تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱

آج اسے پھر نیند نہیں آرہی تھی۔ بہت دیر تک آنکھیں بند کیے وہ سونے کی کوشش کرتی رہی مگر نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ تھک ہار کر اس نے آنکھیں کھول دیں۔ کمرے میں ہلکی سبز نائٹ بلب کی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ اس نے بیڈ پر بیٹھ کر دائیں طرف نظر دوڑائی، ہارون کمال بہت گہری نیند سو رہا تھا وہ آہستگی سے بیڈ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ ٹیرس کا دروازہ کھول کر وہ ٹیرس پر آگئی۔ ہر طرف عجیب سا سکوت چھایا ہوا تھا۔ وہ ٹیرس سے نیچے لان میں جھانکنے لگی۔ پورا لان دودھیا چاندنی میں نہایا ہوا تھا، فضا میں مختلف پھولوں کی مہک محسوس کی جاسکتی تھیں اس نے چند گہرے سانس لے کر اس مہک کو اندر تک اتارنے کی کوشش کی پھر وہ آہستہ آہستہ ٹیرس پر ٹہلنے لگی۔
رات کی خوبصورتی اور فسوں نے اس کی بے چینی اور اضطراب میں اور اضافہ کر دیا تھا۔ چند منٹ وہ وہیں بیٹھی رہی اور پھر یک دم جیسے گھبرا کر اندر کمرے میں آگئی، ہارون ابھی بھی اسی طرح پرسکون انداز میں سویا ہوا تھا۔ وہ کچھ دیر اپنے بیڈ پر بیٹھ کر عجیب سی نظروں سے اسے دیکھتی رہی پھر اس نے ایک گہری سانس لے کر بیڈ سائیڈ ٹیبل کی اوپری دراز کھولی اور سلیپنگ پلز کی شیشی نکال لی۔ وہ ہتھیلی میں گولی لیے گلاس میں پانی انڈیل رہی تھی۔ جب اس نے ہارون کی آواز سنی۔
‘’کیا بات ہے شائستہ، نیند نہیں آرہی؟” اس نے ہاتھ روک کر پیچھے مڑ کر دیکھا وہ اپنے بیڈ پر اٹھ کر بیٹھ چکا تھا اور ٹیبل لیمپ آن کر رہا تھا۔
شائستہ نے گردن موڑ لی ”نہیں، پتا نہیں کیوں نیند نہیں آرہی۔” اس نے پانی کے ساتھ گولی نگلتے ہوئے کہا۔
‘’تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے ناں؟” ہارون کے لہجے میں کچھ فکر مندی جھلکی تھی۔ اس کے چہرے پر ایک بے جان مسکراہٹ ابھری۔
‘’ہاں میں ٹھیک ہوں، مگر پتا نہیں اب اکثر رات کو نیند کیوں نہیں آتی؟’’
‘’تم نے ڈاکٹر سے چیک اپ کروایا؟’’




‘’ہاں ڈاکٹر کہتے ہیں، سب کچھ نارمل ہے صرف Anxiety ہے۔’’
وہ تھکے تھکے لہجے میں کہتے ہوئے بیڈ کے کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔
‘’کس چیز کی بے چینی ہے۔ کیا تمہیں کسی چیز کی ضرورت ہے یا پھر تم پریشان ہو؟’’
وہ ہارون کی بات پر چپ رہی، بس خالی خالی نظروں سے سامنے نظر آنے والی کھڑکیوں کو دیکھتی رہی۔
‘’شائستہ! کیا تہیں کوئی پریشانی ہے؟” ہارون نے اس بار بہت نرم آواز میں پوچھا تھا۔
‘’نہیں، کوئی پریشانی نہیں ہے۔ مجھے بھلا کس چیز کی پریشانی ہوسکتی ہے۔’’
اس کی آواز بہت کھوکھلی تھی۔ ہارون نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھا، یوں جیسے وہ اس کے چہرے پر کچھ تلاش کرنا چاہتا تھا۔
‘’کس چیز کی ضرورت ہے تمہیں؟ جیولری کی، روپے کی، کسی نئی گاڑی کی یا پھر فارن ٹور کی؟ کچھ چاہیے تمہیں۔’’
ہارون نے عجیب سی آواز میں اس سے پوچھا تھا۔ اس بار شائستہ نے اس کے چہرے پر کچھ ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر وہ پھر مایوس رہی اس نے بے جان انداز میں سر ہلا دیا۔
‘’مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ سب کچھ تو ہے میرے پاس۔ میرے لاکرز جیولری سے بھرے ہوئے ہیں۔ بینک اکاؤنٹ میں کتنا روپیہ ہے، مجھے یاد ہی نہیں۔ بہت سی گاڑیاں ہیں۔ باہر بھی بہت دفعہ جا چکی ہوں، اب اس میں سے کسی بھی چیز کی اس وقت مجھے ضرورت نہیں ہے نہ ہی ان میں سے کوئی چیز مجھے پریشان کر رہی ہے۔ ان چیزوں میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ یہ مجھے پریشان کرسکیں۔’’
وہ جیسے خود کلامی کر رہی تھی، ہارون اس کے چہرے کو غور سے دیکھتا رہا۔
‘’میں جانتا ہوں، تمہیں کیا چیز پریشان کر رہی ہے؟ کیا چیز ہے جو سونے نہیں دیتی؟’’
شائستہ نے چونک کر اس کی طرف دیکھا تھا۔ دونوں کی نظریں ملیں پھر دونوں نے ایک دوسرے سے نظریں چرا لیں۔ کمرے میں کچھ دیر خاموشی رہی پھر اس خاموشی کو ہارون نے توڑا۔
‘’شائستہ! وہ سب کچھ بھول جاؤ، اب بہت وقت گزر گیا ہے۔ ماضی کو یاد کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔’’
شائستہ کو لگا تھا، اس نے اس کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔
‘’ہارون! بھولنا آسان نہیں ہوتا۔ بھولنا ہی تو آسان نہیں ہوتا۔” وہ ایک بار پھر خود کلامی کرنے لگی تھی۔
‘’کیوں آسان نہیں ہوتا، وہ سب کچھ اتنا اہم نہیں ہے کہ تمہیں اسے بھولنے میں دّقت ہو۔ زندگی میں ایسی ایسی چیزیں ہوتی رہتی ہیں، وہ بھی ایسی ہی ایک عام بات تھی مگر پتا نہیں تم نے کیوں اس کو اتنا بڑا ہوّا بنا کر دماغ پر سوار کرلیا ہے۔’’
اس بار ہارون کی آواز میں جھنجھلاہٹ تھی۔ شائستہ اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔ پھر اس نے مدھم آواز میں کہا۔
‘’وہ معمولی بات نہیں تھی ہارون! وہ بالکل بھی معمولی بات نہیں تھی۔’’
ہارون بے تاثر چہرے کے ساتھ کچھ دیر اسے دیکھتا رہا پھر اس نے کہا۔
‘’اچھا تو پھر کیا کیا جائے اگر وہ معمولی بات نہیں تھی تو تمہیں بار بار ماضی کو کریدنے سے کیا ملتا ہے۔ ماضی پرست کیوں ہو تم؟ مستقبل کے بارے میں کیوں نہیں سوچتیں، آج کے بارے میں کیوں نہیں سوچتیں اس طرح ماضی لے کر کیوں بیٹھ جاتی ہو۔ یہ چیز اہم ہے وہ نہیں۔ یہ چیز معمولی ہے وہ نہیں۔ کیا تم ان سب باتوں سے باہر نکل کر نہیں سوچ سکتیں۔ ساری عمر کیا تم کنویں کے مینڈک کی طرح ایک ہی جگہ اچھلتی رہو گی۔ یہ تھرڈ کلاس سوچیں تمہارے جیسی عورتوں کو زیب نہیں دیتیں۔ تم کل کی عورت نہیں ہو، آج کی عورت ہو۔ آج میں جینا سیکھو، اپنے وجود کو ان ماضی کے پھندوں اور یادوں سے نکال لو۔ کم از کم میرے ساتھ رہتے ہوئے تو تمہیں ان سب چیزوں سے جان چھڑا لینی چاہیے۔ فضول باتوں پر راتوں کو جاگنا اور دوسروں کی نیند خراب کرنا، یہ کام تمہارے لیے نہیں ہیں یہ مڈل کلاس کی چادر اور چاردیواری میں قید عورتوں کے لیے ہیں۔ انہیں ان ہی کے لیے رہنے دو۔ تم مسز ہارون کمال ہو شہر کے ایک بزنس ٹائیکون کی بیوی، ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ عورت ایک دنیا جس کی دیوانی ہے، ایک دنیا جس کی اسیر ہے۔ تمہارے پاس اتنا وقت کہاں سے آجاتا ہے کہ تم اسے ماضی کے ڈراؤنے خواب کے بارے میں سوچنے پر لگا دو۔’’
وہ پتہ نہیں اسے کیا سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا اس کا ہر لفظ اس کے اضطراب کو بڑھا رہا تھا۔ وہ اس کی باتوں سے شرمندہ نہیں ہوئی تھی۔
‘’میں کوشش کرتی ہوں ہارون! میں سب کچھ بھول جاؤں لیکن یہ سب آسان نہیں ہے۔ میں ماضی کے بارے میں نہیں سوچتی، ماضی مجھے سوچتا ہے۔ پھر میں اس کے چنگل سے کیسے نکلوں۔” وہ کہہ رہی تھی۔
‘’کیا تم خوش نہیں ہو؟” ہارون نے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد بہت تیکھے لہجے میں سوال کیا تھا۔
‘’میں نے کب کہا، میں خوش نہیں ہوں، میں خوش ہوں، بہت خوش ہوں۔ یہ وہی زندگی ہے جس کے میں نے خواب دیکھے تھے جس کی تمنا کی تھی ایسی ہی زندگی بسر کرنا چاہتی تھی میں پھر ناخوش ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اپنی مرضی کی دنیا میں رہ کر کوئی ناخوش کیسے رہ سکتا ہے۔’’
اس بار شائستہ کی آواز میں پہلی سی افسردگی نہیں تھی۔
‘’یہی میں تمہیں بتانا چاہ رہا ہوں۔ یہ سب کچھ تمہاری اپنی مرضی سے ہو رہا ہے۔ جب سب کچھ اپنی مرضی سے ہو رہا ہو تو پھر ماضی کے بارے میں نہیں مستقبل کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ ماضی میں کیا ہوا کیا نہیں۔ اچھا ہوا یا برا جو بھی تھا، اسے بھول جاؤ۔ اپنے ذہن کو ایسی سوچوں اور پچھتاووں سے نکال لو، ورنہ آہستہ آہستہ ہی سہی مگر تم اس دنیا میں رہنے کے طور طریقے بھول جاؤ گی۔’’
اس بار ہارون اسے بہت نرمی سے سمجھا رہا تھا اس نے آنکھیں موند لیں۔
‘’میں کوشش کروں گی ہارون کہ میں وہ سب کچھ بھول جاؤں۔ ایک بار پھر کوشش کروں گی۔” اس کی آواز پر غنودگی غالب تھی۔
٭٭٭
اس روز اس کے لیے ایک اور رشتہ آیا ہوا تھا۔ پچپن سالہ اس شخص کی پہلی بیوی کی وفات ہو چکی تھی۔ اس کے پانچ بچے تھے جن میں سے تین بیٹیوں کی شادیاں وہ کر چکا تھا اب صرف دو بیٹے رہ گئے تھے۔ وہ دوسری شادی کے لیے کوئی ایسی عورت چاہتا تھا جو اس کا گھر اچھی طرح سنبھال لے۔ سگھڑ اور سلیقہ مند ہو اور بچوں کی خواہش مند نہ ہو۔ اس کے علاوہ اس کی کوئی شرط نہیں تھی نہ شکل کے بارے میں اور نہ ہی عمر کے بارے میں۔
اس آدمی کے خاندان کی کچھ عورتیں فاطمہ کو دیکھنے آئی تھیں۔ تب تک فاطمہ کو اس آدمی کے کوائف کا کچھ پتا نہ تھا۔ اسے امی نے تیار ہو کر ڈرائنگ روم میں آنے کے لیے کہا تھا۔ بجھے ہوئے دل سے کپڑے بدل کر اور بال وغیرہ سنوار کر وہ مہمانوں کے سامنے جانے کے لیے تیار ہو گئی۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی وہ جانتی تھی کہ مہمان اسے ٹھکرا کر چلے جائیں گے اور یہ سب جاننے کے باوجود وہ خاموشی سے اپنے گھر والوں کے اشاروں پر چلنے پر مجبور تھی، بعض دفعہ اس کا دل چاہتا وہ چیخ چیخ کر ہر ایک سے کہہ دے کہ اسے شادی نہیں کرنی۔ اب اسے تماشا بنانا چھوڑ دیں ہر بار وہ اپنا منہ بند رکھنے پر مجبور ہو جاتی۔
وہ جانتی تھی کہ گھر والے ہر قیمت پر اس کے بوجھ سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس کی شادی کر دینا چاہتے ہیں اور وہ یہ سب جانتے ہوئے بھی اب لوگوں کے سامنے پیش ہونے سے تنگ آچکی تھی۔
چائے کی ٹرے لے کر وہ مردہ دلی سے ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی۔ کچھ دیر تک وہ عورتیں اسے اپنے پاس بٹھا کر باتیں کرتی رہیں پھر وہ اپنی امی کے اشارے پر اٹھ کر کمرے سے باہر آگئی۔ اسے حیرت ہوئی تھی جب خلاف توقع وہ عورتیں دیر تک ڈرائنگ روم میں بیٹھی رہی تھیں۔ ان کے جانے کے بعد امی بہت خوشی کے عالم میں اس کے پاس آئیں۔ وہ اس وقت کچن میں برتن صاف کر رہی تھی۔
‘’فاطمہ! ان لوگوں کو تم پسند آگئی ہو۔ انہوں نے رشتہ طے کر دیا ہے۔’’
وہ امی کی بات پر ہکا بکا سی ان کا چہرہ دیکھتی رہی، یوں جیسے اسے ان کی بات پر یقین ہی نہیں آیا تھا۔
‘’امی! میری سمجھ میں نہیں آیا آپ کیا کہہ رہی ہیں؟” اس نے کچھ گڑبڑ ا کر امی سے پوچھا۔
وہ یک دم کھلکھلا کر ہنس پڑیں۔ ”تمہارا رشتہ طے کر دیا ہے میں نے۔ پرسوں تمہارے سسرال والے تاریخ لینے آئیں گے۔’’
وہ چپ چاپ امی کا چہرہ دیکھتی رہی پھر اس نے خلاف توقع اپنی امی سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا اور جب اس کی امی نے رشتہ کی تفصیلات بتائیں تو وہ جیسے بھڑک اٹھی تھی۔
‘’اماں! پوری دنیا میں آپ کو میرے لیے بس یہی ایک رشتہ ملا تھا۔’’
‘’کیوں؟ آخر اس لڑکے میں کیا خرابی ہے۔ منڈی میں آڑھت کا اچھا خاصا کاروبار ہے۔ اپنا گھر ہے، زمین ہے، تمہیں اور کیا چاہیے۔” اس کی امی نے خلاف معمول نرم لہجے میں کہا۔
‘’اماں! اس کو آپ لڑکا کہتی ہیں۔ اس بوڑھے کو آپ لڑکا کہہ رہی ہیں۔” اس نے تیز آواز میں کہا۔
‘’وہ بوڑھا ہے تو، تو کون سی جوان ہے۔ بتیس سال کی ہونے والی ہے اور پھر ہے کیا تجھ میں، جو تجھے کوئی شہزادہ گلفام بیاہنے آئے گا۔ شکر ہے کہ وہ لوگ مان گئے ہیں ورنہ اب تو تیرے لیے دوہاجو ڈھونڈنا بھی مشکل ہو گیا تھا۔” اس کی امی کا لہجہ بہت تلخ تھا۔
‘’میں نے آپ سے کب کہا ہے کہ میرے لیے کوئی شہزادہ گلفام ڈھونڈیں مگر میری کوئی دسویں شادی تو نہیں ہو رہی کہ آپ نے لڑکے کے لیے کوئی معیار ہی نہیں رکھا۔ اس میں کچھ دیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔’’
‘’کیا چاہتی ہو۔ کیا دیکھنا چاہیے تھا مجھے لڑکے میں؟’’
‘’اماں! کچھ تو دیکھنا چاہیے تھا۔ کچھ تو دیکھنا چاہیے تھا۔’’
آپ سب کو مجھ پر اعتراض ہے۔ آپ کو مجھ سے نفرت ہے۔ میرے اس پستہ قامت وجود سے۔ اس سیاہ چہرے سے، اس ناکارہ بازو سے اتنی نفرت ہے آپ کو میری بدصورتی سے۔’’
‘’تو اپنی زبان کو لگام دے۔ تیری بہت بکواس سن چکی ہوں۔ میں پچھلے کئی سالوں سے یہی بکواس تو سنتی آرہی ہوں۔ مگر اب حد ہو چکی ہے۔ تیرا صرف وجود بدصورت نہیں ہے دل بھی بدصورت ہے زبان بھی بدصورت ہے۔ ارے میں کہتی ہوں کہ تو اپنی زبان کو قابو کیوں نہیں کرسکتی۔ دیکھ لینا فاطمہ! اس زبان کے ساتھ تو ہمیشہ ہر جگہ ذلیل ہی ہوتی رہے گی، جوتے ہی کھاتے رہے گی۔ پھر تجھے یاد آئے گا کہ میں تجھے کیا کہتی تھی۔’’
‘’اماں! ساری عمر بددعائیں ہی دیتی رہی ہو۔ کبھی بھولے سے دعا دے دیتیں تو شاید میری زندگی یوں میرے اور آپ سب لوگوں کے لیے تماشا نہ بنتی۔’’
‘’میں نے کہا نا اب مجھے تیری بکواس نہیں سننی ہے۔ پرسوں میں نے ان لوگوں کو شادی کی تاریخ طے کرنے کے لیے بلایا ہے اور میں اسی ماہ تیری شادی کر دوں گی۔’’
‘’میں بھی آپ سے کہہ چکی ہوں کہ میں یہاں پر شادی نہیں کروں گی۔ چاہے آپ ان لوگوں کو کل بلائیں یا پرسوں میں اپنے انکار کو نہیں بدلوں گی۔” وہ بھی ماں کی طرح اپنی بات پر قائم تھی۔
اس کی بھابھی صحن میں دونوں ماں بیٹی کے درمیان ہونے والی ساری گفتگو سن رہی تھیں، اور دل ہی دل میں اس کی ہٹ دھرمی پر پیچ و تاب کھا رہی تھیں۔ ان کا بس چلتا تو وہ اسے دھکے دے کر گھر سے نکال دیتیں۔ وہ کچھ ایسا ہی بوجھ بن چکی تھی اور اب جب خدا خدا کرکے اس بوجھ سے نجات حاصل کرنے کی کچھ سبیل بنی تھی تو وہ پھر اکڑ گئی تھی۔ وہ منہ ہی منہ میں اسے جی بھر کر گالیاں دے رہی تھیں۔
کمرے کے اندر ابھی بھی وہ زور و شور سے ماں سے بحث کر رہی تھی۔ اس کی آواز بہت بلند تھی اور باہر صحن تک آرہی تھی۔ تب ہی اس کا بڑا بھائی جواد آفس سے واپس گھر آیا تھا۔ صحن میں آتے ہی اس نے کمرے سے آتی ہوئی آوازیں سن لی تھیں۔ اس کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔ کچھ دیر تک وہ اس شور کو سنتا رہا پھر اس نے بیوی سے اس بارے میں پوچھا اور فاطمہ کی بھابھی نے اپنے مخصوص انداز میں مرچ مسالا لگا کر پوری بات بتا دی۔ وہ سرخ ہوتے ہوئے چہرے کے ساتھ وہیں کھڑے ہو کر اندر سے آنے والی آوازوں کو سنتا رہا۔
‘’دیکھ فاطمہ! میں تجھ سے کہہ رہی ہوں، اپنی یہ ہٹ دھرمی چھوڑ دے۔ اب میں تیری کوئی بات سننے والی نہیں ہوں۔ ہوگا وہی جو میں چاہوں گی۔ پرسوں وہ لوگ آئیں گے اور میں ان کو تاریخ دے دوں گی پھر دیکھوں گی تو کیا کرتی ہے۔” اس کی ماں اس سے کہہ رہی تھی۔
‘’آپ ایسا کریں گی تو بہت پچھتائیں گی۔ زبردستی آپ لوگ کہیں بھی میری شادی نہیں کرسکتے۔ آپ اگر ان لوگوں کو انکار نہیں کریں گی تو میں خود کر دوں گی۔ میں بتا دوں گی کہ مجھے یہ رشتہ قبول نہیں ہے۔’’
‘’تو ہمارے منہ پر کالک پھیر دینا چاہتی ہے رسوا کر دے گی ہمیں۔’’
‘’مجھے آپ کی رسوائی کی کوئی پروا نہیں ہے۔ اگر آپ کو میری زندگی کی پروا نہیں ہے تو میں آپ کی عزت اور بے عزتی کی فکر کیوں کروں۔” اس کی ماں کو اس کی بات پر اور اشتعال آیا۔
‘’میں دیکھوں گی تو کیسے یہ سب کرتی ہے۔ میں پرسوں ہی ان لوگوں کو کہتی ہوں کہ وہ چار کپڑوں میں نکاح کرکے اسی دن تجھے لے جائیں۔” اس کی ماں کا پارہ آسمان کو چھو رہا تھا۔
‘’آپ بلوالیں ان لوگوں کو، میں بھی نکاح کے وقت انکار کر دوں گی۔ بتا دوں گی سب لوگوں کو کہ آپ سب مجھ پر کتنا ظلم کر رہے ہیں۔ میں آپ کو…’’
اس سے پہلے کہ وہ اپنی بات مکمل کر پاتی کمرے کا دروازہ کھول کر اس کا بھائی اندر آگیا اور بجلی کی تیزی کے ساتھ
‘’کس قدر بے حیا ہے تو فاطمہ! کتنی لمبی زبان ہے تیرے منہ میں، کس طرح بکواس کر رہی ہے۔ لڑکیاں کہاں اپنی شادی کے بارے میں کچھ بولتی ہیں اور تو تیرا تو منہ ہی بند نہیں ہو رہا۔ ہمیں سکھا رہی ہے کہ رشتہ کرتے ہوئے لڑکے میں کیا دیکھنا چاہیے۔ اگر ہم لڑکے میں کچھ دیکھتے تو وہ بھی تجھ میں بہت کچھ دیکھتے۔ ہے کچھ تجھ میں کہ کوئی مرد کسی مجبوری کے بغیر تجھ سے شادی پر تیار ہو جائے۔ بتا ہے کچھ؟’’
اس کی امی اب طعنوں پر اتر آئیں۔ اس کی آنکھوں میں نمی آگئی۔
‘’ہاں کچھ نہیں ہے مجھ میں، تو پھر رشتے تلاش کیوں کر رہی ہیں میرے لیے۔ رہنے دیں جہاں بتیس سال روتے دھوتے گزار لیے ہیں، وہاں باقی زندگی بھی گزار لوں گی۔’’
‘’کیوں؟ ہم تمہیں ساری عمر اپنے گلے میں کیوں لٹکائے پھریں۔ تم چاہتی ہو۔ ساری عمر تمہارا بھائی تمہارا بوجھ اپنے سر پر لادے رکھے نہ بی بی! یہ نہیں ہو سکتا۔ تمہارے لیے رشتہ ڈھونڈ لیا ہے، اب تم بیاہ کر اپنے گھر جاؤ، ہماری جان چھوڑو۔’’
اس کی امی نے جھنجھلائے ہوئے انداز میں اس کے سامنے ہاتھ باندھ دیئے۔
‘’میں نے آپ سے کہہ دیا ہے، مجھے اس شخص سے شادی نہیں کرنی۔ آپ میرے لیے کوئی اچھا رشتہ نہیں ڈھونڈ سکتیں تو نہ ڈھونڈیں۔ بس اس تماشے کو ختم کر دیں۔’’
فاطمہ ان کی اس حرکت پر ایک بار پھر غصے میں آگئی تھی۔
‘’شادی تو تمہاری اگر ہوگی تو یہیں ہوگی، کوئی اور رشتہ تو میں نہیں ڈھونڈوں گی۔ اتنی ہمت نہیں ہے مجھ میں اور شادی بیاہ کے فیصلے کرنا ماں باپ کا کام ہوتا ہے اولاد کا نہیں ہمیں نے تمہارے سب بہن بھائیوں کی شادیاں اپنی مرضی سے کی ہیں۔ مجال ہے کسی سے پوچھا بھی ہو اور تم میں اتنی ہمت کہاں سے آگئی ہے کہ اپنی شادی کے بارے میں رائے دینے اٹھ کھڑی ہوئی ہو۔ میرا جہاں جی چاہے گا میں تمہیں بیاہ دوں گی۔ دیکھوں گی تم کرتی کیا ہو۔” اس کی ماں نے جیسے اپنا فیصلہ سنا دیا۔
‘’بہن بھائی اس لیے کچھ نہیں بولے تھے کیونکہ آپ نے ان سب کی شادیاں بہت دیکھ بھال کر کی تھیں۔ بہت کچھ دیکھا تھا ان کے رشتے طے کرتے ہوئے۔ میرے لیے تو آپ اتنی سی زحمت کرنی بھی نہیں چاہ رہیں۔ بس گھر سے نکال دینا چاہتی ہیں۔ مجھے سر سے بوجھ کی طرح اتار کر پھینک دینا چاہتی ہیں۔ میں کیسے چپ رہوں۔ اللہ نے تو میرے ساتھ ناانصافی کی ہے اب کیا آپ بھی وہی کریں گی؟” وہ بات کرتے کرتے آبدیدہ ہو گئی۔
‘’تمہارے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں ہو رہی، تمہیں وہی مل رہا ہے جو تمہاری قسمت میں ہے۔ تمہارے بہن بھائیوں کو وہ ملا تھا جو ان کی قسمت میں تھا اور شاید تمہیں جو کچھ مل رہا ہے وہ بھی تمہاری اوقات سے زیادہ ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے تم نے ہمارے گھر کو جہنم بنا کر رکھ دیا ہے۔ اب تمہیں برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں رہا نہ مجھ میں نہ کسی اور میں۔ اس لیے بہتر ہے کہ تم اس رشتہ کے لیے ہاں کر دو۔’’
‘’میں اس رشتہ کے لیے کبھی ہاں نہیں کروں گی۔ اماں! میں اس رشتہ کے لیے کبھی ہاں نہیں کروں گی، ساری عمر آپ نے مجھے تماشا بنا کر رکھا ۔ ساری عمر مجھے بوجھ کہتی رہیں۔ میں آپ کے سر پر دنیا کا واحد بوجھ ہوں کیا لیتی ہوں میں آپ سے؟ کیا مانگا ہے میں نے آپ سے؟ پچھلے بتیس سال میں آپ نے میرے لیے کیا کیا ہے؟ کیا دیا ہے؟ آپ نے تو مجھے کبھی محبت تک نہیں دی، کسی اور چیز کی تو بات ہی کیا میں نے آپ کے لیے کیا نہیں کیا۔ بتیس سال اسی طرح گزارے جس طرح آپ سب چاہتے رہے۔ وہی کرتی رہی جو آپ سب کہتے رہے۔ جب سے میں نے ملازمت کی ہے۔ کبھی آپ سے ایک روپیہ نہیں لیا اور اماں پچھلے بارہ سال سے میں ملازمت کر رہی ہوں۔ بارہ سال سے آپ کو میرے لیے ایک روپیہ خرچ نہیں کرنا پڑا، پھر بھی آپ سب مجھ سے خوش نہیں ہیں۔ پھر بھی وہ اس کی طرف آیا اور اسی تیزی کے ساتھ اس نے فاطمہ کے منہ پر تھپڑ کھینچ مارا۔
‘’کیا کرو گی تم؟ بولو کیا کرو گی تم؟ سمجھتی کیا ہو تم اپنے آپ کو۔ بلا کی طرح پچھلے بتیس سالوں سے ہمیں چمٹی ہوئی ہو اور اب بھی جان چھوڑنے پر تیار نہیں۔ تمہیں اس خاندان کی عزت کا خیال نہیں ہے تو اس گھر میں کیوں رہتی ہو۔ دفع ہو جاؤ اپنی یہ منحوس شکل اس گھر سے لے کر۔’’
اس نے بات کرتے کرتے اس کے منہ پر دو اور تھپڑ مار دیئے۔ فاطمہ نے اس کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی تھی نہ اس کے سامنے سے ہٹنے کی کوشش کی تھی۔ اس کی ماں نے بیٹے کو پیچھے ہٹانے کی کوشش کی لیکن اس نے ماں کا ہاتھ جھٹک دیا۔
‘’آج مجھے چھوڑ دیں اماں! میں نے بہت برداشت کیا ہے اس کی بدزبانی کو۔ پورے گھر کو اس نے ایک عذاب میں ڈال رکھا ہے لیکن اب میں برداشت نہیں کرسکتا۔ یہ یا اس رشتہ کو قبول کرے گی یا پھر یہاں سے دفع ہو جائے۔ اس گھر میں اس بلا کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ میری اپنی اولاد بڑی ہو رہی ہے۔ میں ان کی ذمہ داری اٹھاؤں یا اسے سر پر لادے پھروں۔’’
وہ بلند آواز میں دھاڑا۔ وہ ہاتھ لہرا لہرا کر انگارے پھینک رہا تھا۔ فاطمہ جیسے سکتے کے عالم میں پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھے جا رہی تھی۔ زندگی میں پہلی بار اس کے بھائی نے اس پر ہاتھ اٹھایا تھا اور وہ بھی کس بات پر۔ اسے لگ رہا تھا جیسے اس نے تھپڑ نہیں مارے بلکہ اس کے وجود کو زندہ زمین میں گاڑ دیا تھا۔ وہ اب بھی چلا رہا تھا۔
‘’میرا دل چاہتا ہے میں تمہاری زبان کاٹ دوں یا پھر تمہیں ہی قتل کر دوں تاکہ تم سے نجات تو ملے۔ سارے جہاں کے عذاب میرے لیے ہی رہ گئے ہیں۔” وہ قطرہ قطرہ زہر اس کے کانوں میں ٹپکا رہا تھا۔
‘’لیکن اب بہت ہو چکا میں نے پوری دنیا کا ٹھیکہ نہیں لیا ہوا، اس گھر میں جس کو رہنا ہے، وہ میرے طریقے سے رہے گا ورنہ یہاں نہیں رہے گا اور تم سے بھی صاف صاف کہہ رہا ہوں۔ جہاں اماں تمہاری شادی کی بات طے کر رہی ہیں، وہاں انہیں بات طے کرنے دو اور اگر تم نے ان کی بات نہ مانی تو پھر تمہیں یہاں رہنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ اپنا سامان لینا اور یہاں سے نکل جانا۔ جہاں چاہے چلی جانا بس دوبارہ مجھے نظر نہ آنا۔ میں تمہارے وجود کو برداشت نہیں کرسکتا۔’’
‘’دیکھا۔ میں سمجھاتی تھی ناں تجھے کہ اس زبان پر قابو رکھ ورنہ یہ تجھے ہر جگہ ذلیل کروائے گی۔ تسلی ہوگئی بے حیا اب بھائی کے ہاتھوں پٹ کر۔ کیا سوچتا ہوگا وہ میرے بارے میں کہ میں ایک لڑکی پر قابو نہیں رکھ سکتی۔’’
بھائی کے جانے کے بعد اب اماں شروع ہوگئی تھیں مگر وہ اب بالکل خاموش تھی۔ کچھ نہیں بول رہی تھی۔ بولنے کے لیے کچھ باقی رہا ہی نہیں تھا۔
‘’میں نے تجھے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ سب لوگ تجھ سے تنگ آچکے ہیں۔ ہمارا بس چلے تو ہم آج تجھے اس گھر سے نکال دیں۔ تو نے ہماری زندگی کو عذاب بنا کر رکھ دیا ہے۔ جواد نے تو بہت صبر کیا کہ آج تک تجھ پر ہاتھ نہیں اٹھایا ورنہ جس طرح تو رات دن مجھ سے اور اس کی بیوی سے زبان چلاتی رہتی ہے۔ کوئی اور ہوتا تو کب کا تجھے گھر سے نکال چکا ہوتا۔’’
اماں کا فضیحتہ اب بھی جاری تھا وہ اب بھی چپ تھی۔ وہ اب بھی اسی دروازے کو دیکھے جا رہی تھی جہاں سے جواد گیا تھا۔
‘’پرسوں وہ لوگ آئیں گے۔ میں انہیں تاریخ دے دوں گی اور کہہ دوں گی کہ بس دس بارہ لوگ آکر سادگی سے نکاح کریں اور تمہیں لے جائیں۔ کسی دھوم دھڑکے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم نے لوگوں کو اکٹھا کیا تو تمہارے سارے پول پہلے ہی تمہارے سسرال والوں کے سامنے کھل جائیں گے اور ہماری رسوائی ہوگی۔ اچھا ہے چپ چپاتے سارا کام ہو جائے۔’’
اماں کہتی جا رہی تھیں، اس نے چہرے کو ڈھانپ لیا۔ اس نے اب بھی کچھ نہیں کہا تھا۔ بعض دفعہ خاموشی کے بڑے فائدے ہوتے ہیں۔ یہ آپ سے بڑے بڑے فیصلے لمحوں میں کروا لیتی ہے وہ فیصلے جو ویسے کرتے ہوئے شاید بہت وقت لگ جائے۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

فوبیا — فاطمہ عبدالخالق

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۲

2 Comments

  • I want to give you my story plz make it novel give it a happy ending plz

  • Good

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!