وہ شادی کے اگلے ہفتے ہارون کے ساتھ ہنی مون کے لیے انگلینڈ چلی گئی۔ وہاں آنے کی خواہش ہارون کی تھی۔ وہ چاہتا تھا۔ وہ دونوں چند ہفتے وہاں گزاریں۔
شائستہ اس کے ساتھ ساتویں آسمان پر پہنچی ہوئی تھی۔ وہ اس کے لیے سراپا محبت تھا۔ شائستہ کو اپنے انتخاب پر فخر ہو رہا تھا۔ وہ اگر کسی زندگی کے خواب دیکھتی تھی تو ایسی ہی زندگی کے… کسی پابندی کے بغیر… آزادی کی زندگی… اور اب اسے وہ آزادی حاصل تھی۔
وہ اس برقعہ کی گرفت سے باہر آچکی تھی جو وہ اپنے ماں باپ کے گھر اوڑھا کرتی تھی۔ زندگی اس کے لیے ایک بالکل نئے معنی لے کر آئی تھی۔
انگلینڈ آنے کے دوسرے دن لنچ پر ہارون نے اس سے کہا۔
”آج ہم ڈاکٹر کے پاس جا رہے ہیں۔”
”کس لیے؟” شائستہ اس کے منہ سے یہ خلافِ توقع جملہ سن کر حیران ہوئی۔
”تمہارے لیے۔”
”میرے لیے؟… مجھے کیا ہوا؟ میں بالکل ٹھیک ٹھاک ہوں۔” شائستہ نے کہا۔
”ہاں لیکن ہم پھر بھی ڈاکٹر کے پاس جا رہے ہیں… میں اپائنٹمنٹ لے چکا ہوں”
”ٹھیک ہے، چلے جائیں گے۔”
شائستہ نے بڑے سرسری انداز میں کہا۔ اس کا خیال تھا، ہارون اس کا مکمل چیک اپ کروانا چاہتا تھا۔
شام کے وقت وہ ہارون کے ساتھ ہاسپٹل چلی گئی۔
ہارون ڈاکٹر کے ساتھ بڑے نارمل انداز میں گفتگو کر رہا تھا۔
”میں ان کا چیک اپ کر لیتی ہوں، اس کے بعد میں آپ کو ابارشن کے لیے ڈیٹ دے دوں گی۔”
شائستہ کو لگا اسے ڈاکٹر کی بات سننے اور سمجھنے میں کوئی غلطی ہوئی ہے۔
”آپ نے کیا کہا؟” اس نے اپنی غلط فہمی دور کرنے کے لیے انگلش میں ڈاکٹر سے پوچھا۔
ڈاکٹر نے ایک بار پھر مسکراتے ہوئے اپنی بات دہرا دی۔
”ابارشن؟” اس نے فق رنگت کے ساتھ ہارون کو دیکھا، اس کا چہرہ بالکل بے تاثر تھا۔
”یہ کیا کہہ رہی ہے ہارون؟” اس نے اس بار ہارون سے پوچھا۔ ڈاکٹر اب خاموش ہو گئی تھی، شاید شائستہ کے چہرے کے تاثرات نے اسے کچھ محتاط کر دیا تھا۔
اس سے پہلے کہ ہارون اس کی بات کا جواب دیتا، ڈاکٹر نے اس سے پوچھا۔
”کیا آپ کی بیوی یہ نہیں جانتی کہ آپ بچے کا ابارشن کروانا چاہتے ہیں؟”
”وہ جانتی ہے لیکن وہ ابھی بھی کچھ کنفیوزڈ ہے۔ میں اس سے بات کرلوں گا… آپ اس کا چیک اپ کرلیں۔” ہارون نے مسکراتے ہوئے ڈاکٹر کو تسلی دی۔
”نہیں۔ مجھے چیک اپ نہیں کروانا… ڈاکٹر سے بات کرنے سے پہلے تم مجھ سے بات کرو۔” شائستہ غم و غصہ کی حالت میں اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
ہارون نے سرد نظروں سے اسے دیکھا اور پھر ڈاکٹر سے کہا۔
”میرا خیال ہے، ہمیں یہ چیک اپ آج ملتوی کرنا پڑے گا… میں فون پر آپ سے اگلی اپائنٹمنٹ طے کرلوں گا۔ میری بیوی ایک بار پھر خوف زدہ ہو رہی ہے۔”
اس نے آخری جملہ قدرے مزاحیہ انداز میں کہا اور پھر ڈاکٹر سے ہاتھ ملاتے ہوئے باہر آگیا۔ شائستہ تب تک پہلے ہی کمرے سے باہر نکل چکی تھی۔
”تم کیا کرنا چاہتے ہو میرے ساتھ؟” شائستہ نے اس کے باہر نکلتے ہی تقریباً چلاتے ہوئے اس سے پوچھا۔ ہارون نے تنبیہی انداز میں انگلی اٹھا کر بے تاثر آواز میں اس سے کہا۔
”یہاں تماشا کرنے کی ضرورت نہیں ہے… جو بھی بات ہے۔ ہم فلیٹ پر واپس جا کر کریں گے۔” وہ شائستہ کا انتظار کیے بغیر کوریڈور کو عبور کرنے لگا۔ شائستہ نے سرخ چہرے کے ساتھ اس کی پیروی کی۔
واپسی کا پورا رستہ وہ ٹیکسی میں خاموش رہے۔ شائستہ بری طرح بپھری ہوئی تھی اور اس کے لیے خاموش بیٹھے رہنا مشکل ہو رہا تھا مگر اسے اندازہ تھا کہ ہارون اس سے راستہ میں کوئی بات کرے گا نہ سنے گا۔
فلیٹ کا دروازہ کھول کر اندر آتے ہی اس نے اپنا بیگ دور دیوار پر دے مارا تھا۔ ہارون نے ایک اچٹتی سی نظر اس بیگ پر ڈالی اور دروازے کو لاک کرتے ہوئے صوفہ کی طرف بڑھ گیا۔
”تم مجھے یہاں اس لیے لائے ہو؟” شائستہ نے تیز آواز اور سرخ چہرے کے ساتھ اس سے پوچھا۔
”اس کام کے لیے ”بھی” لے کر آیا ہوں۔” ہارون نے پرسکون انداز میں صوفہ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
وہ دونوں ہاتھ کمر پر رکھے پلکیں جھپکائے بغیر بے ترتیب سانس کے ساتھ اسے دیکھتی رہی۔ ”اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ تم مجھے ہاتھ کی مکھی بنا کر رکھو گے تو یہ تمہاری بھول ہے… اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ تم مجھے جو کچھ کہو گے میں آنکھیں بند کرکے کرنے پر تیار ہو جاؤں گی تو یہ بھی تمہاری بھول ہے۔”
”میں کسی بھول میں رہنے والا مرد نہیں ہوں… تم کیا کرسکتی ہو۔ کیا نہیں۔ یہ کوئی مجھ سے بہتر نہیں جان سکتا۔”
ہارون کے لہجے میں کیا چھپا تھا وہ اندازہ نہیں کر سکی۔ اس نے اندازہ کرنے کی کوشش بھی نہیں کی۔
”میں کسی صورت بھی ابارشن نہیں کرواؤں گی۔” اس نے دو ٹوک انداز میں کہا۔ ”اور میں آخر ابارشن کیوں کرواؤں… اب جب میں تم سے باقاعدہ طور پر شادی کر چکی ہوں تو ابارشن کی ضرورت کہاں رہتی ہے۔”
”تمہارا خیال ہے، چھ ماہ کے بعد جب یہ بچہ پیدا ہو تو میں سب سے یہ کہوں کہ مجھ سے یہ بالکل نہ پوچھیں کہ شادی کے چھٹے ماہ میرے ہاں اولاد کیسے ہوگئی ہے۔ صرف یہ کافی ہے کہ میں اور شائستہ شادی شدہ ہیں اور اکٹھے رہ رہے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔” اس بار اس کی آواز میں طنز تھا۔
شائستہ چند لمحوں کے لیے کچھ نہیں بول سکی۔” ہم… ہم… کہہ سکتے ہیں کہ بچہ پری میچیور ہے۔” اس نے کچھ دیر بعد اٹکتے ہوئے کہا۔
”میرے علاوہ کس کس کو عقل سے پیدل سمجھتی ہو تم؟” ہارون نے تلخ آواز میں کہا۔
”چھٹے ماہ پیدا ہونے والا بچہ زندہ رہ پاتا ہے؟… اور زندہ رہ بھی جائے تو اس کی حالت کیسی ہوتی ہے… اس کا اندازہ ہے تمہیں…” وہ اب مشتعل ہو کر صوفہ سے اٹھ گیا۔
”تم چاہتی ہو، لوگ ہمارے بارے میں انگلیاں اٹھائیں۔ وہ اپنے اندازے پیش کریں۔ تمہاری اور میری شادی ہم دونوں کی ضد پر ہوئی ہے۔ یہ پورا خاندان جانتا ہے۔ لوگوں کو یہ موقع نہ دو کہ وہ اس کی وجوہات ٹریس آؤٹ کرنے بیٹھ جائیں۔”
”تم کو خاندان کی فکر کب سے ہونے لگی… تمہیں لوگوں کی انگلیاں کب سے پریشان کرنے لگیں… تم کبھی بھی اتنے قدامت پرست اور روایتی سوچ کے مالک تو نہیں تھے۔”
”میں قدامت پرست ہوں، نہ روایتی سوچ کا مالک ہوں لیکن مجھے خاندان کی پروا ہے۔” ہارون نے اکھڑ لہجے میں کہا۔
”تمہاری اور میری کورٹ میرج کا کسی کو پتا نہیں ہے نہ تمہارے گھر والوں کو… نہ میرے گھر والوں کو… اور میں اس بچے کے حوالے سے ایسی کسی چہ میگوئیوں کا حصہ بننا نہیں چاہتا جو میرے ماں باپ یا بہن بھائیوں کے لیے کسی شرمندگی کا باعث بنیں۔”
وہ اس کا منہ دیکھنے لگی۔ ہارون کمال کا ایک نیا چہرہ اس کے سامنے تھا۔
”ہر ایک یہی سمجھے گا کہ شادی سے پہلے ہم دونوں کے تعلقات تھے… اگر ہم نے کورٹ میرج کا بتا بھی دیا تب بھی کوئی اس بات پر یقین نہیں کرے گا۔” اس نے تلخی سے کہا۔ ”میں اپنے ماں باپ کا سب سے بڑا بیٹا ہوں میرے حوالے سے کی جانے والی ایسی کوئی قیاس آرائی میرے ماں باپ کو صرف خاندان میں ہی نہیں بلکہ میرے بہن بھائیوں کے سامنے بھی سر اٹھانے کے قابل نہیں رکھے گی… اور پھر میری دونوں بہنیں، وہ کیا سوچیں گی میرے بارے میں… اور کل کو اس بچے کے بڑے ہونے پر لوگ اس کے بارے میں کس طرح کی باتیں کریں گے… نہیں شائستہ! میں کسی قیمت پر بھی یہ بچہ پیدا نہیں ہونے دوں گا۔” اس نے قطعی لہجے میں کہا۔
”تمہیں اپنے خاندان کی پروا ہے… تمہیں اپنے ماں باپ کی فکر ہے… تمہیں اپنے بہن بھائیوں کا غم کھائے جا رہا ہے… اگر تمہیں کسی کی رتی برابر بھی پروا نہیں ہے تو وہ میں ہوں۔” شائستہ نے مشتعل ہوتے ہوئے کہا۔
”مجھے تمہاری پروا ہے… یہ جو کچھ میں کر رہا ہوں۔ یہ تمہارے اور اپنے لیے ہی کر رہا ہوں۔”
”نہیں، میرے لیے تم کچھ نہیں کر ہے۔ تم جو کچھ بھی کر رہے ہو۔ صرف اپنے اور اپنے خاندان کے لیے کر رہے ہو… ان کی عزت کی فکر ہے تمہیں… تمہیں خوف ہے کہ… خاندان والے تمہارے گھر والوں کو برا بھلا کہیں گے تمہیں لعنت ملامت کریں گے۔”
”تمہیں بھی تو کریں گے… تمہارے گھر والوں کو بھی تو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا اس سے زیادہ شرمندگی کا جتنا میرے گھر والوں کو کرنا پڑے گا۔” ہارون نے اسی تند و تیز آواز میں کہا۔ ”تم سامنا کرسکو گی اپنے گھر والوں کا… اس بچے کے ساتھ؟… تم ان کے سوالوں کا جواب دے سکو گی۔”
وہ ہونٹ بھینچے اسے دیکھتی رہی پھر یک دم پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
”تمہاری خواہش تھی کورٹ میرج… تم مجھے لے کر جاتے رہے تھے اپنے گھر… اس وقت سوچنا چاہیے تھا تمہیں یہ سب کچھ… اپنے گھر والوں کا… میرے گھر والوں کا… اپنا… میرا…” وہ ہسٹریائی انداز میں چلانے لگی۔
”میں کیوں سوچتا… میں نے تمہیں مجبور کرکے تم سے کورٹ میرج کی تھی… نہ گن پوائنٹ پر تمہیں اپنے گھر لے جاتا رہا تھا۔ تم اپنی مرضی سے میرے ساتھ جاتی رہی ہو۔” ہارون نے بڑے سرد لہجے میں کندھے جھٹکتے ہوئے کہا۔
”میرے ماں باپ ٹھیک کہتے تھے۔ مجھے تم سے شادی نہیں کرنی چاہیے تھی… تم… تم… تم انسان ہو ہی نہیں… انسانوں کی قبیل سے تمہارا تعلق ہے ہی نہیں۔” وہ تاسف سے سر ہلاتے ہوئے بولی۔
٭٭٭
باقرشیرازی نے اپنے پی اے کو اپنے اپائنٹمنٹس کے لیے کی جانے والی درخواستوں کی تفصیلات دہرانے کے لیے کہا۔ وہ اپنے اگلے ہفتے کی ملاقاتوں کا شیڈول بنوا رہا تھا۔
پی اے باری باری مختلف لوگوں کے نام اور ملنے کی نوعیت سے اسے آگاہ کر رہا تھا۔ وہ بعض لوگوں سے فوری اپائنٹمنٹس طے کر رہا تھا۔ بعض کو ٹالنے کا کہہ رہا تھا اور بعض سے ملنے سے انکار کر رہا تھا۔
پھر پی اے نے کسی طوطے کی طرح رٹے رٹائے انداز میں دوسرے لوگوں کی طرح وہ دو نام بھی دہرائے۔
باقر شیرازی اپنی ریوالونگ چیئر جھلاتے جھلاتے ایک لحظہ کے لیے رک گیا۔ ”زرقا اور شمشاد بیگم؟” اس نے حیرانی سے کہا۔
”یس سر… زرقا اور شمشاد بیگم۔” پی اے جانتا تھا کہ یہ دونوں نام باقر شیرازی کے لیے اجنبی نہیں تھے۔ ایک سال پہلے بھی اس نے باقر شیرازی کے ساتھ ان کی کچھ اپائنٹمنٹس طے کی تھیں۔
”یہ دونوں کیوں ملنا چاہتی ہیں؟” باقر شیرازی نے پوچھا۔
”کسی نجی کام کے لیے ملنا چاہتی ہیں۔” پی اے نے مودب انداز میں کہا۔
”تم نے پوچھا نہیں کہ وہ نجی کام کیا ہے؟”
”میں نے پوچھا تھا مگر انہوں نے بتانے سے انکار کر دیا۔ وہ کہنے لگیں کہ باقر صاحب ہمیں اچھی طرح جانتے ہیں۔ آپ ان کو ہمارا نام بتا دیں۔ وہ ضرور ہمیں ملاقات کے لیے وقت دے دیں گے۔” پی اے نے ان دونوں کا بیان دہرایا۔
”ٹھیک ہے، انہیں اپائنٹمنٹ دے دو۔” باقر شیرازی نے اپنی سیٹ کی پشت سے ٹیک لگالی۔
”سر! کس دن کی اپائنٹمنٹ دوں؟”
”کل کی۔”
”کل؟” پی اے نے حیرانی سے سر اٹھا کر دیکھا۔ ”مگر سر! کل تو آپ کی بہت ضروری اور اہم اپائنٹمنٹس ہیں یہ اپائنٹمنٹ کیسے ایڈجسٹ کرسکتا ہوں اتنے بزی شیڈول میں۔”
”نہیں۔ مجھے ان سے کل ہی ملنا ہے فوری۔” باقر شیرازی نے مستحکم آواز میں کہا۔
پی اے نے ایک لمحہ کے لیے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور پھر سر جھکا لیا۔ ”ٹھیک ہے سر۔” اس کے منہ سے نکلا۔
”آپ ان سے کہاں ملیں گے؟” اس نے اگلا سوال پوچھا۔
”ان سے پوچھیے وہ مجھ سے کہاں ملنا چاہتی ہیں؟” باقر شیرازی نے کہا۔
پی اے نے ایک بار پھر سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ وہ لاپروائی سے اپنی ریوالونگ چیئر گھماتے ہوئے کسی سوچ میں گم تھا۔
”کتنے منٹ دوں سر؟” اس نے چند لمحوں بعد نوٹ بک پر کچھ نوٹ کرتے ہوئے پوچھا۔
”یہ بھی آپ ان ہی سے پوچھیں۔” باقر شیرازی نے کہا۔ پی اے نے عجیب سی نظروں سے اسے دیکھا۔
اگلے ہی لمحہ وہ نوٹ بک پر جھکا اور برق رفتاری سے اس میں کچھ نوٹ کرنے لگا۔ باقر شیرازی اب بھی بڑے اطمینان اور سکون کے عالم میں اپنی ریوالونگ چیئر جھلانے میں مصروف تھا۔
٭٭٭