تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱

منصور علی پچھلے دس سال سے شارجہ میں مقیم تھے اور مختلف کرنسیز کی ایکسچینج کے کام سے منسلک تھے، روشان سے بڑی ان کی دو بیٹیاں تھیں امبر اور صبغہ۔ منیزہ سے ان کی شادی کو سات سال ہونے والے تھے۔ شادی کے چند ماہ بعد ہی وہ منیزہ کو اپنے ساتھ شارجہ لے آئے تھے۔ ان کا باقی خاندان پاکستان میں ہی مقیم تھا جس خاندان سے منصور علی کا تعلق تھا، وہاں بیٹے کی ایک خاص اہمیت ہوتی ہے جو ہمیشہ رہتی ہے اس اہمیت کو وقت کم کرتا ہے نہ حالات۔ منصور علی بھی اسی ذہنیت کو لیے آگے چل رہے تھے۔
دو بیٹیوں کی پیدائش نے انہیں کچھ مایوس اور بددل کر دیا تھا۔ کیونکہ وہ بیٹے کی آس لگائے بیٹھے تھے لیکن اس مایوسی اور بددلی کے باوجود انہوں نے بیٹیوں کو نظر انداز نہیں کیا۔ خاص طور پر بڑی بیٹی امبر ان کی زیادہ ہی لاڈلی تھی۔ ظاہر ہے پہلی اولاد تھی اور پھر بے تحاشا خوبصورت تھی، خوبصورت صبغہ بھی تھی مگر امبر کی کچھ اور ہی بات تھی۔ اسے خدا نے کسی کمی کا شکار نہیں رکھا تھا۔ رنگت سے آنکھوں تک وہ کمال حسن تھی۔ منصور علی کو شروع میں اس سے انس تھا۔ بعد میں یہ انس شدید قسم کی محبت میں بدل گیا تھا۔
انہوں نے امبر کی ہمیشہ ہر فرمائش پوری کی تھی، ان میں شاید اتنا حوصلہ ہی نہیں تھا کہ امبر کچھ مانگتی اور وہ اسے انکار کرتے۔ وہ شوخ تھی، شرارتی تھی۔ ہر وقت کھلکھلاتی رہتی۔ ہر وقت ایک طوفان اٹھائے رکھتی صبغہ مزاج اور طبیعت کے لحاظ سے اس سے بہت مختلف تھی۔ اس کی پیدائش پر ہی یہ پتا چل گیا تھا کہ اس کے دل میں سوراخ ہے۔ ایک سال کا ہونے پر لندن میں اس کے دل کا آپریشن ہوا تھا جو پوری طرح کامیاب رہا تھا لیکن مکمل طور پر صحت مند ہونے کے بعد بھی وہ فطرتاً بہت کم گو تھی۔
منیزہ کو اس نے کبھی تنگ نہیں کیا تھا۔ وہ اسے جہاں بٹھا دیتیں، وہ وہیں بیٹھی رہتی پھر چاہے گھنٹوں گزر جاتے مگر وہ کبھی ماں کے لیے روتی نہ چلاتی، بس خاموشی سے اپنی جگہ پڑی رہتی۔ جب کہ امبر کو منٹ منٹ بعد ماں کی یاد ستاتی تھی۔ منیزہ میں اتنی جرأت نہیں تھی کہ وہ امبر کو صبغہ کی طرح کہیں کچھ دیر کے لیے اکیلا چھوڑ دیں۔ وہ کچھ دیر ماں کے نظر نہ آنے پر ہنگامہ کھڑا کر دیتی تھی۔ اسے ہر وقت ماں کی توجہ چاہیے تھی۔ خود منیزہ بھی اس کے بغیر خود کو ادھورا محسوس کرتی تھیں۔
وہ صبغہ کو دیکھے بغیر رہ سکتی تھیں لیکن امبر کو دیکھے بغیر ان سے ایک گھنٹہ گزارنا بھی مشکل ہوتا تھا کچھ یہی حال منصور علی کا تھا، صبغہ کو وہ صرف دور سے ہی پچکارتے تھے لیکن امبر کو گھر آتے ہی اٹھا لیتے۔ وہ رات کو سوتی بھی باپ کے پاس تھی، اور اگر کبھی وہ ناراض ہو کر ان کے پاس نہ آتی تو منصور علی کی جیسے جان پر بن آتی۔
وہ اس کے آگے پیچھے پھرتے۔ اس کی منتیں کرتے۔ اس کے لیے کھلونوں کا ایک نیا انبار خرید لاتے پھر کہیں وہ بڑی مشکل سے دوبارہ ان سے بات کرتی، ان کے پاس آتی۔ روشان کی پیدائش نے بھی امبر کی اس حیثیت اور اہمیت کو متاثر نہیں کیا تھا، وہ پہلے بھی منیزہ اور منصور علی کے دل پر راج کر رہی تھی۔ اب بھی اسی کی حکومت تھی۔ ہاں نظر انداز کوئی ہونے لگا تھا تو وہ صبغہ تھی مگر وہ ابھی اتنی چھوٹی تھی کہ اسے التفات جیسے الفاظ کا مفہوم ہی پتا نہ تھا۔ اس کی کمی کی شکایت تو دور کی بات تھی۔
٭٭٭




‘’دیکھو عدیلہ! بعض چیزوں کے بارے میں میرا نقطہ نظر بہت صاف ہے، ہم لوگ جس کلاس سے تعلق رکھتے ہیں اور جس سوسائٹی میں موو کرتے ہیں وہاں بہت سی چیزیں ایسی ہوتی ہیں، جو ایک مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے کے لیے تو بہت قابل اعتراض ہوتی ہیں لیکن وہ ہمارے لیے قابل قبول ہوتی ہیں۔ ہم لوگ مڈل کلاس کی طرح نام و نہاد اخلاقی اقدار کے انبار سر پر لے کر نہیں چلتے اور پھر اخلاقیات ان چیزوں میں سے ایک ہے جس کی تعریف پر کبھی دو آدمی تک متفق نہیں ہوتے۔ ہم خاموشی سے یہ مان کیوں نہیں لیتے کہ نئی دنیا کے ساتھ چلنے کے لیے ہمیں ان فرسودہ قسم کی اقدار سے باہر نکلنا پڑے گا۔
آگے جانے کے لیے بہت کچھ بدلنا پڑے گا۔ آزادی دینی پڑے گی۔ ہر قسم کی آزادی اور ہر شخص کو چاہے وہ عورت ہو یا مرد۔’’
شائستہ کمال عدلیہ فیاض کو چائے کا کپ تھماتے ہوئے اپنے نظریات بھی ٹرے میں سجا کر پیش کر رہی تھیں۔
‘’ہم زمانہ قبل از مسیح میں نہیں رہ رہے، آج کی دنیا میں رہ رہے ہیں۔ اب تو اخلاقیات کو کوئی ٹوکری میں ڈال کر بازار میں بیچے تو بھی اسے کوئی نہ خریدے کیونکہ اس کی ضرورت نہیں ہے آج کے انسان کو۔ جب ہر انسان ایک دوسرے کو آزادی کا حق دے دے گا تو اخلاقی اقدار کی ضرورت ہی کہاں پڑے گی۔ کم از کم ہماری اور آپ کی کلاس کے لوگوں کو تو قطعاً اس کی ضرورت نہیں ہے، ہم ان اقدار کے بغیر ہی بہت اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔ ‘’
وہ بولتی جا رہی تھیں، عدیلہ فیاض چائے کے کپ لیتے ہوئے بڑے غور سے ان کی باتیں سن رہی تھی۔
‘’اب تم جس مسئلے کی وجہ سے اتنی پریشان ہو۔ وہ ایسا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ شوہر کسی دوسری عورت میں دلچسپی لینے لگا ہے۔ بھئی وہ دوسری عورت کون ہے۔ فیاض صاحب کی سیکرٹری تو پھر مسئلہ رہ ہی کیا جاتا ہے۔ تمہارا کیا خیال ہے کہ مرد یہ پی اے اور سیکریٹریز واقعی اپنی مدد کے لیے اپائنٹ کرتے ہیں، نہیں عدیلہ! تم اور میں اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے تو پھر ہمیں پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ دیکھیں، میں تو ہارون کے بارے میں بالکل پریشان نہیں ہوتی۔ حالانکہ میں جانتی ہوں کہ اس کے اپنی ہر سیکریٹری کے ساتھ تعلقات ہوتے ہیں اور یہ سب صرف سیکریٹری تک محدود نہیں ہے۔ ایسی اور بھی بہت سی عورتیں ہیں جن کے ساتھ اس کی اچھی خاصی راہ و رسم ہے تو پھر میں نے کیا کیا ہے۔ یقین کیجئے، میں تو بالکل پریشان نہیں ہوں، آدمی تو یہ سب کرتے ہی ہیں۔ میں نے ہارون سے بس یہ کہہ رکھا ہے کہ وہ کس کے ساتھ پھرتا ہے یا افیئر چلاتا ہے، مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ایک کے بجائے سو عورتوں کے ساتھ پھرے لیکن مسز ہارون کا نام کسی دوسری عورت کے پاس نہیں جانا چاہیے، بیوی صرف مجھے ہی رہنا چاہیے اور آپ دیکھ لیجئے کہ میں کتنی مطمئن ہوں کیونکہ جانتی ہوں، وہ افیئر کسی کے ساتھ بھی چلائے۔ شادی کسی کے ساتھ نہیں کرے گا اور دوسری شادی نہ کرنے کے بدلے میں میں اسے کسی چیز سے روکنے کی کوشش نہیں کرتی، میں نے اس پر کبھی کوئی پابندی نہیں لگائی، کیا حرج ہے اگر وہ ان مڈل کلاس لڑکیوں کو کچھ تحفے تحائف دے کر کچھ اچھا وقت گزار لیتا ہے۔ مجھے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہم دونوں کے آپس میں بہت اچھے تعلقات ہیں۔ میں خوامخواہ اس پر پابندیاں لگا کر اسے خود سے متنفر کیوں کروں، اپنا سکون کیوں برباد کروں اور میں تم کو بھی یہی مشورہ دیتی ہوں، فیاض صاحب گھر سے باہر جو کرتے ہیں۔ انہیں کرنے دو۔ ہماری کلاس کے آدمی مڈل کلاس کے آدمیوں کی طرح خود پر پابندیاں لگواتے ہیں۔ نہ برداشت کرتے ہیں۔ میری طرح تم بھی فیاض صاحب سے ایک بار اس مسئلے پر کھل کر بات کرلو۔ اس کے بعد سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ تم ان کی گھر سے باہر کی زندگی میں مداخلت نہ کرو تو گھر کے اندر کی زندگی خودبخود ہی اچھی ہو جائے گی۔’’
شائستہ بڑے اطمینان سے اسے اپنی زندگی کے تمام فارمولے بتاتی جا رہی تھیں۔ عدیلہ عجیب نظروں ے انہیں دیکھ رہی تھی۔
‘’تم عجیب ہو، بہت عجیب ہو، شائستہ کتنا حوصلہ ہے تمہارا کہ اپنے شوہر کو کسی دوسری عورت کے ساتھ دیکھ کر بھی تمہیں کچھ نہیں ہوتا۔ میں تو برداشت نہیں کرسکتی۔ میں فیاض سے محبت کرتی ہوں، اپر کلاس یا مڈل کلاس میں ہونے سے کچھ نہیں ہوتا۔ بعض چیزیں کبھی نہیں بدلتیں۔ اگر وہ چیزیں بدل جائیں تو پھر سارا سوشل اسٹرکچر تباہ ہو جائے گا۔ سارے رشتے ناتے ختم ہو جائیں گے۔ کیا بیوی شوہر کو غلط حرکتوں سے نہ روکے۔ اسے اجازت دے دے کہ وہ جو چاہے کرے بس کسی دوسری عورت سے شادی نہ کرے، میرا خیال ہے کسی دوسری عورت کے ساتھ دوسری شادی اتنی خطرناک نہیں ہے جتنا درجنوں عورتوں کے ساتھ پھرنا تمہیں پتا ہے شائستہ اس سے ڈھیروں زندگیاں تباہ ہوتی ہیں، دل اجڑتے ہیں۔’’
شائستہ نے بے نیازی سے ہاتھ لہرایا۔
‘’کم آن عدیلہ! اتنا اموشنل ہونے کی ضرورت نہیں۔ ایسی احمقانہ باتیں مت کرو۔ دل اجڑتے ہیں، زندگیاں تباہ ہوتی ہیں۔ بھئی دل اجڑتے ہیں تو اجڑنے دو، زندگیاں تباہ ہوتی ہیں تو ہونے دو، نہ وہ دل ہمارے ہوتے ہیں نہ زندگیاں۔ ہمارا تو سب کچھ محفوظ رہتا ہے کسی دوسرے کی زندگی اور دل سے ہمارا کیا تعلق جن کی زندگی اور دل ہے، وہ خود جانیں۔ ہمیں اپنی زندگی سے مطلب ہے۔ اپنے گھر کی پروا ہونی چاہیے۔’’
عدیلہ بے چینی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
‘’تمہاری باتیں میری سمجھ میں نہیں آتیں۔ میں فیاض کے معاملے میں بہت پوزیسو ہوں۔ میں کبھی بھی تمہاری طرح اپنے شوہر کو سب کچھ کرنے کی آزادی نہیں دے سکتی۔’’
‘’تو پھر تم بہت پچھتاؤ گی۔ فیاض کو تم راہِ راست پر کبھی نہیں لاسکتیں۔ اور اپنا گھر بھی بالآخر تباہ کر لو گی۔ پھر جب یہ سب ہوگا تو تمہیں یاد آئے گا کہ شائستہ کمال کتنی سمجھ دار تھی اور تم نے پھر بھی اس کی باتوں پر عمل نہیں کیا۔” وہ آرام سے صوفے پر بیٹھے بیٹھے بولتی جا رہی تھیں۔ عدیلہ نے کچھ نہیں کہا وہ خاموشی سے اپنا بیگ لے کر ڈرائنگ روم سے باہر نکل آئی، لیکن باہر پورچ تک آتے آتے شائستہ کے جملے اس کے کانوں میں لہراتے رہے تھے۔
‘’فیاض صاحب جو کرتے ہیں، انہیں کرنے دو ہماری کلاس کے مرد مڈل کلاس کے مردوں کی طرح خود پر پابندیاں لگواتے ہیں نہ برداشت کرتے ہیں میری طرح تم بھی فیاض صاحب سے ایک بار کھل کر بات کرلو۔ اس کے بعد سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ تم ان کی گھر سے باہر کی زندگی میں مداخلت نہ کرو تو گھر کے اندر کی زندگی خود بخود ہی اچھی ہو جائے گی۔’’
شائستہ ہارون کمال کا ایک ایک لفظ سیسے کی طرح باربار اس کے کانوں میں اترتا جا رہا تھا۔ وہ وہاں سے بھاگ جانا چاہتی تھی۔ وہ دوبارہ کبھی شائستہ کے پاس آنا نہیں چاہتی تھی۔ شائستہ کے لیے ہارون سب کچھ نہیں تھا۔ اس کے لیے فیاض ہی سب کچھ تھا۔ شائستہ کے لیے ہارون کے بغیر بھی زندگی زندگی ہی تھی اس کے لیے فیاض کے بغیر کچھ بھی نہیں تھا۔ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھنے کے بعد اس نے ڈرائیور کو چلنے کے لیے کہا اور پھر سیٹ سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔
اندر ڈرائنگ روم میں شائستہ کمال اب بھی اطمینان سے چائے پینے میں مصروف تھی۔ عدیلہ اس کی بہترین دوستوں میں سے ایک تھی اور اس کا شوہر ہارون سے اچھی خاصی واقفیت رکھتا تھا۔ عدیلہ کے ساتھ شائستہ کی اچھی خاصی انڈر سٹینڈنگ تھی۔ دونوں شروع سے اکٹھے پڑھتی رہی تھیں۔ دونوں کی فیملیز کا بھی ایک دوسرے کے ہاں کافی آنا جانا تھا، عدیلہ اکثر کام کرنے سے پہلے اس سے مشورہ ضرور لیا کرتی تھی اور پھر اس پر عمل بھی ضرور کرتی تھی مگر آج وہ اس کی باتیں سن کر جس طرح اٹھ کر بھاگی تھی۔ اس نے شائستہ کو کچھ حیران ضرور کیا تھا کیونکہ یہ وہی باتیں تھیں جو وہ اکثر عدیلہ کے سامنے دوہرایا کرتی تھی، ہاں تب عدیلہ بھی اس کی ہاں میں ہاں ملاتی تھی اور اب وہ یک دم اس کے خلاف بولنے لگی تھی تو شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ اب وہ خود کچھ ایسے حالات کا شکار ہو گئی تھی جہاں وہ شائستہ کی تھیوریز کو استعمال نہیں کرنا چاہتی تھی۔ باتوں اور عمل میں واقعی بہت فرق ہوتا ہے اور یہ فرق عدیلہ کو آج محسوس ہوا تھا۔
٭٭٭
‘’میرے لیے زندگی میں سب سے اہم چیز روپیہ ہے۔ یہ آپ کے پاس ہو تو سمجھو دنیا پاؤں کے نیچے ہے، یہ ہاتھ میں نہ ہو تو سمجھو، آپ زمین پر نہیں پاتال میں رہتے ہیں۔ میرے لیے انسانی رشتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے یہ بے کار کے بندھن اور پھندے کم از کم میرے جیسا پریکٹیکل آدمی افورڈ نہیں کرسکتا۔ میرے لیے ایسی چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور میری کامیابی کا راز بھی یہی ہے۔ تم نے بہت سے کامیاب لوگ دیکھے ہوں گے۔ بعض کہتے ہوں گے ان کی کامیابی کے پیچھے کسی کی دعائیں ہیں۔ بعض کہتے ہیں ان کی کامیابی کی محنت کا نتیجہ ہے۔ بعض کہتے ہیں یہ پراپر پلاننگ کا کمال ہے مگر میں کچھ اور ہی کہتا ہوں ہاں جاوید! میری کامیابی کا راز میری خود غرضی اور بڑی حد تک ریشنل ہونا ہے۔’’
وہ آج پھر اسے کامیابی کے آزمودہ نسخے بتا رہا تھا۔
‘’ہارون! تم اگر یہ سب نہ بھی کہو تو بھی میں جانتا ہوں کہ روپے کی تمہاری زندگی میں بہت اہمیت ہے۔ اور صرف تمہاری زندگی میں کیوں ہم سب کی زندگی میں اس کی اہمیت ہے۔ تمہارا کیا خیال ہے، دنیا میں روپے کو اتنی اہمیت دینے والے کیا تم واحد آدمی ہو۔” جاوید اس کی باتوں سے قطعاً متاثر نہیں ہوا تھا، ہارون یک دم کھلکھلا کر ہنس پڑا۔
‘’نہیں جاوید! روپے کے معاملے میں میں جتنا شدید ہوں، اتنا کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا اور مجھے روپے سے جتنی محبت ہے۔ روپے کو مجھ سے اس سے زیادہ محبت ہے۔’’
اس کے لہجے میں واضح طور پر تفاخر تھا۔ جاوید نے اس آج کے سکندر اعظم کو دیکھا جو ہر وقت اپنی فتوحات کی کہانیاں رقم کرتا رہتا تھا۔ گالف کی ٹی کو زمین میں لگاتے ہوئے وہ رک گیا۔ اسے ہارون کمال پر بے اختیار رشک آیا اس نے جو کہا تھا سچ کہا تھا۔ بہت سے لوگ اتنے مکمل ہوتے ہیں کہ ان کی اکملیت پر کبھی کبھار یقین نہیں آتا۔ ہارون کمال بھی ایسا ہی ایک بندہ تھا۔ جاوید پچھلے سات سال سے اسے جانتا تھا اور اس کے ساتھ ہونے والی ہر ملاقات اسے مزید ہارون کمال کا اسیر کرتی جا رہی تھی۔ اس میں کچھ ایسا ضرور تھا کہ جو بھی ایک بار اس سے ملتا وہ دوسری بار ملنے کی خواہش ضرور رکھتا۔ وہ کوئی سچا اور کھرا آدمی نہیں تھا اور اس نے کبھی اس کا دعویٰ بھی نہیں کیا تھا وہ دو اور دو ٢٢ پر یقین رکھنے والا آدمی تھا، پھر بھی اس کی مادیت پرستی لوگوں کو اس سے متنفر نہیں کرتی تھی بلکہ مسحور کر دیتی تھی۔ ہر ایک کو ہارون کمال بننے کی چاہ ہونے لگتی تھی۔
اسے بہت عادت تھی اپنے بارے میں بات کرنے کی۔ اپنے وجود کے بارے میں، اپنی زندگی کے بارے میں، اپنی کامیابیوں کے بارے میں، اپنے منصوبوں کے بارے میں اور اپنی خواہشات کے بارے میں اس کا پورا وجود صرف ”میں” بن کر رہ گیا تھا اور حیرت کی بات ہے کہ لوگ پھر بھی اس ”میں” سے بیزار ہوتے تھے نہ نفرت کرتے تھے۔
شاید ہارون کمال جس طبقے سے تعلق رکھتا تھا، وہاں صرف اپنا وجود ہی نظر آتا ہے۔ کسی دوسرے کی ذات اور ہستی کے بارے میں سوچنے کی روایت ہی نہیں ہے، اس نے بھی اپنی کلاس کے لوگوں کی طرح آنکھوں پر ”بلائنڈز”لگوا لئے تھے۔ جو اسے اپنے علاوہ کسی دوسرے کے اندر جھانکنے ہی نہیں دیتے تھے۔




Loading

Read Previous

فوبیا — فاطمہ عبدالخالق

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۲

2 Comments

  • I want to give you my story plz make it novel give it a happy ending plz

  • Good

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!