”ممی اس نے مجھ سے پیسے نہیں مانگے تھے میں نے خود اسے دئیے۔”
”تم نے کیوں دئیے؟” منیزہ نے سختی سے کہا۔
”بس میرا دل چاہا اس لیے دے دیے، اب آپ اتنی چھوٹی سی بات پر اتنا fuss کھڑا نہ کریں۔” امبر نے بیزاری سے کہا۔
”تمہارے لیے ہر بات چھوٹی ہوتی ہے آج ایک نوکر کو اس طرح دئیے ہیں، کل دوسرا نوکر آکر کھڑا ہو جائے گا… پہلے ہی ہر ماہ تم آدھے سے زیادہ کپڑے اور جوتے اٹھا کر دے دیتی ہو… کیسا لگتا ہو گا تمہیں جب یہی نوکرانیاں تمہارے کپڑے پہنے پھرتی ہیں۔” منیزہ نے غراتے ہوئے کہا۔
امبر کے اطمینان میں رتی بھر فرق نہیں آیا اس نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
”مجھے تو کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا… میرے کپڑے پہن کر وہ امبر نہیں بن جاتیں، نہ انہیں کپڑے دے دینے سے میں نوکرانی بن جاتی ہوں… آپ تو بس ہر وقت… میری سمجھ میں نہیں آتا آپ… اگر کسی کو کچھ دے دیا ہے تو پھر کیا ہو گیا…
آپ اتنا ہنگامہ مچاتی رہتی ہیں… مجھے آپ کی یہ عادت بہت بری لگتی ہے… ہمیں کیا فرق پڑ جاتا ہے کسی کو تھوڑا بہت دے دینے سے… اور میں آپ کو بتا رہی ہوں، آپ صابرہ سے کوئی بات نہیں کریں گی… نہ اسے ڈانٹیں گی نہ ہی کچھ پوچھیں گی… ورنہ میں اس کو اور روپے دوں گی اور اپنی وارڈ روب کے باقی سارے کپڑے اور جوتے بھی اٹھا کر دے دوں گی۔” ”and I really mean it”
وہ بڑی سنجیدگی سے کہتے ہوئے میز سے اٹھ گئی۔ منیزہ خون کے گھونٹ پی کر رہ گئیں۔ وہ جانتی تھیں۔ امبر ایسا ہی کرے گی۔ وہ چند لمحے منہ ہی میں کچھ بڑبڑاتی رہیں پھر وہ خود بھی ڈائننگ ٹیبل سے اٹھ گئیں۔ ان کی بھوک ختم ہو چکی تھی۔
صرف صبغہ تھی جو ماں اور بہن کے درمیان ہونے والی گفتگو میں کسی قسم کی مداخلت کیے بغیر خاموشی اور اطمینان کے ساتھ ناشتہ کرتی رہی۔ ماں اور بہن کے درمیان ہونے والا یہ جھگڑا اس کے لیے نیا نہیں تھا۔
٭٭٭
”آئیں آپا! آج تو آپ بہت دنوں کے بعد آئی ہیں۔” منیزہ نے خوش دلی کے ساتھ منورہ کا استقبال کرتے ہوئے کہا۔
”بس میں کتنے دنوں سے آنا چاہ رہی تھیں، مگر کوئی نہ کوئی مصروفیت آڑے آجاتی تھی۔” منورہ نے ان کی مسکراہٹ کا جواب مسکراہٹ سے دیا۔
”میرے گھر آتے ہوئے تو آپ کو ہمیشہ ہی کوئی نہ کوئی مصروفیت روک لیتی ہے۔ حالانکہ جس محبت سے میں آپ کو بلاتی ہوں، آپ اسے جانتی ہی ہیں۔” منیزہ نے مصنوعی ناراضی سے کہا۔
منورہ اب لاؤنج کے صوفے پر بیٹھ چکی تھیں، ان کی مسکراہٹ اور گہری ہو گئی۔ ”بھئی میں جانتی ہوں تم مجھے بہت محبت سے بلاتی ہو… اور اسی لیے تو تمہاری طرف چلی آتی ہوں۔ بلا کسی جھجک کے۔” منورہ نے منیزہ کی بات کے جواب میں کہا۔
”جھجک ہونی بھی نہیں چاہیے آپ کو، یہ آپ کے بھائی کا گھر ہے اور بھائیوں کے گھر آتے ہوئے بہنوں کو کوئی جھجک نہیں ہونی چاہیے۔” منیزہ نے ان کے قریب بیٹھتے ہوئے کہا۔ ”اور وہ بھی چھوٹے بھائی کے گھر۔”
”تمہاری یہی خوش مزاجی اور اخلاق ہے جس کی وجہ سے تمہارے ہاں بار بار آنے کو جی چاہتا ہے۔ ورنہ تم جانتی ہو میں کہاں گھر سے نکلتی ہوں، سارا دن گھر پر ہی پڑی رہتی ہوں۔” منورہ نے کہا۔
”خیر خوش مزاج تو آپ بھی کم نہیں ہیں۔” منیزہ نے جوابی تعریف کا فریضہ انجام دیا۔
”ارے میں کہاں خوش مزاج ہوں۔ بلڈ پریشر نے ساری خوش مزاجی ختم کر دی ہے میری، اوپر سے شوگر یہ دونوں بیماریاں میری تو جان لے کر ہی چھوڑیوں گی۔” منورہ نے اپنی بیماریو ںکا رونا رویا۔
”اب آپا! اس طرح تو نہ کہا کریں بعض دفعہ منہ سے نکلی ہوئی بات پوری ہو جاتی ہے اللہ کرے آپ کو ان دونوں بیماریوں سے نجات مل جائے۔” منیزہ نے انہیں ٹوک کر کہا۔
”یہ دونوں بیماریاں جان چھوڑنے والی بیماریاں نہیں ہیں۔ یہ تو تم بھی اچھی طرح جانتی ہو۔” منورہ نے منیزہ کی بات کے جواب میں کہا۔
”آپا! آپ مجھے یہ بتائیں کہ کیا منگواؤں آپ کے لیے؟ چائے ٹھیک رہے گی یا پھر سوفٹ ڈرنک؟” منیزہ نے بات کا موضوع بدلا، وہ جانتی تھیں منورہ ان لوگوں میں سے نہیں تھیں جو پرہیز پر یقین رکھتے ہیں۔
”بھئی جو مرضی ہو منگوالو…” منورہ نے بڑے آرام سے انتخاب کا فیصلہ ان پر چھوڑتے ہوئے کہا۔
منیزہ اٹھ کر لاؤنج سے باہر نکل گئیں اور کچن میں ملازم کو کچھ ہدایات دے کر واپس لاؤنج میں آئیں۔
”بچے نظر نہیں آرہے؟” ان کی لاؤنج میں داخل ہوتے ہی منورہ نے پوچھا۔
”بس مصروف ہی ہیں سب، صبغہ اور امبر تو گھر پر نہیں ہیں، باقی ٹیوٹر کے پاس پڑھ رہے ہیں ابھی کچھ دیر میں فارغ ہو کر آجائیں گے۔”
”صبغہ اور امبر کہاں گئی ہیں؟” منورہ نے کچھ تجسس سے پوچھا۔
”صبغہ تو اپنی ایک دوست کی برتھ ڈے پارٹی پر گئی ہے، امبر سوئمنگ کے لیے کلب گئی ہے۔” منیزہ نے انہیں بتایا۔
”کب تک آجائیں گی دونوں؟” منورہ نے ان سے پوچھا۔
”خاصی دیر ہو جائے گی۔ شائد رات آٹھ بجے تک، کیونکہ امبر وہاں سے مسعود بھائی کی طرف جائے گی۔” منیزہ نے انہیں بتایا۔
”اس کا مطلب ہے میں تو دونوں بچیوں کو دیکھ ہی نہیں سکوں گی۔” منورہ کے چہرے پر کچھ مایوسی جھلکی۔
”کیا مطلب، کیوں دیکھ نہیں سکیں گی آپ؟” منیزہ نے ان سے پوچھا۔
”میں تو ایک گھنٹہ تک چلی جاؤں گی۔ میں آٹھ بجے تک کہاں رکوں گی۔” منورہ نے اپنا پروگرام بتاتے ہوئے کہا۔
”کیا بات کر رہی ہیں آپ… آپا کھانا کھائے بغیر میں آپ کو جانے تھوڑا دوں گی اور اس وقت تک دونوں بچیاں بھی آجائیں گی۔” منیزہ نے ان کی بات کے جواب میں کہا۔
”ارے نہیں کھانے تک میں نہیں رک سکتی۔ گھر پر سب کو ایک گھنٹہ کا کہہ کر آئی ہوں۔” منورہ نے کچھ تامل کیا۔
”کوئی بات نہیں میں فون کرکے آپ کے گھر اطلاع کردوں گی۔” منیزہ نے حل پیش کیا۔
”نہیں بھئی سب پریشان ہوں گے۔” منورہ نے فوراً کہا۔
”ارے… یہ کون سا کسی غیر کا گھر ہے جو آپ کے گھر والے پریشان ہوں گے۔ انہیں پتا ہے کہ آپ اپنے بھائی کے گھر ہیں۔” منیزہ نے کہا۔
”وہ تو ٹھیک ہے مگر پھر بھی… بہت دیر ہو جائے گی۔ ڈرائیور کو بھی ایک گھنٹہ کا ٹائم دیا ہوا ہے۔” جواباً انہوں نے کہا۔
”ڈرائیور کی آپ فکر نہ کریں۔ میں خود آپ کو ڈراپ کروا دوں گی۔ ویسے بھی کھانے پر منصور یہاں ہوں گے تو آپ منصور سے بھی مل لیں گی۔ وہ کئی دونوں سے آپ کا پوچھ رہے تھے۔” منیزہ نے اصرار کرتے ہوئے کہا۔
”ہاں، منصور کی محبت بھی بس منہ دیکھے کی ہے۔ جب بھی آؤں میں ہی آؤں۔ مجال ہے وہ کبھی آجائے۔” منورہ کو جیسے شکایت کرنے کا موقع مل گیا۔
”آپا! وہ مصروف ہی اتنے ہوتے ہیں کہ انہیں تو گھر کے لیے بھی وقت نہیں ملتا۔ میں اور بچے تو خود ان کے ساتھ وقت گزارنے کو ترستے رہتے ہیں۔” منیزہ نے شوہر کی صفائی دی۔
”کیوں وہ کس چیز میں مصروف رہتا ہے؟” منورہ نے کمال بے نیازی سے کہا۔
منیزہ نے حیرت سے انہیں دیکھا۔ ”ظاہر ہے آپا فیکٹری کے کاموں میں ہی مصروف رہتے ہیں اور کیا مصروفیت ہو گی۔”
”اچھا فیکٹری جاتا ہے؟” منورہ نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
”کیا مطلب ہے آپا! فیکٹری نہیں جائیں گے تو اور کیا گھر پر پڑے رہیں گے۔” منیزہ نے کچھ سنجیدگی سے کہا۔
”مگر وہ فیکٹری کس لیے جاتا ہے؟” منورہ نے ایک بار پھر اسی انداز میں کہا۔
”آپا! کام کے لیے جاتے ہیں او رکس لیے جاتے ہیں۔”
”’کام تو میں نے سنا ہے سارا مسعود اور اس کے دونوں بیٹوں نے سنبھالا ہوا ہے، پھر منصور کو آخر فیکٹری جانے کی کیا ضرورت ہے۔” منورہ نے لہجے کو حتی الامکان عام سا بناتے ہوئے کہا۔
”آپ سے کس نے کہا کہ کام سارا مسعود بھائی اور ان کے بیٹوں نے سنبھالا ہوا ہے اور منصور کچھ نہیں کرتے۔” منیزہ کو ان کی بات بری لگی۔
”میں چند دن پہلے شبانہ کی طرف گئی ہوئی تھی وہی بتا رہی تھی اپنے شوہر اور بیٹوں کی مصروفیت کے بارے میں…” منورہ نے بڑی لاپروائی سے کہا۔
”کہہ رہی تھی کہ وہ سب تو گھن چکر بن گئے ہیں۔ فیکٹری منصور کی ہے مگر کام سارا مسعود اور اس کے بیٹوں نے سنبھالا ہوا ہے اور منصور کو تو انگلی تک ہلانی نہیں پڑتی۔ اسی لیے تو میں تمہارے منہ سے منصور کی مصروفیت کا سن کر حیران ہوئی۔”
منیزہ چند لمحے کچھ نہیں بول سکیں پھر انہوں نے منورہ سے کہا۔ ”شبانہ نے اور کیا کہا آپ سے؟”
”اب اور تو ڈھیروں باتیں تھیں۔ میں کیا کیا تمہیں بتاؤں۔ تم چھوڑو ان سب باتوں کو۔” منورہ نے کہا۔
”نہیں آپا! آپ بتائیں تو سہی اس نے اور کیا کہا ہے؟” منیزہ نے اصرار کیا۔
”بھئی میں نہیں چاہتی خوامخواہ ادھر کی بات ادھر کرکے تمہارے دل کو دکھی کروں۔” انہوں نے کہا۔
”نہیں دل کو دکھی کرنے والی کیا بات ہے، آپ تو صحیح بات بتا کر ایک اچھا کام کریں گی۔” منیزہ نے ان سے پھر اصرار کرتے ہوئے کہا۔
”پھر بھی یہ مناسب نہیں لگتا۔” منورہ نے پھر ہچکچاہٹ دکھائی۔
اسی وقت ملازم چائے کی ٹرالی لے کر لاؤنج میں داخل ہوا اور منیزہ اور منورہ کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گئیں ملازم نے دونوں کے لیے چائے بنا کر سرو کی اور پھر لاؤنج سے باہر نکل گیا اس کے باہر جاتے ہی منیزہ نے منورہ سے کہا۔
”میں اس سے کیا پوچھوں، مجھے تو خود اندازہ ہے کہ وہ کام تو کرتا ہی ہو گا اور میں نے شبانہ سے کہا بھی کہ منصور کوئی بھی کام دوسروں پر چھوڑنے والا نہیں ہے فارغ بیٹھنا تو اس کی طبیعت میں ہی نہیں ہے۔” منورہ نے چائے کا ایک سپ لیتے ہوئے کہا۔
”پھر اس نے کیا کہا؟” منیزہ نے بھی اپنی چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے کہا۔
”کہنا کیا تھا وہ تو ناراض ہی ہو گئی۔ میں نے بھی پرواہ نہیں کی۔ اس نے بھی مجھ سے یہی کہا کہ مسعود آئے تو میں خود اس سے پوچھ لوں کہ فیکٹری کی کتنی ذمہ داریاں ہیں اس کے کندھوں پر اور منصور تو صرف سلیپنگ پارٹنر ہے۔” منورہ نے بڑے عام سے انداز میں کہا۔
”سلیپنگ پارٹنر… میں نے منصور سے پہلے ہی کہا تھا کہ بہت بہتر ہو اگر وہ اپنے بھائی اور بھتیجوں کو اس فیکٹری میں شامل نہ کرتا۔ وہ جتنا بھی کام کرے ہر ایک کے ذہن میں یہی بات رہے گی کہ سارا کام مسعود بھائی اور ان کے بیٹے ہی کرتے ہیں۔” منیزہ نے کچھ اور ناراض ہوتے ہوئے کہا۔
”تم بھی وہی بات کہہ رہی ہو جو شبانہ کہہ رہی تھی۔”
”کیا کہہ رہی تھی؟” منیزہ نے کچھ چونک کر کہا۔
”کہہ رہی تھی کہ اس نے مسعود کو بہت منع کیا تھا کہ وہ منصور کے ساتھ یہ فیکٹری شروع نہ کرے خوامخواہ کی محنت ہے اس کے اور اس کے بچوں کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا۔”
”ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا؟ سب کچھ تو ان ہی تینوں کے ہاتھ میں ہے… شبانہ کو اور کیا چاہیے، اب کیا پوری فیکٹری اس کے نام لکھ دیں۔” منیزہ اس بات پر بھڑک اٹھیں۔
”ہاں یہ بھی شکایت کر رہی تھی کہ اتنی محنت کا صلہ کیا ہے جب فیکٹری میں ان کے معمولی سے شیئرز ہیں اس سے تو بہتر تھا کہ مسعود اپنی فیکٹری قائم کرتے۔” منورہ نے چائے پیتے ہوئے ایک اور اطلاع دی۔
”انہیں اور اتنی شکایتیں ہیں تو الگ ہو جائیں فیکٹری سے یا پہلے ہی ہو جاتے۔ ہم نے کوئی زبردستی تو انہیں اپنے ساتھ نہیں رکھا۔” منیزہ تلملا گئیں۔
”وہ کہہ رہی تھی کہ اس کے بس میں ہوتا تو مسعود اور اس کے بیٹے کب کے فیکٹری کو چھوڑ چکے ہوتے مگر یہ بس مسعود کی ضد تھی کہ بھائی کا ساتھ دینا ہے، اس کا بیٹا ابھی چھوٹا ہے اور پھر اکلوتا ہے۔ وہ کیسے اتنے بڑے بزنس کو سنبھالے گا۔”
”ہم نے ان کی منتیں تو نہیں کی تھیں فیکٹری سنبھالنے کیلیے۔ کیا اس سے پہلے دبئی میں منصور بزنس نہیں سنبھال رہے تھے۔ تب مسعود بھائی اور ان کے بیٹے کہاں تھے، اب خواہ مخواہ میں ہمدردیاں جتائی جارہی ہیں۔ صاف صاف کیوں نہیں کہتے کہ کوئی فائدہ ہو رہا ہے اسی لیے منصور کے بزنس میں شریک ہیں ورنہ فی زمانہ کوئی بھی کسی کی مدد کے لیے نہیں آتا۔” منیزہ نے غصے سے کہا۔
”خیر یہ تو میں نے کہا تھا اس سے… بلکہ یہ بھی کہا تھا کہ وہ تم لوگو ںکا احسان مانے، جنہوں نے ہر چیز مسعود کے ہاتھ میں دی ہے۔ وہ سیاہ کرے یا سفید کوئی پوچھنے والا نہیں مگر شبانہ تو سارا وقت بڑبڑاتی ہی رہی۔ اسے کوئی ایک شکایت تھوڑی تھی۔ شکائتوں کا ڈھیر تھا جو اس کے پاس اکٹھا تھا۔ میں تو تنگ آگئی اس کے گِلے سنتے سنتے اور اٹھ کر اپنے گھر چلی گئی۔ اب اتنا جھوٹ کیسے سنتی میں۔” منورہ نے منیزہ سے کہا۔
”شبانہ کی یہی عادتیں مجھے اچھی نہیں لگتیں۔ احسان مندی نام کی کوئی چیز تو اس کے اندر ہے ہی نہیں اس کی جگہ کوئی اور ہوتا تو ہمارے سامنے سر نہ اٹھاتا مگر ایک وہ ہے کہ…” منیزہ نے تلملاتے ہوئے کہا۔
”میں نے تو یہ بات کہی اس سے کہ اسے خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے اور تم لوگوں کا احسان مند ہونا چاہیے۔”
”یہ تو آپ کہہ رہی ہیں نا آپا! وہ تو احسان مندی نام کی کسی شے سے واقف ہی نہیں ہے۔” منیزہ کو جیسے اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع ملا ”آپ نے تو اب پہلی بار اس کے منہ سے یہ باتیں سنی ہیں میں تو کئی سالوں سے اس کے یہی اطوار دیکھ رہی ہوں۔ ہمارا تو وہی حال ہے کہ احسان بھی کریں اور جوتے بھی کھائیں۔”