنے چہرے پر پاؤڈر کی تہہ نئے سرے سے جمانے لگی۔ اس کی ماں شمشاد بیگم کھڑے ہو کر اپنی ساڑھی کو ٹھیک کرنے میں مصروف تھی۔
فیس پاؤڈر لگانے کے بعد زرقا نے ایک تیز سرخ رنگ کی لپ اسٹک نکالی اور اسے ایک بار پھر ہونٹوں پر پھیرنے لگی۔ لپ اسٹک اس کے ہونٹوں پر پہلے سے موجود لپ اسٹک میں کوئی تبدیلی نہیں لائی۔ وہ پہلے بھی اتنی ہی گہری اور تازہ تھی۔
شمشاد بیگم اب اپنی کلائی میں ڈالی ہوئی پوٹلی کا منہ کھولے اس میں سے پان کی ایک نئی گلوری نکال کر اپنے بائیں طرف کے گال میں دبا رہی تھی۔ گلوری منہ میں دبانے کے بعد انہوں نے زبان کی نوک کو ذرا سا باہر نکالتے ہوئے انگلیوں کی پوروں پر لگے کتھے چونے کو باری باری چاٹا اور پھر بڑے اطمینان سے پوٹلی کی ڈوری کھینچ کر اس کا منہ بند کر دیا۔
زرقا بھی اب کھڑی ہو چکی تھی اور ساڑھی کے بلاؤز کو ٹھیک کرنے اور پلو کو نئے سرے سے لپیٹنے میں مصروف تھی۔ وہ کچھ نروس نظر آرہی تھی۔
پی اے نے ایک بار پھر کمرے میں جھانک کر دیکھا۔
”آپ آجائیں۔ شیرازی صاحب آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔” اس بار شمشاد بیگم اور زرقا مزید وقت ضائع کیے بغیر وزیٹرز روم سے نکل گئیں۔
”آئیں جناب! میں آپ ہی کا انتظار کر رہا تھا۔”




ان دونوں کے کمرے میں داخل ہوتے ہی باقر شیرازی نے کہا۔ وہ اپنی کرسی سے اٹھ کر کمرے کے وسط میں آگیا۔ اس نے بڑی گرم جوشی سے زرقا سے ہاتھ ملایا اور پھر بڑی بے تکلفی سے اس کے کندھے کے گرد بازو پھیلائے کمرے کے ایک کونے میں موجود صوفہ کی طرف آگیا۔
شمشاد بیگم اور زرقا کو اس کی اس گرم جوشی نے کچھ اور نروس کیا شاید وہ اس کی توقع نہیں کر رہی تھیں۔
ان دونوں کو صوفہ پر بٹھاتے ہوئے اس نے پوچھا۔
”پہلے تو یہ بتایئے جناب کہ آپ کیا پینا پسند کریں گی؟ کافی، چائے، سوفٹ ڈرنک؟” اس نے زرقا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
”کچھ بھی… جو آپ حکم کریں۔” وہ کچھ گڑبڑا کر بولی۔
”ارے ہم حکم کریں؟… بھئی آپ حکم کریں، مہربان آپ ہیں… مہمان آپ ہیں۔”
”چائے ہی ٹھیک رہے گی شیرازی صاحب۔” شمشاد بیگم نے خوشامدانہ مسکراہٹ کے ساتھ مداخلت کی۔
”ٹھیک ہے۔ چائے پلوائے دیتے ہیں۔”
باقر شیرازی نے خوش دلی سے کہا اور اپنی آفس ٹیبل کی طرف بڑھ گیا۔ کھڑے کھڑے اس نے انٹرکام پر لوازمات کے ساتھ چائے لانے کی ہدایت دی اور پھر مسکراتا ہوا واپس ان کی طرف پلٹ آیا۔
زرقا کے پاس صوفہ پر بیٹھتے ہی اس نے زرقا سے پوچھا۔
”ڈیڑھ سال ہوگیا… آپ نے ایسا فراموش کیا ہمیں کہ کوئی رابطہ ہی نہیں رکھا۔ ایسی کیا خطا کر بیٹھے ہم؟”
”شیرازی صاحب! کیوں گناہگار کر رہے ہیں ہمیں… ہم کیا اور ہماری بساط کیا کہ آپ کو فراموش کریں۔” زرقا نے بے اختیار کہا۔
”تو پھر غائب کہاں تھیں آپ؟”
”لیں شیرازی صاحب! رابطے ہم نے توڑے؟ رابطے تو آپ نے توڑے۔ ملنا جلنا تو آپ نے ختم کیا۔ ہم تو آج تک اسی طرح دیدہ و دل فرش راہ کیے بیٹھے ہیں۔” شمشاد بیگم نے پان چباتے ہوئے مسکرا کر کہا۔
”چلیں، ہمیں سے ہی خطا ہوگئی… مگر آپ نے بھی تو رابطے میں رہنے کی کوشش نہیں کی۔”
باقر شیرازی نے مسکرا کر کہا۔ اس سے پہلے کہ شمشاد بیگم کچھ کہتی۔ ایک چپراسی چائے کی ٹرالی کے ساتھ دروازہ بجا کر اندر داخل ہوگیا۔ باقر شیرازی کی توجہ فوری طور پر اس کی طرف مرکوز ہوگئی۔
چپراسی ٹرالی ان کے پاس پہنچانے کے بعد باقر شیرازی کے کہنے پر باہر نکل گیا۔
زرقا نے خود بخود ہی چائے بنانے کی ذمہ داری لے لی۔
”بھئی، ہم تو آپ کی آواز سننے کو ترس گئے ہیں۔” باقر شیرازی نے زرقا سے چائے کا کپ لیتے ہوئے کہا۔ ”ایک ہی آواز پسند تھی ہمیں اور آپ نے ہمیں اس سے بھی محروم کر دیا… کیا ظلم کیا۔”
نا حق ہم مجبوروں پر تہمت ہے مختاری کی
جو چاہے سو آپ کرے ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
زرقا نے بے اختیار ایک شعر پڑھا اور باقر شیرازی نے بے اختیار قہقہہ لگایا۔
”میں تو ساری عمر آپ کے قدموں میں بیٹھنے کو تیار تھی۔ یہ تو بس آپ نے ہی کرم نہیں کیا۔” زرقا نے شکوہ کرتے ہوئے کہا۔
”اور آپ اتنی سی بات پر ناراض ہوگئیں۔” باقر شیرازی نے چائے کا گھونٹ بھرا۔
”اتنی سی بات؟ کیا کہنے جناب کے… آپ کے لیے تو ہر بات ہی اتنی سی بات ہے مگر میرے جیسے خاک نشینوں کے لیے یہ اتنی سی بات نہیں تھی۔” اس نے جیسے کچھ جتایا۔
”چلیں۔ ماضی کو چھوڑیں۔ ہم بھی گڑے مردے اکھاڑنے بیٹھ گئے ہیں۔ یہ بتایئے کہ ہمیں خدمت کا موقع کیسے دیا؟” باقر شیرازی نے بڑے خوبصورت انداز میں گفتگو کو موضوع بدلتے ہوئے کہا۔
”لیں سرکار! کیا بات کر دی آپ نے… خدمت کا موقع؟… ہم تو آپ کی نوازش کے طلبگار ہیں… درخواست لے کر آئے ہیں آپ کے پاس۔” شمشاد بیگم نے پیسٹری نگلتے ہوئے خوشامدانہ انداز میں کہا۔
”درخواست نہیں… آپ حکم کریں۔” باقر شیرازی نے اس کی بات کاٹتے ہوئے مسکرا کر کہا۔
”بچی کو آپ جانتے ہی ہیں، موسیقی سے کتنا لگاؤ ہے۔” شمشاد بیگم نے زرقا کی طرف ہاتھ کے اشارے سے کہا۔ ”آواز سے بھی آپ واقف ہیں۔ لاکھوں میں نہیں… ہزاروں میں تو ایک ہے۔”
”بے شک۔” باقر شیرازی نے تائید کی۔
”سنا ہے، حکومت بیرون ملک ثقافتی طائفے بھیج رہی ہے، گانے والوں کو بھی بھجوا رہی ہے… بچی کو بھی شوق ہے۔ آپ کرم کریں تو اسے بھی موقع مل سکتا ہے… ملک کی خدمت کا… کچھ نام ہو جائے گا… کچھ پہچان بن جائے گی اور چار پیسے بھی آجائیں گے… مجھ سے ضد کر رہی تھی تو میں نے کہا کہ شیرازی صاحب کے علاوہ اور ہمارا جاننے والا مہربان ہے کون… چلو ان ہی کے پاس چلتے ہیں۔” شمشاد بیگم نے خوشامدانہ انداز میں کہا۔
”کس طائفے کے ساتھ جانا چاہتی ہیں؟” باقر شیرازی نے پرسکون انداز میں کہا۔
”کسی بھی طائفے کے ساتھ بھجوا دیں۔” شمشاد بیگم نے جلدی سے کہا۔
”آپ جس طائفے کے ساتھ کہیں گی، اس کے ساتھ بھجواؤں گا۔” باقر شیرازی نے چائے کا کپ واپس ٹرالی میں رکھتے ہوئے کہا۔
باقر شیرازی نے اپنی آفس ٹیبل کے قریب جاکر انٹرکام پر اپنے پی اے سے رابطہ کیا۔
”آرٹس کونسل کے ڈائریکٹر جنرل سے بات کروائیں یا ٹھہریں، بات نہ کروائیں… ان سے پوچھیں کہ اس سال پاکستان کے کتنے کلچرل گروپ باہر جا رہے ہیں اور کہاں کہاں جا رہے ہیں… مجھے ابھی دس منٹ کے اندر تفصیلات چاہئیں۔” اس نے انٹرکام بند کر دیا۔
ٹھیک دس منٹ کے بعد پی اے اس کے آفس میں داخل ہوا اور چند پیپرز اس کے ہاتھ میں تھما دیئے۔ باقر شیرازی نے اس کے جانے کے بعد ان پیپرز پر نظر دوڑانا شروع کر دی پھر اس نے باری باری ان ٹروپس کی تفصیلات سے انہیں آگاہ کرنا شروع کر دیا۔
”مجھے روس بھجوا دیں۔” زرقا نے ساری تفصیلات سننے کے بعد کہا۔
”آل رائٹ۔” باقر شیرازی نے پی اے کو انٹرکام پر آرٹس کونسل کے ڈائریکٹر جنرل سے رابطہ کرنے کے لیے کہا۔
”منسٹری آف کلچر میں میں بات کرلوں گا۔ آپ ایک گھنٹے کے اندر اندر زرقا بیگم کے انتخاب کے تحریری احکامات میرے آفس پہنچا دیں۔ ان کا پاسپورٹ اور ویزے کے لیے دوسرے پیپرز میں کل صبح آپ کو بھجوا دوں گا۔”
باقر شیرازی نے فون پر بات ختم کرکے زرقا کی طرف مسکرا کر دیکھا۔
ٹھیک ایک گھنٹہ کے بعد زرقا نے باقر شیرازی کے آفس میں وہ لفافہ وصول کیا تھا جس میں اسے اس طائفے میں شامل کیے جانے سے آگاہ کیا گیا تھا۔
زرقا کے لیے یہ سب ناقابل یقین تھا۔ باقر شیرازی کا رویہ اگر اس کے لیے حیران کن تھا تو اس کی مدد اس سے بھی زیادہ ناقابل فراموش۔
وہ دونوں کوشش کے باوجود اپنے چہروں پر چھلکتی خوشی پر قابو پانے میں ناکام ہو رہی تھیں۔
”یہ دروازہ ہمیشہ آپ کے لیے کھلا ہے گا زرقا جی… جب جی چاہے آجائیں… اور جب جی چاہے ہمیں اپنی خدمت کا موقع دیں۔” وہ اپنے آفس کے دروازے تک انہیں چھوڑنے آیا۔ زرقا کی ممنونیت اور احسان مندی میں کچھ اور اضافہ ہوگیا۔
باقر شیرازی نے شہرت کی سیڑھی پر چڑھنے کے لیے اسے پہلا پائیدان فراہم کر دیا تھا۔ وہ پائیدان جس کی تلاش اسے بہت سالوں سے تھی۔
٭٭٭
”میرے ماں باپ ٹھیک کہتے تھے۔ مجھے تم سے شادی نہیں کرنی چاہیے تھی۔ تم… تم، انسان ہو ہی نہیں سکتے۔ انسانوں کی قبیل سے تمہارا تعلق ہے ہی نہیں۔” وہ تاسف سے سر ہلاتے ہوئے بولی۔
ہارون نے ہونٹ بھنیچتے ہوئے اسے دیکھا۔
”اگر تمہیں اپنے ماں باپ کی نصیحتیں اتنی یاد آرہی ہیں تو بہتر ہے، تم ان ہی کے پاس واپس چلی جاؤ۔ میرا تعلق انسانوں سے نہیں ہے تو پھر تمہیں میرے ساتھ نہیں رہنا چاہیے، کسی انسان کے ساتھ رہنا چاہیے۔” وہ زہریلے انداز میں ہنسا۔ ”تمہارا پاسپورٹ تمہارے پاس ہے۔ فون کرکے سیٹ بک کرواؤ اور واپس چلی جاؤ، چاہو تو یہ کام تمہارے لیے میں کر دیتا ہوں۔”
وہ دم سادھے اس کو دیکھتی رہی۔ ہارون نے سگریٹ سلگایا۔ اس کے چہرے پر کسی پریشانی کے آثار نہیں تھے۔ شائستہ نے خود کو بے بسی کی انتہا پر پایا تھا۔ بھیگی آنکھوں کے ساتھ ہونٹ کاٹتے ہوئے وہ اسے دیکھی رہ گئی جس کے چہرے اور آنکھوں میں اس کے لیے سرد مہری اور بے نیازی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں تھا۔
”تم جانتے ہو، ہماری شادی کو کتنے دن ہوئیء ہیں؟”
”بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔”
”اور تم مجھے اس طرح واپس جانے کے لیے کہہ رہے ہو؟” شائستہ نے جیسے بے یقینی سے کہا۔
”تو مجھے تم سے اور کیا کہنا چاہیے؟”
”تمہیں اندازہ ہے کہ میں نے تمہارے لیے کیا کیا ہے؟”
”میں نے بھی بہت کچھ کیا ہے تمہارے لیے۔” ہارون نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
شائستہ نے اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی۔
”شادی کو چند ہفتے نہیں ہوئے اور تم مجھے واپس بھیج رہے ہو، یہ محبت ہے تمہاری؟ میرے ساتھ یہ سب کچھ کرنے کے لیے شادی کی تھی تم نے۔” اس نے دل گرفتی سے کہا۔
”تم مجھ سے شادی کرکے پچھتا رہی ہو اس لیے واپس جانے کا کہہ رہا ہوں۔”
شائستہ نے اس کی بات پر دھیان نہیں دیا۔ ”کس منہ سے جاسکتی ہوں میں اپنے ماں باپ کے پاس۔ تمہارے لیے میں ان سے لڑتی رہی ہوں۔ تمہارے لیے میں نے انہیں ناراض کیا۔ خاندان میں ان کی سبکی کروائی، اپنی منگنی تک توڑ دی اور…” وہ طیش میں آگئی تھی۔
ہارون نے برہمی سے اس کی بات کاٹ دی۔
”میرے لیے تم نے کیا کیا؟ اس کی فہرست میرے سامنے پیش نہ کرو، کتنی بار مجھ پر احسان جتاؤ گی تم؟
مجھ سے دوبارہ کبھی یہ نہ کہنا کہ تم نے میرے لیے کچھ کیا ہے۔ تمہیں بھی مجھ میں اتنی ہی دلچسپی تھی جتنی مجھے، اگر ایسا نہ ہوتا تو تم کبھی میرے ساتھ کورٹ میرج پر تیار نہ ہوتیں۔ جو کام تم نے اپنی خواہش پر کیا ہے، اس کا احسان تم میرے سر پر کیوں رکھ رہی ہو؟” وہ بری طرح مشتعل ہو گیا تھا۔
”میرے لیے یہ کیا، میرے لیے وہ کیا، ختم کرو اس کہانی کو۔ میں تمہاری ان سروسز پر تمہیں وکٹوریہ کراس نہیں پیش کرسکتا۔”
اس نے سگریٹ ایش ٹرے میں پھینکا۔
”بہتر ہوتا تم میرے لیے کچھ بھی نہ کرتیں۔ آرام سے مجھے صاف صاف بتا دیتیں کہ تم مجھ سے شادی افورڈ نہیں کر سکتیں اور ساتھ یہ بھی بتا دیتیں کہ ساری عمر تم اسی طرح مجھ پر احسان جتاؤ گی تو میں تم سے شادی پر کبھی غور نہ کرتا تم نے تو ہر چیز کو تماشا بنا کر رکھ دیا ہے۔” اس نے ایک اور سگریٹ سلگایا۔
”یہ آزادی اور یہ زندگی، تمہاری خواہش تھی… تمہیں ہی برا لگتا تھا، اپنے باپ کے گھر کا ماحول۔ ان کی پابندیاں، برقع۔”




Loading

Read Previous

میرے آسماں سے ذرا پرے — مونا نقوی

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۵

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!