تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱

‘’میرا کیا قصور ہے، مجھے بتائیں میرا کیا قصور ہے۔ میں نے خدا سے کہا ہے میرا قد چھوٹا بنانا۔ میں نے اس سے کہا تھا۔ میرا رنگ سیاہ رکھنا۔ میں نے اس سے کہا تھا میرے بازو میں یہ نقص دے دینا مجھے اگر اس نے خامیوں کا مجموعہ بنا کر بھیج دیا ہے تو اس میں میری کیا غلطی ہے۔ کیوں آپ سب مل کر مجھے یوں تماشا بنا رہے ہیں۔ جیسے میں کوئی فٹ بال ہوں، کوئی پتھر ہوں جس کو ٹھوکر لگا کر ہی سب کو تسلی ہوتی ہے۔ مجھے انسان نہ سمجھیں، جانور سمجھ کر ہی بخش دیا کریں۔’’
وہ ایک بار پھر گلا پھاڑنے لگی تھی۔
‘’جانور بے زبان ہوتے ہیں اور فاطمہ! تو بے زبان نہیں ہے۔ تو اتنی بدزبان نہ ہوتی تو شاید تو اب تک یوں ہمارے سینے پر بیٹھی مونگ نہ دل رہی ہوتی۔ کوئی نہ کوئی تجھے بیاہ کر لے ہی جاتا مگر اب تو چار چار بچوں کے باپ بھی تجھے بیاہنے سے کترا رہے ہیں اور یہ سب تیری زبان کی وجہ سے ہے۔’’
اس کی ماں نے دانت پیستے ہوئے اس سے کہا۔ وہ ان کی بات پر آگ بگولہ ہو گئی۔
‘’آپ لوگوں نے مل کر بدزبان کیا ہے۔ آپ کیا چاہتے ہیں، میں چپ رہوں۔ پتھر کے بت کی طرح سب کچھ برداشت کرتی رہوں مگر میں چپ کیوں رہوں میں۔ کیوں نہ بولوں، میں آپ پر بوجھ نہیں ہوں۔ آپ میں سے کسی کا مجھ پر کوئی احسان نہیں ہے میں اپنی روزی خود کماتی ہوں۔’’
‘’چار پیسے کما کر تم ہم پر کوئی احسان نہیں کرتیں۔ اپنا ہی جہیز جوڑتی ہو۔ ہمارے لیے کون سے تاج محل بنا دیئے ہیں جو تم اس طرح منہ پھاڑ کر بکواس کرنے لگی ہو۔’’
اس کی بھابھی یک دم اپنے کمرے سے باہر آگئی تھیں۔
‘’تم لوگوں کے لیے تاج محل میں کیوں بناؤں۔ تم لوگوں نے میرے لیے کیا کیا ہے؟’’
‘’جو کر سکتے ہیں، کر رہے ہیں۔ اب کوئی تمہارے جیسی کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہو رہا تو ہم کیا کریں۔ ہمارا بس چلے تو یہ عذاب آج گلے سے اتار کر پھینک دیں۔’’




فریدہ بھابھی کے لہجے میں کراہیت تھی اور اپنے لیے عذاب کا لفظ سن کر وہ جیسے واقعی جھلس کر رہ گئی تھی پھر جو اس کے دل میں آیا۔ اس نے کہہ ڈالا۔ اس کی امی اور بھابھی بھی چپ نہیں رہی تھیں انہوں نے بھی اسے بے نقط سنائی تھیں۔ جھگڑے کا انجام آخر کار وہی ہوا جو ہمیشہ ہوتا تھا، فاطمہ روتی چیختی چلاتی اپنے کمرے میں گھس گئی۔ امی بہت دیر تک صحن میں بولتی رہیں اور بھابھی بلند آواز سے اپنی قسمت کے پھوٹنے کے رونے روتی رہیں۔ جھگڑے کی وجہ وہی تھی کہ فاطمہ کے لیے ایک رشتہ آیا تھا۔ لڑکے کی پہلی بیوی فوت ہو چکی تھی۔ اور اس کے دو بچے تھے۔ لیکن حسب معمول فاطمہ کو دیکھتے ہی انہوں نے واضح انکار کر دیا تھا۔
ان لوگوں کے جاتے ہی اس کی امی بلند آواز میں صحن میں آکر اپنے آپ کو اور فاطمہ کو کوسنے لگی تھیں اور فاطمہ کے بھڑکنے کے لیے اتنا کافی تھا۔ ہر بار ایسا ہی ہوتا تھا۔ رشتہ دیکھنے والے آتے اور انکار کر جاتے ہر بار ان کے گھر میں ان لوگوں کے جانے کے بعد ایک ہنگامہ برپا ہو جاتا تھا۔ بھابھی کی بڑبڑاہٹ کئی دنوں تک جاری رہتی۔ امی کی آہیں اور کوسنے الگ شروع رہتے اور وہ بہانے بہانے سے ہر ایک سے الجھتی۔
فاطمہ چھ بہنوں اور ایک بھائی میں سب سے چھوٹی تھی۔ باقی پانچوں بہنیں بہت کم عمری میں بیاہی جاچکی تھیں۔ اور وہ بتیس سال کی ہونے کے باوجود ابھی تک بن بیاہی بیٹھی تھی۔ ایک وجہ اگر اس کی شکل و صورت تھی تو دوسری وجہ اس کا قد تھی اور جن کی نظریں ان دونوں وجوہات کو نظر انداز کر دیتیں۔ وہ اس کے ہاتھ میں پائے جانے والے نقص پر اعتراض کر دیتے اور اگر کوئی اتنی ہمت کر ہی لیتا کہ وہ ان تینوں کو نظر انداز کر دے تو وہ اس کی بدزبانی کی داستانیں سن کر راستہ بدل دیتا۔
وہ واقعی بدصورت تھی۔ سیاہ رنگت، بھدّے ہونٹ، ٹیڑھے میڑھے دانتوں اور چھوٹے قد نے اسے ایک عجیب سی مخلوق بنا دیا تھا اور جو کسر رہ گئی تھی وہ بچپن میں تین چار بار دایاں بازو تڑوانے کی وجہ سے پوری ہوگئی، بار بار سیڑھیوں سے گرنے کی وجہ سے اس کا دایاں بازو ایک ہی جگہ سے دو بار ٹوٹ گیا تھا اور پھر ٹھیک طرح سے جڑ نہ سکا۔ ماں باپ کے پاس اتنے روپے نہیں تھے کہ وہ اسے کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھا پاتے، اور نہ ہی انہیں اس مریل مخلوق میں کوئی دلچسپی تھی۔
نتیجہ یہ ہوا کہ اس کا بازو ٹھیک طرح سیدھا ہو سکتا تھا نہ وہ اس سے کوئی وزنی چیز اٹھا سکتی تھی۔ ماں باپ کو شاید شروع ہی سے اس کی قسمت اور مستقبل کا اندازہ ہوگیا تھا۔ اس لیے انہوں نے شروع ہی سے اسے تعلیم کے ساتھ ساتھ مختلف ہنر سکھانے شروع کر دیئے تھے۔ تاکہ وہ کم از کم اپنا بوجھ اٹھانے کے قابل ہو جائے۔ اور فاطمہ کے بارے میں ان کے سارے خدشات درست ثابت ہوئے تھے۔
اس کی بدصورتی اس کی شادی کی راہ میں ایک بڑا پتھر بن کر اٹک گئی تھی۔ جہاں فاطمہ کی دوسری بہنوں کی شادیاں ان کے میٹرک کرنے سے بھی پہلے ہوگئی تھیں، وہاں فاطمہ رینگتے رینگتے بی اے تک آپہنچی تھی مگر دور دور تک کسی کا رشتہ امکان نہیں نظر آرہا تھا۔ بی اے کے بعد اس نے بی ایڈ کیا اور پھر بڑی خاموشی سے ایک سرکاری اسکول میں ملازمت کرلی۔ شروع میں اس کے لیے رشتہ تلاش کرتے ہوئے اس کے والدین کے ذہن میں لڑکے کے لیے ایک خاص معیار تھا لیکن اس کی عمر کے ڈھلنے کے ساتھ ساتھ وہ سارے معیار ایک ایک کرکے ختم ہوتے گئے۔ اب انہیں نہ لڑکے کی شکل و صورت سے غرض تھی نہ اسکے قد و قامت سے، نہ انہیں اس کے گھر بار سے سروکار تھا نہ اس کے خاندان سے پھر بھی فاطمہ کے لیے برملنا جوئے شیر جیسا کام ہوگیا تھا۔ باپ کی وفات اور بھائی کی شادی کے بعد تو لڑکے کے کنوارے ہونے کی شرط بھی ختم ہوگئی تھی۔ اب تو صرف ایک ایسے آدمی کی ضرورت رہ گئی تھی جو فاطمہ سے شادی کرکے ان کے خاندان کا بوجھ کم کر دے۔
اور ایسا ”دردِ دل” رکھنے والا آدمی نظر نہیں آرہا تھا۔
سولہ سال سے اس کے لیے رشتے تلاش کیے جا رہے تھے۔ سولہ سال سے وہ مسترد کی جا رہی تھی جس عمر میں لڑکیوں کے دل اور دماغ میں چاہت کے شگوفے کھلنا شروع ہوتے ہیں۔ اس عمر میں اس کے اندر کیکر کے کانٹوں بھرے درختوں نے سر ابھارنا شروع کر دیا تھا۔ وہ اپنی ہر کمی، ہر خامی، ہر بدصورتی سے واقف تھی۔ اور وہ… وہ پوری دنیا کو اندھا کر دینا چاہتی تھی۔ ہر ماہ جتن کے بعد کہیں نہ کہیں سے ایک رشتہ اس کے لیے ڈھونڈ نکالا جاتا۔ ہر ماہ وہ نئی امید، نئی خواہش اور نئی آس کے ساتھ بن سنور کر ان لوگوں کے سامنے پیش ہوتی۔ ہر بار اسے مسترد کر دیا جاتا۔ پسندیدگی کی کوئی جھلک کسی کے چہرے پر جھلکتی، نہ کسی کی آنکھوں میں لہراتی ہر ریجیکشن اس کے دل کو اور بنجر، وجود کو اور بے مصرف اور زبان کو اور کڑوا کر جاتی۔ بتیس سال کی ہوتے ہوتے وہ سراپا زہر بن چکی تھی۔ کیکر کے پودے اب درخت بن چکے تھے۔ کانٹوں سے بھرے ہوئے ٹنڈ منڈ درخت جن پر کہیں بھول کر بھی سبز رنگ کا کوئی پتا نمودار ہوتا تھا، نہ کوئی کونپل کھلتی تھی۔ فاطمہ مختار لڑکی سے عورت کہلانے لگی تھی۔ جوانی سے ادھیڑ عمری کا سفر طے کرنے لگی تھی۔
پچھلے سولہ سال سے مسترد ہونے والا وجود اب ریجیکشن کا پورٹریٹ بن چکا تھا۔ ایک ماسٹر پیس بن چکا تھا، ذلت، بے عزتی، بے قدری اور بے حسی کا بس فرق یہ تھا کہ یہ پورٹریٹ ایک زندہ انسان کا تھا جس پر سولہ سال سے لگائے جانے والے ہر رنگ کے اسٹروک خشک ہونے کے بعد سیاہ رنگ میں بدل جاتے تھے۔ اور اب یہ پورٹریٹ وہی سیاہ رنگ دنیا میں موجود ہر انسان کے وجود پر لگا دینا چاہتا تھا جو لوگ فاطمہ مختار کو جانتے تھے، ان میں سے کوئی بھی اسے پسند نہیں کرتا تھا۔
اس کی سیاہ رنگت، ٹیڑھے دانت، چھوٹا قد اسے ناپسند کیے جانے کی وجہ تھے۔ مگر بنیادی وجہ اس کی زبان تھی۔ وہ کڑوی تلخ اور زہریلی زبان جسے وہ ہمیشہ ایک نشتر کی طرح استعمال کرتی تھی۔ اسے کسی کی پروا نہیں تھی نہ کسی کا لحاظ، وہ غصے میں آتی تو چیختی چلاتی گالیاں بکتی جاتی۔ اتنا چیختی کہ اس کی بدصورتی یک دم دوگنی ہو جاتی۔ وہ گالی سے بہتان اور بہتان سے بددعا تک ہر نشتر، ہر ہتھیار، ہر حربہ استعمال کرتی۔ زبان کے استعمال میں کوئی کبھی اسے ہرا نہیں سکا۔ لوگوں نے آہستہ آہستہ اس سے دور رہنا شروع کر دیا تھا، وہ یہی چاہتی تھی۔ لوگ پاس ہوتے تو بہت کچھ کہتے تھے۔ اس بہت کچھ میں ایک بھی ایسی چیز، ایسا لفظ نہیں ہوتا تھا جو فاطمہ مختار کو خدا کی بنائی ہوئی ایک چیز سمجھ کر کہا جاتا تھا، جو بھی کہا جاتا وہ اللہ کی طرف سے اسے چوک کر بنانے والی چیز سمجھ کر کہا جاتا۔ لوگ اس سے دور ہٹتے گئے۔ وہ اپنے خول میں سمٹتی گئی۔ ایک… دو… تین اس نے یکے بعد دیگرے اپنے وجود کے اردگرد بہت سی دیواریں چننا شروع کر دی تھیں۔ ہر دیوار پہلے سے زیادہ سخت، پہلے سے زیادہ بے ڈھنگی تھی مگر فاطمہ مختار خوش تھی۔
لوگ کسی شخص کے پاس رہیں یا دور رہیں وہ چپ کبھی نہیں رہتے۔ انہیں بات تو کرنی ہی ہوتی ہے۔ انہیں کچھ نہ کچھ تو کہنا ہی ہوتا ہے اور فاطمہ مختار جیسے وجود تبصرہ کے لیے سب سے اچھا موضوع ہوتے ہیں۔ ان کے بارے میں ہر قسم کی بات کہی جاسکتی ہے، چاہو تو ان کے ظاہری وجود کے بارے میں بات کرو، چاہو تو ان کے باطنی وجود کے بارے میں بات کرو، چاہو تو ان کا مذاق اڑاؤ چاہو تو ان کا تماشا بناؤ جتنی ورائٹی فاطمہ مختار میں تھی، کسی اور میں نہیں تھی۔ ترس سے لے کر طنز تک لوگ اس کے لیے ہر چیز، ہر جذبہ استعمال کرسکتے تھے ماسوائے ایک چیز کے، ماسوائے ایک جذبے کے… محبت کے۔
بتیس سال کی عمر تک وہ اپنے ہر رول میں ناکام رہی تھی۔ اگر بیٹی، بہن، نند، پھوپھی، خالہ، ہر رشتے میں وہ دوسروں کے لیے باعث تکلیف رہی تھی تو اتنی ہی تکلیف اور اذیت اس نے ان رشتوں سے پائی بھی تھی اگر وہ خاندان میں ناقبول اور ناقابل برداشت تھی تو اسکول میں بھی اتنی ہی قابل نفرت شے تھی۔ اسکول میں کبھی کسی نے اس کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں دیکھی تھی۔ وہ میٹرک کی لڑکیوں کو حساب پڑھاتی تھی اور جی بھر کر ان کی تذلیل کیا کرتی تھی۔ وہ معمولی غلطی پر بچیوں کی بری طرح پٹائی کرتی۔ کسی میں اتنی جرأت نہیں ہوتی تھی کہ وہ مس فاطمہ کی کلاس میں سوال پوچھنے کی ہمت کرے یا کسی قسم کی لاپروائی کا مظاہرہ کرے۔ اس کے سامنے لڑکیوں کو جیسے سانپ سونگھ جاتا اور جب وہ کلاس سے نکلتی تو پوری کلاس میں جیسے زندگی لہرانے لگتی تھی۔ لڑکیاں اس کی عدم موجودگی میں جی بھر کے اس کی برائیاں کرتیں۔ اس کا مذاق اڑاتیں۔ اس کی نقلیں اتارتیں اور پھر سب مل کر دعا کرتیں کہ خدا جلد از جلد انہیں مس فاطمہ مختار سے نجات دلوائے۔
یہ سب باتیں فاطمہ سے پوشیدہ نہیں تھیں۔ وہ سب کچھ جانتی تھی، ہر بات سے باخبر تھی مگر پھر بھی وہ اپنے آپ میں کوئی تبدیلی لانے کو تیار نہیں تھی۔ شاید ایسا کرنا اس کے لیے ممکن ہی نہیں تھا جس طرح وہ اپنے چھوٹے قد کو لمبا نہیں کرسکتی تھی، جس طرح وہ اپنے ٹیڑھے میڑھے دانتوں کو ہموار نہیں کرسکتی تھی، جس طرح وہ اپنے کولتار جیسے سیاہ چہرے کو اجلا نہیں کرسکتی تھی جس طرح وہ اپنے دائیں بازو کو ٹھیک نہیں کرسکتی تھی۔ بالکل اسی طرح وہ اپنی زبان کی تلخی کو بھی کم نہیں کرسکتی تھی۔ ختم کرنا تو شاید ناممکنات میں سے تھا۔
اسکول میں سارا دن سر کھپانے کے بعد وہ گھر آتی اور اپنے کابک نما کمرے میں دبک کر بیٹھ جاتی۔ کاپیوں کا ڈھیر چیک کرتی رہتی۔ اپنے لیے کپڑے سیتی۔ کپڑوں پر کڑھائی کرتی، جب ان سے فارغ ہوتی تو کوئی رسالہ لے کر بیٹھ جاتی۔ پھر شام کو کمرے سے نکلتی۔ رات کا کھانا بناتی۔ کسی نہ کسی بات پر ماں کی صلواتیں سنتی۔ اپنا غصہ بہانے بہانے سے بھتیجے بھتیجوں پر نکالتی۔ بھابھی سے تکرار کرتی اور پھر واپس غصے میں بھری ہوئی اپنے کمرے میں چلی جاتی۔ یہ سب اس کے معمولات میں شامل تھا اور پچھلے کئی سالوں سے ان معمولات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ بالکل اسی طرح جس طرح اس کے اردگرد رہنے والوں نے فاطمہ کے ساتھ اپنے سلوک میں وقت گزرنے کے ساتھ کوئی تبدیلی نہیں کی تھی۔
وہ بعض دفعہ پوری پوری رات آئینے کے سامنے بیٹھی اپنے وجود پر نظریں جمائے رکھتی۔ خود کو گھورتی رہتی پھر سوچتی، کیا دنیا میں میری ضرورت تھی۔ میرے وجود کے بغیر دنیا میں کون سی کمی واقع ہو جاتی۔ ہاں شاید لوگوں کو تماشا بنانے کے لیے، مذاق اڑانے کے لیے میرے جیسی مضحکہ خیز چیز نہ ملتی۔ وہ ایک زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ سوچتی پھر اپنے کابک جیسے تنگ کمرے میں پھرنے لگتی۔ کیا اللہ مجھے بتا سکتا ہے، اس نے دنیا میں میرے لیے سزا کے علاوہ کیا رکھا ہے؟ ذلت کے علاوہ اور کیا مخصوص کیا ہے؟ کیا خدا بتا سکتا ہے، اس نے میرے جیسے بے کار اور ناکارہ وجود کو دنیا میں کون سے انقلاب کے لیے پیدا کیا ہے؟ کیا خدا بتا سکتا ہے۔ میرے نہ ہونے سے کون کس چیز سے محروم ہو جاتا؟ کیا خدا بتا سکتا ہے اس نے میرے جیسا عذاب دنیا پر کیوں نازل کیا؟
وہ پاگلوں کی طرح ساری ساری رات خدا سے سوال کرتی رہتی مگر جواب… جواب نہیں ملتا تھا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

فوبیا — فاطمہ عبدالخالق

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۲

2 Comments

  • I want to give you my story plz make it novel give it a happy ending plz

  • Good

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!