تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱

‘’آپ ان کاغذات کو ایک بار پھر پڑھ لیں۔’’
یتیم خانے کی انچارج نے اپنے لہجے میں حتی المقدور نرمی پیدا کرتے ہوئے کہا اور ہاتھ میں پکڑے ہوئے کاغذات میز کی دوسری طرف بیٹھے ہوئے جوڑے کی طرف کھسکائے۔
مرد نے بہت خاموشی اور سنجیدگی سے ایک بار پھر کاغذات کا تفصیلی مطالعہ شروع کر دیا تھا جبکہ عورت بڑی خاموشی اور بے نیازی سے میز کی سطح کو گھورتی رہی، یتیم خانے کی انچارج گہری نظروں سے کمرے میں موجود تمام لوگوں کے چہروں کو دیکھتی رہی مگر بار بار اس کی توجہ کونے والی کرسی پر بیٹھی اس عورت پر مرکوز ہو جاتی تھی جو اس جوڑے کے ساتھ آئی تھی اور جس کا چہرہ اس کے اندرونی اضطراب کی چغلی کھا رہا تھا۔ ساڑھے چار فٹ قد اور خاصی حد تک بدصورت وہ عورت بہت ہی بے ڈھنگے لباس میں ملبوس تھی وہ بار بار اپنے ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں پیوست کر رہی تھی۔ اس کا دایاں اور بایاں ہاتھ ایک دوسرے سے بہت مختلف تھے۔ دایاں ہاتھ بہت کمزور اور نحیف تھا جبکہ بایاں ہاتھ خاصا مضبوط اور جسیم تھا، یوں لگتا تھا جیسے اس نے دو مختلف انسانوں کے بازو اپنے جسم پر لگوائے ہوئے ہیں۔ اس کے سیاہ چہرے پر آنکھوں کی سفیدی اور اس میں حرکت کرتی ہوئی پتلیاں بے حد عجیب لگ رہی تھیں۔ ٹیڑھے میڑھے دانتوں اور بھدی ناک نے اس کی بدصورتی کو مکمل کر دیا تھا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی بار بار انچارج کی نظریں اس پر اٹھ جاتی تھیں اور ایسا آج ہی نہیں ہر بار ہوتا تھا جب سے وہ جوڑا بچہ گود لینے کے لیے وہاں آرہا تھا۔
تب سے وہ عورت ہر دفعہ ان کے ساتھ ہوتی تھی اور انچارج ہر بار چاہتے ہوئے بھی اپنی نظریں اس کے چہرے سے ہٹا نہیں پاتی تھی، شاید اس نے بدصورتی کو کبھی اتنا مجسم، اتنا مکمل نہیں دیکھا تھا۔ وہ عورت ہر بار اس جوڑے کے ساتھ آتی اور سارا وقت خاموشی کے ساتھ کرسی پر بیٹھی رہتی، اس نے ایک بار بھی کبھی اس جوڑے کی گفتگو میں مداخلت نہیں کی تھی۔ انچارج سے ہمیشہ وہ دونوں ہی باتیں کرتے تھے۔ کئی بار انچارج کا دل چاہا کہ وہ اس عورت کے بارے میں اس جوڑے سے پوچھے کہ اس سے ان کا کیا رشتہ ہے مگر ہر بار وہ پتا نہیں کیا سوچ کر چپ ہو جاتی۔
‘’ہم نے تمام کاغذات دیکھ لیے ہیں اور میں آپ کو پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ مجھے تمام شرائط منظور ہیں۔’’




کچھ وقت گزرنے کے بعد اس مرد نے کاغذات دوبارہ انچارج کی طرف بڑھا دیئے۔
‘’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم بچے کی بہت اچھی طرح دیکھ بھال کریں گے۔ اسے اپنی اولاد کی طرح رکھیں گے۔ آپ کو ہم سے کوئی شکایت نہیں ہوگی اور جہاں تک سوال ہے۔ اس بچے کی واپسی کا تو آپ اس کے بارے میں بھی فکر مند نہ ہوں، ہم کبھی بھی اسے واپس کرنے نہیں آئیں گے۔ اگر ہمیں ایسا کرنا ہوتا تو ہم اسے گود لینے کی کوشش ہی کیوں کرتے۔’’
اس آدمی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ انچارج نے کچھ بے دلی سے اس آدمی کے چہرے کو دیکھا۔ اس کے لیے یہ سارے الفاظ، یہ ساری یقین دہانیاں اور وعدے نئے نہیں تھے۔ یہاں جو بھی آتا تھا وہ اسی سے ملتے جلتے الفاظ دہراتا تھا۔ بچہ گود لے لیتا تھا۔ کچھ عرصہ گزر جاتا پھر اگر ان لوگوں کی اپنی اولاد ہو جاتی تو وہ بچہ واپس دے جاتے تھے اگر بچہ واپس لینے سے انکار کر دیا جاتا تو وہی بچہ کسی دوسرے یتیم خانے میں چھوڑ دیا جاتا تھا۔
یہ سلسلہ شروع سے اسی طرح جا ری تھا۔ انچارج اس مرد کے الفاظ سے بھی متاثر نہیں ہوئی۔
‘’دیکھیں، ہمارے یہاں تو جو بھی آتا ہے وہ شروع میں اسی طرح کی باتیں کرتا ہے، تمام شرائط بھی مان لیتا ہے۔ لمبے چوڑے وعدے بھی کرتا ہے مگر پھر بھی یہاں سے لے جانے والے بچوں کو اپنی اولاد کی طرح کوئی نہیں رکھتا۔ اگر کوئی رکھنے کی کوشش کرے تب بھی یہ سب صرف اسی وقت تک ہی ہوتا ہے جب تک کہ ان کی اپنی کوئی اولاد نہیں ہو جاتی جب اپنی اولاد ہو جاتی ہے تو پھر انہیں ایسے بچے بوجھ لگنے لگتے ہیں۔ اوّل تو انہیں پھر کوئی ساتھ رکھنے پر تیار ہوتا نہیں اور جو رکھتے ہیں، وہ اولاد کی طرح نہیں ملازموں کی طرح رکھتے ہیں۔’’
انچارج بڑے صاف اور کھرے انداز میں بولتی گئی تھی۔
‘’لیکن آپ ہمیں ایسے لوگوں میں شامل نہ کریں، آپ جانتی ہیں، ہم بے اولاد نہیں ہیں۔ ہماری پہلے ہی ایک بیٹی ہے اور اگر ہم پھر بھی اس بچے کو گود لینا چاہ رہے ہیں تو ظاہر ہے۔ یہ ہماری مجبوری تو ہو نہیں سکتی۔ میں نے آپ سے پہلے بھی کہا ہے اور ایک بار پھر کہہ دیتا ہوں کہ میں یہ بچہ کبھی واپس کرنے نہیں آؤں گا۔ آپ اس سلسلے میں فکر مند نہ ہوں، میں اس کی پرورش اپنے بیٹے کی طرح کروں گا۔ ‘’
وہ آدمی ایک بار پھر یقین دہانیوں میں مصروف ہو گیا تھا۔ اس بار انچارج نے کچھ نہیں کہا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ اس آدمی کے الفاظ سے متاثر ہوئی تھی۔ وہ بس اس بحث کو طول دینا نہیں چاہتی تھی۔ اس جوڑے کے ساتھ آئے ہوئے وکیل نے کاغذی کارروائی مکمل کرنا شروع کی، کاغذات پر دستخط کیے گئے۔ اس کے بعد یتیم خانے کو وہ روپے دیئے گئے جو طے کیے گئے تھے۔ تمام کارروائی مکمل کرنے کے بعد انچارج نے گھنٹی بجائی، ایک عورت اندر داخل ہوئی۔ انچارج نے اسے مطلوبہ بچہ لانے کے بارے میں ہدایات دیں۔ وہ عورت سر ہلاتی ہوئی چلی گئی۔
کمرے میں ایک بار پھر خاموشی چھا گئی۔ ایک چہرے کے سوا کسی اور چہرے پر اضطراب تھا نہ بے چینی، وہ چہرہ اس بدصورت عورت کا تھا۔ وہ اپنی کرسی پر بار بار پہلو بدل رہی تھی۔ انچارج کی نظریں اب بھی بار بار اسی کی طرف بھٹک رہی تھیں، اس کی بے چینی بھی اس کی نظروں سے پوشیدہ نہیں تھی۔ ایک بار پھر اس کا جی چاہا تھا، وہ اس عورت کے بارے میں اس جوڑے سے پوچھے۔ ایک بار پھر اس نے اپنی خواہش کو دبا لیا تھا۔ چند منٹ بعد وہ عورت بچہ لیے کمرے میں داخل ہوئی تھی اور انچارج کے پاس چلی گئی تھی۔ انچارج نے کھڑے ہو کر اس ڈھائی سالہ بچے کو گود میں اٹھالیا، پھر وہ اس مرد کے پاس چلی آئی، وہ اپنی کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ انچارج نے خاموشی کے ساتھ اس بچے کو مرد کے حوالے کر دیا۔ مرد نے بڑی احتیاط اور محبت سے اس سرخ و سفید بچے کو اٹھایا تھا۔ اپنی گود میں اسے اٹھاتے ہی اس نے بڑی نرمی سے بچے کے گال کو چوما تھا۔ بچہ یک دم گھبرا کر رونے لگا، مرد کے ساتھ بیٹھی ہوئی عورت نے کھڑے ہو کر اس بچے کو مرد سے لے لیا۔ بچہ اب زور و شور سے رونے لگا تھا۔ وہ عورت اسے ہلاتے ہوئے پچکارنے لگی۔
‘’اچھا جی، ہمیں اجازت دیجئے۔’’
مرد نے انچارج سے کہا تھا اور اس کے بعد خدا حافظ کہہ کر دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ اس کے پیچھے اس کی بیوی، وکیل اور بدصورتی کا وہ مجسمہ تھا انچارج کو یک دم اس سے کراہیت محسوس ہوئی تھی۔ وہ بھی اس کے پاس سے گزرتے ہوئے اسے خدا حافظ کہہ کر گئی تھی۔ اس کے کمرے سے نکلتے ہی انچارج نے سکون کا سانس لیا تھا۔
‘’عجیب چیز تھی، ہے نا سکینہ؟” انچارج نے بچہ لانے والی عورت سے پوچھا تھا۔ اس کا اشارہ کس کی طرف تھا۔ عورت جان گئی تھی۔
‘’ہاں جی، عجیب ہی چیز تھی۔ دیکھ لیں پھر خدا دنیا میں کیسی کیسی چیزیں بنا دیتا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا اب اس عورت سے کسی کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے۔ یہ کسی کے کیا کام آسکتی ہے۔’’
سکینہ نے لمبی بات شروع کر دی تھی۔ انچارج کوئی جواب دینے کے بجائے آفس کی کھڑکی میں جا کر کھڑی ہوگئی۔ وہاں سے وہ چاروں لوگ بیرونی دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے نظر آرہے تھے۔ بیرونی دروازہ کے پاس پہنچ کر بچہ اٹھانے والی عورت رک گئی۔ اس نے اس بدصورت عورت کے پاس آنے پر وہ بچہ اسے تھما دیا۔ اور پھر خود دروازہ پار کر گئی۔ اس بدصورت عورت نے بچے کو اس طرح اٹھایا جیسے وہ کوئی خزانہ تھا اور کوئی وہ خزانہ اس سے چھیننے والا تھا۔ بچے کو اٹھانے کے بعد وہ اور مضحکہ خیز لگنے لگی تھی۔
روتے ہوئے بچے کو اٹھائے ہوئے آہستہ آہستہ چلتے ہوئے وہ بھی دروازہ کراس کر گئی۔ انچارج ایک گہری سانس لے کر کھڑکی سے ہٹ گئی۔
‘’میرا خیال ہے یہ عورت اس جوڑے کے گھر کام کرتی ہے، نوکرانی ہے۔’’
اس نے آخری تبصرہ کیا تھا۔ شاید سکینہ کی معلومات میں اضافہ سے زیادہ اسے اپنے ذہن کی گتھی سلجھانے میں دلچسپی تھی۔
‘’اچھا… تم ذرا عابدہ کو بلا کر لاؤ۔’’
انچارج نے سکینہ کا جواب سننے سے پہلے ہی موضوع بدل دیا تھا۔ سکینہ سر ہلاتے ہوئے کمرے سے نکل گئی۔
٭٭٭
چمکتے ہوئے چہرے کے ساتھ منصور علی نے پہلی بار اپنے نومولود بیٹے کو گود میں اٹھایا تھا اور اسے گود میں اٹھانے کے بعد بہت دیر تک وہ کچھ کہنے کے قابل ہی نہیں رہے تھے۔ بیٹے کے وجود نے ان کی زندگی مکمل نہیں کی تھی بلکہ انہیں یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کے ننھے وجود نے ان کے قد کاٹھ میں بے تحاشا اضافہ کر دیا تھا۔ اپنے ہاتھوں میں اسے اٹھا کر انہوں نے چہرے کے پاس کیا تھا اور اس ننھے سے وجود نے انہیں پہلے سے بھی زیادہ مبہوت، زیادہ مسحور کر دیا تھا۔ وہ اپنی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں کھولے اردگرد کی چیزوں پر نظریں جمانے کی کوشش میں مصروف تھا اور اس کی آنکھوں کی چمک منصور علی کے چہرے پر جھلک رہی تھی۔ انہوں نے آگے بڑھ کر نرمی سے اس کا ماتھا چوما، ایسا نہیں تھا کہ وہ ان کا پہلا بچہ تھا۔ اس سے پہلے ان کی دو بیٹیاں تھیں۔ مگر دونوں بیٹیوں کی پیدائش پر ان کے تاثرات اور جذبات بہت عام تھے۔ انہیں شروع سے ہی بیٹے کی آرزو تھی۔ اور بیٹیوں کی پیدائش نے جہاں انہیں مایوس کیا تھا، وہاں ان کی اس آرزو کو اور شدید کر دیا تھا اور اب جب وہ بیٹے کو ہاتھوں میں تھامے ہوئے تھے تو انہیں پوری دنیا یک دم بہت مکمل، بہت خوبصورت نظر آنے لگی تھی۔ منیزہ اپنے شوہر کے احساسات اور جذبات سے بے خبر نہیں تھیں۔ وہ ان کی موجودہ کیفیت کو مکمل طور پر سمجھ رہی تھیں۔ اور جس قدر فخر ان کے شوہر کو اس ننھے وجود پر تھا۔ اس سے کہیں زیادہ فخر منیزہ منصور علی کو اس پر تھا۔
اس وقت بھی وہ فخریہ نظروں سے شوہر کو دیکھ رہی تھیں جو اس ننھے وجود کو ہاتھوں میں لیے مکمل طور پر گم نظر آرہے تھے۔
‘’منیزہ! تم نے اس کے لیے کوئی نام سوچا؟” بالآخر منصور علی نے اپنی خاموشی توڑ دی تھی۔
‘’ہاں، بہت سے نام سوچے ہیں لیکن میرا خیال ہے، حذیفہ سب سے بہتر ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے، اس کے لیے حذیفہ نام کیسا رہے گا؟” منیزہ نے شوہر کی رائے لی تھی۔
‘’نہیں منیزہ! اپنے بیٹے کا نام میں خود رکھوں گا اور اس کا نام حذیفہ نہیں روشان ہوگا۔ روشان منصور علی۔ تم دیکھنا یہ واقعی روشان ثابت ہوگا میرے لیے، یہ کوئی عام بچہ نہیں ہے منیزہ! یہ منصور علی کا بیٹا ہے۔ میں اس کو اس کے مانگنے سے پہلے دنیا کی ہر چیز لا کر دوں گا۔ دنیا کی کوئی ایسی چیز نہیں ہوگی جو روشان منصور علی کی رسائی سے باہر ہو، جو اس کے پاس نہ ہوگی۔’’
‘’وہ رُندھی ہوئی آواز اور پرجوش لہجے میں کہتے جا رہے تھے۔ منیزہ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ ان کے چہرے کو دیکھتی جا رہی تھیں۔
‘’تم دیکھنا منیزہ! میرا بیٹا کس طرح میرا دایاں بازو بنے گا۔ یہ کس طرح میرے کاروبار کو زمین سے آسمان تک لے جائے گا۔ لوگ مجھ پر رشک کریں گے کہ میں ایسے بیٹے کا باپ ہوں، مگر خدا ایسی اولاد ہر کسی کو نہیں دیتا۔ روشان منصور علی روز روز تو پیدا نہیں ہوتا۔’’
منیزہ پہلی بار منصور علی کو اس رنگ میں دیکھ رہی تھیں۔ پہلی دفعہ وہ اس قدر جذباتی ہوئے تھے۔
‘’منصور! اتنی ڈھیروں توقعات، اتنے بڑے بڑے خواب، وہ بھی اس ننھے سے بچے سے۔’’
منیزہ نے ان کے جذبات پر جیسے بند باندھنے کی کوشش کی تھی مگر ان کی کوشش ناکام ہوئی، منصور علی کی آواز میں اور جوش اور کھنک آگئی۔
‘’تمہارا کیا خیال ہے منیزہ! کیا میرے خواب پورے نہیں ہوں گے، کیا میری توقعات غلط ثابت ہوں گی۔ کیا آج تک ایسا ہوا ہے کہ منصور علی نے جو چاہا، جو سوچا ہے، اس کے برخلاف ہو جائے۔ تم دیکھنا اب بھی وہی ہوگا جو میں کہہ رہا ہوں۔’’
آج ان پر کچھ اور ہی عالم تھا منیزہ خاموش ہوگئیں، انہوں نے بھی بحث نہیں کی۔ کافی دیر تک وہ روشان کو گود میں لیے منیزہ سے باتیں کرتے رہے پھر اٹھ کر چلے گئے۔ اس دن انہوں نے پورے ہاسپٹل میں منوں کے حساب سے مٹھائی بانٹی تھی اور جہاں مٹھائی نہیں دی تھی، وہاں اسی فیاضی سے روپے بانٹے تھے، پہلی نرینہ اولاد کا استقبال انہوں نے ویسے ہی کیا تھا۔ جس طرح ان کے خاندان میں کیا جاتا تھا۔ خوب دھوم دھڑکے سے، اچھی طرح روپیہ لٹا کر، خوب صدقہ خیرات کرکے۔ روشان منصور علی کو اپنی زندگی کا پہلا دن کبھی یاد نہیں رہنا تھا مگر بہت سے لوگوں کو وہ دن نہیں بھولنا تھا۔ نہ منیزہ اور منصور علی کو نہ امبر کو اور نہ ہی ان سب لوگوں کو جنہیں منصور علی نے اس دن بے تحاشا نوازا تھا۔




Loading

Read Previous

فوبیا — فاطمہ عبدالخالق

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۲

2 Comments

  • I want to give you my story plz make it novel give it a happy ending plz

  • Good

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!