تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱

”کیا مطلب ہے تمہارا؟ کیا تم اس کو گھر سے بھگا کر اس کے ساتھ شادی کرو گے؟ تم اکبر کو نہیں جانتے اس کی اولاد کی تربیت ایسی نہیں ہوئی کہ وہ اس طرح کا قدم اٹھائیں یا باپ کے فیصلوں کے خلاف چلیں… اور پھر اس کی بیٹی ایسا کام کرے، یہ تو بالکل ہی ناممکن ہے۔” کمال عباس اس کی بات پر پریشان ہو گئے تھے۔
”میں یہی تو دیکھنا چاہتا ہوں پاپا…! ایسی بھی کون سی تربیت کر دی ہے انہوں نے اپنی اولاد کی، جسے وہ اس قدر جتاتے رہتے ہیں۔ مجھے بھی تو پتا چلے وہ کون سا ”رزق حلال” ہے جس نے ان کی اولاد کو کسی دوسرے سیارے کی مخلوق بنا دیا ہے۔ اتنا فخر اور غرور آخر انہیں کس چیز پر ہے۔ جو شخص ترقی کرنے کے فن سے واقف نہیں۔ وہ دوسروں کی ترقی پر تبصرہ کرنے کا حق کیسے رکھتا ہے۔”
”ہمیں کسی جھگڑے میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے، نہ ہی تمہیں ایسی کوئی حرکت کرنے کی ضرورت ہے۔ میں نے تمہیں کہا ناکہ دنیا میں شائستہ سے بہتر لڑکیاں موجود ہیں اور…”
ہارون نے ایک بار پھر کمال عباس کی بات کاٹ دی۔ ”مگر اکبر عباس کی صرف ایک ہی بیٹی کا نام شائستہ ہے اور مجھے اسی سے شادی کرنی ہے۔ کیونکہ وہ مجھے بہترین لگی ہے۔”
”مگر اکبر کو تم پسند نہیں ہو۔”
”ہاں اکبر عباس کو میں بدترین لگا ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ انہیں بدترین شخص داماد کے طور پر ملے۔ انہوں نے کہا تھا وہ اپنی بیٹی کو ساری عمر گھر میں بٹھا کر تو رکھ سکتے ہیں مگر میرے ساتھ اس کی شادی نہیں کرسکتے۔” وہ مسکراتا ہوا اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔
”انہوں نے ٹھیک کہا تھا۔ مگر سات پردوں میں چھپی ہوئی رزق حلال پر پرورش پانے والی ان کی یہ بیٹی خود تو باہر آکر مجھ سے شادی کرسکتی ہے نا… پھر آپ کے بھائی کیا کریں گے، یا کیا کرسکیں گے۔ دیوار میں نقب لگانے والے چور کو صرف ایک کچی اینٹ کی ضرورت ہوتی ہے پھر دیوار توڑنے میں دیر نہیں لگتی اور شائستہ انکل اکبر کی دیوار کی وہی کچی اینٹ ہے اور کچی اینٹ چاہے مسجد میں ہی کیوں نہ لگائی گئی ہو وہ چور کو اندر آنے سے روک نہیں پاتی۔”
ہارون کی مسکراہٹ بہت گہری ہو گئی تھی… کمال عباس نے اپنے چھ فٹ تین انچ لمبے بیٹے کو کمرے سے نکلتے ہوئے دیکھا… اور انہیں اس پر فخر ہوا تھا۔
٭٭٭




”سکینہ! ذرا اس میز کو دیکھو… جگہ جگہ گرد موجود ہے یوں لگتا ہے جب سے میں چھٹی پر گئی ہوں تم نے میز کو صاف ہی نہیں کیا۔”
یتیم خانے کی انچارج تین دن کی چھٹی کے بعد آج ہی واپس آئی تھی اور اپنے آفس میں آتے ہی میز پر موجود گرد کی تہہ نے اس کا پارہ ہائی کر دیا تھا۔
”نہیں، میں تو ہر روز باقاعدگی سے کمرے کی صفائی کرتی رہی ہوں۔”
سکینہ نے فوراً سے پیشتر اپنے دوپٹے کے پلو کے ساتھ میز کو صاف کرنا شروع کر دیا اور ساتھ ہی جیسے اس نے اپنی صفائی پیش کی۔
”مجھے نظر آرہا ہے یہاں کتنی باقاعدگی سے صفائی ہوتی رہی ہے… جلدی جلدی میز صاف کرو اور آج کا اخبار لے کر آؤ۔” انچارج نے ناگواری سے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
سکینہ نے برق رفتاری سے میز صاف کی اور پھر اسی تیزی کے ساتھ دفتر سے باہر نکل گئی۔ چند منٹوں کے بعد وہ ایک بار پھر دفتر میں آئی تھی اس بار اس کے ہاتھ میں اخبار تھا جسے اس نے انچارج کے سامنے میز پر رکھ دیا۔
”ذرا پچھلے تین دن کے اخبار بھی لے کر آؤ۔”
انچارج نے اخبار کھولتے ہوئے کہا۔ سکینہ ایک بار پھر دفتر سے نکل گئی۔ جبکہ انچارج نے اخبار کھول کر اپنے سامنے پھیلا لیا۔ سرسری نظر کے ساتھ اخبار کی سرخیوں پر نظر ڈالتے ہوئے وہ اندرونی صفحات پر پہنچ گئی جہاں صوبائی دارالحکومت میں ہونے والی سوشل ایکیٹوٹیز کی خبریں اور تصویریں تھیں۔
وہ تصویروں پر ایک طائرانہ نگاہ ڈال رہی تھی جب ایک تصویر نے اچانک اسے ٹھٹھک جانے پر مجبور کیا تھا۔ اس کے چہرے پر الجھن اور ماتھے پر کچھ سلوٹیں ابھر آئی تھیں۔ اخبار کی اس تصویر اور تصویر کے نیچے موجود کیپشن کو اس نے زیر لب دو تین بار پڑھا تھا اور پھر جیسے اس کی الجھن میں کچھ اور اضافہ ہوگیا۔
”سکینہ! ذرا اس تصویر کو دیکھو۔” چند منٹوں کے بعد سکینہ کے دوبارہ کمرے میں آنے پر انچارج نے اخبار اس کے سامنے میز پر پھیلا کر اس تصویر کے نیچے انگلی رکھ دی۔ سکینہ نے آگے جھک کر بڑے تجسس کے عالم میں اس تصویر کو دیکھا۔
”یہ وہی عورت نہیں ہے جو کچھ ہفتے پہلے یہاں آئی تھی… یاد ہے نا تمہیں، بڑی خوبصورت سی ساڑھی باندھی ہوئی تھی اس نے، بالکل اسی انداز میں، جیسی اس تصویر میں باندھی ہوئی ہے۔” انچارج نے جیسے تصدیق کرنے والے انداز میں پوچھا۔
”ہاں جی، یہ وہی عورت ہے۔ اسے پہچاننے میں کیا دیر لگنی ہے۔روز روز تو اتنی خوبصو رت عورتیں نظر نہیں آتیں نا، وہی ہے بالکل وہی ہے، مگر آپ کیوں پوچھ رہی ہیں؟” سکینہ نے تصویر پر ایک نظر ڈالتے ہی کہا تھا۔
”ہاں مجھے بھی یقین تھا کہ یہ وہی عورت ہے… مجھے حیرانی ہے کہ یہ لاہور سے یہاں کیسے آگئی ایک بچے کے پیچھے اور پھر اخبار میں اس کی تصویر اور نیچے لکھی ہوئی عبارت نے مجھے حیران کر دیا ہے، میں نہیں جانتی تھی، یہ اتنی مشہور و معروف عورت ہے۔”
انچارج اب بھی الجھے ہوئے انداز میں کہہ رہی تھی۔
”ہمیں کیا جی، جتنی مرضی مشہور عورت ہو، آپ کیوں پریشان ہو رہی ہیں؟” سکینہ نے کچھ حیرانی سے انچارج کو دیکھا۔
”میں صرف اس بات پر حیران نہیں ہو رہی کہ یہ عورت اتنے بڑے خاندان سے تعلق رکھتی ہے یا بہت نامور ہے۔ مجھے تو اس کی غلط بیانی نے حیران کیا ہے۔”
”غلط بیانی؟”
”ہاں غلط بیانی اس عورت نے مجھے اپنا نام عالیہ بتایا تھا۔ اور اس تصویر میں اس کا نام…”
٭٭٭
ہارون کی چھوٹی بہن نیلو فر شائستہ کے کالج میں پڑھتی تھی… شائستہ کا اکثر اس سے آمنا سامنا ہوتا رہتا تھا، مگر وہ ہمیشہ اسے نظر انداز کرکے گزر جایا کرتی تھی۔ شائستہ بھی یہی کرتی… والدین کے درمیان پائی جانے والی تلخی نے بچوں کو بھی ایک دوسرے سے خاصا دور کر دیا تھا۔
نیلوفر کو نظر انداز کرنے کے باوجود شائستہ اس سے بہت مرعوب تھی، اور مرعوبیت کی وجہ اس کا حلیہ اور لائف اسٹائل تھا۔ نیلوفر کی کمپنی میں ساری لڑکیاں اسی کی طرح لبرل تھیں۔ اس زمانے میں ان کا گروپ کالج کے ان چند گروپس میں سے تھا جو بہت نمایاں تھے اور اس کی بنیادی وجہ ان کی آزاد خیالی اور جدت پسندی تھی۔ ان کے گروپ میں سے کوئی بھی پردہ نہیں کرتا تھا اور شائستہ کو متاثر اور مرعوب کرنے کے لیے بس اتنا ہی کافی تھا۔ نیلوفر کے تراشیدہ شانوں پر جھولتے ہوئے خوبصورت بال شائستہ کے نزدیک اس کی ایک اور خوبی تھی۔ وہ کالج آنے والی ان چند لڑکیوں میں سے ایک تھی جو اپنی ذاتی کار کو خود ڈرائیو کرکے آتی تھیں اور شائستہ کی فرسٹریشن میں اضافے کا باعث بنتی تھیں۔
وہ خود اس گاڑی میں کالج آتی تھی جسے اس کا بھائی ڈرائیو کرتا تھا اور وہ جانتی تھی کہ اس کی زندگی میں کبھی بھی وہ دن نہیں آئے گا… کم از کم اس گھر میں، جب وہ اپنی گاڑی کو خود ڈرائیو کرکے کالج آئے۔
اپنے باپ کی توجیہات اور تاویلات اس کی سمجھ سے بالاتر تھیں یا پھر وہ انہیں سمجھنا چاہتی ہی نہیں تھی۔ اس کی دوستیں نیلوفر سے اس کا رشتہ جانتی تھیں اور وہ اکثر اس سے نیلوفر کی بے اعتنائی کی وجہ بھی پوچھتی تھیں… شائستہ ہر بار فیملی پرابلمز کا بہانا بنا دیتی اور جب اس کی دوستیں اس بات پر حیرانی کا اظہار کرتیں کہ ایک ہی فیملی کا حصہ ہونے کے باوجود نیلوفر اتنی آزاد خیال کیسے ہے تو شائستہ بالکل خاموش رہتی۔ وہ کبھی بھی اس طرح نیلوفر کے لائف اسٹائل کو تنقید کا نشانہ نہ بناتی جس طرح اس کے والد اکبر عباس اپنے بھائی اور اس کے خاندان کو بناتے تھے۔
اس دن پہلی بار نیلوفر اس کے پاس آئی۔
”ہیلو شائستہ کیسی ہو؟” اس نے مسکراتے ہوئے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
”میں ٹھیک ہوں۔” شائستہ جیسے حیرت کے غوطے کھانے لگی۔
”مجھے تم سے کچھ بات کرنا ہے اگر تم چند لمحوں کے لیے میرے ساتھ آسکو؟” نیلو فر نے اس کی دوستوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔ اس وقت حلیمہ اور عارفہ اس کے ساتھ تھیں۔
”ہاں ٹھیک ہے… میں ابھی آتی ہوں۔” شائستہ اپنی دوستوں سے کہتے ہوئے نیلوفر کے ساتھ چل پڑی۔
وہ اسے چند قدم دور کالج کے لان کے ایک سنسان گوشے میں لے آئی۔ کچھ کہے بغیر اس نے اپنا بیگ کھول کر کچھ تلاش کرنا شروع کر دیا اور پھر چند لمحوں کے بعد مسکراتے ہوئے ایک لفافہ اس کی طرف بڑھا دیا۔ شائستہ کچھ نہ سمجھتے ہوئے اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔
”یہ ہارون بھائی نے دیا ہے۔” اس نے جیسے شائستہ کی حیرت دور کی۔
”مجھے؟” شائستہ کی حرانی اب بھی کم نہیں ہوئی۔
”ہاں… اور وہ کہہ رہے تھے کہ انہیں اس خط کا جواب چاہیے۔” شائستہ کی نظریں اس خط پر ٹکی رہیں… اس کا دماغ اس وقت کہیں اور پہنچا ہوا تھا۔ ہاتھ بڑھا کر آہستگی سے اس نے نیلوفر سے وہ لفافہ لے لیا۔
”میں کل دوبارہ تمہارے پاس آؤں گی… یہیں پر۔” نیلوفر جاتے ہوئے کہا شائستہ نے سر ہلا دیا۔ نیلوفر کے جانے کے بعد اس نے وہیں کھڑے کھڑے اپنا بیگ کھولا اور خط اندر رکھ دیا۔
”کیوں بھئی، یہ آج تمہاری کزن کو تمہارا خیال کیسے آگیا؟” اس کے واپس آتے ہی حلیمہ نے اس سے پوچھا۔
”اور وہ کیا کہنا چاہ رہی تھی تم سے؟” اس بار عارفہ نے کہا۔
”جس کے لیے اتنی رازداری کی ضرورت تھی؟” حلیمہ نے عارفہ کے سوال میں اضافہ کیا۔
”کچھ نہیں وہ بس ہمارے گھر آئے تھے ناکچھ دن پہلے… تو اپنے گھر آنے کے لیے کہہ رہی تھی۔” شائستہ نے فوراً بہانا گھڑا۔
”اچھا تم لوگوں کا آنا جانا شروع ہوگیا ایک دوسرے کے گھر؟… پہلے تو خاصے عرصے سے ناراضی تھی ناتم لوگوں کے گھر والوں کے درمیان؟” حلیمہ نے دلچسپی سے پوچھا۔
”ہاں، وہ پچھلے دنوں پھوپھو کے گھر شادی تھی نا تو وہیں پر سب نے کچھ صلح صفائی کروا دی۔” اس نے نظریں ملائے بغیر جھوٹ بولا۔
”چلو اچھا ہوا، جھگڑا تو ختم ہوا۔” حلیمہ نے خوشی کا اظہار کیا۔
”کلاس شروع ہونے والی ہے چلنا چاہیے۔” عارفہ نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا۔
”ہاں، چلتے ہیں۔” شائستہ نے موضوع بدلے جانے پر خدا کا شکر ادا کیا۔




Loading

Read Previous

فوبیا — فاطمہ عبدالخالق

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۲

2 Comments

  • I want to give you my story plz make it novel give it a happy ending plz

  • Good

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!