تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱

اس دن وہ باقی سارا وقت کالج میں غائب دماغ رہی… اس کے ذہن میں صرف وہ خط تھا۔ اس خط میں کیا تھا؟ ہارون نے وہ کیوں بھیجا تھا؟ ساری کلاسز اس نے ان ہی دو سوالوں کے جواب سوچتے ہوئے لیں۔
گھر آکر کھانا کھائے بغیر وہ اپنے کمرے میں گھس گئی۔ دروازہ لاک کرنے کے باوجود اسے یوں ہی لگ رہا تھا کہ کوئی نہ کوئی اندر ضرور آجائے گا۔ کانپتے ہاتھوں اور خشک ہونٹوں کے ساتھ اس نے بیگ میں سے وہ لفافہ نکالا اور اسے کھول کر اندر موجود رقعہ باہر نکال لیا۔
پیاری شائستہ!
میں تم سے ملنا چاہتا ہوں۔
ہمیشہ تمہارا
ہارون کمال
وہ کالج میں سارا دن اس خط میں جس قسم کے پیغام کی توقع کر رہی تھی… خط میں ویسا کچھ بھی نہیں تھا۔ اس کا خیال تھا وہ اپنے خط میں اس سے اظہار محبت کرے گا اور اپنے والدین کے ساتھ اس طرح کے سلوک پر ناراضی کا اظہار کرے گا… اور شائستہ سوچ چکی تھی کہ وہ خط کے جواب میں خود بھی اس کے لیے پسندیدگی کا اظہار کرے گی اور اپنے والدین کے ردعمل پر معذرت کرلے گی… مگر خط میں موجود تحریر نے اسے ہکا بکا کر دیا۔ وہ کتنی ہی دیر خط اپنے ہاتھ میں لے کر بیٹھی رہی پھر دروازے پر دستک ہونے لگی اور اس نے گڑبڑا کر خط اپنے بیگ میں ٹھونس لیا۔
”شائستہ کھانا کھالو۔” اس نے دروازے پر اپنی امی کی آواز سنی۔
”میں کپڑے تبدیل کر رہی ہوں۔ ابھی آئی ہوں۔” اس نے دروازہ کھولے بغیر بلند آواز میں کہا۔
٭٭٭




اس رات وہ دیر تک جاگتی رہی، اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ ہارون کو کیا جواب دے۔ وہ ہارون سے چاہتے ہوئے بھی ملنا نہیں چاہتی تھی، مگر اسے خوف تھا کہ اگر اس نے ہارون سے ملنے سے انکار کر دیا تو شاید ہارون دوبارہ اس سے کبھی رابطہ نہ کرے اور وہ ہارون کو کھونا نہیں چاہتی تھی۔ وہ اسے کھو سکتی ہی نہیں تھی… اسے پہلی بار اپنے ماں باپ سے نفرت اور الجھن محسوس ہو رہی تھی… اگر وہ ہارون کمال کے والدین کے لائے ہوئے پرپوزل کو قبول کر لیتے تو آج اسے اس آزمائش کا سامنا کرنا پڑتا۔
اسے خوف تھا کہ اگر وہ ہارون سے ملنے گئی اور کسی نے اسے دیکھ لیا تو… اور وہ ہر قیمت پر ہارون سے ملنا بھی چاہتی تھی۔ اس کے پاس ہارون کی دی ہوئی وہ انگوٹھی ابھی تک تھی جس کے بارے میں اس نے اپنے والدین سے کہا تھا کہ وہ اسے کہیں پھینک چکی ہے۔
اپنی ہتھیلی پر اس انگوٹھی کو رکھے وہ بہت دیر اسے دیکھتی رہی اور پھر جیسے وہ ایک فیصلے پر پہنچ گئی۔
”میں کسی صورت بھی اس شخص کو نہیں چھوڑ سکتی۔”
اپنے جیولری باکس میں اس رنگ کو رکھتے ہوئے اس نے سوچا۔
٭٭٭
اگلے دن کالج میں نیلوفر کو اپنی طرف آتے دیکھ کر وہ اپنی دوستوں کو چھوڑ کر اس کی طرف بڑھ آئی۔
”ہارون مجھ سے ملنا چاہتے ہیں… آپ انہیں بتا دیں کہ میں ان سے کبھی بھی کسی بھی جگہ ملنے کو تیار ہوں، لیکن کالج سے جانے کے بعد میں کہیں بھی اکیلے نہیں جاسکتی۔”
اس نے نیلوفر کو بتا دیا۔ نیلو فر کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری۔
”میں تمہیں کالج آورز کے دوران اپنے ساتھ لے جاؤں گی۔”
”لیکن کالج سے جانے کی اجازت کیسے ملے گی؟”
”وہ میں کرلوں گی۔” نیلو فر نے لاپروائی سے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
٭٭٭
اس دن پہلی بار اس نے بازار سے خریداری کرتے ہوئے خوشی محسوس کی… اسے یوں لگ رہا تھا۔ جیسے وہ ایک کمرے کے لیے نہیں، اس گھر کے لیے خریداری کر رہی ہے جس کی اس نے ہمیشہ خواہش کی تھی… وہ گھر جو اس کا اپنا تھا۔ جہاں کی ہر چیز اس کی اپنی تھی… جس پر اسے مکمل اختیار تھا جو اس کی ذمہ داری تھا۔
پہلی بار اسے اپنی زندگی کا کوئی مقصد نظر آیا تھا… شہیر کو اٹھائے وہ بازار میں پھرتی رہی… لوگوں کی نظروں کے تمسخر اور ہونٹوں پر پھیلتی مسکراہٹ نے پہلی بار اسے خوفزدہ نہیں کیا۔ وہ شہیر کی صورت میں جیسے کوئی اسم اعظم لیے پھر رہی تھی جس نے اسے ہر نظر، ہر طنز، ہر تحقیر سے محفوظ کر دیا تھا۔
واپس گھر آکر وہ گھر میں سامان لگانے میں جت گئی… اگلے چند دن وہ اسی کام میں مصروف رہی۔
اسکول سے واپس آنے کے بعد اس کمرے کے لیے کچھ نہ کچھ خریدتی اور بناتی رہی… اس نے کمرے میں سفیدی کروائی کھڑکیوں اور دروازے کے لیے پردے بنائے… فرش کے لیے دری خریدی… بستر کی چادریں اور تکیے کے غلاف سیے…
کمرے کے ایک کونے کو کچن کی شکل دی… باہر چھوٹے سے صحن کے لیے کچھ پودے خریدے… پرانے فرنیچر کی ایک دکان سے چند کرسیاں، ایک میز اور ایک پلنگ خریدا… کچن کے لیے سامان لے کر آئی۔
ایک ہفتہ کے بعد وہ کمرہ ایک مکمل گھر بن چکا تھا۔ دو مکینوں پر مشتمل ایک ایسا گھر جس کی بنیاد خوابوں اور خواہشوں سے تعمیر کی گئی تھی اور جس کی چھت امیدوں سے بنائی گئی تھی۔
شہیر کو وہ اپنے ساتھ ہی اسکول لے جایا کرتی تھی، اسکول کی ہیڈمسٹریس کو اس نے شہیر اور اپنے بارے میں وہی بتایا جو وہ سب کو بتا رہی تھی… اور ہیڈمسٹریس نے اس پر جیسے ترس کھاتے ہوئے اسے شہیر کو اپنے ساتھ اسکول لانے دیا۔ شہیر وہاں اسکول میں کام کرنے والی ایک آیا کے پاس رہتا اور فاطمہ فرصت کے اوقات میں اسے دیکھتی رہتی۔
شہیر اس کے لیے ایک بہت ہی صابر بچہ ثابت ہوا تھا… یتیم خانے سے فاطمہ کے پاس آنے کے بعد اس نے فاطمہ کے لیے کوئی مسئلہ کھڑا نہیں کیا۔
شہیر کو ا سے پہلے بھی دو فیملیز ایڈاپٹ کرچکی تھیں… پہلی بار اسے چھ ماہ کی عمر میں ایک بے اولاد جوڑے نے گود لیا… مگر ایک ہفتہ بعد ہی وہ شہیر کو واپس چھوڑ گئے کیونکہ ان کے گھر کے بڑوں نے شہیر کی ایڈاپشن پر بہت سارے اعتراضات اور تنقید کی تھی۔
دوسری بار ڈیڑھ سال کی عمر میں ایک اور بے اولاد جوڑے نے اسے گود لیا۔ چھ ماہ تک انہوں نے شہیر کو اپنے پاس رکھا۔ پھر اس جوڑے کے اپنے ہاں شادی کے پندرہ سال بعد اولاد کی امید پیدا ہوگئی اور معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وہ بھی شہیر کو واپس وہیں چھوڑ گئے۔
فاطمہ شہیر کے اس بیک گراؤنڈ سے واقف تھی اور اگر ایک طرف اس کی خوبصورتی نے اسے اپنی طرف راغب کیا تھا تو دوسری طرف اس ریجیکشن نے بھی اس کے دل میں شہیر کے لیے ایک خاص گوشہ پیدا کر دیا۔ شاید لاشعوری طور پر وہ اپنے آپ کو اور شہیر کو Relate کرنے لگی تھی۔
کسی بچے کو پالنا کتنا مشکل کام ہے… خاص طور پر تب جب کوئی شخص بہت عرصے سے اپنے علاوہ کسی دوسرے کی ذمہ داری اٹھانے یا نبھانے کا عادی ہی نہ رہا ہو، شہیر رونے یا تنگ کرنے کا عادی نہیں تھا مگر اس کے باوجود اس کو اپنی روٹین لائف میں شامل کرنا شروع میں فاطمہ کو خاصا مشکل لگا… پھر آہستہ آہستہ وہ اس کی عادی ہونے لگی۔ شہیر نے اس کی تنہائی کو جیسے بالکل ختم کر دیا تھا۔
بعض دفعہ اسے اپنے گھر والوں کا خیال آتا۔ کوئی زخم جیسے ایک بار پھر سے ہرا ہونے لگتا۔
”کیا میں واقعی اتنی بے قیمت اور غیر ضروری شے تھی کہ انہوں نے مجھے منانے واپس لے جانے کی کوشش ہی نہیں کی؟” وہ کبھی کبھار خود سے سوال کرتی اور اس کی افسردگی بڑھ جاتی… شاید اس کے لاشعور میں کہیں اب بھی یہ خواہش یا توقع موجود تھی کہ اس کے گھر کا کوئی فرد اس سے رابطہ کرے۔ اس کی ناراضی کی وجہ جاننے کی کوشش کرے۔ اسے ایک بار پھر سے واپس لوٹنے کا کہے۔ وہ واپس جائے یا نہ جائے مگر وہ ان سے رابطہ ضرور رکھے۔
اس کی توقع صرف توقع ہی رہی… کسی نے اس سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، نہ ہی اس کے پیچھے آنا چاہا۔
وہ اگرچہ اپنا شہر چھوڑ آئی تھی مگر اسے ڈھونڈنا اس کے گھر والوں کے لیے مشکل نہیں تھا۔ وہ سرکاری ملازمت میں تھی۔ اس کی ٹرانسفر ہو چکی تھی مگر اس کے پرانے اسکول کے ذریعے اسے ٹریس آؤٹ کیا جاسکتا تھا۔ بہت دن تک لاشعوری طور پر وہ اسکول آنے والے ہر وزیٹر میں اپنے بھائی اور ماں کو تلاش کرتی رہی… پھر آہستہ آہستہ اس نے اس تکلیف دہ حقیقت کو قبول کرلیا کہ اسے بھلا دیا گیا ہے۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

فوبیا — فاطمہ عبدالخالق

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۲

2 Comments

  • I want to give you my story plz make it novel give it a happy ending plz

  • Good

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!