تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱

‘’میں بعض دفعہ یہ سوچتا ہوں ہارون! کہ کیا تم سے کبھی کوئی غلطی ہوسکتی ہے۔ آئی مین کوئی ایسا کام جسے کرکے تم پچھتاؤ یا جس کی وجہ سے تم کو نقصان اٹھانا پڑے، فوری طور پر نہ سہی دیر سے ہی سہی۔ لیکن پھر مجھے خیال آتا ہے کہ تم سے کوئی غلطی ہو ہی نہیں سکتی۔ تم ہر چیز بہت کیلکولیٹ کرکے کرتے ہو، تم کو اپنے ہر عمل کے آگے، پیچھے کا بہت اچھی طرح پتا ہوتا ہے اسی لیے تو تم دوسروں سے اتنا آگے ہو، میں تو تصور بھی نہیں کرسکتا کہ تم کبھی کہیں کوئی ٹھوکر کھاؤ گے۔’’
جاوید نے کہا، ہارون نے اس کی بات پر ایک ہلکا سا قہقہہ لگایا۔
‘’تو تم اس انتظار میں ہو کہ میں کوئی غلطی کروں اور منہ کے بل گروں۔ ہے نا” اس نے گیند کو ہٹ کرتے ہوئے کہا۔
‘’نہیں۔ میں نے یہ کب کہا ہے، تم میری بات ہی نہیں سمجھے۔ میں تو یہ…” جاوید نے وضاحت دینے کی کوشش کی تھی۔
‘’میں تمہاری بات کو بہت اچھی طرح سمجھ چکا ہوں دیکھو جاوید! یہ واقعی صحیح ہے کہ میں غلطی بہت کم کرتا ہوں۔ میں نے اپنی زندگی میں غلطی کی گنجائش بہت کم رکھی ہے لیکن پھر بھی اگر کوئی غلطی ہو جاتی ہے تو میں تمہاری طرح اس پر پچھتانے نہیں بیٹھتا، میری ڈکشنری میں پچھتاوے کا لفظ نہیں ہے۔ میں اپنے گلے میں اس قسم کے پھندے ڈال کر نہیں چلتا، زندگی ہے تو غلطی بھی ہوگی اور غلطی ہو تو پچھتاوا نہیں ہونا چاہیے۔ بس اس غلطی کو اپنے ماضی سے کاٹ کر پھینک دینا چاہیے۔ ذہن کے قبرستان میں کہیں دفن کر دینا چاہیے۔ جس شخص کو یہ گر آجاتا ہے۔ سمجھو، اسے دنیا میں جینے کا طریقہ آجاتا ہے پھر زندگی کی ریس میں اس سے کوئی بھی نہیں جیت سکتا۔’’
وہ جاوید کے ساتھ گولف کورس پر چلتا ہوا اسے اپنی زندگی کی فلاسفی بتا رہا تھا۔ جاوید چہرے پر مسکراہٹ لیے اسے دیکھ رہا تھا۔
‘’ویسے یار! ٹھیک ٹھیک بتاؤ کہ واقعی تم کبھی غلطی کرتے ہو؟ کیا زندگی میں کبھی تم نے غلطی کی ہے؟’’
ہارون نے اس کی بات پر ایک بار پھر قہقہہ لگایا۔ ”میں نے تم سے کہا ہے ناکہ میں اپنی غلطیاں بھول جایا کرتا ہوں اور جس چیز کو انسان اپنی مرضی سے بھلا دے، وہ بھلا کیسے یاد آسکتی ہے۔ اسی لیے مجھے بھی اپنی کوئی غلطی یاد نہیں ہے۔ ویسے بھی میں اپنے سے زیادہ دوسروں کی غلطیوں کو یاد رکھتا ہوں۔ اس سے مجھے کافی فائدہ ہوتا ہے۔’’
اس کے لہجے میں وہی پرانا تفاخر تھا جو لوگوں کو مرعوب کر دیا کرتا تھا۔ جاوید بھی بس اسے دیکھ کر رہ گیا۔
٭٭٭




‘’تمہارے لیے ہم نے بہت بڑا رسک لیا ہے فاطمہ یہ سب کرتے ہوئے ہمیں اچھا تو نہیں لگا مگر بس پھر ہم مجبور ہو گئے۔ اب بس دعا کرنا کہ یہ بات راز ہی رہے۔ کبھی کسی کو پتا نہ چلے ورنہ تمہیں تو کچھ نہیں ہوگا لیکن ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔’’
آسیہ جانے سے پہلے اس سے کہہ رہی تھی۔
فاطمہ نے ممنونیت سے اس کے ہاتھ تھام لیے۔ ”تمہیں یہ سب کہنے کی کیا ضرورت ہے۔ کیا تمہیں مجھ پر اعتبار نہیں ہے۔ کیا تمہیں یہ لگتا ہے کہ میں تمہارے اعتماد کا خون کروں گی۔ میں احسان نہیں بھلاتی، آسیہ! احسان کبھی نہیں بھلاتی اور تم نے جو میرے لیے کیا ہے۔ وہ تو احسان سے بھی بڑھ کر ہے۔ اپنا غلام بنالیا ہے۔ مجھے خرید لیا ہے۔ غلام کبھی آقاؤں کو دھوکا نہیں دیا کرتے پھر تمہیں یہ کیوں لگ رہا ہے کہ میں ایسا کچھ کروں گی جس سے تمہاری عزت پر حرف آئے گا۔ اور میں اس راز کو ظاہر کروں گی بھی کیوں اگر اس سے تمہاری بدنامی ہوگی تو میری تو زندگی برباد ہو جائے گی۔ اپنے ہاتھوں اپنی قبر کوئی کھودتا ہے کیا؟’’
وہ بڑی لجاجت سے آسیہ کو تسلیاں دے رہی تھی یقین دہانی کرا رہی تھی۔
‘’میں جانتی ہوں فاطمہ! تم مجھے دھوکا نہیں دو گی۔ تم کسی کو بھی دھوکا نہیں دے سکتیں لیکن ایک خدشہ سا لگا ہوا ہے حالانکہ ہم نے نہ چوری کی ہے نہ ڈاکہ ڈالا ہے مگر پھر بھی پریشانی ہے کہ ختم ہی نہیں ہوتی۔ خیر کچھ وقت گزرنے کے بعد سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا اور ویسے بھی چند ماہ تک میں باہر چلی جاؤں گی پھر مجھے کوئی پریشانی نہیں رہے گی۔ مگر جب تک پاکستان میں ہوں مجھے ہر وقت اس راز کے کھلنے کا خوف رہے گا۔’’
وہ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھے اسے اپنی تشویش سے آگاہ کر رہی تھی۔ فاطمہ خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
‘’تم خوامخواہ فکر مند ہو رہی ہو آسیہ! کچھ نہیں ہوگا کسی کو پتا چل بھی گیا تو بھی کیا ہوگا۔میں سب ہینڈل کرلوں گا۔ ہمارے پاس نہ سہی فاطمہ کے پاس ہی سہی مگر بچہ ہے تو صحیح سلامت اور مجھے یقین ہے فاطمہ جو کہہ رہی ہے کر کے دکھائے گی۔ اس کا بہت خیال رکھے گی۔ یہ تو فضول پابندیاں ہیں جو یتیم خانے والوں نے لگائی ہوئی ہیں۔’’
اظہر نے آسیہ کو بہلانے کی کوشش کی تھی۔
‘’بہرحال اب ہم جا رہے ہیں تم اپنا خیال رکھنا اور بچے کا بھی اور کبھی بھی ہماری ضرورت پیش آئے تو جھجکنا مت۔ فوراً کہہ دینا ہم فوراً آجائیں گے۔ میں نے اگر تمہیں دوست کہا ہے تو دوست سمجھتی بھی ہوں۔ یہ تمہاری ضد ہے کہ دوسرے شہر جاؤں گی اس لیے میں نے تمہیں یہاں آنے دیا ورنہ کبھی نہ آنے دیتی مگر اب دوسرے شہر آنے کا یہ مطلب نہیں کہ تم مجھے بھول ہی جاؤ۔ سارے رابطے ہی منقطع کر دو۔’’
اس نے فاطمہ کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔
‘’نہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ میں تم سے ملنے آتی رہوں گی اور خط بھی لکھتی رہوں گی۔ تم بھی مجھے جواب بھیجتی رہنا۔’’
فاطمہ نے گرمجوشی سے اس سے ملتے ہوئے کہا۔ اس نے مسکراتے ہوئے سر ہلا دیا۔ پھر وہ دونوں چلے گئے۔ وہ باہر تک انہیں چھوڑنے آئی، پھر گلی کے آخری سرے تک انہیں جاتے دیکھتے رہی۔ جب وہ گلی کا موڑ مڑ کر نظر سے اوجھل ہو گئے تو وہ اندر آگئی۔ شہیر چارپائی، پر گہری نیند سو رہا تھا۔ وہ اس کے پاس آکر بیٹھ گئی اور اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔ وہ بے حد خوبصورت تھا۔ اسے خوبصورتی سے نفرت تھی مگر عجیب بات تھی کہ اسے شہیر سے نفرت محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ وہ گہری نیند سو رہا تھا۔ اس کی ہر سانس کے ساتھ فاطمہ کو اپنا دل دھڑکتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ بہت دیر تک اسے دیکھتے رہنے کے بعد اس نے شہیر سے نظر ہٹالی تھی۔ پھر وہ کھڑی ہو کر کمرے کے چاروں طرف نظریں دوڑانے لگی۔ چھوٹے سے کمرے میں ہر چیز بہت معمولی لگ رہی تھی۔ مگر اسے آج پہلی دفعہ اپنی دنیا مکمل لگ رہی تھی۔ وہ اکھڑے ہوئے پلستر اور کھردرے فرش والا کمرہ اسے یک بیک تاج محل جیسا لگنے لگا تھا۔ اسے عجیب سی آزادی کا احساس ہو رہا تھا۔ اسے یوں لگ رہا تھا جیسے اس کے ہاتھ ہفت اقلیم کی دولت آگئی ہو۔
آج پہلی دفعہ اس کے دل میں کوئی خواہش امنڈ رہی تھی۔ نہ کوئی شکوہ، کمرے میں سامان ادھر ادھر بکھرا ہوا تھا۔
پھر بھی اسے ہر چیز سنوری ہوئی لگ رہی تھی۔
اپنا شہر چھوڑ کر آج وہ اس بڑے شہر میں آگئی تھی۔ کرائے کا یہ کمرہ اسے آسیہ کے شوہر اظہر کی کوششوں سے ملا تھا اور آج صبح ہی وہ آسیہ اور اظہر کے ساتھ اپنا ضرورت کا سامان لے کر یہاں آگئی تھی۔ آسیہ اور اظہر کے جانے کے بعد اب وہ پہلی بار کمرے کا تفصیلی جائزہ لے رہی تھی۔ پھر اس نے آہستہ آہستہ چیزوں کو ترتیب سے رکھنا شروع کر دیا۔ اس کی پوری کوشش تھی کہ کمرے میں کوئی آواز پیدا نہ ہو تاکہ شہیر آواز سن کر نیند سے بیدار نہ ہو جائے۔ آدھ گھنٹہ کے اندر وہ کمرے میں سامان کو ترتیب دے چکی تھی، اس کے پاس سامان تھا ہی اتنا مختصر کہ اس کو رکھنے میں اس سے زیادہ وقت نہیں لگ سکتا تھا، اس میں بھی زیادہ تر سامان اسے آسیہ اور اظہر نے دیا تھا۔ سامان کو ترتیب دینے کے بعد وہ کاغذ قلم لے کر بیٹھ گئی اور ان چیزوں کی فہرست تیار کرنے لگی، جن کی اسے مزید ضرورت تھی۔ ایک لمبی فہرست بنانے کے بعد اس نے ایک بار پھر فہرست کی اشیاء پر نظر ڈالی۔ ان میں سے زیادہ تر چیزیں شہیر کی ضرورت کی تھیں۔ اس کے پاس بیگ میں اچھی خاصی رقم تھی۔ اور اس فہرست کی آدھی سے زیادہ چیزیں کسی پریشانی کے بغیر خریدی جاسکتی تھیں۔
وہ اس وقت فہرست کی چیزوں پر ایک حتمی نظر ڈالنے میں مصروف تھی جب دروازے پر کسی نے دستک دی تھی۔ وہ اٹھ کر دروازے تک آئی۔ اور دروازہ کھول دیا، باہر مالک مکان کی بیوی کھڑی تھی۔ اس کے ہاتھوں میں کھانے کی ایک ٹرے تھی۔
‘’میں تمہارے لیے کھانا لے کر آئی ہوں۔ ابھی دو چار دن تک کھانا میں ہی لایا کروں گی کیونکہ تم نئی ہو، ابھی تمہیں بہت سے کام ہوں گے۔’’
مالک مکان کی بیوی نے اندر آتے ہوئے کہا۔ فاطمہ کے دل میں بے اختیار تشکر کے جذبات ابھرے۔ مالک مکان کی بیوی سے وہ آتے ہی مل چکی تھی اور وہ اپنی بات چیت سے بہت اچھی عورت لگتی تھی۔ اس نے فاطمہ کو گھورنے کی کوشش کی تھی نہ ہی اس کے بازو کے بارے میں پوچھاتھا۔ بس حال چال ہی دریافت کرتی رہی اور ا وہ خود ہی فاطمہ کے لیے کھانا لے کر آگئی تھی۔ ٹرے کو اس نے تپائی پر رکھ دیا پھر شہیر کو دیکھنے لگی۔
‘’سو گیا ہے؟’’
‘’جی…’’
‘’کتنی عمر ہے اس کی؟’’
‘’ڈھائی سال کا ہے۔’’
‘’بہت پیارا ہے، دل چاہتا ہے، دیکھتی ہی رہوں اس کو، جب تم آئی تھیں، تب بھی میرا دل اس سے نظر ہٹانے کو نہیں چاہ رہا تھا۔’’
وہ فاطمہ سے کہہ رہی تھی اور فاطمہ کا دل خوشی سے یوں مسرور ہو رہا تھا جیسے وہ واقعی اس کا بیٹا تھا اور اس کی خوبصورتی میں سارا کمال اس کا تھا۔
کمرہ کرائے پر لیتے ہوئے مالک مکان کو یہی بتایا گیا تھا کہ فاطمہ کا شوہر ایک سال پہلے مر چکا ہے اور اب وہ اپنے بیٹے کے ساتھ اکیلی رہتی ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ مالک مکان کی بیوی کو اس پر اور شہیر پر کچھ زیادہ ہی رحم آرہا تھا مگر رحم کے ساتھ ساتھ اسے حیرانی بھی ہو رہی تھی۔ کہ فاطمہ جیسی عورت کا بچہ اتنا خوبصورت کیسے ہو سکتا ہے اور اس کی شکل ماں سے کیوں نہیں ملتی۔ لیکن پھر اس نے یہ سوچ کر خود کو تسلی دی کہ ہو سکتا ہے فاطمہ کا شوہر اچھی شکل و صورت کا مالک ہو۔ لیکن یہ سوچتے ہی اس کے دل میں خیال آیا تھا کہ جو مرد اچھی شکل و صورت کا مالک ہوگا، وہ فاطمہ جیسی عورت سے شادی کیوں کرے گا۔ اپنی بار بار کی کوشش کے باوجود اپنی ذہنی الجھن دور کرنے میں ناکام رہی تھی۔ جی تو اس کا چاہ رہا تھا وہ یہ سارے سوال فاطمہ سے پوچھ ہی ڈالے مگر پھر اس نے یہ سوچ کر خود پر ضبط کرلیا کہ پہلے ہی دن اس قسم کے سوالات کرائے دار کو نہ صرف پریشان کرسکتے ہیں بلکہ ناراض بھی کرسکتے ہیں۔ اس لیے نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے اپنے تجسس پر قابو پالیا۔
وہ کچھ دیر فاطمہ سے باتیں کرتی رہی پھر دوبارہ آنے کا کہہ کر چلی گئی۔ فاطمہ اس کے جاتے ہی کھانے کی ٹرے آگے رکھ کر کھانا کھانے لگی۔ وہ ابھی کھانا کھا ہی رہی تھی کہ شہیر اٹھ کر چارپائی پر بیٹھ گیا۔ اس نے بڑی محبت سے شہیر کی جانب بازو پھیلائے۔
٭٭٭
‘’منصور کا فون آیا تھا، وہ اگلے ہفتے پاکستان آرہا ہے۔’’
مسعود علی نے شبانہ کو دیکھتے ہی کہا وہ ابھی ابھی شاپنگ کرکے واپس گھر آئی تھی۔
‘’اچھا اکیلا آرہا ہے یا بیوی بچوں کو بھی لائے گا۔’’
‘’شبانہ نے ڈبوں کو میز پر رکھتے ہوئے پوچھا۔
‘’نہیں اکیلا تو نہیں آرہا، بیوی بچوں کو بھی ساتھ لا رہا ہے۔” مسعود علی نے کہا۔
شبانہ صوفہ پر بیٹھ گئی ”چلو اچھا ہے۔ ہم بھی روشان کو دیکھ لیں گے۔ ابھی تک تو تصویریں ہی دیکھی ہیں۔” شبانہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
‘’وہ کہہ رہا تھا کہ پورے خاندان کو کھانے پر بلائے گا۔ روشان کی پیدائش کی خوشی میں کافی بڑے پیمانے پر دعوت کرنا چاہتا ہے۔” مسعود علی نے مزید تفصیلات بتائیں۔
‘’ہاں بھئی کرسکتا ہے بڑی بڑی دعوتیں، اتنا روپیہ ہے۔ کسی نہ کسی طرح تو خرچ کرنا ہی ہے۔ اسی طرح سہی۔” شبانہ کے لہجے میں رشک آمیز حسد تھا۔
‘’تم کیوں پریشان ہو رہی ہو۔ ہمارے پاس کس چیزکی کمی ہے اور دعوتیں منعقد کروانے کا تو تمہیں بھی بہت شوق ہے۔’’
مسعود علی نے جیسے اسے تسلی دینے کی کوشش کی تھی۔
‘’ہاں ہمارے پاس بھی بہت کچھ ہے مگر منصور علی والی بات نہیں۔ ہم اس کے ساتھ مقابلہ نہیں کرسکتے۔’’
اس بار شبانہ کی آواز میں صرف حسد تھا۔
‘’کیا بات ہے بھئی۔ آج تو کچھ زیادہ ہی پریشان لگ رہی ہو۔ کوئی زیور پسند آگیا تھا بازار میں جسے خرید نہیں سکیں۔’’
مسعود علی نے بات کا موضوع بدلنے کی کوشش کی تھی مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے۔
‘’نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ پتا نہیں آپ ہر وقت یہی کیوں سوچتے رہے ہیں کہ مجھے ضرور کسی نہ کسی زیور کی ہی یاد ستا رہی ہوگی۔ آپ کا کیا خیال ہے کیا میں صرف اس وقت سوچتی ہوں جب مجھے کوئی چیز بازار میں سے پسند آجائے اور میں اسے خرید نہ سکوں، جی نہیں۔ ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے۔’’
‘’مجھے لگ رہا ہے، منصور علی سے تمہارے حسد میں اور اضافہ ہوگیا ہے پہلے تو اس کی صرف بیٹیاں تھیں۔ اب بیٹا بھی ہوگیا ہے۔’’
مسعود علی کا موڈ اب بھی خوشگوار ہی تھا۔
‘’حسد… مجھے بھلا کس چیز کا حسد ہوگا اور مجھے ضرورت ہی کیا ہے کسی سے حسد کرنے کی، یہ سب باتیں تو میں صرف برسبیل تذکرہ کر رہی ہوں ورنہ مجھے کسی سے حسد ہے نہ ہی میں کوئی مطالبہ کر رہی ہوں۔ آخر منصور اور منیزہ سے میرا بھی کوئی رشتہ ہے۔ ٹھیک ہے۔ آپ کے سگے بھائی ہیں مگر سوتیلا تو میں بھی انہیں نہیں سمجھتی پھر حسد کا سوال ہی کہاں اٹھتا ہے۔ میں تو خوش ہوں کہ وہ سب پاکستان آرہے ہیں۔ یہاں ہمارے پاس رہیں گے جیسے وہ ہر بار رہتے ہیں۔’’
شبانہ نے ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا تھا مسعود نے اس کی بات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا بلکہ خاموشی سے اخبار دیکھتے رہے۔ شبانہ کچھ دیر خاموشی سے انہیں دیکھتی رہی پھر بولی۔
‘’مسعود! میں ایک بات سوچ رہی تھی۔ بہت دنوں سے۔ میرا خیال ہے اب وقت آگیا ہے کہ آپ سے یہ بات کہہ بھی دوں۔” اس کا لہجہ کافی پراسرار تھا۔ مسعود علی نے اخبار کو چہرے کے سامنے سے ہٹا کر اس کی طرف دیکھا۔
‘’ایسی بھی کون سی بات ہے جس پر تمہیں اتنا غور کرنا پڑ گیا ہے۔’’
شبانہ اپنی جگہ سے اٹھ کر ان کے پاس صوفہ پر آکر بیٹھ گئی۔
‘’دیکھیں مسعود! آپ جانتے ہیں ہمارے خاندان میں بچوں کی بہت چھوٹی عمر میں ہی نسبت طے کر دی جاتی ہے۔ اس وقت بھی خاندان میں صرف چند ہی لوگ ہیں جنہوں نے ابھی تک اپنے بچوں کی نسبتیں طے نہیں کیں۔ ان میں ہم اور منصور علی بھی شامل ہیں۔ میں سوچ رہی تھی کہ کیوں نہ ہم منصور کی دونوں بیٹیوں کے رشتے اپنے بیٹوں کے لیے مانگ لیں اس سے پہلے کہ کوئی دوسرا اس معاملے میں ہم سے سبقت لے جائے۔ میں آپ کو یہ صاف صاف بتا رہی ہوں کہ خاندان کے بہت سے لوگوں کی ان رشتوں پر نظر ہے، اور اس بار تو آپ دیکھ لیجئے گا۔ کوئی نہ کوئی اس بارے میں منصور علی اور منیزہ سے بات ضرور کرے گا۔ اور اگر ایسا ہوا اور منصور علی نے اپنی بیٹیوں کے لیے کسی اور کے رشتے قبول کیے تو ہاتھ آئی دولت ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گی۔ منصور علی کی بیٹیوں کے رشتے اپنے بیٹوں سے طے کرنے کے بعد آپ کا بزنس کہیں سے کہیں جاسکتا ہے کیونکہ آپ منصور علی کو اپنی مدد کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔’’
وہ شبانہ کی گفتگو پر کچھ حیران ہوئے تھے۔ انہوں نے واقعی ابھی تک اس بارے میں کبھی نہیں سوچا تھا۔
‘’کہہ تو تم ٹھیک رہی ہو۔ لیکن تمہارا کیا خیال ہے منصور طلحہ اور اسامہ کے رشتے قبول کرلے گا۔” انہوں نے پرسوچ انداز میں کہا تھا۔
‘’ارے بھئی، کیوں قبول نہیں کرے گا۔ بھتیجے ہیں وہ اس کے اور پھر وہ ان سے بہت پیار کرتا ہے اور ویسے بھی اگر طلحہ اور اسامہ سے نہیں تو پھر وہ اپنی بیٹیوں کی شادی خاندان میں اور کہاں کرے گا۔ ہمارے بیٹوں سے زیادہ مناسب رشتے اسے کہاں ملیں گے۔’’
شبانہ نے بڑے پراعتماد لہجے میں کہا تھا۔ مسعود اس کی بات پر اور سوچ میں پڑ گئے۔
‘’تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔ ہمیں واقعی منصور سے اس سلسلے میں بات کرنی چاہیے، ویسے میں حیران ہوں مجھے کبھی ان باتوں کا خیال کیوں نہیں آیا۔’’
وہ کچھ دیر بعد مسکراتے ہوئے بولے تھے۔
‘’بس دیکھ لیں اگر میں نہ ہوں تو آپ کو کیا کیا بھول جائے۔ ویسے آپ کو مان لینا چاہیے کہ عورت سے زیادہ ذہین مخلوق اور کوئی نہیں ہے۔ ایسے ہی تو نہیں کہا جاتا کہ ایک کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔’’
شبانہ نے بڑے فخریہ انداز میں مسکراتے ہوئے کہا تھا۔ مسعود علی کے چہرے پر بھی مسکراہٹ لہرا گئی۔
‘’پہلے سے قائل شدہ کو قائل کرنے کی کوشش کیوں فرما رہی ہیں آپ۔ میں تو پہلے ہی مانتا ہوں کہ میری کامیابیوں میں آپ کا بڑا ہاتھ ہے کیونکہ مجھے کم از کم اپنا دفاع آپ کی طرح استعمال کرنانہیں آتا۔’’
شبانہ نے مسعود علی کی بات پر ایک زبردست قہقہہ لگایا۔
مسعود علی تین بھائی اور ایک بہن تھے منصور علی ان سے چھوٹے تھے اور اشعر علی سب سے چھوٹے تھے۔ ان کے والد علی اکبر ایک نامور ایکسپورٹر تھے ان کی بنیادی ایکسپورٹ اگرچہ قالین تھے لیکن اس کے علاوہ بھی وہ بہت سی چیزیں ایکسپورٹ کرتے تھے۔ مسعود علی نے بھی اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد باپ کے بزنس میں دلچسپی لینا شروع کر دی۔ اور پھر کچھ عرصہ کے بعد انہوں نے باقاعدہ طور پر باپ کا بزنس سنبھال لیا۔ منصور علی فطرتاً کچھ اور طرح کے تھے، شروع شروع میں انہوں نے بھی بزنس میں ہاتھ بٹانے کی کوشش کی مگر پھر وہ جلد ہی اکتا گئے۔ کچھ عرصے بعد وہ اپنے ایک دوست کے پاس شارجہ چلے گئے۔ جو فارن کرنسی کی خرید و فروخت کا کام کرتا تھا۔ یہ کام انہیں بھی کافی دلچسپ لگا اور انہوں نے باپ سے کچھ رقم منگوا کر خود بھی یہی کام شروع کر دیا، محنتی وہ شروع سے تھے اور یہ کام بھی ان کی اپنی پسند کا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بہت کم عرصے میں وہ نہ صرف اپنا کاروبار اچھی طرح جمانے میں کامیاب ہو گئے بلکہ اچھا خاصا روپیہ بھی کمانے لگے۔
کچھ وقت مزیدگزرنے کے بعد ان کے پاس اتنا روپیہ آگیا تھا کہ پورا خاندان ان پر رشک کرنے لگا تھا اس کے باوجود کہ ان کا پورا خاندان شروع ہی سے بزنس سے وابستہ تھا اور خاندان کا ہر فرد اچھا خاصا روپیہ کماتا تھا لیکن اس حقیقت کے باوجود منصور علی کی کامیابی سب کے لیے قابل رشک تھی۔ کیونکہ انہوں نے بہت کم وقت میں بہت زیادہ کامیابی حاصل کی تھی۔ اپنے دونوں بھائیوں کی طرح منصور علی کی شادی بھی خاندان میں ہی ہوئی تھی، منیزہ ان کی فرسٹ کزن تھیں۔ زیادہ پڑھی لکھی تو نہیں تھیں لیکن بے حد خوبصورت تھیں۔ منصور علی کی ان سے اچھی طرح انڈر اسٹینڈنگ ہوگئی تھی۔ منصور علی کو اگر روپیہ کمانے کا شوق تھا تو منیزہ کو روپیہ اڑانے کا، روپے کے معاملے میں منصور علی نے ان پر کبھی کوئی روک ٹوک نہیں کی تھی۔ وہ جب چاہتیں، جتنا چاہتیں خرچ کرتیں۔ منصور علی نے کبھی اس معاملے میں ان سے حساب کتاب نہیں لیا تھا۔
مسعود علی کے ساتھ منصور کی کافی دوستی تھی۔ وہ ان کے لیے صرف بڑا بھائی نہیں تھا بلکہ اور بھی بہت کچھ تھا۔ انہوں نے مسعود علی سے بہت کچھ سیکھا تھا اور وہ ان کی بہت عزت کرتے تھے جہاں تک مسعود علی کا تعلق تھا۔ محبت تو انہیں بھی منصور سے تھی مگر اس محبت کے ساتھ ساتھ ان کے دل میں منصور کے لیے نامعلوم طور پر کچھ حسد بھی پیدا ہو گیا تھا، کیونکہ جس رفتار سے منصور علی ترقی کر رہے تھے، اس رفتار سے وہ ترقی نہیں کر پا رہے تھے۔ منصور علی کے ہاتھ تو جیسے پارس لگ گیا تھا جس چیز کو چھوتے سونا بنا ڈالتے اور مسعود علی کم از کم اس معاملے میں منصور علی کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے۔ ان کے چار بچے تھے دو بیٹے اور دو بیٹیاں اور اب ان دو بیٹیوں کی شادی وہ منصور علی کی بیٹیوں سے کرنے کی سوچ رہے تھے۔ انہیں واقعی کبھی خیال نہیں آیا تھا کہ اس طریقے سے وہ منصور علی سے کافی کچھ حاصل کرسکتے ہیں اور اب جب بیوی کے یاد دلانے پر انہیں خیال آیا تھا تو وہ بہت خوش تھے انہیں یوں محسوس ہوا تھا جیسے ان کی لاٹری لگ گئی تھی۔
بزنس کے بارے میں وہ بڑے بڑے منصوبے جو وہ بناتے رہتے تھے اور جو صرف سرمایے کی کمی کی وجہ سے ایسے ہی پڑے رہتے تھے۔ انہیں یوں لگا تھا جیسے اب انہیں شرمندۂ تعبیر کرنے کا وقت آگیا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ منصور علی کے پاس بہت فالتو روپیہ ہے اور اگر وہ ان سے کاروبار کو مزید وسعت دینے کے لیے روپیہ مانگیں گے تو منصور علی سو بہانے بنائیں گے لیکن یہ دونوں رشتے طے ہونے کے بعد وہ اتنی آسانی سے انہیں انکار نہیں کرسکتے تھے۔ انہیں اپنی بیوی کی ذہانت پر رشک آیا تھا۔ جو اتنی دور کی کوڑی ڈھونڈ کر لائی تھی۔ منصور علی جیسا عروج اب انہیں بہت دور کی چیز نہیں لگنے لگا تھا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

فوبیا — فاطمہ عبدالخالق

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۲

2 Comments

  • I want to give you my story plz make it novel give it a happy ending plz

  • Good

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!