”شبانہ کا تو یہی کہنا ہے کہ مسعود نے تو اپنی اور اپنے گھر والوں کی زندگی برباد کر دی، منصور کے ساتھ کام کرکے اور منصور کو اس کا رتی بھر احساس نہیں ہے۔” منورہ نے پلیٹ سے ایک بسکٹ اٹھاتے ہوئے کہا۔
”میں تو آپ سے پہلے ہی کہہ رہی ہوں کہ ہمارا تو وہی حال ہے احسان بھی کرو اور جوتے بھی کھاؤ کیا زندگی برباد ہوئی ہے مسعود بھائی کی۔ سب کچھ سب کے سامنے ہے آپ خود دیکھ سکتی ہیں کہ پچھلے دس پندرہ سالوں میں ان کا لائف اسٹائل کیسے بدلا ہے۔” منیزہ غصے میں بولتی رہی۔ ”اب مانیں نا تو اور بات ہے مگر مسعود بھائی نے خاصا روپیہ کما لیا ہے منصور کے ساتھ کام کرکے۔”
”شبانہ تو یہ کہتی ہے کہ مسعود اگر الگ کام کر رہا ہوتا تو کہیں کا کہیں پہنچ گیا ہوتا۔” منورہ نے کہا۔
”کہاں پہنچ گئے ہوتے، ابھی تک وہیں ہوتے جہاں دس پندرہ سال پہلے تھے۔ اپنے بل بوتے پر اتنی ترقی کر سکتے آپا تو کبھی منصور کی فیکٹری کو چلانا منظور نہ کرتے، خود اس طرح ترقی نہیں کر سکتے تھے تب ہی تو منصور کے پیچھے آتے تھے ورنہ منصور ان کے پاس جا کر منت سماجت نہیں کرتے رہے تھے کہ ہماری فیکٹری چلائیں… ہم جب پاکستان شفٹ ہوئے فیکٹری بھی بنا لیتے اور اسے چلا بھی لیتے بلکہ شائد ابھی کچھ سال اور وہاں ہی رہتے۔ ہمیں کون سا مسئلہ تھا وہاں۔ صرف اس فیکٹری کے لیے منصور وہاں سے سب کچھ وائنڈ اپ کرکے آئے ہیں۔ دوسروں کے سرپر سب کچھ ڈال دینے والے ہوتے تو اب بھی وہیں بیٹھے ہوتے۔” منیزہ کہتی رہیں۔
”خیر لوگ بھی اندھے نہیں ہوتے۔ سب کچھ جانتے اور دیکھتے ہیں۔ یہ تو ہمیں بھی پتا ہے کہ مسعود کتنی ترقی کر سکتا تھا اور کتنی نہیں اور منصور کا بھی ہمیں پتا ہے اسی لیے میں تو تمہیں شبانہ کا بتا رہی تھی کہ وہ ایسا سمجھتی ہے۔”
”اگر وہ یا مسعود بھائی مطمئن نہیں ہیں تو اب فیکٹری چھوڑ دیں اپنا بزنس کر لیں۔ ہم نے ان کے ہاتھ تو نہیں باندھ دیے کہ کچھ کر ہی نہیں سکتے۔ اپنی فیکٹری لگا لیں۔ الگ ہو جائیں بزنس سے مگر آپ دیکھ لیجئے گا ایسا وہ کبھی بھی نہیں کریں گے۔” منیزہ نے کیک کی پلیٹ ان کے سامنے کرتے ہوئے کہا۔
”چھوڑو تم کیوں پریشان ہوتی ہو شبانہ کی تو عادت ہی خراب ہے۔ میں بھلا اسے جانتی نہیں۔” منورہ نے منیزہ کو جیسے تسلی دینے کی کوشش کی۔
”عادت خراب ہے تو میں کیا کروں، ان کی خراب عادتیں برداشت کرنے کے لیے کیا ہم لوگ ہی رہ گئے ہیں۔” منیزہ نے ناگواری سے کہا۔
”میں تو بعض دفعہ حیران ہوتی ہوں کہ شبانہ کو جاننے کے باوجود تم لوگوں نے امبر اور صبغہ کی شادی اس کے بیٹوں سے کرنے کا فیصلہ کیوںکیا؟” منورہ نے کہا۔
”اب ہمیں اندازہ تو نہیں تھا کہ شبانہ بعد میں اس طرح کینچلی بدل لے گی۔ پہلے تو اور طرح کی تھی یا کم از کم ہمیں اور طرح کی لگتی تھی۔ اتنی خوش اخلاق او رمنکسر المزاج…، میں نے اور منصور نے یہی سوچا کہ مسعود بھائی اور وہ دونوں ہماری بیٹیوں کو اچھی طرح رکھیں گے بس یہی سوچ کر ہم نے یہ رشتے طے کر دیے۔” منیزہ نے کہا ”ہمیں کیا پتا تھا کہ وہ آہستہ آہستہ اس طرح کی حرکتیں کرنا شروع کر دیں گی۔”
”تم لوگوں نے بھی تو کسی سے مشورہ نہیں کیا۔ یک دم ہی اس کے بیٹوں سے رشتے کر دیے ابھی تو امبر اور صبغہ اس کے گھر گئیں بھی نہیں اور وہ جگہ جگہ ان کے اور تمہارے خلاف باتیں کرتی پھرتی ہے۔” منورہ نے کہا۔
”آپ سے کچھ کہا اس نے؟” منیزہ نے کچھ ٹھٹھک کر پوچھا۔
”مجھے ہی کیا… ہر ایک کو کہتی رہتی ہے۔” منورہ نے بے ساختہ کہا۔
”آپ سے کیا کہا ہے اس نے؟” منیزہ نے ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے پوچھا۔
”کوئی ایک بات ہو تو بتاؤں، کہہ رہی تھی کہ تم نے امبر اور صبغہ کی اچھی تربیت نہیں کی۔ انہیں کوئی ادب آداب نہیں سکھائے۔” منورہ نے چائے کا کپ رکھتے ہوئے کہا۔ منیزہ کے ماتھے کے بل کچھ اور گہرے ہو گئے۔
”میں نے تو کہہ دیا اس سے کہ وہ خدا کا شکر ادا کرے کہ خاندان کی سب سے خوبصورت اورمہذب لڑکیا ںاس کے گھر آرہی ہیں۔ مگر وہ کہنے لگی کہ خاندان بھرا ہوا ہے ان سے بہتر لڑکیوں سے۔ ایک چھوڑو ہزار ملتی ہیں۔ امبر اور صبغہ کے پاس شکل کے علاوہ اور ہے ہی کیا۔ بولنے اور اٹھنے بیٹھنے تک کی تو تربیت نہیں سکھائی ماں نے۔” منورہ نے بڑے ہمدردانہ انداز میں منیزہ سے کہا۔ جن کی تیوریوں میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔
”مجھے تو بہت ہی افسوس ہوا اس کی باتوں کو سن کر۔ امبر اور صبغہ میری بھتیجیاں ہیں کوئی میرے سامنے ان کی برائی کرے تومجھے کیسا لگے گا، میں نے تو خاصی باتیں سنائی شبانہ کو مگر وہ تو اپنی بات پر اڑی رہی۔” منورہ نے کہا۔
”شبانہ کو اگر وہ دونوں پسند نہیں تھیں تو اسے اس رشتہ پر تیار ہونا ہی نہیں چاہیے تھا۔ اگر اس کے بیٹوں کے لیے رشتوں کی کمی نہیں ہے تو کیا میری بیٹیو ںکے لیے رشتوں کی کوئی کمی ہے۔ یہ تو ہماری اعلیٰ ظرفی ہے کہ ہم نے خاندان میں رشتے کیے ہیں ورنہ ان دونوں کے لیے بڑی جگہوں سے رشتے آرہے تھے بلکہ اب تک آرہے ہیں۔” منیزہ کے غصے میں کچھ اور اضافہ ہوا۔
”اب تم شبانہ سے میری باتوں کا ذکر مت کر دینا وہ پہلے ہی کہتی رہتی ہے کہ میں ہر بات میں تمہاری حمایت کرتی ہوں۔ ان باتوں کا پتا چلے گاتو پھر کہے گی کہ میں نے تمہیں ساری باتیں پہنچا دی ہیں۔ اب ہے تو یہ نامناسب بات مگر میں کیا کروں تم سے اور اپنی بھتیجیوں سے مجھے اتنی محبت ہے کہ میں چپ نہیں رہ سکتی۔” منورہ نے منیزہ کے بازو پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
”نہیں آپا! آپ نے بہت اچھا کیا کہ مجھے بتایا، مجھے بھی تو پتا چلے کہ وہ ہمارے بارے میں کیا کہتی رہتی ہے اور آپ فکر نہ کریں، آپ کا نام نہیں لوں گی میں۔” منیزہ نے منورہ کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔
”خاندان میں، میں اکیلی نہیں ہوں جس کے سامنے وہ ایسی باتیں کرتی ہے اور بھی لوگوں کے سامنے وہ ایسی باتیں کرتی رہتی ہے… مگر ہر کوئی اس کی ہاں میں ہاں ملاتا رہتا ہے… کسی کو تمہارا اور تمہارے بچوں کا احساس ہو تو تم تک یہ ساری باتیں پہنچاتا… میں تو یہ سب اس لیے بتا رہی ہوں تاکہ تم ابھی بھی ان رشتوں کے بارے میں سوچ لو… اور کچھ تمہیں شبانہ کی خصلت اور فطرت کے بارے میں بھی پتا چل جائے…” منورہ نے کہا۔
”میں جانتی ہوں آپا! آپ کے علاوہ خاندان میں او رکوئی ہمارے بارے میں اچھا سوچ بھی نہیں سکتا۔ مجھے تو بعض دفعہ لگتا ہے کہ ہر ایک حسد کرتا ہے مجھ سے اور میرے گھر سے… کسی کو اپنی کوئی چیز دکھا دوں تو اس کا چہرہ بجھ جاتا ہے… اب اللہ نے مجھ پر اپنا کرم کیا ہوا ہے تو سارے کیوں حسد سے مر رہے ہیں۔ انسان کا دل بڑا ہونا چاہیے۔ اعلیٰ ظرفی ہونی چاہیے۔ مجھے دیکھیں میں نے کبھی کسی سے حسد نہیں کیا ہر ایک کی خوشی میں شریک ہوتی ہوں۔” منیزہ بھی اپنے دکھڑے رونے لگیں۔
”اب اسی پر سن لو… شبانہ تمہارے بارے میںکہہ رہی تھی کہ تمہیں دکھاوے کی عادت ہے جب تک تم اپنی ہر چیز ڈھنڈورا پیٹ پیٹ کر پوری دنیا کو نہ دکھا دو تمہیں چین ہی نہیں آتا۔” منورہ نے اس کی بات کے جواب میںکہا۔
”دکھاوا… کون سا دکھاوا… شرم آنی چاہیے اسے ایسی باتیں کرتے ہوئے… خود تو وہ کرید کرید کر ہر بات پوچھتی رہتی ہے مجھ سے… مجال ہے کبھی اس معاملے میں اپنی زبان بند رکھے اور سوال نہ کرے اور اگر دوسرا بتا دیتا ہے تو حسد سے مر ہی جاتی ہے وہ… میں بھی اب دوبارہ کبھی اس کو کچھ بتانے یا دکھانے گئی تو آپ پھر کہیے گا۔” منیزہ کے اشتعال میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔
”ہاں یہ ٹھیک کہا تم نے… یہ اپنے اپنے ظرف کی بات ہوتی ہے… اب مجھے دیکھو… مجھے تو اتنی خوشی ہوتی ہے تمہیں سب کچھ پہنے اور برتتے دیکھ کر… مگر شبانہ… اس کا تو پوچھو ہی مت۔” منورہ نے کہا۔
”اپنے اپنے ظرف کی بات ہے آپا… اب اور میں کیا کہہ سکتی ہوں…” منیزہ نے ان سے کہا۔
”مجھے کہہ رہی تھی کہ اس نے اپنی بیٹیوں کی ایسی تربیت کی ہے کہ خاندان کی ہر روایت سے الٹا کام کر رہی ہیں… منہ اٹھائے دن رات میرے بیٹو ںکے ساتھ پھرتی رہتی ہیں… اور ذرا لباس تو دیکھیں… ہمارے پورے خاندان میں کسی لڑکی نے اس طرح کے لباس نہیں پہنے ہوں گے جس طرح کہ وہ دونوں پہنتی ہیں… سلام اور بات تک کرنے کی تو تمیز نہیں ہے ان دونوں کو… میں تو یہ سوچ سوچ کر ہولتی رہتی ہوں کہ ابھی دونوں میرے گھرنہیں آئیں تو یہ حال ہے اورمیرے گھر آکر کیا قیامت اٹھائیں گی۔” منورہ کو ایک بار پھر شبانہ کی باتیں یاد آئیں۔
”حد ہوتی ہے منافقت کی بھی… انسان سب کچھ ہو مگر منافق نہ ہو… فون کرکرکے خود امبر اور صبغہ کو اپنے گھر بلاتی رہتی ہے… دو دن وہ نہ جائیں تو چار فون آجاتے ہیں اس کے کہ میں اداس ہو گئی ہوں… یا خود ادھر ٹپک پڑتی ہے… اور بیٹے ہیں تو وہ چوبیس گھنٹے یہیں موجود رہتے ہیں… اورپھر بھی سارا الزام میری بیٹیو ںپر دھر رہی ہے… میری بیٹیو ںکو کوئی شوق نہیں ہے اس کے بیٹوں کے ساتھ پھرنے کا… ان ہی کے اصرار پر جاتی ہیں وہ… اور شبانہ کو اتنا اعتراض ہے اس بات پر تو اپنے بیٹوں کو منع کر دے بلکہ دو ٹوک انداز میں کہہ دے۔”منیزہ اور مشتعل ہو گئیں۔
”وہ کہتی ہے کہ جب منیزہ اپنی بیٹیوں کو قابو میں نہیں رکھ سکتی تو میں اپنے بیٹو ںکو قابو میں کیسے رکھوں۔” منورہ نے کہا۔
”میری بیٹیاں میرے قابو میں ہیں۔” منیزہ غرا کر بولیں۔
”میں آج انہیں اشارہ کروں تو وہ دوسری بار شبانہ کے گھر کا رخ بھی نہیں کریں گی، بلکہ شکل تک نہیں دیکھیں گی وہ اس کے بیٹوں کی…”
”میں نے تو اس سے کہا تھا کہ اگر وہ تمہارے بیٹوں کے ساتھ پھرتی بھی ہیں تو کیا برائی ہے اس میں… شوہر ہیں وہ ان دونوں کے… اور نیا زمانہ ہے۔ آج کل تو منگیتر ساتھ پھرتے رہتے ہیں پھر تمہیں خوامخواہ اعتراض کیوں ہو رہا ہے مگر مجھے لگتا ہے وہ خوفزدہ ہے کہ کہیں بیٹے اس کے ہاتھ سے بالکل ہی نہ نکل جائیں کچھ وہ پہلے ہی تم سے دبی دبی رہتی ہے۔” منورہ نے منیزہ کی حمایت میںکچھ اور ہمدردانہ لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا۔
”میری بیٹیاں ابھی اس کے گھر میں گئی بھی نہیں اور اسے ان کے لباس… ان کے اٹھنے بیٹھنے پر اعتراض ہونے لگا… اسے وہ دونوں اچھی نہیں لگتیں تو صاف آکر ہم سے بات کرے… اس طرح ادھر ادھر باتیں کیوں کرتی پھرتی ہے… کبھی لباس پر اعتراض ہوتا ہے اسے… کبھی بات کرنے پر… میری بیٹیاں ہیں جب مجھے اور منصور کو ان کی کسی بات پر اعتراض نہیں ہے تو وہ اعتراض کرنے والی کون ہوتی ہے… میرے گھر پر ہیں وہ دونوں جو چاہے پہنیں شبانہ کو کیا… اب اس کے لیے میں اپنی بیٹیوں کی زندگی جہنم بنا دوں۔” منیزہ بلند آواز میں بولتی رہیں۔ ”آپ خود بتائیں آپا! آپ کے سامنے ہیں میری بیٹیاں… آپ کو کوئی خامی نظر آتی ہے دونوں میں… یا ان کی کسی بات پر اعتراض ہے۔” منیزہ نے کہا۔
”کیسی باتیں کرتی ہو منیزہ! مجھے دونوں میں کیا خامی نظر آئے گی۔ میں نے تو شبانہ سے کہا بھی کہ جیسی تربیت منیزہ نے اپنی بیٹیوں کی کی ہے، پورے خاندان میں کوئی نہیں کر سکا۔ اس کی بیٹیاں خاندان میں سب سے الگ ہی نظر آتی ہیں… خوش قسمت ہو گا وہ گھر جہاں وہ جائیں گی۔ مگر وہ تو میری باتوں پر تلملانے لگی کہنے لگی کہ آپا آپ کی تو عادت ہے، آپ نے ہمیشہ منیزہ اور اس کی اولاد کی طرف داری کی ہے۔ کبھی مجھے صحیح نہیں سمجھا… آپ کو تو ان میں کوئی خامی نظر آہی نہیں سکتی… اپنی محبت کی عینک اتاریں تو پھر آپ کو پتا چلے… میں اسی لیے آپ سے اپنے دل کی بات نہیں کرتی کہ آپ میری بات کو سمجھتی ہی نہیں ہیں۔” منورہ ایک ہی سانس میں کہتی گئیں۔
”میں نے بھی کہہ دیا اس سے کہ تم اپنی ایسی دل کی باتیں اپنے پاس ہی رکھو… خوامخواہ دوسروں پر بہتان لگاتی پھرتی ہو… خدا کا شکر ادا نہیں کرتی کہ منیزہ اور منصور نے تمہارے خاندان کے ساتھ رشتہ جوڑا ہے ورنہ تمہارے بیٹوں میں کون سے سُرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں۔”
”آپ دیکھیے آج منصور آئیں تو میں ان سے یہ ساری باتیں کہوں گی انہیں بھی تو پتا چلے کہ ان کی بھابھی اور بھائی ہمارے بارے میں کیا سوچتے رہتے ہیں بلکہ آپ خود انہیں یہ سب کچھ بتائیے گا۔” منیزہ نے منورہ سے کہا۔
”میں نے تم سے پہلے بھی کہا ہے میں ایسے کسی جھگڑے میں پڑنا نہیں چاہتی… خوامخواہ میری وجہ سے آپس میں دل کھٹے ہوں گے اور تمہیں تو میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ میرا نام لے کر بات مت کرنا، بلکہ منصور کے سامنے بھی یہ مت کہنا کہ یہ سب میں نے کہا ہے۔ بس اس سے یہی کہنا کہ تمہیں کہیں سے پتا چلا ہے بلکہ میں تو یہ بھی کہتی ہوں کہ منصور سے بات کرنے کی بھی آخر کیا ضرورت ہے۔ ابھی اسے کچھ مت بتاؤ… دیکھو کہ شبانہ آگے اور کیا کہتی ہے۔” منورہ نے جلدی سے کہا۔
”نہیں خیر منصور کو تو میں ضرور بتاؤں گی… میں اب انتظار کرتی رہوں گی کہ کوئی اور مجھے یہ سب کچھ بتائے تو میں پھر بات کروں… آپ اگر چاہتی ہیں کہ میں آپ کا نام نہ لوں تو ٹھیک ہے میں آپ کا نام نہیں لیتی لیکن منصور کو ان سب باتو ںکا پتا ہونا چاہیے… اور اب آپ دیکھیے گا کہ میں کس طرح امبر اور صبغہ کو اس کے گھر جانے سے روکتی ہوں… اسے بھی پتا چلے کہ اس نے کس کے خلاف باتیں کی ہیں… میں تو طلحہ اور اسامہ کو بھی یہاں نہیں آنے دوں گی۔” منیزہ غصے میں بولتی رہیں۔
”دیکھو منیزہ میرا نام کہیں نہ آئے۔ تمہاری محبت میں میں نے اگر تمہیں کچھ بتا دیا ہے تو تم آگے کسی کو میرا حوالہ مت دینا… میں نہیں چاہتی تم دونوں خاندانو ںکے درمیان بگاڑہو، آخر دونوں میرے ہی بھائی ہیں… مگر بس شبانہ کی باتوں پر غصہ آگیا مجھے اس لیے تمہیں یہ سب کچھ بتا بیٹھی اب مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ میری وجہ سے تم لوگوں کے درمیان کوئی جھگڑا نہ ہو جائے۔” منورہ اس سے کہتی گئیں۔
”کچھ نہیں ہو گا آپا! آپ فکر نہ کریں، کم از کم آپ کی وجہ سے تو کچھ بھی نہیں ہو گا… جھگڑے کے بارے میں بھی آپ پریشان نہ ہوں ،میں کوئی جھگڑا نہیں کروں گی مگر اس کو پتا تو چلنا چاہیے کہ وہ کتنی فضول اور نامناسب باتیں کر رہی ہے… اب بیٹی والے ہونے کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ ہم پہلے ہی ان کے پیروں میں جا بیٹھیں…” منیزہ نے منورہ کو تسلی دیتے ہوتے کہا۔
”ہاں وہ تو میں جانتی ہو تمہارا مزاج اور طرح کا ہے… تم رائی کا پہاڑ نہیں بناتیں… ورنہ میں تم سے کہاں بات کرتی… پھر بھی ایسے ہی مجھے اندیشہ ہو رہا تھا کہ میرا نام آئے گا تو ہر کوئی یہی سمجھے گا کہ میں نے جان بوجھ کر تم لوگوں کے درمیان جھگڑا کروا دیا ہے… خیر جو ہو گا دیکھا جائے گا… تم بتاؤ روشان کیسا ہے میں نے اسے نہیں دیکھا۔” انہوں نے مطمئن ہو کر موضوع بدل دیا۔
٭٭٭
صبغہ باہر لان میں بیٹھی ہوئی تھی جب اس نے طلحہ کی گاڑی کو اندر آتے دیکھا۔ وہ جتنی دیر میں پورچ میں گاڑی کھڑی کرتا۔ صبغہ اٹھ کر اس کی طرف آگئی۔
”کیسا موڈ ہے تمہاری بہن کا؟” رسمی سلام دعا کے بعد اس نے صبغہ سے پوچھا۔
”آج تو اچھا ہی ہے، اب آپ کو دیکھ کر خراب ہو جائے تو میں کچھ کہہ نہیں سکتی۔” صبغہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”تم دعا کرو کہ موڈ خراب نہ ہو۔” طلحہ نے ہنس کر اندر جاتے ہوئے کہا۔
”چلیں ٹھیک ہے میں باہر لان میں بیٹھ کر دعا کرتی ہوں، آپ اندر جاکر اس سے بات کریں اور اپنی قسمت آزمائیں وہ نیچے لاؤنج میں ہی بیٹھی ہے۔” صبغہ نے لان کی طرف جاتے ہوئے کہا۔
طلحہ مسکراتے ہوئے اندر چلا گیا۔ امبر کو پہلے ہی اس کی آمد کا پتا چل چکا تھا… ہارن کی آواز اس کے لیے خاصی شناسا ہو چکی تھی۔
طلحہ کے قدموں کی چاپ پر اس نے گردن موڑ کر سرسری نظروں سے اسے دیکھا اور ایک بار پھر ٹی وی دیکھنے لگی… اس کے ہاتھ میں ریموٹ تھا جس سے وہ چینل بدل رہی تھی۔
”ہیلو۔” طلحہ نے اس کے سامنے آتے ہوئے اسے مخاطب کیا۔
”ہیلو۔” بڑا ٹھنڈا جواب آیا۔ اس کی چینل سرفنگ جاری رہی۔
”میں بیٹھ جاؤں؟” طلحہ نے ایک بار پھر اسے مخاطب کرنے کے لیے کہا۔
”تم ہر کام میری مرضی سے تو نہیں کرتے… دل چاہے تو بیٹھ جاؤ… نہ دل چاہے تو نہ بیٹھو۔” امبر نے اسی خشک انداز میں جواب دیا۔ طلحہ مسکراتا ہوا دوسرے صوفہ پر بیٹھ گیا۔
”تمہارا غصہ ختم ہو گیا؟” اس نے ایک بار پھر امبر کو مخاطب کیا۔ وہ جواب دینے کے بجائے ایک نظر اسے دیکھ کر ٹی وی دیکھنے لگی۔
”اب بس ختم کرو… کافی تنگ کر چکی ہو تم مجھے۔” طلحہ نے جیسے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا۔ ”چلو باہر چلتے ہیں… اچھا سا ڈنر کرتے ہیں۔” وہ اس کی بات پر دھیان دیے بغیر اسی طرح ٹی وی دیکھتی رہی۔
”میں تم سے بات کر رہا ہوں امبر۔” طلحہ نے بلند آواز میں کہا۔
”میں جانتی ہوں کہ تم مجھ سے بات کر رہے ہو، مگر اتنا چلانے کی ضرورت نہیں ہے۔” امبر نے ٹی وی اسکرین سے نظریں ہٹاتے ہوئے اس سے کہا۔
”سوری… اب نہیں چلاؤں گا… باہر چلیں؟” طلحہ نے فوراً کہا۔