تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱

‘’ہاں۔ تم ٹھیک کہہ رہی ہو ہمیں اس بار پاکستان جا کر امبر اور صبغہ کی نسبت ضرور طے کر دینی چاہیے۔ خاندان میں پہلے ہی بہت کم اچھے رشتے ہیں اور کچھ وقت اور گزرا تو پھر وہ رشتے بھی نہیں رہیں گے۔ پورے خاندان میں ہمیں کوئی اچھا رشتہ نہیں ملے گا۔ اور خاندان سے باہر شادی کرنا اور وہ بھی بیٹی کی تو بہت ہی مشکل کام ہے۔ کم از کم میرے خاندان میں تو اس بات پر ہنگامہ مچ جائے گا۔ لیکن ابھی بھی وقت نہیں گزرا ہے۔ اچھا کیا تم نے مجھ سے اس بات کا ذکر کر دیا۔ اس بار پاکستان جا کر یہ مسئلہ بھی حل کر ہی لیں گے۔ ویسے تمہارا کیا خیال ہے امبر اور صبغہ کے لیے خاندان میں کون سے لڑکے سب سے موزوں ہوں گے۔’’
منصور علی اس رات کافی فکر مند انداز میں منیزہ سے بات کر رہے تھے۔ اگلی دوپہر کو ان کی فلائٹ تھی اور سامان کی پیکنگ کے بعد منیزہ حسب عادت سونے کے بجائے ان کے پاس بیٹھ گئیں اور پھر انہوں نے پہلی بار انہیں اپنی مستقبل کی ذمہ داریوں کا احساس دلایا جو امبر اور صبغہ کی صورت میں ان کے کندھوں پر تھیں۔ وہ کافی دنوں سے اس بارے میں سوچ رہی تھیں اور انہیں حیرت بھی تھی کہ ایسے خاندان میں جہاں بچوں کی پیدائش کے ساتھ ہی ان کے مستقبل کا فیصلہ بھی کر دیا جاتا تھا وہاں امبر اور صبغہ کی پیدائش سے لے کر اب تک انہیں یا منصور علی کو اس بات کا خیال کیوں نہیں آیا اور اب وہ اپنی پریشانی کو منصور علی کے ساتھ شیئر کر رہی تھیں۔
منصور علی کے سوال پر وہ کچھ دیر تک سوچتی رہیں۔




‘’دیکھیں،خاندان میں رشتے تو بہت سے ہیں۔ بہت سے بچے ایسے ہیں۔ جن کے بارے میں ان کے والدین نے ابھی کچھ طے نہیں کیا۔ مسعود بھائی کے بیٹے ہیں۔ ثریا کا بیٹا ہے پھر آمنہ کے بچے بھی ہیں۔ خاندان میں کچھ اور بھی بچے ہیں۔ اب یہ تو آپ کو طے کرنا ہے کہ کہاں امبر اور صبغہ سب سے زیادہ خوش رہ سکیں گی۔’’
کچھ دیر سوچنے کے بعد منیزہ نے بڑی رسانیت سے شوہر سے بات کرتے ہوئے آخری فیصلے کا حق انہیں سونپ دیا۔
‘’پھر بھی تمہاری بھی تو کوئی رائے ہوگی۔ تمہیں بھی تو بتانا چاہیے کہ کون سے گھر ہماری بیٹیوں کے لیے سب سے مناسب رہیں گے۔ میں اکیلا تو ایسے فیصلے نہیں کر سکتا۔ یہ بہت نازک معاملات ہوتے ہیں ساری زندگی کا دارومدار ہوتا ہے ان فیصلوں پر۔ صرف ایک شخص اپنے بل بوتے پر ایسے فیصلے نہیں کر سکتا بلکہ کسی کو کرنے چاہئیں بھی نہیں۔ میں بھی اپنی اولاد کے بارے میں ہر فیصلہ خود ہی نہیں کرنا چاہتا۔ چاہتا ہوں کہ تم بھی اس معاملہ میں میری مدد کرو۔” منصور علی نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی۔
‘’اگر آپ میری رائے چاہتے ہیں تو فی الحال تو میری اس معاملے میں کوئی رائے نہیں ہے۔ میں نے امبر اور صبغہ کے رشتوں کے بارے میں ضرور سوچا ہے لیکن خاندان کے لڑکوں پر ابھی غور نہیں کیا لیکن میرا خیال ہے ہمیں مسعود بھائی کے بیٹوں کے لیے ان سے بات کرنی چاہیے اگر یہ رشتے ہو جائیں تو سب سے زیادہ موزوں رہیں گے، ایک تو وہ آپ کے بڑے بھائی ہیں پھر ان کی مالی حیثیت بھی اچھی ہے ویسے بھی شبانہ اور مسعود بھائی دونوں مزاج کے بہت اچھے ہیں۔ خود غرض نہیں ہیں اور نہ ہی زیادہ چالاک ہیں، یہی خصوصیات ان کے بچوں میں بھی آئی ہوں گی۔ ویسے بھی آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہمارا ہمیشہ کتنا خیال رکھتے ہیں۔ کتنی پروا کرتے ہیں اور اگر ہماری پروا کرتے ہیں تو کیا کل کو ہماری بیٹیوں کی پروا نہیں کریں گے۔’’
منیزہ نے اپنی رائے دی۔ منصور علی ان کی بات پر سوچ میں پڑ گئے، مسعود علی سے تعلقات ان کے واقعی ہی بہت اچھے تھے لیکن اب ان کے بارے میں ایک نئے زاویے سے سوچتے ہوئے وہ خدشات کا شکار ہوئے۔
‘’تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔ واقعی مسعود بھائی کے بیٹے امبر اور صبغہ کے لیے سب سے موزوں رہیں گے مگر کیا وہ واقعی اس شادی پر تیار ہو جائیں گے۔ ہو سکتا ہے وہ اپنے بچوں کے رشتے کہیں اور کرنا چاہتے ہوں۔’’
‘’ابھی تک تو شبانہ نے کبھی مجھ سے اس سلسلے میں بات نہیں کی کہ وہ طلحہ اور اسامہ کے رشتے کہیں کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اگر ان کا ایسا ارادہ ہوتا تو وہ مجھے ضرور بتا دیتیں اور بالفرض اگر وہ اپنے بچوں کا رشتہ کہیں اور کرنا چاہتے ہوں گے تو پھر کیا ہے ہم کون سا انہیں مجبور کر رہے ہیں، وہ جہاں جی چاہے اپنے بچوں کے رشتے طے کریں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ لیکن امبر اور صبغہ کے لیے ان سے بات تو کرنی چاہیے۔ اس میں تو کوئی ہرج نہیں ہے پھر اگر وہ انکار بھی کر دیں گے تو کیا ہوگا کوئی قیامت نہیں آجائے گی۔ خاندان میں اور بھی اچھے رشتے ہیں ہم وہاں کہیں امبر اور صبغہ کی نسبت طے کر دیں گے۔” منیزہ نے بڑی سنجیدگی سے انہیں کہا۔
‘’لیکن منیزہ! ہم خود کیسے اس سلسلے میں بات کریں گے۔ یہ تو بہت آکورڈسی سچویشن ہو جائے گی۔” منصور علی نے ان کی بات سن کر کچھ جھجکتے ہوئے کہا۔
‘’لیں بھلا اس میں ایسی کون سی بات ہے۔ مسعود بھائی کون سے غیر ہیں اور امبر صبغہ بھی ان کی بھتیجیاں ہیں، اگر ہم اسی طرح شرماتے رہے تو کوئی اور ہم سے پہلے ان کے گھر اپنے بچوں کا رشتہ لے کر پہنچ جائے گا اور ہم منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔” منیزہ نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی۔
‘’ہاں تم ٹھیک کہہ رہی ہو بس تو پھر طے ہے کہ اس بار پاکستان جاتے ہی ہم مسعود بھائی اور شبانہ بھابھی سے ا سلسلے میں بات کریں گے۔” منصور علی جیسے کسی فیصلہ پر پہنچ گئے۔
٭٭٭
‘’دیکھو ہارون! مجھے تمہاری کسی سرگرمی پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ نہ میں نے پہلے کبھی کیا ہے اور نہ ہی آئندہ کبھی کروں گی۔ لیکن یہ سب کچھ گھر تک نہیں آنا چاہیے، تم باہر کیا کرتے ہو کیا نہیں مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور نہ ہی میں نے تم پر کبھی اس سلسلے میں پابندیاں عائد کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن ایسی عورتوں کو یہاں اس گھر میں نہیں آنا چاہیے۔ تم انہیں ایک تھرڈ کلاس Commodity کے طور پر استعمال کرتے ہو تو انہیں تھرڈ کلاس ہی رہنے دو۔ وہ اس گھر میں آنے کے قابل ہوتی ہیں نہ ہماری سوسائٹی میں موو کرنے کے، اس لیے ایسے دم چھلوں کو تم ہر جگہ اپنے ساتھ لگا کر مت آجایا کرو۔’’
‘’ایک تو تمہیں معمولی معمولی باتوں پر غصہ آجاتا ہے۔ یار! میں کب ایسی چیزوں کو گھر تک لانے کا قائل ہوں مگر بس وہ بے وقوف خود ہی یہاں آگئی۔ اب ظاہر ہے یہاں آگئی تھی تو میں اسے دھکے دے کرتو نکال نہیں سکتا تھا۔ ابھی اس کے تھرو اس کے باس سے بہت سے کام کروانے ہیں۔ اس لیے مجھے اس کی اتنی خاطر مدارت کرنی پڑی۔ اس ایک کیس کے علاوہ آج تک میں ایسی ویسی کسی لڑکی کو یہاں لایا ہوں۔ تم بتاؤ پہلے کبھی تمہیں اس بارے میں شکایت ہوئی ہے۔’’
ہارون نے بڑی نرمی اور محبت سے اس سے پوچھا۔ وہ بڑے سکون سے اپنے ناخنوں پر کیوٹکس لگانے میں مصروف رہی۔
‘’کیا تمہارا غصہ ابھی بھی ختم نہیں ہوا؟ ابھی بھی ناراض ہو؟” ہارون نے ایک بار پھر اس سے پوچھا۔
اس نے مسکراتے ہوئے اپنے کندھے سے نیچے لٹکتے ہوئے تراشیدہ بالوں کو جھٹکا دیا اور اس کے چہرے پر نظریں جما دیں۔
‘’میں نے پہلے بھی تم سے کہا ہے کہ میں تم سے ناراض ہوں نہ ہی مجھے غصہ آیا ہے۔ ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر میں کبھی ناراض نہیں ہوتی، لیکن اس عورت کے بات کرنے کا طریقہ مجھے پسند نہیں آیا۔وہ میرے سامنے بھی اس طرح ناز نخرے دکھا رہی تھی جیسے تمہاری بیوی میں نہیں وہ ہے۔ اس کا بس چلتا تو وہ شاید مجھے گھر سے ہی نکال دیتی۔ ویسے مجھے اس پر ہنسی بھی آرہی تھی میں سوچ رہی تھی کہ اس کا خیال ہوگا کہ ہارون کمال اس پر بری طرح مر مٹا ہے اور اس حد تک اس کے عشق میں غرق ہوگیا ہے کہ اپنی بیوی کے سامنے بھی اس کے ناز و انداز دیکھ رہا ہے۔ وہ یہ نہیں جانتی کہ یہ تو ہارون کمال کی عادت ہے جب کچھ عرصے بعد یہ راز کھلے گا کہ ہارون کمال نے اسے استعمال کیا ہے تو پھر میں ایک بار اس عورت سے مل کر اس کا شکریہ ادا کرنا ضرور چاہوں گی کہ وہ میرے شوہر کے بہت کام آئی۔’’
اپنی بات کے اختتام پر شائستہ نے ایک ہلکا سا قہقہہ لگایا۔ ہارون کمال بھی مسکرانے لگا۔
‘’ویسے بعض دفعہ میں سوچتا ہوں شائستہ کہ تم جیسی عورتیں بہت کم ہوتی ہیں۔ خوبصورت، ذہین، سمجھدار،۔ اگر مجھے تم جیسی بیوی نہ ملتی تو میرا تو واقعی بیڑا غرق ہو جاتا۔ مجھ جیسا بندہ تو کسی عام عورت کے ساتھ گزارا نہیں کرسکتا۔ مجھے تو ہمیشہ زندگی میں ہر چیز خاص ہی چاہیے۔ چاہے وہ گھر میں رکھا ہوا کوئی ڈیکوریشن پیس ہو یا پھر لائف پارٹنر۔ میرے لیے تو سب کچھ سب سے جدا ہی ہونا چاہیے اور خدا کا شکر کہ میری زندگی میں سب کچھ ایسا ہی ہے۔’’
ہارون کمال نے بیڈ پر دراز ہوتے ہوئے کہا۔ شائستہ کے ہونٹوں پر ایک فخریہ مسکراہٹ لہرائی تھی، لیکن وہ کچھ کہنے کے بجائے خاموشی سے اپنے کیوٹکس لگے ناخنوں کو خشک کرتی رہی۔
‘’پتا ہے شائستہ! میں تمہیں جس طرح دیکھنا چاہتا تھا۔ تم بالکل ویسی ہی ہوگئی ہو۔ یہ سمجھ لو کہ میرے خوابوں کی عورت ہوگئی ہو۔ تم سے شادی کرتے وقت میں نے تم سے بہت سی توقعات وابستہ کی تھیں اور ہمیشہ کی طرح میری تمام توقعات پوری ہوگئی ہیں۔’’
وہ اسے دیکھتے ہوئے بولا۔ شائستہ کی مسکراہٹ اور گہری ہوگئی۔
‘’کیا توقعات تھیں تمہیں مجھ سے؟ پہلے، تو کبھی تم نے مجھے بتایا نہیں۔” اس نے اپنے ناخنوں پر پھونک مارتے ہوئے ہارون سے پوچھا۔
وہ ایک گہری مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھتا رہا۔” بہت سی توقعات تھیں۔ ایک براڈ مائنڈڈ، بولڈ اور گلیمرس لائف پارٹنر کی۔ جو میرے شانہ بشانہ چل سکے۔ میری سوسائٹی، میرے سوشل سرکل میں موو کرسکے Independent (خود مختار) ہو اپنے فیصلے خود کرنے کی طاقت رکھتی ہو۔ مڈل کلاس عورتوں کی طرح چھوٹی چھوٹی باتوں پر بحث نہ کرتی ہو۔ مجھے میری زندگی جینے دے اور خود اپنی زندگی جیے۔ مجھے اپنی مٹھی میں بند کرنے کی کوشش نہ کرے اور تم… شائستہ! تم بالکل ویسی ہی ہو جیسا میں نے سوچا تھا۔” وہ دھیمے لہجے میں بولا۔
‘’یعنی پھر میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ تمہیں تمہارا آئیڈیل مل گیا ہے… ہے نا؟” شائستہ نے کچھ شرارتی انداز میں کہا۔
ہارون نے ایک قہقہہ لگایا۔ ”آئیڈیل خیر اب ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے۔ ویسے مجھے حیرت ہوئی ہے کہ تم نے یہ کیسے سوچ لیا کہ ہارون کمال آئیڈیلسٹ ہوگا اگر ہارون کمال آئیڈیلسٹ ہوتا تو پھر کوئی شاعر ہوتا۔ دو دو سو روپے لے کر مشاعرے پڑھ رہا ہوتا۔ ایک کمرے کے ایک مکان میں رہتا جس کی دیواریں اور چھت ہر برسات میں ٹپکتی۔ لوگوں سے ادھار لے لے کر گھر کا خرچ چلاتا اور پھر جب لوگ قرض واپس مانگنے آتے تو باہر سے تالا لگا کر خود کہیں چھپ کر بیٹھ جاتا۔ نہیں شائستہ! ہارون کمال آئیڈیلسٹ کبھی نہیں رہا۔ میں ایک پریکٹیکل اور حقیقت پسند آدمی ہوں۔ ہر چیز کو خود سے وابستہ کرنے سے پہلے خوب اچھی طرح جانچ لیتا ہوں، اس کے بعد اسے خود سے وابستہ کرتا ہوں تمہیں بھی بہت اچھی طرح جانچا اور پرکھا تھا میں نے شادی سے پہلے، تب کہیں جا کر اس گھر میں لانے پر تیار ہوا تھا لیکن میری توقعات کو تم آئیڈیلزم کا نام مت دو۔ آئیڈیلزم کچھ اور ہی چیز ہوتی ہے۔ اس میں اور توقعات میں بہت فرق ہوتا ہے، جیسے بازار میں کوئی چیز خریدنے سے پہلے ہم اس میں بہت کچھ دیکھتے ہیں اس کے بعد اسے خرید لیتے ہیں تو کیا تم اسے آئیڈیلزم کہو گی؟” ہارون کمال یک دم کافی سنجیدہ ہوگیا تھا۔
‘’ویسے ہارون! بعض دفعہ تم فلسفہ بولنے لگتے ہو، بالکل کسی فلاسفر کی طرح یوں جیسے تم نے بہت سی کتابیں پڑھی ہوں۔” شائستہ نے اس سے کہا۔
‘’میں نے کتابوں کو نہیں پڑھا مگر زندگی کو بہت پڑھا ہے اور میں تم کو ایک بات بتاؤں۔ زندگی میں وہی کامیاب ہوتے ہیں جنہیں زندگی کا پتا ہوتا ہے۔ اس کے بارے میں کچھ علم ہوتا ہے۔ جنہیں صرف کتابوں کا علم حاصل کرنے کا شوق ہوتا ہے۔ زندگی انہیں بہت بری طرح سے ضائع کرتی ہے۔’’
وہ آج واقعی کسی اسکالر کی طرح گفتگو کر رہا تھا۔ شائستہ کو اس کی گفتگو میں کوئی دلچسپی محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ ایسی باتیں ہمیشہ اس کے سر سے گزر جاتی تھیں۔ اس وقت بھی ایسا ہی ہو رہا تھا۔ وہ ہارون کی گفتگو سے بور ہونے لگی تھی۔ اس لیے اس نے بات کا موضوع بدل دیا۔ مگر بات کا موضوع بدلنے کے باوجود اپنے لیے ہارون کے ادا کیے ہوئے تعریفی کلمات اس کے دماغ سے نہیں نکلے تھے۔ اس کی آواز بار بار اس کے دماغ میں لہرا رہی تھی اور اس کی خوشی بڑھتی جا رہی تھی۔ ہارون جیسے بندے کی توقعات پر پورا اترنا کوئی معمولی کام نہیں تھا اور وہ خوش تھی کہ یہ غیر معمولی کام اس نے کیا ہے۔
٭٭٭
یتیم خانے کی انچارج نے اپنے دفتر میں داخل ہونے والی عورت کو دیکھا اور پھر بے اختیار اپنی سیٹ سے کھڑی ہو گئی۔ اس عورت میں کچھ ایسی ہی بات تھی۔ شیفون کی سیاہ ساڑھی میں اس کا دراز قد اور بھی نمایاں ہوگیا تھا۔ سلیولیس کھلے گلے کا بلاؤزر اس کے جسم کو ڈھانپنے میں مکمل طور پر ناکام رہا تھا۔ اس نے اپنے بالوں کا اونچا سا جوڑا بنایا ہوا تھا اور جوڑے سے نکلی ہوئی کچھ لٹیں ہلتے ہوئے اس کے گالوں سے ٹکرا رہی تھیں۔ کانوں میں پہنے ہوئے لمبے آویزوں کے سرے اس کے برہنہ کندھوں تک آرہے تھے۔ اس کا سراپا جتنا دلکش تھا۔ چہرہ بھی اتنا ہی خوبصورت تھا۔ سیاہ آنکھوں اور تیکھے نقوش کو اس کی سرخ و سفید رنگت نے جیسے دو آتشہ کر دیا تھا۔
انچارج مبہوت ہو کر اسے کمرے کے اندر آتے دیکھتے رہی۔ اس عورت نے میز کے پاس آکر اپنا شولڈر بیگ کندھے سے اتارا اور میز پر رکھ دیا۔ پھر ایک دلکش مسکراہٹ کے ساتھ اس نے انچارج کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا۔
‘’میرا نام عالیہ ہے، میں ایک ضروری کام سے آپ کے پاس آئی ہوں۔’’
اس کی نرم آواز اور دلکش مسکراہٹ نے انچارج پر ہونے والے جادو کو مکمل کر دیا تھا۔
‘’آپ بیٹھیں نا!” اس نے ہاتھ ملاتے ہوئے اس عورت سے کہا۔
وہ عورت سر ہلاتی ہوئی بیٹھ گئی۔
‘’جی فرمایئے۔ میں آپ کی کیا خدمت کرسکتی ہوں۔’’
انچارج کی آواز میں حد سے زیادہ مٹھاس تھی۔ اس عورت نے ایک گہرا سانس لیا پھر اپنے بیگ کو میز سے اٹھا کر کھول لیا۔ کچھ دیر تک وہ بیگ کے اندر کچھ ڈھونڈتی رہی۔ پھر اس نے کاغذ کا ایک ٹکڑا نکال کر انچارج کے سامنے رکھ دیا۔
‘’تقریباً تین سال پہلے آپ کے پاس اس ہاسپٹل سے صفیہ نام کی ایک عورت ایک بچہ لے کر آئی تھی۔ میں اس بچے کے بارے میں جاننا چاہتی ہوں۔’’
اس عورت نے بغیر کسی تمہید کے اپنا مدعا بیان کر دیا تھا۔انچارج کچھ حیران اور قدرے مایوس ہوئی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ شاید یہ عورت بھی کوئی بچہ گود لینے آئی ہے، مگر یہاں تو صورت حال ہی مکمل طور پر الٹ گئی تھی۔ قدرے ہچکچاتے ہوئے اس نے کاغذ کا وہ ٹکڑا اٹھالیا۔ ایک نظر اس پر ڈالی اور پھر اس عورت سے کہا۔ ”پچھلے تین سال میں یہاں بہت سے بچے لائے گئے ہیں۔ آپ کس بچے کے بارے میں جاننا چاہ رہی ہیں۔ یہاں بیٹھے بیٹھے تو میرے لیے یہ بتانا کافی مشکل ہو جائے گا۔’’
‘’نہیں، آپ اپنا ریکارڈ دیکھ لیں میں جانتی ہوں۔ اس میں کچھ وقت لگے گا مگر میں انتظار کرنے کے لیے تیار ہوں۔’’
اس عورت نے انچارج کے مزید کچھ کہنے سے پہلے ہی کہہ دیا۔
انچارج مزید شش و پنج میں پڑ گئی۔ ”دیکھیں یہاں بہت سے بچے آتے رہتے ہیں اور اکثر بچوں کو بے اولاد جوڑے گود لے لیتے ہیں پھر یہ تو ہے بھی تین سال پرانی بات۔’’
انچارج نے مزید وضاحت دینے کی کوشش کی تھی۔ وہ عورت قطعاً بددل نہیں ہوئی، اس کے ہونٹوں کی مسکراہٹ کچھ اور گہری ہو گئی تھی۔
‘’مجھے پتہ ہے تین سال ایک لمبا عرصہ ہے مگر بہت لمبا تو نہیں، لوگ تو تیس تیس سال پرانا ریکارڈ چیک کر دیتے ہیں۔” اس نے جیسے انچارج کو اکسانے کی کوشش کی تھی۔
‘’ٹھیک ہے میں مانتی ہوں ہم نے پورا ریکارڈ رکھا ہوتا ہے، لیکن پھر بھی ہم یوں ہی ہر آنے جانے والے کے کہنے پر ریکارڈ چیک کرنے نہیں بیٹھ جاتے۔ میں نہیں جانتی آپ کون ہیں؟ بچے کے بارے میں کیوں جاننا چاہتی ہیں؟ اس سے آپ کا کیا تعلق ہے؟ ان سب سوالوں کے جواب دیئے بغیر تو میں اس بچے کے بارے میں آپ کو کچھ نہیں بتا سکتی۔” اس بار انچارج نے صاف صاف کہا۔
‘’آپ پہلے بتائیں۔ آپ کون ہیں اس بچے سے آپ کا کیا تعلق ہے؟’’
اس عورت نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگالی، پہلی بار اس کے چہرے پر پریشانی کے کچھ اثرات نمودار ہوئے تھے۔
‘’کیا یہ بتائے بغیر آپ میری مدد نہیں کرسکتیں؟” اس نے انچارج سے پوچھا۔
‘’دیکھیں، میں اگر آپ کی مدد کرنا چاہوں تو بھی ہر ادارے کے کچھ قواعد و ضوابط ہوتے ہیں، ان کی پابندی کرنا ہی پڑتی ہے۔ یہ معلومات حاصل کیے بغیر میں کسی بھی طرح اس بچے کے بارے میں آپ کو کچھ نہیں بتا سکتی۔” انچارج کا لہجہ اس بار بھی نرم تھا۔
‘’ٹھیک ہے۔ میں آپ کی مجبوری سمجھ سکتی ہوں۔ میں آپ کو سب کچھ بتا دیتی ہوں۔’’
اس عورت نے ایک گہری سانس لے کر کہا۔ کچھ دیر تک وہ سوچتی رہی یوں جیسے بات شروع کرنے کے لیے لفظ ڈھونڈ رہی ہو پھر اس نے بولنا شروع کیا۔
‘’یہ میری بہن کا بیٹا ہے۔ اس کا نام صاعقہ تھا۔ تقریباً پانچ سال پہلے اس نے گھر والوں کی مرضی کے خلاف گھر سے بھاگ کر ایک آدمی کے ساتھ شادی کر لی ہم سب نے اس سے ہمیشہ کے لیے تمام روابط ختم کر دیئے۔ دو تین بار اس نے گھر آکر مصالحت کرنے کی کوشش کی لیکن میرے پاپا نے اسے گھر آنے نہیں دیا۔ انہوں نے اسے صاف کہہ دیا کہ وہ ہمارے خاندان کے لیے مر چکی ہے۔ اب وہ صرف اس شخص کے ساتھ رہے جس کے لیے اس نے گھر سے بھاگ کر ہمارے خاندان کو رسوا کر دیا تھا۔ جب دو تین بار گھر آنے پر اس طرح اس کی بے عزتی کی گئی تو پھر اس نے گھر آنا چھوڑ دیا۔ ان ہی دنوں میری شادی ہوگئی اور میں امریکہ چلی گئی۔ صاعقہ اس شخص کے ساتھ کیسی زندگی گزارتی رہی ہمیں اس کے بارے میں کبھی کچھ پتا نہیں چلا، یا آپ یہ سمجھ لیں کہ ہم نے کبھی پتا چلانے کی کوشش ہی نہیں کی۔ ہم سب اپنی مصروفیات میں گم رہے۔ چار سال کے بعد اب جب میں امریکہ سے واپس پاکستان آئی تو میرا جی چاہا کہ میں صاعقہ سے ملوں کیونکہ وہ میری اکلوتی بہن تھی۔ اس کا پتا کرنے کی کوشش کی تو شاک لگا یہ جان کر کہ تین سال پہلے بچے کی پیدائش کے دوران اس کا انتقال ہوگیا تھا۔ اس کا شوہر ایکبہت ذلیل انسان تھا اس نے صاعقہ کو صرف اسی لیے اپنی جھوٹی محبت کے جال میں پھنسایا تھا کہ وہ ایک بڑے گھرانے کی لڑکی تھی اور اس کا خیال تھا کہ اس طرح وہ بھی اونچی سوسائٹی میں شامل ہونے میں کامیاب ہو جائے گا، لیکن جب پاپا کے صاعقہ کو جائیداد سے عاق کر دینے کی وجہ سے اس کے یہ سارے خواب چکنا چور ہو گئے تو اس نے صاعقہ کو تنگ کرنا شروع کر دیا۔ وہ کوئی مستقل کام نہیں کرتا تھا اور صاعقہ کو مجبور کرتا تھا کہ وہ اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے خود کوئی کام کرے۔ پھر جب وہ مختلف کام کرکے روپے لاتی تو وہ اس سے روپے چھین لیتا اور نہ دینے پر اس کی پٹائی کرتا۔ صاعقہ کے مرنے کے بعد اس نے بچے کو خود پالنے کے بجائے بچے کو ہاسپٹل میں ہی چھوڑ دیا۔ مجھے جب یہ ساری معلومات حاصل ہوئیں تو میں اس ہاسپٹل گئی اور وہاں سے مجھے اس یتیم خانے کا پتا چلا۔ اب میں چاہتی ہوں کہ وہ بچہ مجھے دے دیا جائے۔ وہ ہمارے خاندان کا ہے میں خود اسے پالوں گی۔ اگر آپ وہ بچہ اس طرح میرے حوالے نہیں کر سکتیں تو پھر میں اسے قانونی طور پر گود لینے کے لیے تیار ہوں۔’’
بات کے اختتام تک وہ بہت جوش میں آچکی تھی۔ انچارج نے بڑی ہمدردی سے اس عورت کو دیکھا جس کی آنکھوں میں اس وقت ہلکی ہلکی نمی تیرنے لگی تھی۔
‘’آپ کی کہانی سن کر بڑا افسوس ہوا لیکن کیا کیا جاسکتا ہے، زندگی ہوتی ہی ایسی ہے میں ریکارڈ سے اس بچے کے بارے میں معلوم کرتی ہوں اگر تو وہ بچہ ابھی یہیں ہوا جو کہ تقریباً ناممکن ہے تو پھر آپ اس بچے کو اپنی تحویل میں لے سکتی ہیں، لیکن اگر وہ بچہ پہلے ہی کوئی دوسرا جوڑا لے جا چکا ہوا تو پھر میں معذرت خواہ ہوں کہ آپ کی کوئی مدد نہیں کرسکوں گی۔’’
انچارج نے بیل بجاتے ہوئے کہا۔ ایک عورت کمرے کے اندر آئی انچارج نے اسے ریکارڈ لے کر آنے کے لیے کہا۔ تھوڑی دیر بعد وہ عورت ایک بڑا رجسٹر لے کر اندر آئی۔ انچارج نے رجسٹر اس سے لے لیا اور میز پر اسے رکھ کر اس کے صفحے الٹنے لگی۔ اس دوران وہ عورت بڑی بے چینی سے اس رجسٹر کو دیکھے جا رہی تھی۔ پانچ دس منٹ کے بعد ایک صفحے پر انچارج کی نظریں ٹک گئیں۔
‘’جی آپ یہ بتائیں کہ یہ بچہ یہاں کب لایا گیا تھا؟’’
انچارج نے اس عورت سے پوچھا۔ اس عورت نے اندازے سے دو تین تاریخیں بتائیں۔ انچارج نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
‘’ہاں اس تاریخ کو اس نام کی ایک عورت ایک بچہ لے کر آئی تھی۔ مگر وہ بچہ اب اس یتیم خانہ کی تحویل میں نہیں ہے۔ وہ ایک بے اولاد جوڑے کو تقریباً چھ ماہ پہلے دے دیا گیا ہے۔’’
انچارج نے اسی صفحے پر نظریں جماتے ہوئے کہا۔ عورت کے چہرے پر یک دم مایوسی لہرائی۔
‘’کیا آپ مجھے اس جوڑے کا اتا پتا دے سکتے ہیں۔ میں خود ان سے بات کرلوں گی۔” کچھ سوچنے کے بعد اس عورت نے کہا۔
‘’نہیں۔ یہ تو کسی صورت نہیں ہوسکتا، یہ ہمارے رولز کے خلاف ہوگا۔ ہم بچہ لینے والوں کے نام اور پتے ہمیشہ راز میں رکھتے ہیں اس لیے ان کے بارے میں تو میں آپ کو کچھ نہیں بتا سکتی۔” انچارج نے رجسٹر بند کرتے ہوئے بڑی صاف گوئی سے کہا۔
عالیہ نے مایوسی سے سر ہلایا۔
‘’دیکھیں آپ بہت ظلم کر رہی ہیں ہمارے خاندان پر بھی اور اس بچے پر بھی۔ ہم لوگ اس غلطی کی تلافی کرنا چاہتے ہیں جو ہم نے صاعقہ کو نظر انداز کرکے کی، لیکن یہ اسی صورت ہو سکتا ہے کہ اگر آپ یہ بچہ واپس دلوانے میں میری مدد کریں اور اگر آپ اس کام میں میری مدد نہیں کرسکتیں تو کم از کم آپ یہ تو کریں کہ مجھے ان لوگوں سے ملوا دیں۔ شاید جو بات میں آپ کو نہیں سمجھا سکی وہ ان کو سمجھا دوں۔’’
‘’میں نے آپ سے پہلے بھی کہا ہے کہ مجھے آپ سے پوری ہمدردی ہے مگر میں مجبور ہوں۔ ہمیں کچھ چیزوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ جب بھی بچے بے اولاد جوڑوں کو دیئے جاتے ہیں تو پوری قانونی کارروائی ہوتی ہے کاغذات تیار کیے جاتے ہیں جنہیں سائن کیا جاتا ہے اور ان ہی کاغذات کی رو سے ہم مجبور ہیں کہ کسی بچے کے اصلی لواحقین کے ملنے کے بعد بھی انہیں بچے کا پتا نہ دیں، لیکن آپ فکر مت کریں۔ بچہ محفوظ ہاتھوں میں ہے، ہم بچے دینے سے پہلے پوری تحقیق کرتے ہیں تب ہی بچے دیتے ہیں۔ آپ کو تو اس کا اچھا مستقبل چاہیے۔ اب وہ چاہے آپ کے پاس رہ کر ہو یا کسی اور کے پاس رہ کر۔ میرا خیال ہے، آپ میرا مطلب اور میری مجبوری سمجھ چکی ہوں گی۔’’
انچارج نے بڑے دھیمے لہجے میں اس عورت کو سمجھانے کی کوشش کی تھی۔
کچھ دیر تک وہ عورت سرد نظروں سے انچارج کو گھورتی رہی، پھر اس نے ایک بار پھر میز سے اپنا بیگ اٹھا کر اپنی گود میں رکھ لیا پھر اسے کھول کر اس نے نوٹوں کی دو گڈیاں نکال کر انچارج کے سامنے میز پر رکھ دیں۔ انچارج اس کی اس حرکت پر ہکا بکا رہ گئی۔ اس کی نظریں چند لمحوں کے لیے ان نوٹوں پر جمی رہیں پھر اس نے کچھ الجھے ہوئے انداز میں سامنے بیٹھی ہوئی عورت کو دیکھا جو اب بڑے اطمینان سے کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے کرسی کے بازوؤں پر کہنیاں جمائے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں پھنسا کر سرد نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
‘’یہ روپے کس لیے آپ نے میری میز پر رکھے ہیں؟” انچارج کی آواز بہت کھوکھلی تھی۔
‘’یہ بیس ہزار روپے میں نے آپ کے لیے رکھے ہیں یہ آپ کے ہوسکتے ہیں اگر آپ مجھے اس بچے تک پہنچا دیں۔ آپ نہیں جانتیں اس بچے تک پہنچنا میرے لیے کتنا ضروری ہے۔’’
اس عورت نے ایک بار پھر بے تاثر چہرے کے ساتھ انچارج سے کہا۔ اس بار انچارج خاصی گڑبڑائی تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ فوری طور پر کیا کرے۔ ایک معمولی سے کام کے عوض اسے بیس ہزار روپے مل رہے تھے اور بیس ہزار روپے اس کے بہت سے مسائل حل کر سکتے تھے۔ وہ کوئی ایماندار عورت نہیں تھی۔ چھوٹی موٹی بے ایمانیاں اور چکر بازیاں کرتی رہتی تھی اور ان کے بدلے چھوٹے موٹے فائدے بھی حاصل کرتی رہی تھی۔ مگر اس بار اسے پہلی مرتبہ اتنا بڑا ہاتھ مارنے کا موقع مل رہا تھا۔
وہ کچھ دیر تک گھبرائی ہوئی چور نظروں سے نوٹوں کو اور اس عورت کو دیکھی رہی اور پھر وہ جیسے ایک نتیجے پر پہنچ گئی۔
‘’دیکھیں، آپ اتنا مجبور کر رہی ہیں تو ٹھیک ہے۔ میں آپ کو ان کا ایڈریس دے دوں گی یا پھر ایک کام اور ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ میں خود ان سے رابطہ کروں اور انہیں آپ کا مسئلہ بتا کر بچہ واپس لینے کی کوشش کروں۔ اس طرح آپ کو کسی پریشانی کے بغیر بچہ واپس مل جائے گا۔” انچارج نے پست آواز میں کہا تھا۔
وہ عورت کچھ دیر تک انچارج کی بات پر غور کرتی رہی پھر یک دم وہ جیسے کسی فیصلہ پر پہنچ گئی۔
‘’ٹھیک ہے، آپ خود ہی ان لوگوں سے رابطہ کریں اور انہیں پورے مسئلے کے بارے میں بتا دیں۔ اگر تو وہ آرام سے بچہ لوٹانے پر تیار ہو جائیں تو ٹھیک ہے اور اگر وہ بچہ واپس لوٹانے پر تیار نہ ہوں تو آپ انہیں میری طرف سے آفر دیجئے گا کہ وہ جتنی رقم چاہیں لے لیں لیکن یہ بچہ واپس کر دیں۔ ایسی آفر انہیں زندگی میں دوبارہ کبھی نہیں ملے گی۔’’
٭٭٭




Loading

Read Previous

فوبیا — فاطمہ عبدالخالق

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۲

2 Comments

  • I want to give you my story plz make it novel give it a happy ending plz

  • Good

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!