”ایسا ہے تو بہت اچھا ہے وہ واقعی اس رول کی مستحق ہے۔” امبر نے خوش دلی سے کہا۔
ذرا اسکرپٹ کو دیکھو کیا کوئی اور رول باقی ہیں؟” سونیا نے کہا۔
”نہیں اور تو کوئی رول نہیں ہیں ہر ایک کے سامنے ایکٹرز کے نام لکھے ہوئے ہیں۔” حفصہ نے اسکرپٹ کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔
”تو پھر وہ لڑکی کون سا رول کرے گی؟” امبر نے پھر سوچتے ہوئے کہا۔
”سنو وائٹ سے کم کا تو کوئی رول Deserve نہیں کرتی۔”
”مگر سنو وائٹ کا رول تو مسز عاکف تم سے کروانا چاہتی ہیں۔” سونیا نے اسے یاد کروایا۔
”ہو سکتا ہے، تب تک انہو ںنے اس لڑکی کو دیکھا ہی نہ ہو اور اسے دیکھنے کے بعد اب وہ اپنی چوائس پر پچھتا رہی ہوں۔ تم نے دیکھا ہے وہ لڑکی میرے بعد گئی تھی۔” امبر نے اپنا خیال ظاہر کرتے ہوئے کہا۔
”تم ماڈلنگ وغیرہ کو چھوڑو ، تم یہ پلے کرو۔ میری چھٹی حس کہہ رہی ہے کہ یہ پلے بہت کامیاب ہو گا۔”
سعدیہ نے امبر کو مشورہ دیا۔ ”ہاں میرا بھی یہی خیال ہے… بعض دفعہ اس طرح کی سیدھی سادی چیزیں آڈیئنس پر بہت اچھا تاثر چھوڑتی ہیں… ماڈلنگ کو چھوڑو، تم یہ پلے ہی کرو۔” حفصہ نے سعدیہ کی ہاں میں ہاں ملائی۔
”عجیب لوگ ہو تم… کبھی مجھے ایک چیز کے لیے تیار کرتے ہو کبھی دوسری کے لیے۔” امبر نے برامانتے ہوئے کہا۔ ”میں فیشن شو کو چھوڑوں گی تو مسز علوی کتنا ناراض ہوں گی۔”
”مسز علوی کی بات چھوڑو، وہ ناراض ہوں گی پھر خود ہی ٹھیک ہو جائیں گی۔” سونیا نے مسئلہ کا حل پیش کرتے ہوئے کہا۔
”تم انہیں بتا دینا کہ تم دو آئٹمز پر توجہ فوکس نہیں کرسکتیں۔ وہ تمہارا مسئلہ سمجھ جائیں گی، آخر انہوں نے خود ہی تمہیں اس رول کے لیے بھیجا تھا۔”
وہ سب اس کمرے کے باہر کوریڈور میں کھڑی تھیں اور بلند آواز میں گفتگو کر رہی تھیں۔ اس دوران کمرے سے وہی دونوں لڑکیاں باہر نکل آئی تھیں۔ ایک بار پھر ان سب میں نظروں کا تبادلہ ہوا پھر وہ کوریڈور سے نکلتے ہوئے وہاں سے چلی گئیں۔
”مجھے لگتا ہے، اسے کوئی رول نہیں ملا۔” امبر کی توجہ بٹ گئی۔
”تمہیں کیسے پتا؟” سونیا نے کہا۔
”اس کے ہاتھ میں اسکرپٹ کی کوئی کاپی نہیں تھی۔” امبرنے کہا۔
”ملنا چاہیے تھا اسے رول… یار اسے ملنا چاہیے تھا۔” امبر کو جیسے افسوس ہوا تھا۔
”تمہیں اس سے اتنی ہمدردی کیوں محسوس ہو رہی ہے… اپنے رول پر تم رو رہی ہو اور اس کے لیے تمہارے دل میں ہمدردی کے طوفان اٹھ رہے ہیں۔” سونیا کو اعتراض ہوا۔
”خوبصورتی ہمیشہ اسے متاثر کرتی ہے۔”
حفصہ نے امبر کو دیکھتے ہوئے مسکراتے ہوئے کہا۔ ”یہ ہمدردی بھی اسی وجہ سے ہے۔”
”تم جو چاہے کہو، میں اس لڑکی سے متاثر ہوئی ہوں اور میں یہ بات کیوں چھپاؤں۔” امبر نے بے دھڑک انداز میں کہا۔
”ہو سکتا ہے وہ بھی تمہیں دیکھ کر اسی طرح متاثر ہوئی ہو۔” سونیا نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ”تمہاری طرح وہ بھی اپنی نظریں تمہارے چہرے سے ہٹا نہیں پارہی تھی۔”
امبر کچھ کہنے کے بجائے کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
”اچھا چلو اب یہاں کھڑے ہو کر زمانے کے قصیدے پڑھنے کے بجائے کوئی کلاس لے لی جائے تو بہتر ہے۔” سعدیہ نے ان کی گفتگو کے دوران مداخلت کی۔
”اب کلاس لینے کا کیا فائدہ… مسز نیلوفر کا پیریڈ شروع ہو چکا ہے اور کلاس میں آجانے کے بعد وہ کسی کو اندر آنے نہیں دیتیں۔” حفصہ نے اپنی گھڑی پر ایک نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
”چاہے خود وہ آدھ گھنٹہ لیٹ آئیں مگر کسی اسٹوڈنٹ کا پانچ منٹ بھی لیٹ آنا گوارا نہیں کر سکتیں… منافقت کی حد ہے یہ بھی۔” امبر نے کچھ تنفر سے کہا۔
”اس ہفتے یہ تیسری بار ہو گا جو ہم بَنک کریں گے۔” سعدیہ نے جیسے اعلان کیا۔
”کوئی فرق نہیں پڑتا… ان کی کلاس میں چلے جانے سے کون سا ہمارے علم میں کوئی قابلِ قدر اضافہ ہو جاتا ہے… جو نہ جانے سے قیامت آجائے گی۔” حفصہ نے کہا۔
”مگر اٹینڈنس میں تو فرق پڑے گا… وہ تو کوئی دوسرا نہیں لگا سکتا۔” سعدیہ نے جیسے یاددہانی کروائی۔
”تم ان کی Pet اسٹوڈنٹ ہو، تمہیں تو ہمیشہ فکر رہتی ہے، ان کی کلاس کی باقی ٹیچرز کی پرواہ نہیں ہے تمہیں۔ صرف مسز نیلوفر ہی یاد رہ جاتی ہیں تمہیں۔” سونیا نے کچھ مذاق اڑانے والے انداز میں کہا۔ سعدیہ نے جواب دینے کے بجائے اس کے کندھے پر مکا مارتے ہوئے وہاں سے چلنا شروع رک دیا۔ باقی سب نے اس کی پیروی کی۔
٭٭٭
امبر دوسرے دن نہ چاہتے ہوئے بھی ریہرسل کے لیے پہنچ گئی تھی اور وہاں جاتے ہی ایک بار پھر اس کا سامنا اسی لڑکی سے ہوا۔ وہ آج اس سے پہلے وہاں موجود تھی اور ایک اسکرپٹ ہاتھ میں لیے ایک کونے میں بیٹھی ڈائیلاگز دہرانے میں مصروف تھی۔ امبر کے ساتھ صرف سونیا تھی اور امبر کو اس لڑکی کو وہاں موجود پاکر نامحسوس طور پر خوشی ہوئی تھی۔
”ایک بار تم اپنا رول دیکھ لو… ڈائیلاگز تو تمہیں اب یاد ہوں گے… پندرہ منٹ کے بعد ریہرسل شروع کرتے ہیں۔”
مسز عاکف نے امبر کو دیکھتے ہی کہا۔ امبر نے سرہلا دیا۔
امبر نے اسکرپٹ کے صفحات کھنگالتے ہوئے اپنا رول پڑھنا شروع کر دیا۔ گاہے بگاہے وہ اچٹتی نظروں سے اس لڑکی کو بھی دیکھ لیتی اور اسے احساس ہو رہا تھا کہ وہ لڑکی بھی وقتاً فوقتاً اسے دیکھ رہی تھی۔
”سونیا! میرا دل چاہ رہا ہے اس لڑکی سے بات کرنے کے لیے۔” امبر نے اچانک سونیا سے کہا۔
”تو ٹھیک ہے کرلو اس سے بات، یہ کون سا بہت بڑا مسئلہ ہے جو حل ہی نہیں ہو سکتا۔” سونیا نے ہمیشہ کی طرح لاپروائی سے کندھے جھٹکتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے، آؤ پھر اس کے پاس چلیں۔” امبر نے یکدم قدم بڑھا دیا۔
وہ لڑکی انہیں اپنی طرف آتے دیکھ کر کچھ حیران نظر آئی تھی مگر امبر اور سونیا کے چہرے پر پھیلی ہوئی مسکراہٹ دیکھ کو وہ بھی دوستانہ انداز میں مسکرائی۔
”ہیلو۔” امبر نے اس کے قریب جاکر اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھا دیا۔ اس لڑکی نے امبر اور سونیا سے باری باری ہاتھ ملایا۔
”میرا نام امبر منصور علی ہے، یہ میری دوست سونیا درانی ہیں۔” امبر نے اپنا اور سونیا کا تعارف کروایا۔
”میرا نام رخشی ہے۔” اس لڑکی نے جواباً کہا۔
”ہم لوگ تھرڈ ایئر میں ہیں، آپ بھی تھرڈ ایئر میں ہیں مگر میں نے پہلے آپ کو کبھی نہیں دیکھا۔” امبر نے اس سے پوچھا۔
”مجھے یہاں آئے ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے… میں مائیگریشن کروا کر آئی ہوں۔” اس لڑکی نے مسکرا کر کہا۔
”مائیگریشن… کہاں سے آئی ہو تم؟” امبر نے بے تکلفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پوچھا۔
”یہیں ایک لوکل کالج سے، بس میری خواہش تھی کہ میں یہاں پڑھوں مگر شروع میں میرا ایڈمیشن نہیں ہو سکا… اب کچھ سفارش استعمال کرکے یہاں مائیگریشن ہو ہی گیا۔” رخشی خاصی صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔
”بہت خوبصورت ہو تم۔” امبر نے یک دم بات کا موضوع بدلتے ہوئے اس سے کہا۔
”آپ تو خود بھی بہت خوبصورت ہیں۔” رخشی نے جواباً تعریف کی۔
”تم اس پلے میں کام کر رہی ہو؟” امبر نے پوچھا۔
”ہاں!”
”اور کل میں سوچ رہی تھی کہ شاید تمہیں کوئی رول نہیں ملا۔” امبر نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”میری سلیکشن تو پہلے دن ہی ہو گئی تھی۔ کل تو میں ریہرسل کا شیڈول جاننے کے لیے آئی تھی۔” رخشی نے اس سے کہا۔
”اچھا… کیا رول کر رہی ہو؟” امبر نے کچھ تجسس سے اس سے پوچھا۔
”ملکہ کا۔” رخشی نے بتایا۔ امبر نے اس کی بات پر بے اختیار قہقہہ لگایا۔
”سنووائٹ کی اسٹیپ مدرکا؟”
”ہاں۔” رخشی نے سرہلاتے ہوئے کہا۔
”تمہیں پتا ہے، سنو وائٹ کا رول کون کر رہا ہے؟” امبر نے اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہوئے اس سے پوچھا۔
”ہاں، میں جانتی ہوں سنو وائٹ کا رول آپ کر رہی ہیں، کل مجھے پتا چل گیا تھا۔” رخشی نے مسکراتے ہوئے امبر کو بتایا۔
”یعنی تم میری اسٹیپ مدر کا رول کر رہی ہو۔” امبر محظوظ ہوتے ہوئے بولی۔
پھر تو مزہ آئے گا تمہارے ساتھ کام کرتے ہوئے۔”
”مجھے بھی آپ کے ساتھ کام کرنا اچھا لگے گا۔” رخشی نے کہا۔
”یہ کیا تم مجھے آپ آپ کہہ رہی ہو… تم کہو۔” امبر نے اس سے کہا۔
”ٹھیک ہے، اب تم ہی کہوں گی۔”
”پہلے کبھی ایکٹنگ کی ہے تم نے؟” امبر نے اس سے پوچھا۔
”ہاں میں اکثر ایسی چیزوں میں حصہ لیتی رہی ہوں۔ یہ پہلی بار نہیں ہے… تم اس سے پہلے ایسی چیزوں میں حصہ لیتی رہی ہو؟” رخشی نے اب امبر سے پوچھا۔
”کہاں یار…! مجھے تو زبردستی میری فرینڈز نے پھنسا دیا ہے… ورنہ میں نے تو کبھی ایسے کسی کام میں حصہ نہیں لیا جس میں مجھے اسٹیج پر چڑھنا پڑے۔” امبر نے بے تکلفی سے اسے بتایا۔
”حالانکہ تم کو ایسی چیزوں میں حصہ لینا چاہیے۔” رخشی نے ستائشی لہجے میں کہا۔
”اب لے تو لیا ہے… دیکھیں آگے کیا ہوتا ہے۔” امبر نے اس کے تبصرے پر کہا۔
”کچھ نہیں ہو گا… تم دیکھ لینا… تمہارے رول کو آڈینس کتنا سراہے گی۔” رخشی نے جیسے اسے تسلی دی۔
”میں بھی اسے یہی بتا رہی ہوں… مگر اسے تو یہی خوف ہے کہ اسٹیج پر آتے ہی اس کی ٹانگیں کانپنا شروع ہو جائیں گی اور یہ بے ہوش ہو جائے گی۔” سونیا نے امبر کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا۔
”خیر، ایسا لگتا تو نہیں کہ تم میں اعتماد کی کمی ہے… میں جب اس کالج میں آئی ہوں، تم کو کئی بار دیکھا ہے… بلکہ دیکھنے سے زیادہ تمہارے بارے میں سنا ہے۔” رخشی اب اسے بتا رہی تھی۔ ”تمہیں دیکھ کرتو کبھی ایسا محسوس بھی نہیں ہوتا کہ تم اسٹیج پر چڑھ کر بے ہوش ہو جاؤ گی۔”
”یہ تو تمہیں اسٹیج پر ہی پتا چلے گا… تم ادھر ہی ہو گی۔” امبر نے مسکراتے ہوئے رخشی سے کہا۔
”کوئی بات نہیں تم اگر بے ہوش ہو بھی گئیں تو تمہارا آدھا رول تو بے ہوشی کا ہی ہے۔ تم اطمینان سے بے ہوش ہو جانا۔” رخشی نے برجستگی سے کہا۔ ”میں ہوں نا ہر چیز کو دیکھنے کے لیے۔”
امبر اس کی بات پر ہنس پڑی۔
”یہ تو خاصی آسانی ہو گئی مجھے… چلو ٹھیک ہے… اب مجھے زیادہ فکر نہیں ہے۔” امبر نے خوش دلی سے سر ہلایا۔ ”اب باتیں بند کرو اور اپنے اسکرپٹ کو ایک بار دیکھ لو… مسز عاکف ریہرسل شروع کرنے کے لیے سب کو اکٹھا کر رہی ہیں۔”
سونیا نے اچانک امبر سے کہا۔ رخشی اور امبر نے یک دم پلٹ کر دیکھا۔ مسز عاکف واقعی سب کو اسٹیج پر بلا رہی تھیں۔
”ہاں واقعی ایک نظر دیکھ ہی لینا چاہیے اسکرپٹ کو… ورنہ مجھے تو اس وقت لگ رہا ہے کہ مجھے سب کچھ بھولا ہوا ہے۔” امبر بڑبڑائی اور اسکرپٹ کے صفحے پلٹنے لگی جبکہ رخشی پہلے ہی اسکرپٹ کو دیکھ رہی تھی۔ ایک سرسری سی نظر اسکرپٹ پر ڈالنے کے بعد اس نے امبر سے کہا۔
”آؤ وہاں اسٹیج پر چلتے ہیں… وہاں جا کر اسکرپٹ دیکھ لیں گے۔” امبر نے اس کی بات پر سرہلایا اور اپنا بیگ سونیا کو تھما کر اس کے ساتھ بڑھ گئی۔
٭٭٭